دنیا
کی سب سے مقدس سرزمین مکہ مکرمہ اورمسلمانوں کا قبلہ کعبہ کے سایہ تلے :(خود نوشت سوانح عمري كا حصہ)
على گڈھ میں دوسال گذرچکےتھے اور میں پری طب
مکمل کرنے کے بعد بی یو ایم أیس فرسٹ پروف میں پڑھ رہا تھا۔اس سال علی گڈھ میں فساد ہو گیا تھااور موسم
سرما کی تعطیل کا وقت بھی قريب آگیا تھالہذا جامعہ میں عام تعطیل کا اعلان
کردیا گیا ۔میں بھی أپنے گھر واپس آگیا۔چھٹی ختم ہونے کے بعدجنوری 1991 ع میں جب
میں واپس على گڈھ آنے کی تیاری کر چکا تھا۔ریزرویشن بھی کروالیا تھا۔اسی بیچ جامعہ سلفیہ بنارس سے تحریر کردہ ایک خط 14 جنوری
کو والد صاحب کو ملا۔میں اس دن گھر پر نہیں تھابلکہ میں گینسڑی بازار میں أپنے
نانا کے گھر پر تھا۔ لہذا دوسرے دن
15 جنوری کو میرے والد محترم نے
گینسڑی آکر کے مجھےاطلاع دی کہ میرا داخلہ
جامعہ أم القرى مکہ مکرمہ میں ہوگیا ہے اور خط بھی دیا۔۔والد صاحب کافی خوش تھے۔
ان کی رائے تھی کہ میں مکہ جاؤں۔خیر میں نے کہا کہ پہلے میں مشورہ کروں گا پھر
کوئی فیصلہ کروںگا۔اسی بیچ جامعہ سلفیہ نے میرے على گڈھ کے ایڈریس پر جامعہ ام
القرى کا اشعار (کال لیٹر)بھی بھیج دیاتھا۔
داخلہ
لیٹر ملنے کے بعد میں بہت ہی پس و پیش میں تھا۔میرے اکثر اساتذہ اور متعارفین کی رائے تھی کہ میں علی گڈھ میں أپنی تعلیم جاری رکھوں اور مکہ نہ جاؤں۔ استاذ محترم
ازہری صاحب بھی اسی رائے کے حامی تھے۔چند ہی لوگ علی گڈھ چھوڑنے کے حامی تھے۔ کچھ
حضرات کا کہنا تھا کہ عارضی طورپر ایک دو سال کے لیے چلے جاؤ پھر واپس آکے یہاں پر
تعلیم مکمل کرلو۔خیر میں نے ایک درمیانی راہ اختیار کی کہ ایک دو سال کے لیے چلا
جاتا ہوں پھر دوبارہ آکے علی گڈھ میں
تعلیم حاصل کروں گا۔اور میں اسی ارادہ سے مکہ گیا بھی تھا کہ وہاں سے جلد از جلد
واپس آجاؤںگا۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھاکہ میں وہیں کا ہوکے رہ گیا۔اور
پھر ایسا جما کہ 27 سال بعد وہاں سے واپس ہوا۔
خلاصہ
کلام یہ کہ مختلف حضرات سے مشورہ کرنے کے بعد جب میرا پختہ ارادہ سعودیہ جانے کا
ہوگیا تو ویزا وغیرہ کی کاروائی کے لیے دہلی گیا۔ویزا ,ٹکٹ اور امیگریشن وغیرہ کی
کاروائی مکمل کرکے گھر واپس آگیا تاکہ والدین,أعزہ و أقرباء اور گاؤںوالوںکو الوداع کہہ سکوں۔ اس بار کل دس دن گھر پر قیام
رہا۔ 25 فروری کو گھرسے نکلا۔ایک بار پھر اپنے ساتھیوں کو الوداع کہنے کے لیے على
گڈھ گیا۔میرے ساتھیوں نے کالج میں مجھ کوشاندار
الوداعی پارٹی دی اور مجھ کو رخصت کیا۔27 کو دہلی آگیا۔ اور 28 فروری کو
اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایر پورٹ بذریعہ بس پہنچا ۔جوایرپورٹ لے جانے والے مسافروں کی خاص سرکاری بس تھی۔ میں نے أپنے چچا محمد رفیق حفظہ اللہ کو الوداع کہا اور پھر اندر
چلا گیا۔ ساری کاروائی مکمل کی اور پھر مسافروں کے لیے مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا اور
فلائٹ کا انتظار کرنے لگا۔ساڑھے دس بجے رات کا ٹائم تھا ۔لیکن اس دن سعودیہ کی فلائٹ ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ لیٹ تھی۔بارہ بجے رات میں
مسافروں کو جہاز کی طرف کوچ کرنے کا اعلان ہوا۔ میں بھی لائن میں لگ کرکے کچھ دیر میں جہاز کے اندر پہنچ کے اپنی
سیٹ پر بیٹھ گیا۔جہاز کے پہلے ہی سفر میں معلوم ہوگیا کہ صرف بسیں اور ٹرینیں ہی
لیٹ نہیں ہوتی ہیں بلکہ ہوائی جہاز بھی لیٹ ہوتے ہیں۔خیر مسافروں کی تعداد مکمل
ہونے کے بعد سب سے پہلےجہاز کا دروازہ بند کیا گیا۔اس کے بعد جہاز رن وے پے چلنے لگا۔پھر سفر کی دعاء پڑھی گئی جس
سے معلوم ہوا کہ واقعتا یہ کسی اسلامی ملک کی فلائٹ ہے۔بعد ازاں ایر ہوسٹس نے اشاروں کی زبان میں مسافروں کو ایمرجنسی کے
وقت سیٹ کے نیچے موجود لائف جیکٹ پہننے, ایمرجنسی گیٹ سے کودنے,آکسیجن کمی کے وقت
سانس لینے وغیرہ کے بارے میں بتلایا۔ ادھر ہوائی جہاز نے دھیرے دھیرے رفتار پکڑا
اور فضا میں بلند ہوگیا۔
یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ میں نے اس وقت سے
لیکر آج تک بارہا ہوائی جہاز کا سفر کیا ہے۔ اور آج تک یہ تعلیمات مسافروں کوپرواز
سے پہلے ضرور با ضرور بتلائی جاتی
ہیں۔لیکن یہ کبھی نہیں سنا اور نہ ہی پڑھا کہ حادثہ کے وقت کسی بھی مسافر نے لائف جیکٹ پہن کے اپنی جان بچائی ہو یا ان
تعلیمات پر کسى نے عمل کیا ہوا۔در اصل جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے تو مسافروں کے اوسان خطا ہوجاتے
ہیں ۔ہوائی جہاز کو زمیں بوس ہونے میں بھی زیادہ ٹائم نہیں لگتا ہے ۔ اور اگر آگ
لگ جائے یا بم دھماکہ ہو جائے تو صورت حال اور بھی بد تر ہوجاتی ہے۔ایسی صورت میں
ہوائی جہاز فضا میں ہی دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔ ان تما م صورتوں میں انسان کو کچھ
سجھائی ہی نہیں دیتا ہے ۔اور اکثر مسافرین اس سلسلے میں غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں ان پر عمل کرنا
ناممکن ہے۔ہاں اگر لائف جیکٹ پہلے سے مسافروں کو پہنا دیا جاے تو شاید حادثہ کے
وقت کسی مسافر کی جان بچ سکتی ہے۔ورنہ میری زندگی میں بہت سارے حوادث ہوئے ہیں جن
میں مشکل سے کسی عملہ کی جان بچی ہے۔چہ جائیکہ کوئی مسافر زندہ رہا ہو۔اللہ تعالى
سب کی حفاظت فرمائے۔
خیر
ہوائی جہاز میں سفر کے اصول و ضوابط کے مطابق کچھ دیر بعد مسافروں کو جوس پیش کیا
گیا ۔ بعد أزاں کھانے کے ساتھ تواضع کی گئ
اور ہر مسافر کو اس کے پسند و خواہش کے
حساب سے کھانا پیش کیا گیا۔پھر کچھ دیر کے بعد لائٹ آف کر دی گئی تاکہ مسافرین
نیند کا مزہ لے سکیں۔ تقریبا چار گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد جہاز کنگ خالد
انٹرنیشنل ایرپورٹ ریاض پر لینڈ ہوا تاکہ ریاض کے مسافرین اتر جائیں۔ مکہ و جدہ کے
تمام مسافرین جہاز میں ہی بیٹھے رہے۔ایک گھنٹہ بعد جہاز نے دوبارہ پرواز کیا اور
ایک گھنٹہ کے اندر کنگ عبد العزیز انٹرنیشنل ایرپورٹ جدہ پہنچ گیا۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سعودیہ اپنے ہر فلائٹ میں
میقات سے پہلے اعلان کرتا ہے کہ میقات آنے والا ہے جس کو احرام باندھنا اور نیت
کرنی ہے وہ تیار ہوجائے اور پھر دوبارہ میقات پر پہنچنے کا بھی اعلان کیا جاتا
ہے۔ایک حج و عمرہ کرنے والے کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پہلے اعلان ہی کے وقت نیت
کرلے کیونکہ جہاز کے میقات پر پہنچنے اور وہاں سے تجاوز کرنے کے لیے چند سکنڈس
کافی ہیں۔میرا پہلا عمرہ تھا۔مجھے اٹینڈنٹ نے بتلایا کہ احرام پہننے سے پہلے غسل
کیا جاتا ہے۔ جاؤ جا کرکے جہاز کے ٹوائلٹ میں غسل کرو۔میں نے اس کے حکم کی تعمیل
کی۔ ٹوائلٹ میں جاکے غسل کیا۔ احرام کا کپڑا پہنا اور پھر باہر آگیا۔اس نے ایک
خوشبو مجھ کو ہدیہ میں پیش کیا۔
شاہ عبد
العزیز انٹر نیشنل ایر پورٹ پر کاروائی کے بعداس کے اندرونی حصہ سے باہر آیا۔چونکہ نماز فجر کا وقت ہوچکا تھا لہذا
ایرپورٹ پر نماز ادا کی۔بعد ازاں باہر نکلا اور ایک کرایہ والی پیلی ٹیکسی پر سوار ہوا اور اللہ کے فضل و کرم سے دنیا کی سب
سے افضل و مقدس جگہ مکہ مکرمہ پہنچ گیا۔جو
آخری نبی کی جائے پیدائش اور نزول وحی کی جگہ ہے ۔جو مسلمانوں کا قبلہ ہے۔مجھے مکہ
کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ صرف جامعہ کا نام معلوم تھا۔ڈرائیور نے مجھ سے
پوچھا کہ کہاں جانا ہے؟میں نے جواب دیا کہ جامعہ ام القرى جانا ہے۔ لہذا وہ مجھ کو
جامعہ لے گیا۔ لیکن اس وقت جامعہ میں تعطیل تھی لہذا جامعہ بند تھا۔اور صرف ایک
ہاسٹل صقرالجزیرۃ کو چھوڑ کے تمام ہاسٹل بھی بند تھے۔خیر ڈرائیور أچھاتھا۔اس نے
مجھ کو بے سہارا سڑک پر بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیابلکہ اس نے ہاسٹل تلاش کرکے
مجھے وہاں تک پہنچا دیا۔اور وہاں پر ٹیکسی سے اترتے ہی سب سے پہلے میری ملاقات
استاذ محترم مولانا امر اللہ صاحب کے صاحبزادہ جناب مولانا عبید اللہ صاحب سے ہوئی
۔جو مجھے أپنے ساتھ ایک کمرہ میں لے گئے۔جس میں مولانا الیاس صاحب اور مولانا عبد
الرحیم صاحبان رہتے تھے۔اسی میں ایک چارپائی خالی تھی اور اسی میں مجھ کو عارضی
طور پر رکھ دیا۔بعد ازاں میری ملاقات دیگر
انڈین طلباء سے ہوئی۔جمعرات کا دن تھا اور
اس کا بیشتر حصہ گذر چکا تھا۔لہذا اس دن میں نے آرام کیااور دوسرے دن جمعہ کو حرم
شریف گیا۔ جمعہ کی نماز ادا کی اور پھر أپنی زندگی کا پہلا عمرہ ادا کیا۔اس عمرہ
میں جامعہ کے ایک طالب علم مولانا الیاس میرے ساتھ تھے۔ عمرہ کرنے کے بعد انہیں کے
ساتھ یرموک ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر انہیں کے ساتھ واپس آگیا۔
دوسرے
دن سے داخلہ کی کاروائی میں لگ گیا۔ جنگ کی وجہ سے جامعہ میں تعلیم مکمل طور سے بند
تھی۔لیکن ادارے کھلے ہوئے تھے۔اس لیے داخلہ کی ساری کاروائی ہوگئی۔تعلیم بند ہونے
کی وجہ سے کوئی مشغلہ تھا نہیں۔ اس لیے
میں نے زیادہ سے زیادہ حرم سے فائدہ اٹھانے کو سوچا کیونکہ میرا ارادہ جلد از جلد
واپسی کا تھا۔ بنا بریں حرم میں قائم تحفیظ
قرآن میں عارضی طور سے داخلہ لے لیا۔خصوصا
رمضان میں عصر سے پہلے روزآنہ حرم جانا میرا معمول تھا۔ہر دن وہیں پر افطار کرتا۔ مغرب و عشاء اور تراویح کی
بیس رکعت نماز ادا کرنے کے بعد ہی ہاسٹل واپس ہوتا تھا۔آخری عشرہ میں مدینہ
یونیورسٹی میں زیر تعلیم أپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مسجد حرام میں پہلی
بار اعتکاف کی نعمت سے بہرہ ور ہوا۔
عید
کی تعطیل کے بعد جامعہ میں تعلیم کا آغاز ہوا۔باعتبار نظام تمام باہری طلبا کا
داخلہ پہلے معہد اللغۃ العربیۃ لغیر
الناطقین بہا میں ہوتا ہے۔ جو اس وقت تین سال کا تھا لیکن اب صرف دو سال کا رہ
گیاہے۔اکثر و بیشتر انڈین طلباء بالکل ابتدائی مرحلہ میں داخلہ لیتے ہیں تاکہ وہاں
پر زیادہ سے زیادہ ٹائم گذار سکیں۔لیکن چونکہ میرا ارادہ وہاں پر رکنے کا بالکل
نہیں تھااس لیے میں نے آخری مرحلہ متقدم ثانی میں داخلہ کی کوشس کی ۔ اور الحمد
للہ امتحان کے بعد میرا داخلہ مطلوبہ مرحلہ میں ہوگیا۔ داخلہ کے بعد مجھے طارق بن
زیاد ہاسٹل الاٹ ہوا جو جامعہ سے بالکل متصل تھا۔ لہذا میں صقر الجزیرۃ سے اپنے
جدید ہاسٹل میں منتقل ہوگیا۔اور 1411ھ سے لیکر اپنی فیملی کے 1415 ھ میں مکہ پہنچنے تک اسی ہاسٹل میں رہا۔ اور میں نے
نہ صرف ایک فصل میں شہادۃ إتمام اللغۃ کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ امتیاز کے
ساتھ پہلی پوزیشن بھی حاصل کی۔ اور اسی سال حج کی بیش بہا نعمت سے بھی سرفراز
ہوا۔فللہ الحمد و المنۃ۔
اس
بیچ چند ساتھیوں خصوصا مولانا عبد الرحیم مکی جو آج کل جمعیت اہل حدیث تلنگانہ کے امیر
ہیں اور ان کے ایک پاکستانی ساتھی کی وجہ
سے میرا ارادہ بدل چکا تھا۔میں نے علی گڈھ کے بجائے مکہ میں ہی تعلیم حاصل کرنے کا
پلان بنا لیا تھا۔سالانہ تعطیل ہوچکی تھی لیکن چھٹی بسبب جنگ ایام تعلیم کی ضیاع کی وجہ سے مختصر ہوئی تھی اور پھر ایک دوسرے
مرحلہ کلیہ میں داخلہ لینے کی کاروائی بھی مکمل کرنی تھی ۔ لہذا میں صرف دو ہفتہ کے لیے وطن واپس آیا اور پھر
مکہ واپس ہوگیا۔
معہد
سے نکلنے کے بعد میرا ارادہ طب میں داخلہ لینے کا تھا۔ لیکن سعودی نظام کی وجہ سے
اس میں داخلہ لینا ممکن نہیں تھا۔کیونکہ
کوئی بھی بیرونی طالب علم میڈیکل اور انجیرنگ میں داخلہ نہیں لے سکتا ہے۔لہذا میں
نے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لے لیا یہ سوچ کر کہ میڈیکل میں داخلہ کے لیے کوشس جاری
رکھونگا۔
اور میں نے کوشس بھی کی اور ایک درخواست بھی دی جو أیڈمیشن آفس نے وزارت تعلیم کو
بھیجی اور جس کا جواب آج تک مجھے نہیں ملا اور اب تو اس کا سوال ہی نہیں ہے۔
جب
میں نے دیکھا کہ میڈیکل میں داخلہ کی کوئی صورت نہیں ہے ۔اور کیمسٹری پڑھنے سے
کوئی فائدہ نہیں ہے۔اور کئی سعودیوں نے بھی مجھ سے کہا کہ اگر تم کو کیمسٹری ہی پڑھنا ہے تو اپنے ملک ہی میں پڑھو۔ یہاں کس
لیے پڑھ رہے ہو۔کیمسٹری کی تعلیم تمہارے ملک میں یہاں سے بہتر ہے۔لہذا میں نے بھی
سوچا کہ کسی دوسرے قسم میں داخلہ لے لوں اور چونکہ مجھے تاریخ پڑھنا اچھا لگتا تھااور
یہ موضوع بے حد پسند تھا۔ اس لیے میں نے ہسٹری ڈپارٹمنٹ میں داخلہ لینے کا فیصلہ
کیا۔اور دو فصل یعنی ایک سال کے بعد 1413ھ میں میں نے قانونی طور پر قسم کے بدلنے کی ساری کاروائی مکمل کرلی۔ اور قسم تاریخ میں
پڑھنے لگا۔
چار
سال کے اندر میں نے تاریخ اسلامی میں
گریجویشن کی ڈگری امتیاز مع فرسٹ پوزیشن
کے 1996 ع میں حاصل کی۔اس کے بعد مجھے تاریخ میں ہی ماسٹر کی ڈگری امتیاز کے
ساتھ1423ھ/2002 ع میں حاصل ہوئی۔ اور اس سال کے جلسہ فراغت میں مکہ کے گورنر امیر
عبد المجید بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے ذریعہ امتیاز کا شیلڈ حاصل کیا۔ ۔اور پھر
تاریخ میں ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری 2012 ع میں امتیاز کے ساتھ حاصل کی۔
گریجویشن کے دوران میں نے یونیورسٹی لیول کے کئی انعامی مقابلوں میں حصہ
لیا جس میں مجھے نمایاںکامیابی حاصل ہوئی۔ تفصیل درج ذیل ہے:
(1)
مسابقہ
عقیدہ میں پہلا انعام , 1412-1413ھ/1992-1993 ع
(2)
سیرت
نبی کمپٹیشن , تیسرا انعام, 1412-1413ھ/1992-1993 ع
(3)
سیرت
نبی کمپٹیشن , دوسرا انعام, 1413-1414ھ/1993-1994 ع
(4)
بک
ریڈنگ کمپٹیشن , دوسرا انعام, 1413-1414ھ/1993-1994 ع
لیکن
کچھ سالوں کے بعد طلباء کمپٹیشن کا یہ
سلسلہ نا معلوم وجوہات کی بناء پر بند کردیا گیا۔ اور کئی سالوں بعد اسے نئی شکل
میں شروع کیا گیا لیکن میں اس میں چند وجوہات کی بناء پر حصہ نہ لے سکا۔
أم
القرى یونیورسٹی میں جن اساتذہ سے میں نے تعلیم حاصل کی ہے ان کے نام درج ذیل
ہیں:۔
فضیلت
مآب ڈاکٹر عمر محمد سبیل , خطیب و امام مسجد حرام ,مکہ,ڈین شریعہ و اسلامی
دراسات کالج, ام القرى یونیورسٹی , مکہ, آپ کا انتقال 15 مارچ 2002 ع میں ایک سڑک حادثہ میں ہوا جب آپ أپنے ایک سفر سے
واپس مکہ لوٹ رہے تھے۔
ڈاکٹر
عادل بن محمد نور غباشی, سابق وکیل ام القرى یونیورسٹی و ڈین کمیونٹی سروسز اور کانٹیونگ ایجوکیشن
فیکلٹی , ام القرى یونیورسٹى,مکہ۔ڈاکٹر
عبد اللہ بن محمد شفیع,سابق وکیل دعوت و اصول دین فیکلٹی, ام القرى یونیورسٹی,
مکہ۔
ڈاکٹر
صالح بن حسن مبعوث غامدی, سابق ڈین برائے امور طلباء, ڈاکٹر عمر سالم بابکور: یہ
ایم اے اور پی ایچ ڈی میں میرے سپر وائزر
بھی تھے ,سابق چیرمین ہومینیٹیز ڈپارٹمنٹ,مجتمع فیکلٹی, ڈاکٹر أحمد محمد
بنانی,ڈاکٹر سعد عبد اللہ بشری,ڈاکٹر سعد بن موسى الموسى, ڈاکٹر رشاد محمود
بغدادی,ڈاکٹر عایض بن خزام روقی, ڈاکٹر فواز بن علی دھاس, ڈاکٹر
عبد اللہ بن سعید غامدی, ڈاکٹر یوسف بن علی بن رابع ثقفی, ڈاکٹر
طلال بن شرف برکاتی, ڈاکٹر عبد اللطیف بن دہیش, ڈاکٹر عبد
العزیز سلومی, ڈاکٹر مریزن عسیری, ڈاکٹر ضیف اللہ زہرانی, ڈاکٹر مسفر بن سالم غامدی, ڈاکٹر
على عودۃ غامدی, ڈاکٹر خلف بن دبلان وذینانی, ڈاکٹر
عبد اللہ بن حسین شنبری,
مصری
اساتذہ کے نام ہیں:--
ڈاکٹر
عبد الرشید ,ڈاکٹر محمد أحمد حسب اللہ, ڈاکٹر عبد الجواد, ڈاکٹر عبد التواب, اور بھی
مصری اساتذہ ہیں جن کے نام فی الحال یاد
نہیں آرہے ہیں۔
3 التعليقات:
ماشاء اللہ۔۔۔ اللہ ہمیں حرم پاک کی زیارت نصیب فرمائے۔۔۔
ماشاء اللہ۔۔۔ اللہ ہمیں حرم پاک کی زیارت نصیب فرمائے۔۔۔
دنیا کی سب سے مقدس سرزمین مکہ مکرمہ سے متعلق تحریر دادتحسین کے لائق ہے اس سے متعلق لکھتے اور پڑھتے ہوے عام طور سے جذباتی ہوجاتے ہیں اور ہونا بھی چاہئیے کیوں کہ یہ عقیدت کی بات ہے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جاے پیدائش ،وحی کی ابتدائی کیفیت سے لیکر اہل مکہ کے مظالم وہجرت نیز فتح مکہ کے وقت پیارے رسول صلعم کی عام معافی کی ساری تفصیلات و کیفیات سے ایک مومن کی آنکھیں اشکبار ہوجائیں ہیں پھر حرم شریف کی اہمیت اور اس میں صلات و طواف کی فضیلت اپنی جگہ الگ ایک مسلم امر ہے اللہ تعالی سے دعاءہیکہ وہ آپ کی اور ہماری تمام نیکیوں کو شرف قبولیت عطاکرے ( شیخ اکرام الحق, واٹسپ میسیج بتاریخ 25 جنوری 2019 بوقت 11:06 ص )