اسلا
م میں عمل صالح کی از حد اہمیت و فضیلت , فوائد
و نتائج
اور
ہم
مسلمانوں کی بے حسی اور غفلت
تیسری قسط
دنیا
کی دوسری سب سے عظیم نعمت : صالح عمل کو انجام دینا
محترم
قارئین: حفظکم اللہ و رعاکم ووفقکم للاستفادۃ من شہر رمضان المبارک استفادۃ بالغۃ
و أداء حقوقہ کاملۃ و تقبل اللہ منی و منکم صالح الاعمال و الاقوال۔ آمین
اللہ
کے فضل و کرم اور آپ سب کی دعاؤں سے آج میں ایمان و عمل صالح سیریز کی تیسری قسط
آپ سب کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔قوی امید ہے کہ آپ حضرات کو پسند آےگا۔یہ سلسلہ
ان شاء اللہ جاری رہے گا۔ اس کو مزید بہتر و أچھا بنانے کے لیے آپ کے قیمتی آراء و مشوروں کا انتظار ہے۔ و
جزاکم اللہ خیرا۔
برادران
اسلام: عمل صالح کی بہت زیادہ اہمیت و
فضیلت پر دلالت کرنے والے امور میں سے ایک یہ بھی ہے جیسا کہ ہمارے علماء کرام کا
کہنا ہے کہ ایمان و اسلام کے بعد دنیا کی دوسری سب سے افضل , بہتر اور عظیم نعمت اگر کوئی ہے تو
وہ اللہ کا أپنے بندہ کو صالح
عمل کی توفیق عطا کرنا ہے۔اگر کسی مسلمان کو زیادہ سے زیادہ صالح
عمل اور کار خیر کی توفیق ہوتی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے اس کے اوپر بہت بڑا فضل و
کرم اور احسان ہے۔ اور اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ اس سے راضی اور خوش ہے
۔اور اس کا ارادہ اس کے ساتھ خیر و بھلائی کا ہے۔اور یہ درست بھی ہے۔کیونکہ حدیث
میں آیا ہے:إذا اراد اللہ بعبد خیرا استعملہ ,فقیل : کیف یستعلمہ یا رسول
اللہ,قال: یوفقہ لعمل صالح قبل الموت,(رواہ الترمذی و حسنہ)
ترجمہ:
جب اللہ سبحانہ و تعالى کا ارادہ أپنے کسی بندہ کے ساتھ خیر و بھلائی کرنے کا ہوتا
ہے تو وہ اس کا استعمال کرتا ہے, اس پر آپ سے دریافت کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول
کیسے اس کا استعمال ہوتا ہے؟تو آپ نے جواب دیا:موت سے پہلے اس کو نیک کام کرنے کی
توفیق عطا کرتا ہے۔یہ ترمذی کی روایت ہے اور
امام ترمذی نےاس کو حسن قرار دیا ہے۔
اس
کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اللہ نے ایمان کے بعد اگر کسی چیز کا ذکر بار بار کیا ہے تو وہ عمل
صالح ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی دوسری چیز
نہیں ہے ۔اس میں واضح اشارہ ہے کہ ایمان کے بعد عمل صالح کا مرتبہ سب سے بڑا ,
برتر و افضل ہے۔ اور یقین جانئے کہ اگر کسی انسان کو صالح عمل کی توفیق نہیں ملتی
ہے تو یہ پوری کائنات بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گی۔
اب
آئیے ذرا اس کے ضد کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ عمل صالح کا ضد و عکس برائی کرنا ہے۔
معصیت کا ارتکاب کرناہے۔اورجو نیک کام نہیں کرے گا وہ وضرور با ضرور برے کام کا
ارتکاب کرے گا۔ کیونکہ گناہ یا معصیت صرف حرام و ناجائز چیزوں مثلا وعدہ خلافی , سود خوری,گالی گوج کرنا,زنا کاری ,
ظلم کرنا,جھوٹ بولنا, غیبت کرنا, چوری کرنا,رشوت لینا, شراب نوشی کرنا,ناحق قتل
کرنا, کسی کی زمین و جائیداد ہڑپ
کرلیناوغیرہ کا نام نہیں ہے بلکہ فرائض
اور نیک کام کو ادا نہ کرنا اور اس میں سستی و کاہلی کرنا بھی معصیت ہے ۔مثال کے
طور نماز کو نہ ادا کرنا اور اس میں سستی و کاہلی کرنا گناہ کبیرہ ہے۔اسی طرح
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا, نصاب کا مالک ہونے کے باوجود زکوۃ ادا نہ کرنا۔یہ
سب بھی گناہ کبیرہ ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ موجودہ دور کے بہت سارے مسلمان
اس کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں خصوصا ترک نماز کو۔
یہی
نہیں بلکہ فرائض کو نہ ادا کرنا , نیکیوں کی توفیق نہ ہونا یہ اللہ کی طرف سے بندہ
پر سخت ترین عذاب ہوتا ہے۔عذاب صرف یہی نہیں ہے کہ مال و دولت کا نقصان ہوجائے۔
تجارت تباہ و برباد ہوجائے۔املاک و پراپرٹی تہس نہس ہوجائے بلکہ کار خیر کی توفیق
نہ ہونا بھی عذاب ہے۔روایات میں مذکور ہے کہ ایک شخص امام حسن بصری کے پاس تشریف
لایا اور کہنے لگا کہ اے ابو سعید میں
تہجد کی نماز ادا کرنے سے عاجز ہوں۔میں اپنے اندر اس کو ادا کرنے کی طاقت نہیں
پاتا ہوں۔ تو امام نے اس کے جواب میں کہا: اے میرے بھتیجے اللہ سے مغفرت طلب کرو
اور توبہ کرو کیونکہ یہ بری علامت ہے۔ اور ان کا یہ بھی کہنا تھا : یقینا انسان
کوئی گناہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ تہجد سے محروم کردیا جاتا ہے۔(لطائف المعارف
لابن رجب الحنبلی) قال النووي رحمه الله: "حرمت قيام الليل مرة بذنب أذنبته"
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک بار کسی گناہ کی وجہ سے میں تہجد کی نماز
سے محروم کر دیاگیا۔.
قال سليمان الداراني رحمه الله: "لا تفوت أحدًا
صلاة الجماعة إلا بذنب" سلیمان
دارانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ کسی کی بھی نماز باجماعت صرف اس کے گناہ کی وجہ سے
فوت ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ مسلمان أپنے گناہوں کی وجہ سے صالح عمل اور کار خیر سے
محروم ہوجاتا ہے اور اسے نیکیوں کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔
اس
طرح کے اور بھی اقوال ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ان کا ذکر نہیں کر رہا
ہوں۔
اس
سے اندازہ لگائیے کہ اگر ایک مسلمان کسی گناہ کے نتیجہ میں نفلی
عبادت سے محروم ہوجاتا ہے تو وہ کون سا گناہ ہے جس کی وجہ سے وہ فرائض کو ادا کرنے سے محروم ہوجاتا ہے۔
ایک
مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود بخود اپنے
نفس سے یہ سوالات کرے جب :
اسے
نماز فجر کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔
یا
اسے جماعت سے نماز ادا کرنے کی توفیق نہیں ملتی ہے۔
یا
اسے علم شرعی کے حصول کی توفیق نہیں ہوتی ہے اور اسے اس سے اکتاہٹ ہوتی ہے۔
یا
اسے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی
ہے۔
یا
اس کے علاوہ فرائض کو ادا کرنے اور نیک امور کو انجام دینے کی توفیق نہیں ہوتی ہے۔
کسی
گناہگار یا کوتاہی کرنے والے پر اللہ کا عذاب صرف یہی نہیں ہے کہ اسے کسی قسم کا کوئی جسمانی, مالی, سماجی یا امنی
نقصان ہوجائے بلکہ یہ ہمیشہ یاد رکھنا
چائیے کہ طاعتوں سے محرومی بھی ایک قسم کا عذاب ہے۔لیکن پریشانی کی بات تو یہ ہے
کہ دور حاضر میں بہت سارے مسلمان اس بات سے مطمئن ہیں کہ عذاب الہی صرف اور صرف مال
و دولت, جان و نفس اور املاک وغیرہ میں تباہی و بربادی کا نام ہے۔ جب کہ یہ ثابت
ہوگیا کہ کارخیر کی توفیق نہ ہونا سخت ترین عذاب الہی ہے۔اور اس کی دلیل یہ آیت
ہے:
وَلَوْ
أَرَادُوا الْخُرُوجَ لَأَعَدُّوا لَهُ عُدَّةً وَلَٰكِن كَرِهَ اللَّهُ انبِعَاثَهُمْ
فَثَبَّطَهُمْ وَقِيلَ اقْعُدُوا مَعَ الْقَاعِدِينَ (توبہ/46) ترجمہ: اگر ان کا ارادہ
نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لیے تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا اور حرکت کرنا ناپسند تھا ۔اسی
لیے اللہ نے ان کو حرکت ہی سے روک دیااور ان سے کہہ دیا گیا کہ تم پیچھے بیٹھنے
والوں کے ساتھ بیٹھے رہو۔
معلوم
ہوا کہ چونکہ ان کا ارادہ پہلے سے ہی جنگ میں شریک ہونے کا نہیں تھا ۔ اور جنگ میں
عدم شرکت جب کہ نفیر عام ہو گناہ کبیرہ ہے۔لہذا اللہ نے بطور سزا جہاد میں ان کو شرکت کی توفیق
ہی نہیں دی۔
خلاصہ
کلام یہ کہ ایمان و اسلام کے بعد دنیا کی سب سے بڑی نعمت اللہ کا اپنے بندہ کو
صالح عمل کی توفیق عطا کرنا ہے۔اور صالح عمل کی توفیق نہ ملنا یہ نہ صرف معصیت و گناہ ہے بلکہ سخت ترین عذاب
الہی ہے۔
وآخر
دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔
0 التعليقات: