حج و ادائیگی حج
کے متعلق چند عمومی اہم ہدایات
ڈاکٹر عبد المنان محمد
شفیق مکی
www.drmannan.com
بانی و مدیر اصلاح و
ترقی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی , على گڑھ
www.islahotaraqqi.com
سابق پروفیسر ام القرى
یونیورسٹی , مکہ مکرمہ
سابق مترجم فوری حرم
مکی شریف , مکہ و سابق نیوز ریڈر , مترجم و پروگرامر ریڈیو جدہ
یہ حج و ادائیگی حج کے متعلق چند عام اہم
ہدایتیں ہیں جومیں اپنے تجربات و معلومات حج کی روشنی میں تحریر کر
رہا ہوں ۔اس کی ضرورت تقریبا ہر حاجی کو پڑتی ہے۔ امید کہ حاجی صاحبان اس پر عمل
کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔اللہ تعالى تمام حاجیوں کے حج کو قبول فرمائے ۔آمین
- مکہ مکرمہ میں پہلی مرتبہ رہائش پر
پہنچنے کے بعد عمرہ کے لیے نکلنے سے پہلے اچھی طرح سے اپنی رہائشی
بلڈنگ و ہوٹل کو پہچان لیں۔ مکمل پتہ استقبال(Reception) سے معلوم کر لیں
۔ اگر کارڈ ہے تو اسے اپے ساتھ لے لیں
تاکہ آپ اپنی رہائش پر گروپ سے الگ ہونے کے باوجودآسانی سے لوٹ سکیں۔جو لوگ صرف
عمرہ کرنے آتے ہیں ان کے لیے اس کا دھیان رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ اس وقت حج
کی طرح بس ,آفس و والنٹیر وغیرہ کے انتظامات نہیں ہوتے ہیں۔
- اسی طرح حرم میں جس طرف سے داخل ہو رہے ہیں اس
کی پہچان کر لیں ۔ گیٹ کا نمبر وغیرہ دیکھ لیں تاکہ آپ اسی طرف سے نکلیں اور صحیح
راستہ پاسکیں۔ایسا نہ کرنے سے بہت سارے لوگ غلط سمت میں نکل جاتے ہیں اور راستہ
بھٹک جاتے ہیں۔
حج تین طرح کا ہوتا ہے :---
افراد
:یعنی صرف حج کی نیت کرنا ۔ اس میں اگر حاجی منى جانے سے پہلے طواف و سعى کرتا ہے
تو اس کا طواف طواف قدوم ہوگا اور اس کی سعی حج کے لیے مانا جائے گا اس کو دس تاریخ کو صرف طواف زیارت کرنا ہوگا ۔اس میں حلق یا تقصیر نہیں کروائے گا
اور نہ احرام کھولے گا ۔اس میں قربانی ضروری نہیں ہے ۔
قران : حج و عمرہ دونوں ایک ساتھ کرنا ۔ اس میں
طواف قدوم کرے گا پھر سعی کر ے گا اور اس کا سعى حج کے لیے کافی ہو گا۔ حلق یا تقصیر نہیں کروائے گا اور احرام میں
باقی رہے گا۔اس میں بھی قربانی ضروری ہے
تمتع:
پہلے عمرہ کرکے حلال ہوجانا پھر حج کرنا ۔اس میں دو طواف اوردوسعى ہوتا ہے پہلا طواف و سعی عمرہ کا اور دوسرا حج کا ہوتا ہے ۔ اس میں
قربانی ضروری ہے ۔
بعض متمتع حاجی احرام پہن کر منى جانے سے پہلے مسجد حرام جاکر طواف افاضہ (زیارت) و سعی کرتے ہیں ۔ یہ سراسر غلط ہے ۔ نبی کریم
سے ثابت نہیں ہے اور یہ طواف و سعی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا وقت دس ذوالحجہ سے
شروع ہوتا ہے ۔
- ۸/ذوالحجہ : تمام معلمین 8 ذو الحجہ کی رات سے ہی حاجیوں کو مکہ سے
منى پہنچانا شروع کر دیتے ہیں ۔ جب بھی آپ کا نمبر آجائے آپ بھی معلم کی بس سے ہی
منى جائیں۔تنہا یا گروپ کے ساتھ اپنی سواری سے نہ جائیں کیونکہ ایسی صورت میں آپ
کو خیمہ تک حہنچنے میں بہت دشواری ہو سکتی ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خیمہ تک نہ
حہنچ پائیں۔ لہذا آپ معلم کی بس ہی سے جائیں۔یاد رہے کہ حاجی مکہ میں اپنی
رہائش سے احرام باندھ کے منی کے لئے روانہ ہوگا۔منی پہنچنے کے بعد
حاجی منی میں ظہر, عصر , مغرب , عشاء وفجر کی نماز اپنے خیمہ میں یا
کہیں بھى ادا کرے گا اور سورج نکلنے کے بعد ۹/تاریخ کو عرفہ جائیگا ۔
- ۹/ذوالحجہ : اس دن بھی 9 ذو الحجہ کی رات ہی سے تمام
معلمین اپنے حاجیوں کو عرفہ منتقل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ۔ جب بھی آپ کا
نمبر آجائے آپ بھی معلم کی بس سے ہی عرفہ جائیں۔ جلدی نہ کریں ۔تنہا یا گروپ
کے ساتھ اپنی سواری سے نہ جائیں کیونکہ ایسی صورت میں آپ کو خیمہ تک حہنچنے میں
بہت دشواری ہو سکتی ہے۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ خیمہ تک نہ حہنچ پائیں۔ لہذا آپ
معلم کی بس ہی سے جائیں۔یاد رہے کہ وقوف عرفہ حج کا رکن ہے۔ اگر آپ کا
وقوف عرفہ فوت ہوجاتا ہے توآپ کا حج نہیں ہوگا۔عرفہ پہنچنے کے بعد یہاں پر
ظہر و عصر کی نماز ایک ساتھ قصر کے ساتھ ظہر کے وقت ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ
ادا کرنی ہے اور سورج غروب ہونے کے بعد یہاں سے روانہ ہونا ہے۔ جو شخص سورج
غروب ہونے سے پہلے یہاں سے نکلے گا اس کو دم دینا ہوگا۔
- وقوف عرفہ کے دوران جبل رحمت جانا
یا اس کے اوپر چڑھنا حج کا رکن یا کوئی فرض و مستحب چیز نہیں
ہے۔کیونکہ آپ کا فرمان ہے کہ میں نے یہاں یعنی جبل رحمت کے پاس وقوف
کیا اور پورا عرفہ وقوف کی جگہ ہے۔ لہذا آپ خیمہ میں ہی تشریف رکھیں۔ وہیں
پر دعائیں مانگیں۔ بلاوجہ اپنے آپ کو مشقت میں نہ ڈالیں خصوصا سخت گرمی کے موسم
میں۔آپ کو لو بھی لگ سکتی ہے۔ طبیعت خراب ہو سکتی ہے ۔ جس سے عبادت اور حج
میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔
- 10/ ذوالحجہ کی رات : اس رات حاجی کو
مزدلفہ میں ٹہرنا ہوتا ہے۔عرفہ سے روانہ ہونے کے بعد جب بھی آپ مزدلفہ
میں پہنچ جائیں مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ ادا کریں ۔ مغرب و عشاء
کی نماز آپ کو عرفہ میں نہیں ادا کرنی ہے خواہ وہاں سے نکلنے میں کتنی ہى تاخیر
کیوں نہ ہو جائے۔فجر کے بعد جب خوب اجالا ہوجائے تو منی کے لئے روانہ ہوں ۔
- عرفہ سے مزدلفہ کے لیے بھی معلم بس یا
ٹرین کا ہی استعمال کریں۔ہاں اگر آپ تندرست و توانا ہیں اور کوئی راستہ
کاواقف آپ کے ساتھ ہے تو پیدل راستہ سے بھی مزدلفہ آسکتے ہیں۔جلدی نہ کریں۔دھیان
رہے کہ مزدلفہ میں خیمہ وغیرہ کا انتظام نہیں ہے کیونکہ یہاں پر صرف ایک رات
گذارنی ہوتی ہے۔ پورا علاقہ پہاڑ ہے ۔ جگہ جگہ ٹوائلٹس اور وضو خانے بنے ہوئے ہیں۔
سب ایک جیسا دکھتا ہے۔ لہذا یہا ں پر عام طور سے سب سے زیادہ دقت و پریشانی جو پیش
آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر بہت سارے لوگ خصوصا بزرگ افراد اپنے گروپ سے الگ
ہوجاتے ہیں ۔ راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ لہذا ان کا خاص خیال رکھیں۔ ان کو اپنے سے
زیادہ دور نہ جانے دیں۔ یا خود ان کے ساتھ جائیں۔
- 10/ذوالحجہ کا دن : دس ذوالحجہ کو مزدلفہ سے
منى پہنچنے کے بعد اپنے خیمہ میں ہی تشریف رکھیں ۔فورا کنکری مارنے کے لیے نہ
نکلیں۔ معلم کی تعلیمات کا انتظار کریں۔ اس کے کہنے کے بعد کنکری مارنے کے لیے
جائیں۔یاد رہے کہ یہ دن حاجی کے لئے بہت ہی مشغولیت کا دن ہوتا ہے اور اس دن
ہر حاجی کو چار کام انجام دینے ہوتے ہیں۔ اور ان کاموں میں شریعت کی روشنی
میں ترتیب ضروری نہیں ہے ۔ان میں تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے۔ وہ چار کام یہ ہیں :-
- کنکری مارنا : دس ذوالحجہ کو صرف بڑے جمرہ
(شیطان) کو کنکری مارنی ہوتی ہے۔ کنکری مارنے کا افضل وقت فجر کے بعد سے
لیکر سورج ڈھلنے تک ہے۔ ظہر کے بعد بھی کنکری مار سکتے ہیں کوئی حرج
نہیں ہے سورج کے غروب ہونے تک ٹائم رہتا ہے ۔ بہت کمزور اشخاص اور عورتوں کے لئے۳,۲ بجے کا وقت زیادہ مناسب ہے ۔پہلے اپنی طرف سے
کنکری ماریں پھر دوسرے کی طرف سے ۔ بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لئے ظہر بعد آئیں ۔
- قربانی کرنا : قربانی کرنا متمتع اور
قارن کے لئے ضروری ہے ,دس کو قربانی کرنا افضل ہے , گیارہ بارہ وتیرہ کو بھی
قربانی کرسکتے ہیں۔ خودبھی قربانی کرسکتے ہیں اور دوسروں کو بھی قربانی کا
وکیل بنا سکتے ہیں , بینک سے بھی قربانی کروا سکتے ہیں , چونکہ دس ذوالحجہ کا دن
بہت ہی مشغولیت کا دن ہوتا ہے۔ قربان گاہ اور جمرات کے درمیان کا
فاصلہ کافی زیادہ ہے ۔ پیدل پہنچنا تقریبا نا ممکن ہے۔ قربان گاہ تلاش
کرنا بھی نئے حاجی کے لئے مشکل ہوتا ہے اور مزدلفہ سے منى پہونچنے کا وقت
بھی متعین نہیں ہے , بھیڑ بھاڑ بہت ہوتی ہے لھذا حاجی ان سب مشکلات سے بچنے کے لئے
کسی دیندار اچھے پہچان والے آدمی کو اپنا وکیل بنادے تو اچھا ہے خصوصا ضعیف
اور کمزور مردوں اور عورتوں کے لئے تو ضروری ہے تاکہ پریشانی سے بچکر دوسرے
ارکان کو اچھی طرح ادا کر سکیں ۔
- حلق یا قصر کروانا : اگر آپ خود قربانی
کر رہے ہیں تو قربانی کے بعد اپنا بال کٹوائیں یا منڈوائیں اور اگر کوئی دوسرا کر
رہا ہے تو کنکری مارنے کے فورا بعد حلق یا قصر کروا سکتے ہیں لیکن حلق کرانا
افضل و بہتر ہے ۔
- ان تین کاموں کے کرلینے کے بعد حاجی حلال
ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے تمام چیزیں عورت کو چھوڑ کے حلال ہوجاتی ہیں۔ اس کا نام تحلل
اول ہے اب وہ اپنا لباس بدل سکتا ہے ۔
طواف زیارت و سعی : یہ بھی حج کا رکن ہے
اس کے بغیر حج نہیں ہوگا , کنکری مارنے , قربانی کرنے , بال منڈانے یا
چھوٹا کروانے کے بعد حاجی مسجد حرام آئیگا اور طواف و سعی
کریگا ۔لیکن یہ خیال رہے کہ اس دن منی سے حرم آنے کے لیے معلم کی طرف سے بس وغیرہ
کا کوئی انتظام نہیں ہوگا۔ آپ کو خود ہی سواری کا انتظام کرنا
ہوگا۔اس کے لیے آپ عزیزیہ آکے کہیں سے بھی ٹیکسی یا بس پکڑ سکتے ہیں۔ منی سے
مسجد حرام کا فاصلہ تقریبا 8-10 کلو میٹر ہے ۔ پیدل چلنا خصوصا جس کی عادت نہیں ہے
اس کے لیے اتنا فاصلہ پیدل طے کرنا بہت مشکل ہے۔ویسے بھی ایک حاجی کو پیدل بہت
چلنا پڑتا ہے۔ لہذا آپ سواری سے ہی حرم جائیں۔
- یہاں یہ دھیان رکھنا نہایت ضروری ہے کہ
دس تاریخ کوطواف و سعی کرنا ضروری نہیں ہے۔ ۱۱ , 12 و 13 ذوالحجہ
بلکہ اس کے بعد بھی طواف و سعی کر سکتے ہیں , اس میں کوئی حرج نہیں ہے
– خصوصا یہ دیکھتے ہوئے کہ دس ذوالحجہ کو حاجی کنکری مارنے اور دیگر اعمال
وغیرہ کی ادائیگی میں بہت زیادہ تھک جاتا ہے ۔ خاص طور سے بزرگ ,
ضعیف اور عورتیں ۔ ایسی صورت میں تو دس کو آرام کرلینا ہی بہتر
ہے ۔ اور ہماری شریعت میں جو وسعت و گنجائش رکھی گئی ہے وہ اسی لیے ہے کہ ایک
انسان اس سے فائدہ اٹھائے۔ اور اپنی آسانی و سہولت کے حساب سے اعمال کو ادا کرے ۔
ہماری شریعت کا مقصد قطعا انسان کو پریشانی میں ڈالنا نہیں ہے۔
- الیکٹرک گاڑی سے بھی طواف و سعی
کر سکتے ہیں ۔ اس کے لیے حرم میں انتظام ہے۔
- یاد رہے کہ ان چاروں کاموں میں ترتیب
ضروری نہیں ہے , کوئی بھی کام پہلے اور بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ ترتیب الٹ جانے سے
دم دینا لازم نہیں ہے۔ یہ صحیح احادیث سے ثابت ہے اور صحابہ کا اس پر عمل بھی ہے۔
طواف زیارت و سعی کے بعد حاجی مکمل طور پر حلال ہو جاتا ہے ۔
- ۱۱ذوالحجہ : اس دن حاجی تینوں جمرات کو کنکری مارتا
ہے۔پہلے چھوٹے والے جمرہ کو پھر بیچ والے جمرہ کو پھر سب سے بڑے والے جمرہ کو , ہر
ایک کو سات سات کنکری ماریگا - کنکری مارنے کا افضل وقت سورج ڈھلنے کے
بعد شروع ہوتا ہے اور مغرب تک رہتا ہے - مغرب کے بعد صبح صادق تک کنکری مار
سکتا ہے۔ علماء نے جواز کا فتوى دیا ہے ۔اسی وجہ سے بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے مغرب
بعد کنکری مارے۔ہاں اتنا خیال رکھے کہ وقت سے پہلے یعنی ظہر سے پہلے نہ
مارے۔ ظہر کے بعد سے لے کر فجر تک کسی بھی وقت کنکری مار سکتا ہے۔
- ۱۲/ذوالحجہ : اس دن بھی تینوں جمرات کو رمی کرنی ہوتی ہے چونکہ یہ منى
میں رکنے کا آخری دن ہے اور کنکری مارنے کا وقت زوال یعنی ظہر کے وقت شروع
ہوتا ہے لھذا اس دن ظہر کے وقت کافی بھیڑ ہوتی ہے کیونکہ سب لوگ کنکری مار کر واپس
ہونا چاہتے ہیں , اس لئے تین چار بجے کے قریب جمرات تشریف لائیں تاکہ بھیڑ بھاڑ سے
محفوظ رہیں معلم یا کسی کے کہنے پر جلدی نہ کریں ۔اس دن معلم بھی بسا اوقات
حاجیوں کو جلدی کنکری مارنے کے لیے کہتا ہے۔ کیونکہ اسے سورج غروب ہونے سے پہلے
حاجیوں کو منی سے نکالنا ہوتا ہے۔ کنکری مارنے کے بعد واپس خیمہ تشریف لے جائیں
اور معلم کے بس کے ذریعہ ہی اپنی بلڈنگ پر آئیں ۔ اگر آپ تیاری کرکے بس میں بیٹھ جاتے
ہیں اور سورج منی میں ہی غروب ہو جاتا ہے ۔تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ہاں اگر
آپ کی بلڈنگ قریب ہے راستہ معلوم ہے تو پیدل یا اپنی سواری پکڑ کے آسکتے ہیں۔ ورنہ
معلم کے ساتھ آنا اچھا ہے۔
انڈیا کے بہت سارے حاجی عزیزیہ میں رہتے ہیں جو
منی سے ملا ہوا ہے اور وہاں سے منى پیدل آنے جانے کے کئی راستے ہیں ایک راستہ بن داؤد کے
پاس ہے دوسرا راستہ شاہ خالد پل کے پاس ہے ۔ تیسرا راستہ جمرات کے بعد تھوڑی دور پر ہے ۔ اگر آپ ان راستوں کو اچھی
طرح جان لیتے ہیں تو عزیزیہ کے حاجی آسانی سے اپنے گھر پیدل لوٹ سکتے ہیں ۔
- اور اگر آپ کو 13 ذو الحجہ کی رات منی میں
گذارنی ہے تو مغرب کے بعد سے لے کر فجر تک کسی بھی وقت کنکری مار سکتے ہیں۔
- چنددیگر ہدایات :
- کھانا پینے کا سامان لے کر منی نہ جائیں
کیونکہ وہاں کھانا بنانے کی اجازت نہیں ہے۔اللہ کے فضل و کرم سے ہر چیز میسر
ہے صرف خریدنے کی ضرورت ہے۔بسا اوقات معلم کی طرف سے کھانے کا کوپن بھی فروخت کیا
جاتا ہے۔
- گیارہ و ۱۲/ ذوالحجہ کی رات منی میں گذارنی واجب ہے لھذا آپ
رات میں منی میں ہی قیام کریں اور اگر کسی ضرورت سے باہر آتے ہیں تو ضرورت پوری
کرنے کے بعد فورا واپس چلے جائیں۔ یہ رات بلا کسی وجہ کے منی سے باہر گذارنی درست
نہیں ہے اور ایسا کرنے پر دم ہے ۔
- آپس میں ایک دوسرے کے کام آئیں , ایک دوسرے کی
خوب مدد کریں ۔اپنے ساتھیوں کا خیال رکھیں خصوصا ایسے افراد جو کہ طاقتور ,
پڑھے لکھے ہیں وہ اپنے دوستوں , گروپ والوں کا , عورتوں اور ضعیفوں کا خاص
خیال رکھیں ان کو تنہا نہ چھوڑیں ورنہ راستہ بھٹک جانے کی صورت میں
بعد میں بہت پریشانی وزحمت ہوگی ۔ اور یہ یاد رکھیں کہ خدمت خلق کا بہت
زیادہ ثواب ہے۔
- اچھے اور برے لوگ ہر سماج و ہر جگہ پائے جاتے
ہیں لہذا آپ چوکنا و ہوشیار رہیں ۔ اپنی قیمتی اشیاء سے غافل نہ ہوں۔ زیادہ پیسہ
لے کر حرم نہ جائیں کیونکہ پیسہ ضائع ہوسکتا ہے یا کسی جیب تراش کا شکار ہو
سکتا ہے۔ اسی لیے معلم کے یہاں أپنا پیسہ امانت خانہ میں جمع کرادیں یا اگر آپ کا
کوئی رشتہ دار ہے تو اس کو دیدیں۔اسی طرح جب بھی کسی پرائیویٹ گاڑی میں سوار ہوں
تو پہلے خود سوار ہوں اس کے بعد اپنی بیوی و بیٹی و بہن کو سوار کریں ۔ اور
جب اترنا ہو تو پہلے اپنی بیوی و بیٹی کو اتاریں پھر خود اتریں۔ ڈرائیور کے کہنے
پر بھی اپنی بیوی و بیٹی کو گاڑی میں تنہا چھوڑ کر گاڑی کو دھکا نہ لگائیں تاکہ
کوئی برا حادثہ - آپ کے ساتھ پیش نہ آئے۔ان چیزوں کا خیال نہ کرنے سے بہت سارے
گاڑی والے بھولے بھالے حاجیوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ لہذا ہر وقت ہوشیارو
چوکنا رہیں۔
- ہر شخص اپنے جیب میں کچھ نہ کچھ
پھٹکر پیسہ ضرور رکھے ۔ تاکہ بوقت ضرورت اس کے کام آئے اور
دوسروں سےنہ لینا پڑے خاص طور سے مشاعر مقدسہ میں۔
- کڑا , معلم کارڈ , خیمہ کارڈ ہمیشہ ساتھ رکھیں
۔نا گہانی صورت میں یہ بہت کام کی چیز ہے۔
خدا نخواستہ اگر آپ راستہ بھول جاتے ہیں
اور اپنے خیمہ تک نہیں پہنچ سکتے ہیں تو ایسی صورت میں مسجد
حرام , مکہ مکرمہ اور مشاعر مقدسہ میں جا بجا موجود ہندستانی رضاکارانہ
والنٹیرس , اسٹاف , سعودی اسکاؤٹس یا مقامی حاجی
وغیرہ سے راستہ پوچھ سکتے ہیں ۔ وہ آپ کی مکمل مدد کریں گے اور آپ کو منزل مقصود
تک بھی پہنچا سکتے ہیں۔
- گرمی سے بچنے کے لئے
چھتری کا استعمال کریں ۔ پانی اور دیگر مشروبات کا خوب استعمال کریں , زیادہ ادھر
ادھر جانے سے پرہیز کریں ۔یاد رکھیں یہ آپ کا بہت قیمتی وقت ہے جو پھر میسر آئے یا
نہ آئے۔ لہذا اپنا زیادہ سے زیادہ وقت وقت عبادت, ذکر وأذکار میں
گزاریں۔ خوب دعائیں کریں۔
- سردی کے موسم میں ٹھنڈک سے بچنے کا انتظام
کرکے منی جائیں ۔ ہلکا پھلکا لحاف یا کمبل ساتھ لے جائیں۔ سوئٹر بھی لے لیں۔
- حج کے دور میں لڑائی جھگڑا سے پرہیز کریں۔
اعلى اسلامی اخلاق کا مظاہرہ کریں۔تمام مسلمانوں کے لیے دعائیں کریں اور راقم سطور
کو بھی غائبانہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔
یہ چند اہم تعلیمات و ہدایات ہیں۔
امید ہے کہ حجاج کرام ان پر عمل کرکے فائدہ اٹھائیں گے۔آخر میں دعا ہے کہ
اللہ تعالی ہمارے حج کو قبول فرمائے اور مزید نیکیوں کی توفیق عطا کرے
اور صحیح معنی میں حج کی توفیق بخشے ۔ آمین ۔وہو علی کل
شئی قدیر ومنہ التوفیق والسداد وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ
اجمعین ۔
تحریرا فی 26-11-1437ھ / 29-8-2016م , مکہ مکرمہ
التصنيف : اسلام
0 التعليقات: