احسان
کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ
ہمارے
سماج و معاشرہ میں بہت سارے غلط خیالات, فاسد تصورات , غیر شرعی أفکار اور غیر اسلامی نظریات پائے جاتے ہیں۔انہیں میں سے ایک غلط تصور و غیر
شرعی نظریہ احسان کے بارے میں ہے۔بالعموم
دیکھا یہ گیا ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بھائی , بہن , رشتہ دار, عزیز و قریب یا کوئی بھی شخص کسی أپنے بھائی , بہن, رشتہ دار, عزیز و قریب یا کسی
فرد کے ساتھ احسان کرتا ہے تو یہ سمجھتا ہے کہ اس نے محسن بہ( جس کے اوپر احسان
کیا گیا) کو أپنا غلام بنا لیا ہے۔ اس کے ضمیر کا سودا کرلیا ہے۔ اس کو خرید لیا
ہے۔ اس کو اس کے تمام معاملات حتى کہ نجی معاملات میں بھی مداخلت کا حق حاصل ہو
گیا ہے ۔ اور جس کے اوپر احسان کیا گیا ہے ضروری ہے کہ وہ اس کے فرمان کے مطابق
چلے ۔وہ أپنی نجی زندگی میں بھی کوئی ایسا
کام نہ کرے جو اس کی مرضی کے مخالف ہو۔اس کی ہاں میں ہاں ملائے۔ اگر وہ غلط کام
کرتا ہے تو اس کی بھی تائیید و حمایت کرے۔وغیرہ ۔
اور محسن بہ بھی سماج و معاشرہ کے ڈر سے ایسا
کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اگر اس نے أپنے محسن کی بات رد کردی تو وہ
احسان کی ضرورت کے باوجود اس کے ساتھ
احسان کرنا بند کردے گا ۔اس کے علاوہ سماج اس کو طعنہ دے گا۔ اس کا جینا محال کر
دے گا۔ لوگ کہیں گے کہ جس نے اس کو پالا پوسا, بڑا کیا ,پڑھایا لکھایا اور اس قابل
بنایا اسی نے أپنے محسن کی کوئی قدر نہیں کی اور اس کی بات رد کردی۔ جس پلیٹ میں کھایا اسی میں سوراخ کردیا وغیرہ
برادران
اسلام : جان لیجیے کہ اگر کوئی ہم میں سے اللہ کے بجائے أپنی کسی ذاتی مصلحت,بدلہ و شکریہ , ریاء و نمود یا کسی اور مقصد و غرض و غایت سے احسان کرتا ہے تو اس کا احسان اخلاص پر مبنی
نہیں ہے اور یہ احسان عدم اخلاص کی وجہ سے ضائع و برباد ہے۔ اسے اس کا ثواب بالکل نہیں ملے
گا۔اور یہ عظیم عمل ضائع ہو جائے گا۔ دنیا
میں اس کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے لیکن آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔
لہذا
اگر ہم کسی کے ساتھ بھی احسان کرتے ہیں تو
ہمیں أپنے اسلاف کی روش أپنانی چاہئیے جیسا اللہ عز وجل قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:و
یطعمون الطعام على حبہ مسکینا و یتیما و أسیرا , انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاء و لا
شکورا (دھر/8-9 ) ترجمہ: وہ لوگ( ابرار )
کھانا کی محبت کے باوجود مسکین, یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں , ہم صرف اور صرف اللہ کی رضامندی کےلیے تم کو کھانا کھلاتے ہیں ۔ ہم
تم سے کوئی بدلہ یا شکریہ نہیں چاہتے ہیں ۔
یہ
تھی ہمارے اسلاف کی روش کہ وہ احسان کے بدلہ میں نہیں چاہتے تھے کہ کوئی ان کا
شکریہ بھی ادا کرے ۔أپنی زبان سے کہے کہ
آپ کا بہت بہت شکریہ۔اتنا سننا بھی ان کو اچھا نہیں لگتا تھا چہ جائیکہ کہ وہ کسی
پر کسی طرح کا دباؤ بنائیں یا اس سے کچھ امید رکھیں۔یا اس کی نجی زندگی میں مداخلت
کریں اور اس پر أپنی مرضی تھوپیں۔ان سب کے
بارے میں تو وہ سوچتے بھی نہیں تھے۔ اور حقیقت میں جب کوئی انسان کوئی بھی عمل صرف اور صرف اللہ کے لیے کرتا ہے تو یقینا اس کی
یہی حالت ہوتی ہے۔ اور وہ لوگوں کے شکریہ سے بھی بے نیاز ہوتا ہے۔کسی صلہ و بدلہ
کی امید کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔
جہاں
ایک طرف محسن کو أپنے اسلاف کی روش أپنانے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف محسن بہ کو بھی أپنے اسلاف کی راہ اختیار کرتے ہوئے اور حدیث نبوی : ( مَنْ صَنَعَ إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا
فَكَافِئُوهُ ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُكَافِئُونَهُ فَادْعُوا لَهُ حَتَّى تَرَوْا
أَنَّكُمْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ) . رواه أبو داود (1672) . وصححه الألباني في صحيح أبي
داود ترجمہ: اگر کوئی شخص تمھارے
ساتھ کوئی بھی قولی یا فعلی بھلائی
کرے تو تم اسے اس کا بدلہ دو , اور اگر تمہیں اس کا بدلہ دینے کی طاقت نہیں ہےتو
اس کے لیے دعائیں کرو یہاں تک کہ تمھارا خیال ہو کہ تم نے اس کا بدلہ دے دیا ہے۔ پر
عمل کرتے ہوئے أپنے محسن کا ممنون و مشکور ہونا چاہیے۔ اس کے لیےبکثرت دعائیں کرنی چاہیے ۔ اس کا ذکر خیر اور اس کی مدد کرنی چاہیے۔ نیک کاموں میں اس کا
تعاون کرنا چاہیے۔اس کے مشورہ کو غور و فکر کے بعد حتى الامکان قبول کرنا چاہیے۔وغیرہ
لیکن
أفسوس کی بات ہے کہ آج کے زمانہ میں محسن
و محسن بہ دونوں أپنے اسلاف کی روش اور شرعی تعلیمات سے ہٹے ہوئے ہیں ۔ جہاں ایک طرف بہت سارے محسنین حقیر دنیاوی و ذاتی غرض و غایت
کے لیے احسان کرتے ہیں ۔اور ان کے پیش نظر وہ تمام چیزیں ہوتی ہیں جن کا تذکرہ
اوپر کیا گیا ہے۔ اور اسی کو احسان سمجھتے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف بہت
سارے محسن بہ بھی أپنے محسن کے حقوق کو فراموش کر دیتے ہیں۔اور اس کو سرے سے بھول جاتے
ہیں۔ ظاہر ہے کہ دونوں صحیح شرعی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں۔
اللہ
سبحانہ و تعالى ہم سب کی اصلاح فرمائے ور صحیح شرعی راہ اپنانے کی توفیق دے۔ آمین۔
0 التعليقات: