ام القرى یونیورسٹی کے
اصول و ضوابط کے مطابق پی جی یعنی ماسٹر و
ڈاکٹریٹ کا کوئی بھی ریسرچ اسکالر أپنے
رجسٹرڈ موضوع سے متعلق علمی مواد جمع کرنے کے لیے ان دو ممالک کا سفر کرسکتا ہے
جہاں اس کے موضوع سے متعلق مواد دستیاب ہیں خصوصا تاریخی دستاویزات اور مخطوطات
وغیرہ تلاش کرنے اور جمع کرنے کے لیے کیونکہ
تاریخی مقالہ کے لیے تاریخی دستاویزات کی بے انتہا اہمیت ہوتی ہے ۔ اور یہ اہمیت اس
وقت اور بڑھ جاتی ہے جب کوئی غیر نشر شدہ تاریخی دستاویز ہاتھ لگ جائے۔ اس سے رسالہ
کی علمی وقعت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اور اس کی اہمیت و افادیت دوچند ہوجاتی
ہے۔اور علمی سفر پر روانہ ہونے سے پہلے
جامعہ ہوائی جہاز کا ٹکٹ دینے کے علاوہ سفر خرچ بھی دیتا تھا۔پھر صندوق طلابی سے
علمی سفر کے نام پر اور وہ بھی لوٹنے کے
بعد تھوڑی بہت رقم دی جانے لگی ۔لیکن بعد
میں سفر خرچ دھیرے دھیرے بند کردیا گیا۔ لہذا علمی سفر پر میں نے خرچ تو بہت کیا
لیکن یونیورسٹی سے مجھے کچھ نہیں ملا۔والحمد للہ على ذلک۔خیر مذکورہ بالا ضابطہ کے
تحت علمی مواد خصوصا تاریخی دستاویزات اور
مخطوطات وغیرہ تلاش کرنےکے لیے بریطانیا
اور پاکستان جانے کی درخواست دی کیونکہ تحریک شہیدین کا ڈارکٹ تعلق ان دونوں ممالک
سے تھا۔اس وقت انڈیا بریطانیا کے زیر تسلط تھا اور اس تحریک کا دوسرا اہم حصہ یعنی
جہاد پاکستانی سر زمین پر واقع ہوا تھا۔لہذا اللہ کے فضل و کرم سے میری درخواست
قسم اور کالج نیز پی جی شعبہ سے منظور
ہوگئی۔ اس کے بعد وائس چانسلر نے بھی آخری منظوری دیدی۔اور میں نے علمی سفر پر
جانے کی تیاری شروع کردی۔ اور پہلے میں نے پاکستان کا ویزا لگوانے کا فیصلہ کیا۔
کیونکہ اس میں ہمارے یونیورسٹی کے ایک پاکستانی دوسست أنس خلیل مدنی کام کرتے تھے۔
انگریزوں
کی ناپاک سازش کا نتیجہ پاک سر زمین پر:
(پاکستان انگریزوں کی سازش کا نتیجہ تھا یہ جاننے کے لیے میرے مضمون : تقسیم ہند انگریزوں کی کامیاب ترین سازش کا مطالعہ کریں جو اسی موقع پر موجود ہے)
(پاکستان انگریزوں کی سازش کا نتیجہ تھا یہ جاننے کے لیے میرے مضمون : تقسیم ہند انگریزوں کی کامیاب ترین سازش کا مطالعہ کریں جو اسی موقع پر موجود ہے)
پاکستانی
ویزا لگوانے کے لیے میں نے جامعہ سے ضروری
کاغذات حاصل کیے ۔اور پھر جدہ کے محلہ
مشرفہ میں واقع پاکستانی قونصل خانہ گیا ۔
لیکن پہلے دن 28/10/2000 ع کو ناکام و نامراد واپس لوٹنا پڑا۔ کیونکہ ویزا فارم
میں ایک شق تھی کہ دو پاکستانی أفراد کا پتہ تحریر کرو۔ میں نے صرف دو آدمیوں کا
نام اور مختصر پتہ لکھ کرکے جمع کردیا۔ تو
اس نے فارم لینے سے انکار کردیا اور کہا کہ مکمل پتہ تحریر کرو۔ میں نے اس دن مکہ
فون کیا اور کئی لوگوں سے رابطہ کی کوشس کی۔لیکن کامیاب نہیں ہوا۔ لہذا اس دن واپس
آگیا۔
دوسرے
دن 29/10/2000ع کو پھر قونصل خانہ گیا۔
اور ایک نیا فارم لیا اور میں نے اس سے کہا کہ میں پاکستان کسی سے ملاقات کرنے
نہیں جا رہا ہوں بلکہ میرا وہاں جانے کا مقصد صرف اور صرف ریسرچ ہے۔لہذا میں کس کا
پتہ دوں ۔تو اس نے کہا کہ آپ جہاں بھی جانا چاہتے ہیں اس کا پتہ دیجیے ۔ تو میں نے
پنجاب اور پشاور یونیورسٹی کا پتہ تحریر کردیا۔تب جاکے اس نے فارم لیا۔
اس
کے بعد ویزا قنصل جناب عبید الرحمن نے بلا کے میرا انٹرویو لیا۔تعارف کے بعد وہاں
جانے کا مقصد پوچھا۔تو میں نے بتلایا کہ میرا موضوع تحریک شہیدین ہے۔ اور اس تحریک
کا ایک نہایت ہی اہم پہلو جہاد ہے جو آج کے پاکستانی سر زمین پر ہوئی۔اور وہاں بہت
سارے دستاویزات اور علمی مواد دستیاب ہیں۔لہذا میں وہاں ریسرچ کے لیے جارہا ہوں۔
تو اس نے ثبوت طلب کیا۔ میں نے یونیورسٹی کا لیٹر ان کی خدمت میں پیش کردیاجو
پاکستانی قونصلیٹ کے نام تھا۔بعد ازاں انہوں نے مجھ سے حالات حاضرہ سے متعلق کئی
سوال پوچھے اور گفتگو جاری رہی۔پھر اس نے ویزا کی منظوری دیدی۔لیکن اس دن بھی ویزا
نہیں مل پایا کیونکہ قونصل جنرل کی منظوری بھی ضروری تھی ۔ لہذا میں تیسرے دن 30/10
کو پھر گیا۔اور ویزا لےکر آیا۔
پاکستان
کا ویزا ملنے کے بعد میں نے سوچا کہ بریطانیہ کا ویزا بھی لگوا لوں۔ لہذا اس کے اگلے دن میں جدہ میں ساحل
بحر احمر پر واقع برٹش قونصل خانہ گیا۔ ایک ملازمہ نے بتلایا کہ چھ مہینہ کا اکزٹ
اور ری انٹری ویزا لگوا کر لاؤ ۔ ساتھ ہی
یونیورسٹی کا لیٹر اور بینک کا اسٹیٹمنٹ لے کر آؤ۔ اس کے بعد انٹرویو کے لیے
بلایاجائےگا۔ پھر ویزا ملے گا۔میں نے سوچا کہ فی الحال یہ سب ممکن نہیں ہے۔لہذا
پہلے پاکستان چلتا ہوں ۔وہاں سےواپس لوٹنے کے بعد یہ سب کاروائی کروںگا۔اور
بریطانیہ کا ویزا حاصل کروں گا۔
یہاں یہ ذکرکرنا نہایت ضروری ہے کہ اس وقت اکتوبر نومبر 2000ع میں انڈیا اور پاکستان کے تعلقات نہایت کشیدہ اور
خراب تھے ۔دونوں ملکوں کی فوجیں سرحد پر آمنے سامنے تھی۔میرے بہت سارے شناسا پاکستان سفر کرنے سے منع کر رہے تھے ۔
کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس سے تمہیں بعد میں انڈیا
میں پریشانی ہوگی۔ لیکن ایسے مواقع بار
بار نہیں ملتے ہیں لہذا میں نے کسی بھی قیمت پر وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔اور اللہ
تعالى پر بھروسہ کرتے ہوئے سفر کا پختہ ارادہ کر لیا۔اور میں نے سفر بھی کیا۔بیس
دن وہاں پر قیام بھی کیا۔ اور پھر واپس لوٹا۔ بعد ازاں انڈیا کا کئی بار سفر بھی
کیا۔لیکن الحمد للہ کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔کیونکہ میں نے وہاں پر ملک مخالف
کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا۔کسی دہشتگر جماعت کی آفس میں نہیں گیا بلکہ
اگرکسی جماعت کی کوئی آفس راستہ میں واقع
ہوتی تھی تو میں اپنا راستہ ہی تبدیل کردیتا تھا۔ اور اگر راستہ بدلنا ممکن نہ ہو
تو دور سے ہی گذر جاتا تھا۔ اور نہ ہی ان
کے کسی قائد یا لیڈر سے ملاقات کی۔
حالانکہ ایک دن ایک شخص دار الدعوۃ السلفیہ میں میرے پاس آیا اور مجھ سے کہنے لگا کہ
کیا تم کو حافظ سعید صاحب سے ملنا ہے؟ میں نے فورا جواب دیا کہ نہیں ؟ اس نے کہا:
کیوں؟میں نے جواب دیا کہ مجھے انڈیا واپس جانا ہے۔خیرمیرے صاف انکار کرنے پر وہ
چلا گیا۔ کیونکہ میں جانتا تھا کہ جاہل اور بیوقوف نیز نام نہاد مجاہد حافظ سعید سے ملاقات کا کیا مطلب ہے۔اور مجھے
ان تمام چیزوں میں پڑنے کاکیا مطلب تھا؟ میرا ان تمام چیزوں سے دور دور تک کا کوئی
واسطہ نہیں تھا۔میں تو وہاں صرف اور صرف ریسرچ کرنے گیا تھا۔
خیر
پاکستانی ویزا ملنے کے بعد میں نے پاکستان
جا نے کی تیاری شروع کی۔ سب سے پہلے جہاز کا ریزرویشن کروایا۔ضروری کاغذات تیار
کیے۔ایک پاکستانی طالب علم محترم قاری حفیظ الرحمن نے کافی مدد کی۔ انہوں نے
کئی پاکستانیوں کے نام سے میرے تعاون کے
لیے کئی لیٹرلکھ کر مجھے دیئے۔اور لاہور
ایر پورٹ پر سیکورٹی آفیسر جناب عطا کو
انہوں نے میرے بارے میں فون پر اطلاع بھی دی۔ اور پھر 4 نومبر 2000ع کو بعد نماز
فجر مکہ سے جدہ کے لیے روانہ ہوا۔ فلائٹ اس دن ساڑھے دس بجے دن میں وقت مقررہ پر روانہ ہوئی اور میں ٹائم سے لاہور پہنچ گیا۔ سیکورٹی آفیسر میرے انتظار میں
کھڑے تھے ۔ انہوں نے میرا استقبال کیا۔ اور ان کے تعاون سے میرا سارا کام چند
منٹوں میں ہوگیا۔ اور مجھے کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔میں ایر پورٹ سے
باہر نکلا۔ وہاں قاری سلیم صاحب سابق پاکستانی
بلائنڈ کرکٹ ٹیم کے کپتان میرے منتظر تھے۔ قاری حفیظ الرحمن نے ان کو بھی فون کر
دیا تھا۔خلاصہ کلام یہ کہ پاکستان میں تمام اندرونی کاروائیأں آسانی سے ہوگئیں۔ اور میں اپنے اصل کام ریسرچ میں لگ
گیا۔جہاں پر موضوع سے متعلق بہت زیادہ موا دستیاب ہوا۔اور اللہ کے فضل وکرم سے بہت
سارے مخطوطات,وثائق اور کتابیں حاصل ہوئیں
جن کا تذکرہ میں نے اپنے مقالہ میں کیا
ہے۔اس کے علاوہ چند عظیم علماء سے ملنےکا اتفاق ہوا۔ جن میں خاص طور سے قابل ذکر
ہیں۔
مولانا
محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ: مشہور مؤرخ جماعت اور مایہ ناز کتاب فقہاء ہند کے مصنف , یہ ان کی شاہکار کتاب ہے جو
سات جلدوں پر مشتمل ہے۔علاوہ أزیں تاریخ پران کی بہت ساری کتابیں ہیں جو کافی
معروف و مشہور ہیں۔ ان سے میری ملاقات لاہور میں واقع ان کے
گھر پر 6/11/2000 ع کو ہوئی۔میں نے آنجناب
سے موضوع کے متعلق کچھ سوالات کیے جن کا آپ نے تسلی بخش جواب دیا۔اور ایک کتاب
بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ جہد آزادی 1757-1857ع
تالیف عبد اللہ ملک کی فوٹو کاپی بھی عنایت کی ۔ دوپہر کا کھانا آپ کے ساتھ تناول
کیا اور عصر کے بعد واپس ہوا۔
مولانا
خالد گھرجاکھی: آپ سے میری ملاقات گجرانوالہ میں آپ کی مسجد میں ظہر کے بعد 19/11/2000 ع کو
ہوئی۔ تحریک شہیدین پر آپ کی تین کتابیں ہیں جو آپ نے مجھے ہدیہ میں عطا کی۔آپ سے
بھی موضوع سے متعلق گفتگو ہوئی اور آپ سے یہ سوال میں نے خاص طور سے کیا کہ بہت
سارے مؤرخیں کا کہنا ہے کہ تحریک أپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہی؟تو آپ نے
فرمایا کہ تحریک باکل ناکام نہیں ہوئی بلکہ اس کے بہت سارے فوائد حاصل ہوئے۔اور اس
کے اسباب کی بھی وضاحت فرمائی۔
پروفیسر
عبد الجبار رحمہ اللہ : محترم سے میری ملاقات
شیخوپورہ میں ان کے گھر پر جمعہ کے دن شام کے وقت 10/11/2000 ع کو ہوئی۔آپ نے پاکستان میں مصادر و مراجع تک پہنچنے اور ان کے حاصل کرنے
میں میری کافی مدد کی تھی۔آپ پنجاب پبلک
لائبریری ڈائرکٹوریٹ کے جنرل ڈائریکٹر تھے۔ آپ کی اپنی ذاتی لائبریری بھی تھی جس
میں چالیس سے پچاس ہزار کتابیں تھی۔اور تقریبا چار پانچ ہزارمخطوطات تھے جن میں سے بیشتر سیرت نبی سے
متعلق تھی۔یہ تعداد آپ نے خود بتلائی۔ لیکن موضوع سے متعلق کوئی کتاب نہیں ملی۔شام
کا کھانا آپ کے ساتھ ہی تناول کیا اور پھر لاہور واپس آگیا۔
ان
کے علاوہ مولانا محمد عیش صاحب ابو بکر یونیورسٹی
کراچی کے مدیر,مولانا أحمد شاکر إدارہ
دعوت سلفیت کے مدیر,اور لاہور میں میرا قیام انہیں کی لائبریری میں تھا۔ ان کا أپنا تجارتی کتب خانہ بھی ہے جو شیس محل روڈ
پر واقع ہے۔مولانا عبد العزیز نورستانی جامعہ أثریہ پشاور کے مدیر ان سب علماء کرام
سے مجھے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے علاوہ اور دیگر علماء کرام سے بھی ملاقات ہوئی
جن کا تفصیل کے ساتھ یہاں پر ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
اور
پاکستان میں جس چیز نے مجھے أپنی جانب سب سے زیادہ متوجہ
کیا وہ بھارت و پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان بہت ساری چیزوں مثلا تہذیب و تمدن
کے بعض گوشوں , کھان پان, طرز معاشرت,
گلیوں ,آبادیوں و بستیوں کے آباد
ہونےنیز گندگی وغیرہ میں مشابہت کا پایا جانا ہے۔ پاکستان بھی
ایک پچھڑا ہوا گندا ملک ہے ۔ وہاں پر بھی گندگی عام ہےاورگندگیوں کا ڈھیر ہر جگہ نظر آتا ہے۔ ہر جگہ کھلی ہوئی گندی
نالیاں ہیں۔ یہاں تک کہ لاہور میں پنجاب
سول سکریٹریٹ کے سامنے بھی کھلی ہوئی گندی نالیاں بہتی ہیں۔پاکستان -افسوس کے ساتھ
کہنا پڑتا ہے -کہ وہ ہر طرح کے فساد و بگاڑ کا شکار ہے۔ انتظامی, مالی, سیاسی ,
اخلاقی اور دینی فساد پورے ملک میں پھیلا
ہوا ہے۔ شرک و بدعات کا بازار گرم ہے ۔ ہر
جگہ مزار و مقبرہ ہےجو مرجع خاص و عام ہے۔کم ہی لوگ اس سے محفوظ ہیں۔ لوگوں کی اکثریت غریب و فقیر ہے ۔اسی طرح جہالت
بھی عام ہے۔اسلحہ کلچر کا انتشار ہے ۔ ہرجگہ بڑی دکانوں,آفسوں,ہوٹلوں حتى کہ مدارس
وغیرہ پر بھی مسلح گن مین تعینات رہتے
ہیں.
پاکستان
میں وثائق اور مخطوطات وغیرہ کی کوئی قدر نہیں ہے۔اور نہ ہی ان کو ان کی حفاظت کا ڈھنگ معلوم ہے۔یہی وجہ ہے
کہ اتنی اہم قیمتی دستاویزات رفوف پر اوپن پڑے ہوئے ہیں جن پر گرد وغبار جمے ہوئے
ہیں۔اور نا ہی ان کی کوئی فہرست ہے اور ناہی کمپیوٹرائزڈ ہیں ۔اس کے برعکس برٹش
لائبریری میں دستاویزات اور مخطوطات کی بہت زیادہ قدر و قیمت ہے۔ان کی حفاظت کا
زبردست انتظام ہے۔جلد سازی کے علاوہ ان کو اندرونی و بیرونی دو غلافوں کے اندر
رکھا جاتا ہے۔تنظیم و ترتیب اور فہرست سازی میں تو ان کی مثال ہی نہیں ہے۔
ہاں
ایک چیز کا مجھے اعتراف کہ میرے پاکستانی بھائیوں نے میری ہر طرح کی مدد کی۔جس کے
نتیجہ میں مجھے کہیں بھی کسی طرح کى کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔انہوں نے میری اچھی
خاطر و تواضع کی۔ہر جگہ مجھ کو خوش آمدید کہا۔ صرف پنجاب سول سکریٹریٹ میں ایک
افسر نے مجھے پریشان کیا۔ فارن آفس سے اجازت نامہ نہ ہونے کا بہانہ کرکے کتابوں اور وثائق کو دیکھنے کی اجازت نہیں دی جبکہ میرا ویزا ہی ریسرچ ویزا تھا۔اور جب میں نے
یہ بات محترم سے بتلائی تو کہنے لگے کہ مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے ۔ خیر اس
نے مجھ کو اجازت نہیں دی بلکہ اس نے مجھ
سے یہ بھی کہا کہ تم انڈین ہو کے اندر کیسے آگئے۔ اگر گارڈ کو معلوم ہوتا کہ تم
انڈین ہو تو تم کو اندر داخل نہیں ہونے دیتے وغیرہ۔
الحمد
للہ پاکستان کا یہ سفر علمی نقطہ نظر سے کافی أچھا رہا اور میں جس مقصد سے وہاں
گیا تھا اس میں کافی کامیاب رہا ۔بہت سارے وثائق و مخطوطات میرے ہاتھ لگے جو آج
بھی میرے پاس محفوظ ہیں اور یہ بہت ہی قیمتی تاریخی وعلمی دستاویزات و مخطوطات
ہیں۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے تحریک شہیدین سے متعلق جو دستاویزات, مخطوطات, کتابیں, مصادر و
مراجع انگریزی , اردو اور فارسی تینوں زبانوں میں یکجا طور پر میرے پاس موجود ہیں وہ
اس وقت دنیا میں اور کہیں بھی موجود نہیں ہیں۔ میں نے ان کو بھارت, پاکستان اور
بریطانیہ سے بہت زیادہ محنت , تگ و دو اور جد وجہد سے جمع کیا ہے۔و ذلک فضل اللہ
یؤتیہ من یشاء۔
پاکستان
سے سعودیہ واپس لوٹتے ہوئے اللہ کے فضل و کرم سے مجھے مفت میں ہوئی جہاز کے درجہ اول (فرسٹ کلاس) میں بائی
چانس پہلی بار سفر کرنے کا موقع ملا۔ در اصل ہوا یہ کہ میرا ویزا ختم ہو چکا تھا
اور میرا ریزرویشن بھی نہیں تھا۔میں نے جدہ کے بجائے أپنا ٹکٹ بدلوا کے ریاض کروا
لیا تھا تاکہ ریزرویشن مل جائے۔لیکن پھر
بھی کنفرم نہیں ملا۔ چنانچہ میں بنا ریزرویشن کے ہی اللہ سبحانہ و تعالی پر توکل کرتے ہوئے لاہور ایرپورٹ
پہنچ گیا۔کافی دیر انتظار کرتا رہا۔جب کنفرم ٹکٹ والوں کی لائن ختم ہوگئی اور ہم
لوگوں کی باری آئی تو میں نے ایک شخص کو اپنا ٹکٹ یہ کہتے ہوئے پکڑا دیا کہ میرا
ویزا ختم ہو چکا ہےاور مجھے جانا ہے۔ لہذا اس نے میرا کام کردیا۔ اب میں نے جلدی
جلدی لگیج کروایا۔ زائد سامان کا مسئلہ بھی حل ہوگیا کیونکہ ملازم نے میرا سارا سامان بغیر وزن کیے ہی ڈال دیا اور جب میں
نے اس سے کوپن مانگا تو اس نے کہا کہ جلدی جاو ورنہ جہاز چھوٹ جائے گا ۔بعد ازاں
میں نے اپنا ویزا چیک کروایا۔اور یہاں پر جس طرح ویزا چیک کرتے ہیں میں نے اس طرح کسی بھی ملک میں ویزا چیک کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ملازم آنکھ میں خورد بین لگا کے بہت ہی غور سے ہر
ویزا چیک کر تا ہے۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ پاکستان میں فراڈ بہت ہوتا ہے۔اس
مرحلہ سے فراغت کے بعد میں مسافروں کے ویٹنگ ایریا میں داخل ہوا۔بیٹھنے اور انتظار
کرنے کا وقت بالکل نہیں تھا۔ریاض جانے والے مسافروں کو فلائٹ تک
لے جانے والی بس لگی ہوئی تھی میں
فورا اس میں بیٹھا اور میں اس فلائٹ کا آخری مسافر تھا جو بس میں سوار ہوا۔میرے
داخل ہوتے ہی بس فورا روانہ ہوئی اور پھر
ہوائی جہاز کے اندر آگیا۔ اس طرح مجھ کو سکون و اطمینان نصیب ہوا ۔ اور اللہ کے فضل سے مجھ کو فرسٹ کلاس میں
سیٹ ملی جس میں کافی آرام رہتا ہے۔
2 التعليقات:
ماشاء اللہ۔۔۔۔
بہت عمدہ، کہیں مدد کرنے والے تو کہیں منع کرنے والے، خاص کر ٹکٹ والا معاملہ۔۔۔۔ بہت آسانی ہوئی۔۔۔ اللہ مزید کامیابیوں سے نوازے اور آپ تمام اساتذہ کرام کا سایہ ہم پر تا دیر قائم رکھے، آپ جیسی محنت و لگن کے ساتھ امت کے لئے "کچھ کرنے" کی توفیق عطا فرمائے
ماشاءالله شيخ بڑا دلچسپ سفر نامہ ہے پڑھ کر بہت ساری معلومات ہوئ۔ شکریہ۔جزاکم اللہ ( شیخ اکرام الحق, واٹسپ میسیج بتاریخ 25 جون 2019 ع بوقت 8:38 ص )