خدمت
خلق کا عظیم اجر و ثواب
(
Creatures The
Great Reward of Service of )
خدمت خلق کا مطلب ہے کسی بھی مسلم یا غیر
مسلم انسان یا کسی بھی جاندار کی خدمت
کرنا۔یہ بھی عبادت ہے۔اللہ کے تمام انبیاء و رسولوں نے خود دوسروں کی خدمت کی ہے
اور اس کی تلقین و تاکید کی ہے۔شریعت اسلامیہ میں اس کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت
بتلائی گئی ہے ۔ اور مسلمانوں کو خدمت خلق پر ابھارا گیا ہے۔خود ہمارے اسلاف خدمت
خلق کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔اور اگر یہ خدمت خواہ وہ انسان کی ہو یا حیوان کی
خلوص و للہیت کے ساتھ کی جائے تو معمولی
سے معمولی کام جہنم سے آزادی اور جنت میں داخلہ کا سبب بن سکتا ہے۔ لیکن عصر حاضر
میں بہت سارے مسلمان اس کی اہمیت و افادیت, فضیلت و عظمت , اجرو ثواب سے ناواقف
ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کار عظیم میں حصہ نہیں لیتے ہیں اور اس سے غفلت برتتے ہیں
۔
یہاں زیادہ تفصیل میں نہ جاتے ہوئے اس کی
اہمیت و فضیلت کے بارے میں صرف دوا حادیث کا ذکر کردینا کافی ہے ۔
1- عَنْ أَبِي
هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَا رَجُلٌ بِطَرِيقٍ اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْعَطَشُ فَوَجَدَ
بِئْرًا فَنَزَلَ فِيهَا فَشَرِبَ ثُمَّ خَرَجَ فَإِذَا كَلْبٌ يَلْهَثُ يَأْكُلُ
الثَّرَى مِنْ الْعَطَشِ فَقَالَ الرَّجُلُ لَقَدْ بَلَغَ هَذَا الْكَلْبَ مِنْ
الْعَطَشِ مِثْلُ الَّذِي كَانَ بَلَغَ مِنِّي فَنَزَلَ الْبِئْرَ فَمَلَا خُفَّهُ
مَاءً فَسَقَى الْكَلْبَ فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ فَغَفَرَ لَهُ قَالُوا يَا رَسُولَ
اللَّه وَإِنَّ لَنَا فِي الْبَهَائِمِ لَأَجْرًا فَقَالَ فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ
رَطْبَةٍ أَجْرٌ (
بخاری, باب فضل سقی الماء , حدیث نمبر 2263, و باب رحمۃ الناس و البہائم ,
حدیث نمبر 6009, مسلم, باب فضل سقی
البہائم المحترمۃ و اطعامہا, حدیث نمبر 2244, )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے وہ کہتے
ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: ایک آدمی راستہ میں چل رہا تھا اسی دوران اس کو بہت
زور کی پیاس لگی۔اس کو ایک کنواں ملا جس میں اس نے اتر کے پانی پیا۔پھر جب وہ باہر
نکلا تو اس نے ایک کتے کو پایا کہ وہ زبان
نکالے ہوئے ہا نپ رہا ہے اور پیاس کی وجہ سے مٹی چاٹ رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اس نے
کہا: اس کتا کی پیاس سے وہی حالت ہے جو
میری تھی ۔ لہذا وہ کنواں میں اترا پھر اپنا چمڑا والا موزہ پانی سے بھرا اور کتا
کو پلایا ۔ اس پر کتے نے اللہ سے اس کا شکریہ ادا کیا۔تو اللہ نے اس کو بخش دیا۔
یہ سن کر صحابہ کرام نے آپ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا ہمارے لیے
جانوروں میں بھی اجر و ثواب ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ ہر تروتازہ یعنی زندہ جگر والے میں اجر ہے۔
بعض محدثین نے فشکر اللہ لہ میں اللہ کو ضمہ کے ساتھ تحریر کیا ہے یعنی
اللہ فاعل ہے ۔ اس صورت میں ترجمہ ہوگا کہ اللہ نے اس کام کی قدر کی۔ اس کو قبول
کیا۔
2-عَنْ أَبِى
هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « بَيْنَمَا كَلْبٌ
يُطِيفُ بِرَكِيَّةٍ قَدْ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ إِذْ رَأَتْهُ بَغِىٌّ مِنْ
بَغَايَا بَنِى إِسْرَائِيلَ فَنَزَعَتْ مُوقَهَا فَاسْتَقَتْ لَهُ بِهِ
فَسَقَتْهُ إِيَّاهُ فَغُفِرَ لَهَا بِهِ ». (بخاری , باب
حدیث الغار, حدیث نمبر 3467, مسلم , باب فضل سقی الماء , حدیث نمبر 2245 )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے وہ کہتے
ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: ایک کتا ایک کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا ۔ قریب
تھا کہ پیاس کی وجہ سے مرجائے۔اسی دوران اچانک اس کو بنو اسرائیل کی ایک زانیہ
عورت نے دیکھ لیا تو اس نے اپنا چمڑا والا
موزہ نکال کے اس کے ذریعہ پانی نکالا اور پھر اس کو پلادیا۔جس کی وجہ سے اس کو بخش
دیا گیا۔
ان دونوں احادیث سے خدمت خلق کے عظیم ثواب
کا پتہ چلتا ہے۔ اخلاص کے ساتھ انجام دی گئی ایک معمولی خدمت اور وہ بھی ناپاک
جانور کے ساتھ اللہ کی مغفرت و رضامندی کا باعث بن گئی ۔ اس سے بڑا اجر و ثواب اور
کیا ہوسکتا ہے۔یقینا یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہاں یہ وضاحت کردینا بے محل نہ ہوگا کہ ان
دونوں احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا دین پوری کائنات و تمام مخلوقات کے
لیے دین رحمت ہے ۔ اس میں تشدد, انتہا
پسندی , بے رحمی اور ایذا رسانی کے لیے
کوئی جگہ نہیں ہے ۔اسی وجہ سے اس میں
حیوانوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر بہت زیادہ اجرو وثواب ہے۔ اسی وجہ سے بنا
کسی معقول سبب کے موذی وغیر موذی جانوروں کو پریشان کرنا یا
تکلیف دینا نا جائز ہے۔مثلا کسی سانپ یا
کسی بھی جانور کو پکڑ کے بند کردیا جائے اور اس کو کھانا و پانی سے محروم کردیا
جائے۔اس کو قتل کرنے کی اجازت ہے تو اس کو قتل کردیجیے۔لیکن اس طرح سے تکلیف مت
پہونچائیے۔ قید کرکے بھوکا و پیاسا رکھ کرکے مارنا جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا
ہے۔جیسا کہ اس عورت کے ساتھ ہوا جس نے بلی کو قید کرکے بھوکا و پیاسا رکھا جس سے
بلی مر گئ اور عورت جہنم میں گئی۔
خدمت خلق کسی ایک صورت میں محدود نہیں ہے
بلکہ اس کی بے شمار صورتیں ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں۔
·
پیار
و محبت کے ساتھ اچھے اسلوب میں بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔
·
اپنے
کارو بار اور زراعت وغیرہ میں کسی دوسرے کو شریک کرنا۔
·
کسی
کو اچھا و نیک مشورہ دیناجس سے مشورہ کرنے
والے کا بھلا ہو۔
·
کسی
بیمار کا علاج کرادینا۔
·
کسی
بھوکے پیاسے کو کھانا کھلادینا و پانی
پلادینا۔
·
کسی
غریب کی مادی و معاشی مدد کردینا۔
·
یتیموں
و غریبوں کی شادی کرادینا۔ اسباب فراہم
کردینا وغیرہ
·
کسی
حاجت مند کو بنا سود کے قرض دینا۔
·
کوئی
سامان کچھ مدت کے لیے ادھار دینا۔
·
کسی
کو تعلیم دلا دینا۔
·
ننگے
بدن کو لباس فراہم کرنا۔
·
درخت
اور پودا لگا دینا جس سے انسان و حیوان فائدہ اٹھائیں۔
·
کسی
زخمی کی مدد کردینا۔
·
کسی
بھولے بھٹکے کو راستہ بتادینا۔
·
کسی
مسافر کی مدد کردینا۔
·
کسی
کی جائزسفارش کے ذریعہ کوئی مسئلہ حل کردینا۔
·
کسی
کا کام کرنے کے لیے اس کے ساتھ جانا۔
·
کسی
کو گاڑی کے ذریعہ اس کے گھر یا منزل مقصود تک پہونچا دینا۔
·
اپنے
کام کے ساتھ دوسرے کا بھی کام کر دینا۔مثلا اپنا سامان خریدنے گئے دوسرے کا سامان
بھی لیتے لائے۔
·
کسی
مظلوم کا حق دلا دینا۔
·
راستہ
سے تکلیف دہ چیزکا ہٹا دینا۔وغیرہ
غرضیکہ خدمت خلق کی بے شمار صورتیں ہیں جن کے لیے کسی بھی کتاب کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔اردو میں
ایک کتاب اسلام میں خدمت خلق کا تصور مولانا جلال الدین عمری
کی ہے۔
خدمت خلق کی اہمیت اس وقت اور زیادہ ہوجاتی ہے
جب کسی علاقہ میں کوئی قدرتی آفت یا
طوفان آجائے یا کہیں کوئی حادثہ ہوجائے۔
ایسی صورت میں ان لوگوں کو فوری مدد و تعاون کی ضرورت ہوتی ہے ۔اور خوب زیادہ خدمت
کا موقع بھی رہتا ہے۔لہذا ان حالات کو غنیمت جانتے ہوئے ان جگہوں پر پہونچ کے مصیبت زدہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی
جاسکتی ہے اور بہت زیادہ اجر و ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔
یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ خدمت خلق صرف
مال و دولت کے ذریعہ نہیں ہوتا ہے ۔ہاں جہاں مال و دولت خرچ کرنے کی ضرورت ہو وہاں
مال خرچ کرنا ہی افضل ہے۔ اور یہ عمل صرف مالداروں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ ایک
فقیر سے فقیر آدمی بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ جیسا کہ خدمت خلق کے تحت ذکر کیے گئے کاموں سے
واضح ہے ۔
تو
اب دیر کس بات کی اور انتظار کس چیز کا ۔بسم اللہ کیجیے اور آج سے ہی شرع کر دیجیے اپنے حسب استطاعت کام
اور کمائیے خوب زیادہ ثواب اور وہ بھی بہت سارےکام مفت میں کرکے ۔ اسی کو کہتے ہیں آم کے آم اور
گٹھلیوں کے بھی دام۔ ہوسکتا ہے اخلاص کے ذریعہ انجام دیا گیا آپ کا ایک معمولی سے
معمولی کام بھی بخشش اور جنت میں داخلہ کا سبب بن جائے۔
اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام
مسلمانوں کو اسلام کی اس اہم تعلیم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ وآخر
دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
تحریرا فی یوم السبت 20 رمضان المبارک 1437ھ/ 25 جون 2016 ع , مکۃ مکرمۃ
0 التعليقات: