پاکستان سے واپس لوٹنے کے بعد میں نے بریطانیہ جانے کی
تیاری شروع کردی۔اس کے لیے برٹش قونصلیٹ کی ملازمہ کے بتلانے کے حساب سے میں نے کاغذات تیار کیے
اور قونصلیٹ جا کےویزا کے لیے12 دسمبر 2000 ع کو
اپلیکیشن دیدیا۔اس کے بعد مجھے 17
دسمبر 2000 ع کو انٹرویو کے لیے بلایا
گیا۔ لیکن انٹرویو لینے والی ملازمہ نے بعض ناقابل قبول ,غیر معقول و غیر منطقی اسباب کی بناء پر ویزا دینے سے انکار کردیا۔( تفصیل ان شاء اللہ
بعد میں بیان کروں گا)لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور قسم کھالی کہ میں ویزا حاصل
کرکے رہوں گا خواہ کتنی ہی محنت کرنی پڑے۔اب یہاں سے حصول ویزا کے لیے میری جد و جہد کا آغاز ہوتا ہے۔
یہاں
یہ ذکر کردینا بہت ہی مناسب و بر محل ہے جس کا تجربہ مجھے بعد میں ہوا کہ بریطانیہ کا ویزا حاصل کرنا کسی جوئے شیر
لانے سے کم نہیں ہے خصوصا مجھ جیسے کم تر طالب علم کے لیے جس کا ان کی نظر میں کوئی مستقبل نہ ہو۔اور ان کی نظر میں صرف أمیروں
اور مالداروں کی عزت ہوتی ہے اور وہ صرف انہیں کو آسانی سے ویزا دیتے ہیں۔کیونکہ
ان کو ان سے اقتصادی فائدہ ملتا ہے۔لیکن غریبوں خصوصا تیسری دنیا میں رہنے والوں
کو تو وہ باکل ویزا نہیں دیتے ہیں اور جب ایسے شخص کے چہرہ پر داڑھی ہو تو معاملہ
اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔لہذا بریطانیہ کا ویزا حاصل کرنے کے لیے مجھے برٹش قونصلیٹ
کا 8 چکر لگانا پڑا۔ اور میں نے ہر پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے ہر سوال کا منہ توڑ جواب دیا بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح
ہے کہ میں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اور میرے و قونصلیٹ کے درمیان جو خط و
کتابت ہوئی وہ اب یھی میرے پاس محفوظ ہے۔ ان شاء اللہ میں اس کو جلد ہی شائع کروں
گا۔
لیکن
ہاں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ برٹش ہر چیز کو سنجیدگی سے لیتےہیں۔ ہر چیز کو
باریک بینی سے پڑھتے ہیں۔ معاملہ کی تہ تک پہنچتے ہیں۔جواب بھی دیتے ہیں۔اور اگر
ان سے غلطی ہوئی ہے تو اس کا اعتراف کرتے اور غلطی کرنے والے کے خلاف کاروائی کرتے
ہیں۔ جب کہ سعودیہ وغیرہ میں اس طرح کا
کوئی تصور ہی نہیں ہے۔خصوصا جب معاملہ کا تعلق کسی غیر ملکی سے ہو تب تو اس طرح کے
سلوک کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اور اس کا تجربہ میرے ساتھ خود ہوا ہے۔
خیر
میں أپنی لڑائی میں کامیاب ہوا اور مجھے بریطانیہ کا ویزا مل گیا۔ اسی
طرح اللہ کے فضل و کرم سے مجھے فروری 2001 ع میں سات سمندر پار بریطانیہ سفر کرنے کا موقع ملا۔ اور میرا یہ سفر
بھی خالص علمی نوعیت کا تھا۔اور میں پہلی
بار سات سمندر پار واقع گوروں کے ملک انگلینڈ پہنچ گیا۔ جس کے بارے
میں میں پچپن ہی سے پڑھتا اور سنتا آرہا تھا۔آج اسے خود أپنی
آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
بریطانیہ
براعظم یورپ میں واقع ایک انتہائی ترقی
یافتہ ملک ہے ۔ یہ وہی بریطانیہ ہے جو ایک زمانہ میں چھوٹا سا جزیرہ تھا اور
جس کے بادشاہ کو بھارتی مغل سلطنت کا شہنشاہ
عالم گیر خط تحریر کرنا اپنی شان و شوکت
کے خلاف سمجھتا تھا۔ لیکن اسی بریطانیہ کا ایک دور وہ بھی آیا جب اس نے بشمول
بھارت دنیا کے 54 ممالک پر قبضہ کرلیا اور
انیسویں صدی عیسوی میں ایک اتنی بڑی سلطنت کی بنیاد ڈالی جس میں سورج غروب نہیں
ہوتا تھا۔
بریطانیہ
کا میرا یہ سفر فروری 2001 ع میں
ہوا۔فلائٹ جدہ سے لندن ڈارکٹ رات میں تھی۔اور
بہت زیادہ خالی تھی ۔ لہذا میں پیچھے کی سیٹ پر جا کے آرام سے سوگیا۔ اور میری
نیند اس وقت کھلی حب جہاز ہیتھرو ایرپورٹ پر پہنچ چکا تھا۔
ہیتھرو
ایرپورٹ دنیا کے عظیم ترین ایرپورٹس میں سے ایک ہے ۔ یہاں پر سالانہ مسافروں کی
آمدورفت دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود ایرپورٹ پر مجھے کلیرنس کروانے میں چندمنٹ سے زیادہ نہیں
لگے۔اور میں جلدی سے باہر آگیا۔ البتہ جس لیڈی ملازمہ نے میرا امیگریشن کیا تھااس نے مجھ سے یہ ضرو رپوچھا کہ کیا تم یہاں
دعوت و تبلیغ کرنے آئے ہو? Have you come here to preach طبعا میں نے
نفی میں جواب دیا اور میں نے کہا کہ میں ریسرچ کرنے آیا ہوں No I have come here for research۔اس کے بعدایرپورٹ سے
باہر نکلا۔ مجھے وہاں کا کچھ بھی علم نہیں تھا۔ میں بالکل نیا تھا۔ہاں انگلش مجھ
کو ضرور آتی تھا۔ لہذا لیٹن جہاں مجھ کو جانا تھا وہاں تک جانے کے بارے میں لوگوں سے معلوم کیا اور پھر
ٹیوب (میٹرو کو بریطانیہ میں ٹیوب کہتے ہیں) پر سوار ہوگیا۔ اور اس طرح
پوچھتے پاچھتے أپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔
بریطانیہ
میں میرا قیام کل دو ہفتہ رہا۔اس میں سے زیادہ تر وقت لندن میں گذرا۔ کیونکہ لندن
میں ہی برٹش لائبریری واقع ہے جو دنیا کہ سب سے بڑی لائبری ہے اور جس کا ایک شعبہ
انڈیا آفس ریکارڈ ہے۔میں نے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور بہت سارے دستاویزات,
کتابیں وغیرہ حاصل کی۔
لندن
کے علاوہ میں نے برمنگھم کا بھی سفر کیا جہاں مرکزی جمیعت اہل حدیث بریطانیہ کا صدر دفتر واقع ہے ۔وہاں سفر کرنے کا میرا
مقصد جمعیت کے عہدیداران سے ملاقات کرنی تھی۔بعد ازاں میں پھر واپس لندن آگیا۔
بریطانیہ
میں جو چیز میرے لیے سب سے زیادہ جاذب نظر تھی اور جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں
کا نظم و نسق, انتہائی تنظیم و ترتیب, اوقات کی پابندی,خوبصورتی , حسن و جمال اور
بے حد صفائی و ستھرائی ہے۔میں لندن میں بہت گھوما , ہوٹل, آفس, گھر, اسٹیشن, بس ,
ٹرین, دکانیں,گلیاں وغیرہ سب کچھ دیکھا لیکن کہیں ایک کوڑا بھی نظر نہیں آیا چہ
جائیکہ وہاں پر کھلی ہوئی نالیاں ہوں۔ یا جگہ جگہ کوڑا کا ڈھیر ہو۔ ان سب کا تو کوئی سوال
ہی نہیں اٹھتا ہے۔میں نے برمنگھم و ریڈنگ کا بھی سفر کیا۔ صرف ریڈنگ میں ایک جگہ
سڑک پر مسمی کا چھلکا نظر آیا۔ سڑکیں انتہائی صاف ستھری, کشادہ اور چوڑی ہیں۔ ان
میں کسی طرح کا کوئی گڈھا نہیں ہے۔حالانکہ وہاں کا موسم ان سب کے لیے بالکل سازگار
نہیں ہے کیونکہ وہ برابر بدلتا رہتا ہے۔بارش اور برفباری بہت ہوتی ہے۔ان سب کے
باوجود اتنی صفائی اور مین ٹیننس (Maintanance) یعنی رکھ
رکھاؤ اور حفاظت واقعی قابل تعریف اور ایک عظیم کارنامہ ہے۔معاف کیجیے گا ایسی
صفائی و ستھرائی اور ایسا رکھ رکھاؤ تو
سعودیہ میں بھی نہیں ہے۔
اسی
طرح وہاں کے محلے انتہائی صاف ستھرے اور منظم ہوتے ہیں ۔ عام طور سے ایک جگہ پر تعمیر شدہ تمام گھر ایک ہی ماڈل,طرز و شکل پر بنے ہوتے
ہیں۔ وہاں کے قانون کے مطابق ہر
چھوٹے بڑے گھر سے لگا ہوا ایک گارڈن ہوتا
ہے۔تقریبا تمام گھروں کی چھتیں مائل ہوتی ہیں تاکہ ان کے اوپر برف نہ جم
سکے۔کیونکہ بریطانیا میں برفباری بہت زیادہ ہوتی ہے۔اور وہ تو بارش اور برفباری کا
ملک ہے۔ وہاں کا موسم بھی برابر بدلتا رہتا ہے۔اسی لیے وہاں پر یہ محاورہ ہے کہ
تین ڈبلیو"W"
ناقابل اعتبار ہیں۔اور وہ Weather ,Work ,Woman یعنی موسم , عورت اور عمل
ہیں۔کیونکہ یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ موسم کا مزاج کب بدل جائے گا۔بیوی کب اپنے شوہر
کو چھوڑ کے دوسرے کے پاس چلی جائے اور ایک
ملازم کب کام چھوڑ کے دوسرے کے پاس کام
کرنا شروع کر دے ۔
لندن
بہت ہی بڑا, کشادہ , کثیرآبادی والا, انتہائی
منظم و مرتب اور خوبصورت شہر ہے۔اس میں بہت زیادہ چھوٹے بڑے کثیر تعداد
میں گارڈن پائے جاتے ہیں۔آثار قدیمہ سے مالامال ہے۔بلند و بالا عمارتیں ہیں۔سڑکوں,
ریلوے اور بسوں کا نہایت ہی عمدہ نیٹ ورک ہے۔ بجلی کی طرح یہاں پر گھر گھر گیس کی
سپلائی ہوتی ہے۔سیوریج کا بہترین انتظام ہے۔یہ پورے یورپ کی راجدھانی بھی کہلاتا
ہے۔یہاں ایک اور چیز ذکر کرتا چلوں کہ بلا
شبہ انگریزوں نے أپنے ملک کو ہر میدان میں خوب زیادہ ترقی دی ۔ اس کو ایک نہایت اعلى ترقی یافتہ ملک بنادیا۔ أپنے شہریوں کو ہر طرح
کی سہولتوں سے نوازا۔ ہر خدمت بہم پہنچائی۔لیکن یہ سب کام انہوں نے انڈیا اور دنیا کے بہت سارے ملکوں کے
ثروت و دولت کو لوٹ کے کیا۔ ایک طرف جہاں
انہوں نے اپنے ملک کو آباد کیا تو دوسری جانب دنیا کے دوسرے ملکوں کو ویران کیا۔
دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا اور تہس نہس کیا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ دنیا کے سب
سے بڑے لٹیرے کل بھی تھے اور آج بھی ہیں۔بس
لوٹنے کی شکل بدل گئی ہے۔اور پوزیشن میں تھوڑی سی تبدیلی آگئی ہے۔ کل وہ پہلے نمبر
پر تھا اور آج امریکہ پہلے نمبر پر ہے۔ لیکن ان کی جو پالیسی کل تھی وہی آج بھی
ہے۔اور آج بھی وہ دنیا کو مل بانٹ کےآپس میں تقسیم کرکے لوٹ رہے ہیں اور دوسروں کی
مال و دولت پر داد عیش دے رہے ہیں۔کل کا زمانہ فوجی غلامی اور ڈارکٹ استعماریت کا
زمانہ تھا اور آج کا زمانہ اقتصادی اور فکری غلامی کا زمانہ ہے۔پوری دنیا خصوصا مسلمان ممالک کو انہوں نے اپنے غلامی و
استعماری پنجوں میں اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ مستقبل قریب میں دنیا اور مسلمان
ممالک کی سیاسی , دینی , ثقافتی, تعلیمی اور فوجی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اس سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے۔لیکن
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو ہر گوشہ سے ترقی دی ہے۔لوگوں کی
انتہائی تربیت کی ہے۔ان کو تعلیم و ثقافت سے مزین کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں کےاکثر
لوگ بھی انتہائی مرتب و منظم ہوتے ہیں۔شاذ
و نادر ہی کوئی قانون کی مخالفت کرتا ہے۔تمام لوگ ٹریفک نظام کی پابندی کرتے
ہیں۔ہر کوئی أپنی آمد کے اعتبار سے پبلک پلیس پر لائن میں لگ جاتا ہے۔کوئی ایک
دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشس نہیں کرتا ہے جیسا کہ سعودیہ, انڈیا اور دیگر تیسری
دنیا کے ممالک میں عام طور سے ہوتا ہے۔اور اس سلسلہ میں میرا خود ذاتی تجربہ
ہے۔میں یہاں پر صرف دو واقعات نقل کر رہا ہوں جو میرے ساتھ پیش آئے۔
1۔
ایک دفعہ میں ایک چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن پر انتظار کررہا تھا۔ ٹکٹ مجھے خریدنا
نہیں تھا کیونکہ میرے پاس ویکلی پاس تھا۔لیکن ٹکٹ خریدنے والے لوگوں کی لائن مجھ
تک پہنچ رہی تھی اور میں لائن سے تھوڑا سا ہٹا ہوا تھا۔ اسی بیچ ایک لیڈی اسٹیشن
پر آئی جو ٹکٹ خریدنا چاہتی تھی لیکن وہ لائن میں لگنے کے بجائے پہلے میرے پاس آتی
ہے اور مجھ سے پوچھتی ہے کہ ?Are you in line کیا آپ لائن میں لگے ہیں؟ اور جب میں اس کو نفی میں
جواب دیتا ہوں تو وہ جاکے لائن میں کھڑی ہوتی ہے۔ یہ ہے دوسروں کے حقوق کا احترام
اور انسانیت کی قدر, یہ ہے اخلاق و کردار جو
ہائے افسوس ہم مسلمانوں کے اندر سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔
2۔
دوسرا واقعہ جو میرے ساتھ پیش آیا وہ یہ
ہے کہ میں ایک دن فجر کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد جا رہا تھا۔مسجد چونکہ سڑک کے
دوسری طرف واقع تھی اس لیے مجھے اسے پار کرنا تھا۔ میں جب سڑک کے کنارے پہنچا تو
کیا دیکھتا ہوں کہ ایک کار تیزی کے ساتھ سڑک پر میری سمت میں آ رہی ہے۔لہذا میں رک
گیا اور انتظار کرنے لگا کہ جب گاڑی گذر جائے تب میں سڑک پار کروں۔ لیکن اس وقت
میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ گاڑی والا سڑک پر کھڑا ہے اور مجھ
کو سڑک پار کرنے کا اشارہ کر رہا ہے۔ اور جب میں نے سڑک پار کر لیا تو وہ وہاں سے
گیا۔ ایسا تیسری دنیا کے ممالک بشول انڈیا
اور سعودیہ میں بہت ہی کم ہوتا ہے۔لوگ کھڑے ہوکر انتظار کرتے رہتے ہیں جب گاڑیاں
ختم ہوجاتی ہیں تولوگ سڑک پار کرتے ہیں۔ گاڑیاں از خود رک جائیں اس کا تصور نا کے
برابر ہے۔چنانچہ یہ میرے لیے ایک نئی چیز
تھی۔ یہ ہے پیدل چلنے والوں کے حق کی رعایت جس کی رعایت ہم مسلمان نہیں کرتے ہیں۔
بریطانیہ
میں سب سے خراب چیز جو مجھے نظر آئی وہ ان کا جنسی بگاڑ
اور زوال ہے۔اس میدان میں وہ شتر بے مہار
کی طرح آزاد ہیں۔ اس پر کوئی اخلاقی و سماجی پابندی نہیں ہے۔ہرجگہ حتى کہ ٹرین,
بسوں ,آفسوں اور پارکوں وغیرہ میں بھی نوجوان جوڑے ایک دوسرے کو گلے لگاتے , بوس و
کنار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔در اصل اب ان کا یہ کلچر بن چکا ہے اور ان کو بتلادیا
گیا ہے کہ یہ کوئی معیوب یا حرا م چیز نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری چیز ہے جو ہر
انسان کا بنیادی حق ہے۔لہذا آپسی رضامندی سے ایسا کیا جاسکتا ہے اور یہ کوئی جرم
نہیں ہے۔بلاشبہ یہ جنسی انارکی اسی تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے۔
اور
یہ چیز اب صرف بریطانیہ تک محدود نہیں ہے
بلکہ اس نے ساری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔اور ایسا منظر تو اب پوری دنیا
میں عام ہورہا ہے ۔ خود انڈیا کے بہت سارے شہروں میں ایسا منظر دیکھنے کو مل رہا
ہے۔ میں نے خود دہلی اور ممبئی میں ایسا دیکھا ہے۔انڈین میڈیا خصوصا سینما کا اس گندگی
کو پھیلانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہے۔
5 التعليقات:
ماشاء اللہ۔۔۔۔ شیخ وہاں کی لائیبریری و کالج کے تعلق سے بھی چند باتیں شئیر دیں،
ماشاءاللہ شیخ صاحب /اللہ تعالی آپ کو مزید توفیق و ترقی دے ۔ یہ سات سمندر پار والا سفر نامہ پہلا سفر نامہ پاکستان سے بھی زیادہ دلچسپ سفر نامہ ہے اور آپ کا ذکر کردہ دونوں واقعات نے مجھ پر گہرا اثر کیا کہ جو صفت مسلمانوں کے اندر ہونی چاہیئے تھی وہ اب غیروں کے اندر پائ جانے لگی اور مسلمان بد اخلاقی کے شکار ہوتے چلے جارہے ہیں ۔اللہ سے دعاءہیکہ وہ ہماری اصلاح کرے( شیخ اکرام الحق, بتاریخ 25 جون 2019 ع بوقت 9:04 ص )