محترم ڈاکٹر ذاکر نائک کےمشہور ادارہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن پر پابندی کا تجزیہ
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:۔۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
عالمی اور ہندستانی میڈیا کی خبروں کے
مطابق بروز منگل 15-2-1438ھ / 15-11-2016 ع
کو انڈیا کی بھگوا بی جی پی حکومت نے ڈاکٹر ذاکر نائک کے مشہور عالمی ادارہ
اسلامک ریسرچ فاونڈیشن پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کردی ۔ اس خبر سے مجھے کوئی
تعجب نہیں ہوا اور نہ ہی یہ کوئی تعجب کی بات ہے ۔ کیونکہ موجودہ دور میں اسلام و مسلمانوں کی جو ذلت و رسوائی ہے۔ بے
وقعتی و بے وزنی ہے اس سے ہر خاص و عام واقف ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے مجھے تو اس پابندی کی پوری توقع تھی ۔کیونکہ آج کل کوئی بھی غیر
مسلم ملک اسلام و مسلمانوں کے خلاف کوئی
بھی کاروائی کرنا یا قانون بنانا چاہتا ہے تو وہ بنا کسی جھجک , بنا کسی لاگ و لپیٹ اور خوف و ڈر کے یہ قدم
اٹھاتا ہے ۔ اور افسوس و صد افسوس کی بات یہ ہے کو کوئی بھی نام نہاد مسلم ملک اس
کے خلاف ایک لفظ نہیں بولتا ہے چہ جائیکہ اس کے خلاف کوئی ایکشن لے۔اور یہ ممکن
بھی نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے اور ہر ملک اسلام و
مسلمانوں کا مفاد دیکھنے و ترجیح دینے کے بجائے اپنے مفادات کو دیکھتا اور اپنی
مصلحتوں کو ترجیح دیتا ہے۔مثلا پاکستانی حکومت و تنظیمیں چینی مسلمانوں پر ڈھائے
جانے والے مظالم پر خاموش ہیں کیونکہ پاکستان کے مفادات چینی حکومت سے وابستہ ہیں۔
اسی طرح مثال کے طور پر اور یہ ایک المیہ ہے کہ ایک
چھوٹا سا ملک برما ہزاروں سال سے آباد اراکانی مسلمانوں کو اجنبی و بیگانہ بتاکر
کھلم کھلا ان کا قتل ہی نہیں بلکہ ان کی
نسل کشی کر رہا ہے۔ اور یہ کام مکمل طور سے سرکاری سر پرستی میں ہو رہا ہے ۔ چوری
چپکے سے نہیں بلکہ على الاعلان اور کھلم کھلا پوری دنیا خصوصا مسلمانوں کو چیلنج
کرتے ہوئے انجام دیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ برما ڈنکے کی چوٹ پر ان کو کسی
دوسرے ملک میں بسانے کی بات کرتا ہے وغیرہ
۔لیکن یہ امت اس قدر بے حس و بے شرم ہو
چکی ہے کہ 57 نام نہاد اسلامی ممالک ایک چہوٹے سے ملک برما کو اس نسل کشی سے باز رکھنے پر مجبور نظر
آرہے ہیں ۔ رمضان 1436 و 1437 ھ میں چین میں مسلمانوں کے روزہ رکھنے پر پابندی
عائد کی گئی ۔یہ تو حال فی الحال کی بات ہے ورنہ اس ملک نے مسلمانوں پر مظالم کے
جو پہاڑ توڑے ہیں ان کو پڑھ کے کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔ لیکن کسی بھی ملک نے اس کے
خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا کوئی ایکشن لینا تو دور کی بات ہے۔
اسی طرح مغربی ممالک ایک کے بعد ایک اسلام
و مسلمانوں کے خلاف قانون بناتے جارہے ہیں ۔ مثلا سب سے پہلے فرانس نے اسلامی پردہ پر پابندی عائدکی
۔ اس کے بعد تو کئی یورپی ممالک مثلا سوئزر لینڈ و ہالینڈ وغیرہ نے بھی یہ قانون بنایا ۔ لیکن کسی نے اس کے خلاف احتجاج
نہیں کیا۔بلکہ بعض ممالک کے سفراء نے اپنے لوگوں کو ان ملکوں کا سفر نہ کرنے اور ان کا بائیکاٹ کرنے
کا مشورہ دینے کے بجائے یہ اچھا و بہترین مشورہ
دیا کہ ان ملکوں میں آکر ان ممالک کے قانون کی پابندی کریں اور پردہ نہ کریں ۔واہ
رے بے غیرتی و بے حمیتی۔ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:۔۔
مگر یہ راز آخر کھل گیا سارے زمانے پر حمیت نام ہے جس کا گئی تیمور کے گھر سے
اور علامہ اقبال کا یہ شعر اس زمانہ کے
مسلمانوں کی کتنی صحیح عکاسی کرہا ہے۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ تو اس دور کی چند مثالیں ہیں ۔ جن سے مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا بخوبی
اندازہ ہوتا ہے ۔اور جب کوئی ایک ملک مسلمانوں کے خلاف کوئی ایکشن لیتا ہے اور مسلمانوں کی بے حسی و بے شرمی ملاحظہ کرتا
ہے تو اس سے دوسرے اسلام و مسلمان دشمن
ملکوں و طاقتوں کو شہ ملتی ہے ۔ ان کی ہمت
افزائی ہوتی ہے ۔ لہذا وہ بھی مسلمانوں کے خلاف پوری آزادی کے ساتھ اور بنا کسی
خوف و ڈر کے ایکشن لیتے ہیں۔اور جو کچھ فی الحال انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف ہو
رہا وہ اس کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے مشہور اسلامی ادارہ پر
پابندی بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائک کے مشہور ادارہ پر پابندی لگانے کی صرف یہ ایک وجہ نہیں ہے
۔ بلکہ اس کے بہت سارے دیگر وجوہات و
اسباب بھی ہیں۔یہ ظاہر ہے کہ ڈاکٹر ذاکر
یا ان کے ادارہ کا دھشت گردی سے ذرہ برابر بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ ہی کوئی دھشت گردان سے متاثر ہوا ہے کیونکہ کسی کو بھی ڈاکٹر صاحب یا ان کے ادارہ نے دھشت گردی پر اکسایا نہیں ہے
بلکہ انہوں نے ہمیشہ دھشت گردی کی مذمت کی ہے ۔ اور اس کو اسلامی تعلیمات کے خلاف
بتلایا ہے۔اور مان لیجیے کہ اگر کوئی ڈاکٹر
صاحب کی کسی تقریر و تحریر سے غلط تاثر یا اس کی باطل تاویل کرکے کر کوئی دھشت گردانہ
کام انجام دیتا ہے تو اس میں ڈاکٹر صاحب یا ان کے ادارہ کا کیا قصور ہے ؟ یہ تو سراسر اس کی غلطی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری طور پر لاکھ کوشسوں کے
باوجودآج تک اس کو ثابت نہیں کیا جا
سکا بلکہ مہاراشٹر پولس نے توکلین چٹ دیا ۔پھر بھی اس ادارہ پر پابندی کا کیا معنى ہے۔
میرے خیال میں ڈاکٹر ذاکر نائک کو بدنام
کرنے , ان کے اور ان کے ادارہ کے خلاف گھیرا تنگ کرنے , ان کے عام اجلاس پر پابندی
عائد کرنے اوران کے ادارہ کو پابہ زنجیر
کرنے کی جو خاص وجہیں ہیں وہ یہ ہیں :۔۔۔
1۔ غیر
مسلموں کا بہت بڑی تعداد میں اسلام قبول کرنا:ہر
کوئی جانتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نایک کی مقارنہ ادیان کے میدان میں غیر
معمولی صلاحیتوں اور ان کی انتھک محنتوں و
شب وروز کی کوشسوں کی وجہ سے غیر مسلموں کی ایک بہت بڑی تعداد مشرف با اسلام ہو
رہی تھی ۔ اور یہ لوگ اسلام کی حقانیت و صداقت کو جاننے اور کامل طور سے مطمئن ہونے کے بعد اپنی ضمیر کی آواز پر لبیک
کہتے ہوئے اپنی مرضی سے بنا کسی لالچ و
طمع کے دنیا کی نگاہوں کے سامنے حلقہ بگوش
اسلام ہو رہے تھے۔ جس سے پوری دنیا کے غیر مسلموں میں اسلام کے بارے میں ایک اچھا
پیغام جا رہا تھا ۔اسلام کی مسخ شدہ و بدنام صورت لوگوں کے سامنے اپنی شاندار و اصل شکل و صورت میں نمایاں ہور ہی تھی جس
سے اسلام و مسلمان دشمنوں کا بوکھلانا ایک طبعی امر ہے ۔بھلا وہ اس چیز کو کیسے
برداشت کر سکتے تھے ۔ ان کے چھاتیوں پر تو مونگ دلا جار رہا تھا۔لہذا بین الاقوامی
سازش کرکے اس ادارہ پر پابندی عائد کی گی جس میں گمراہ مسلمانوں کا بھی ہاتھ ہے۔
میری نظر میں ان کے ادارہ پر پابندی لگانے
کی یہ ایک خاص وجہ ہے۔ کیونکہ متعصب , تنگ نظر اور انتہا پسند غیر مسلم جماعتوں و
تنظیموں کواسلام کی نشر و اشاعت قطعا راس
نہیں آتی ہے ۔
2۔ ہندستان
میں عوام کے سامنے مذاہب کی حقیقت کا عیاں ہونا اور امن کی فضاء کا پروان چڑھنا:
اس ادارہ پر پاندی لگانے کی ایک دوسری خاص
وجہ میری نظر میں ہندستان کے تناظر میں یہ ہے کہ ان کے ذریعہ انڈیا میں ہندو و اسلام
مذہب کی حقیقت اور اصلی تعلیمات لوگوں کے سامنے آرہے تھے ۔ جس سے مختلف مذاہب کے
لوگوں کے درمیان میل جول, امن و محبت بڑھ رہی رہی تھی ۔ مختلف مذاہب کے لوگ ایک
دوسرے کے قریب آرہے تھے۔ تشدد کے بجائے امن , نفرت کے بجائے محبت, انتہا پسندی کے بجائے
اعتدال پسندی کا ماحول پروان چڑھ رہا تھا۔بھلا مذہب و سیاست کے ٹھیکیداروں کو یہ
سب کیسے گورا ہو سکتا تھا کیونکہ ان کو تو اپنی دکانوں کے بند ہونے کا خطرہ تھا۔اگر
امن ہوجاتا تو ہندستانی کرپٹ ,بدنام ,خونوں کے سوداگر سیاست داں اپنی سیاست
کیسے کرتے؟ ہندوؤں و مسلمانوں کو آپس میں کیسے لڑاتے؟ اپنی سیاست کس طرح چمکاتے اور ہندستان کے
بھولے بھالے عوام کو بیوقوف بنا کے اپنا الو کیسے سیدھا کرتے؟ اگر لوگوں کو اسلام
و ہندو مذہب کی حقیقت کا پتہ چل جاتا تو مذہب کے ٹھیکیداروں کی دکانیں کیسے چلتی؟
ان کے پیٹ کس طرح پلتے ؟ ان کے غیر شرعی ناجائز کاروبار کس طرح پروان چڑھتے؟
اسی وجہ سے ان باطل طاقتوں نے مناسب یہی سمجھا کہ اب مزید
تاخیر کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔اور اس سے
پہلے کہ اس عظیم اسلامی ادارہ کے ذریعہ ان کا خاتمہ ہو, ان کی تباہی و بربادی ہو اس مشہور
ادارہ کو ہی نیست و نابود , تباہ و برباد کر دیا جائے اور اس کا خاتمہ کر دیاجائے جس سے نہ رہے گی
بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ لہذا اس پر پابندی لگا دی گئی اور اس کو جکڑ دیا گیا۔
اسی وجہ سے سب سے پہلے اس ادارہ کے تحت
ممبئی میں ہونے والے دس روزہ عظیم الشان اجلاس کو روکا گیا۔ پھربنا کسی تحقیق کے
بلا وجہ جھوٹ میں دہشت گردی سے نام جوڑا گیا۔اور اسی کی آڑ میں باہر سے چندہ لینے پر پابندی لگائی گئی ۔اور اب
آخر میں ادارہ ہى بند کر دیا گیا۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔
لیکن آخر میں میرا یہی کہنا ہےجیسا کہ اللہ
جل جلالہ کا فرمان ہے : یریدون لیطفئوا نور اللہ بأفواہہم واللہ متم نورہ ولو کرہ
الکافرون ( صف /۸) یعنی وہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور
کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے
گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اور اسی معنی کی آیت بہت معمولی فرق کے
ساتھ سورہ توبہ میں ہے۔ دیکھیے آیت نمبر 32
اللہ تعالى محترم ڈاکٹر صاحب کا حامی و
ناصر ہو ۔ و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین
تحریرا فی یوم الجمعۃ 18-2-1436 ھ /18-11-2016ع
بین 8,30-11,30 ص
والحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات
0 التعليقات: