روزه کے اغراض و مقاصد

 

بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ: 29-8-1435ھ / 27-6-2014ع

 

 

خطبہ وتحریر: ڈاکٹر اسامہ بن عبداللہ خیاط

امام وخطیب مسجد حرام

 

 

ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

متعاون مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


روزه  کے اغراض و مقاصد

 

ہر قسم کی تعریف اللہ  ہی کے لئے ہے جو مہربان , فیاض اور بہت زیادہ احسان کرنے والا ہے،  ہم اس کی تعریف کرتے ہیں وہ پاک ہے ,کثرت سے عطیہ دینے والا اور قدیم سے احسان کرنے والا ہے، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے, وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے جس نے  اپنے بندوں پر روزہ رمضان اور اس کے قیام کو مشروع کرکے احسان کیا، اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہمارے نبی  اورسردار  محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو اپنے بادشاہ اور حاکم رب کے لئے روزہ رکھنے, نماز ادا کرنے اور قیام کرنے والوں میں سب سے اچھے اور بہتر ہیں، اے اللہ تو اپنے بندہ اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر , ان کی آل واولاد پر, ان کے صحابیوں پر, تابعین پر اور جنھوں نے ان کی احسان کے ساتھ اتباع کی ہے ان سب پر رحمت وسلامتی نازل فرما۔

اما بعد: اللہ کے بندوں اللہ سے خوف کھا‌‎‎‎ؤ، اور اللہ و اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمھیں زندگی بخشنے والی ہے ۔

بندگان الہی : یقینا ایک مسلمان  از حد خوشی اور امید کے ساتھ  رمضان کے مہینہ کا استقبال کرتے ہوئے  یہ یاد کرتاہے کہ وہ اس مہینہ کو غنیمت جانتے ہوئے اس  سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کو‎شش کرے گا ,اور زمین و آسمانوں کے مالک اللہ کی جنت کے باغیچوں میں سب سے بلند درجہ پانے کی کوشش کرے گا، اور اسی کے ساتھ وہ  یہ بھی یاد کرتا ہے کہ روزہ بقیہ فرض عبادات کی طرح ایک فریضہ ہے جس کے مقاصد بہت بلند ہیں اور غرض وغایت نہایت اونچے ہیں، جس کو پا لینے کی تمنا ہر مؤ‎من نفس اور مطمئن دل کو ہوتی ہے تاکہ وہ اللہ کے عطیہ کو پالے, اور جس اجر عظیم اور بہترین وعدہ کا اللہ تعالی نے احسان کرنے والے روزہ داروں سے وعدہ کیا ہے اس کو حاصل کرلے۔

اور چونکہ ایک  انسان کو اس کی انسانیت، اس کے اندر موجود مختلف اسباب و عوامل , اور اس کی فطری عادتیں بسا اوقات اس کو راستہ سے منحرف کردیتی ہیں اور سیدھی راہ سے ہٹا دیتی ہیں، اور کبھی اس کو اللہ کے با اخلاص بندوں کےکارواں سے مل جانے اور نیکوکاروں کے قافلہ میں شامل ہونے سے باز رکھتی ہیں ,اور روحانی بلندی اور ذاتی کمال کو حاصل کرنے کے لئے پوری طرح سے فائدہ اٹھانے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، اسی وجہ سے اس کو ایک ایسے نیک وسیلہ اور سہارا کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے ہاتھ کو پکڑے اور اس کوصلاح و ثابت قدمی  کے اس درجہ تک لے جائے جو اللہ کو مطلوب ہے، اور بلاشبہ اس کا  سب سے کامیاب وسیلہ وذریعہ روزہ ہے کیونکہ وہ  بدی سے نیکی و اچھائی , اور اچھائی سے مزید بہتری اور اس سے افضلیت کی طرف نفسیاتی تبدیلی اور تغیر پیدا کرنے کا سب سے ظاہر وباہر اور مضبوط عامل اور سبب ہے ۔

اور یہ ایک عام تبدیلی ہے جو لوگوں کی دنیاوی تبدیلی  کو بھی شامل ہے, لہذا وہ اکثر لوگوں کو بہترین زندگی کی طرف متوجہ کرتی ہے جس میں خیر، صلاح ، صحیح مسلک اور تقوی کے صفات کی مضبوط پابندی  ، غفلت سے دوری ، جوانی کی نادانی سے پرہیز حسب طاقت وقدر ت نمایاں ہوتی ہے۔

 چنانچہ جب بھی کوئی  انسان مکمل ایک مہینہ  اس اچھی تبدیلی پر عمل پیرا ہوتا ہے تواس کے اندر ایک اچھی عادت مثلا خیر کی محبت اور فضیلت کے طریقوں کاعشق پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ عادت تکرار سے پیدا ہوتی  ہے، اور بلاشک وشبہ اگر کوئی بھی شخص کامل ایک مہینہ سب سے بہتر ودرست راستہ پر چلتا ہے اور بلند ترین پاکیزہ طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کا سب سے مضبوط اور باقی رہنے والا اثر ہوگا اس طرح سے کہ وہ رمضان کا مہینہ ختم ہونے کے بعد بھی اسی راستہ پر چلتا رہے گا، کیونکہ یہی صحیح ودرست طریقہ اس کی عادت ثانیہ اور فطرت بن جائے گی ,اور یہی وہ مطلوبہ تقوی ہے جس کا ایک مسلمان کے لئے لازم پکڑنا  ضروری ہے ,اور واجب ہے کہ  اس کی  ایک عادت بن جائے جس  کے لئے  روزہ  بندہ کو رمضان کے مہینہ میں خصوصی طور پر تیا رکرتا ہے, جس کے نتیجہ میں مسلمان اپنے تقوی کے عہدوپیمان پر قائم رہتا ہے اس سے بھٹکتا نہیں ہے یا برائیوں کی طرف پھسلتا نہیں ہے۔

معلوم ہوا کہ نفوس کو تقوی کے لئے تیار کرنا روزہ کا ایک اہم مقصد ہے، بلکہ یہی عمدہ اور محور ہے جس پر روزہ گردش کرتا ہے او رجس سے اس کا تعلق ہے، اور ایسا روزہ جو بے تقوی ہو اور روزہ دار کی نفسیت سے خالی ہو وہ صرف بھوک والا روزہ ہے جس سے فرض تو ادا ہوجائیگا کیونکہ اس کو دوبارہ  روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جائیگا لیکن وہ تقوی کے دائرہ سے باہر ہوگا اور نہ  ہی اس کو روزہ کی حقیقت کا  احساس ہوگا، بلکہ وہ  صرف اس کی ظاہری شکل وصورت اور منفی پہلو کو ادا کرنے والا ہوا ،لہذا  اللہ تعالی فرماتا ہے : [ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﭧ ﭨ ﭩ ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ   ] اے ایمان والوں تمہارے اوپر روزہ فرض کیا گیا جیسا کہ تم سے پہلے والوں پر فرض کیا گیا تاکہ تم لوگ متقی وپرہیزگار بن جاؤ(بقرہ/183)۔

اللہ تعالی نے اس آیت کے شروع میں مومنوں کو خطاب کیا ہے اور اس کو تقوی پر ختم کیا ہے، اور ایمان و تقوی کے درمیان بہت ہی قریبی اور مضبوط تعلق ہے کیونکہ ایمان  خیرو بھلائی کی بنیاداور فضائل کا سرچشمہ ہے جبکہ تقوی ایمان کی روح , اس کا ستون اور کامیابی کا راز ہے، نیز شروع وآخری آیت میں ایمان اور تقوی کے درمیان جمع کرنے میں یہ احساس دلانا ہے کہ روزہ کا مقصد ایمان کی طرف رغبت دلانے  والی چیزوں کے درمیان  مثلا اچھائیاں ، شخصیت اور روحانیت کو مکمل کرنے والی چیزیں  اور تقوی کے اسباب و عوامل کے درمیان  مثال کے طور پر اللہ تعالی کی کامل نگرانی، اس سے خوف اور اس کے علاوہ سے بے رغبتی وغیرہ ان دونوں کے درمیان جمع کرنا ہے، اس طرح سے  ایک روزہ دار روزہ کے منفی مظہروں مثال کے طور پر پیٹ اور شرمگاہ کی خواہشات سے رک جانا, اور اس کی مثبت حقیقتوں جیسے اچھائیوں پر چلنا، سیدھی راہ اپنانا , بہترین ہدایت والا راستہ اختیار کرنا ان دونوں کے درمیان جمع کرتا ہے، لھذا  نہ وہ شور وشغب کرتا ہے,نہ ہی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ہی کسی سے گالی گلوج کرتا ہے ، اوریہی وہ چیز ہے جس  کی طرف ہمارے نبی نے اپنے اس قول میں  رہنمائی فرمائی ہے کہ روزہ ڈھال ہے , لہذا جب تم میں سے کوئی روزہ ہو تو وہ گالی گلوج نہ کرے, شور و شغب نہ کرے, اور اگر کوئی اس کو گالی دیتا ہے یا اس سے لڑائی جگھڑا کرتا ہے تو وہ  اس آدمی سےکہ دے کہ میں روزہ ہوں , اس حدیث کو بخاری و مسلم نے اپنی صحیح کتابوں میں  حضرت ابو ہریرہ سے روایت کیا ہے, اور اپنے اس قول میں رہنمائی فرمائی ہے کہ جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا اور پانی چھوڑ دے، اس حدیث کو بخاری نے ابوہریرہ سے روایت کیا ہے, اور ایک دوسری روایت میں ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بہت ایسے روزہ دار ہیں جن کا نصیب ان کےروزہ سے صرف بھوک اور پیاس ہے, اور بہت سے ایسے قیام کرنے والے ہیں جن کا نصیب ان کے  قیام سے صرف شب بیداری ہے۔ اس کو امام احمد نے اپنی مسند میں اور ابن ماجہ ودارمی نے اپنے سنن میں صحیح سند سے روایت کیا ہے۔

اور اس کی وجہ یہ ہے جیسا کہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صرف جائز اور حلال چیزوں کو چھوڑکے اللہ سے قربت ونزدیکی کی تکمیل نہیں ہوگی مگر جب تک کہ ہرحالت میں حرام چیزوں جیسے جھوٹ، ظلم اور لوگوں پر ان کے خون، مال اور عزت پر زیادتی وغیرہ کو چھوڑکے اس سے قربت نہ حاصل کی جائے، اسی وجہ سے جو حرام چیزوں کا ارتکاب کرتا ہے پھر حلال وجائز چیزوں کو چھوڑکے تقرب حاصل کرتاہے ,تو اس کی مثال ایسے ہی ہے جو فرائض کو چھوڑ کے نوافل سے تقرب حاصل کرتا ہے، اگر چہ جمہور کے نزدیک اس کا روزہ کافی ہے کیونکہ اس کو دوبارہ روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا جائے گا۔

یہی وجہ ہے کہ اگر روزہ دار اللہ اور اس کے رسول کے بتلائے ہوئے طریقہ کے مطابق روزہ رکھتا ہے تو وہ اپنے اس روزہ کی وجہ سے  روزہ دار وہ بہترین بدلہ پائے گا جس کا وعدہ اللہ نے محسنین سے کیا ہے، جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نےفرمایا: کہ بنو آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے, ایک نیکی کا بدلہ دس سے لے کر سات  سوگنا تک ہے, اللہ نے فرمایا مگر روزہ، یقیناوہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دونگا، بلاشبہ اس نے اپنی شہوت، کھانا پینا صرف میری وجہ سے چھوڑا، روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت  ہوتی ہے, دوسری خوشی اللہ سے ملاقات کے وقت ہوگی، اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے۔

بندگان الہی:اور روزہ کو اللہ تعالی کا اپنے ساتھ خاص کرنے کی وجہ جیسا کہ اس حدیث کے بارے میں اہل علم نے لکھا ہے کہ نفس کے حظوظ  اور اصل خواہشات کو جن کی طرف میلان اس کی فطرت ہے صرف اللہ کے لئے چھوڑدینا  ہوتا ہے، چنانچہ جب نفس کی رغبت اس کی خواہشات کی طرف شدید ہوجاتی ہے, اور اس کو اس پر قدرت بھی حاصل ہوتی ہے ,پھر وہ اس کو صرف اللہ کے لئے ان جگہوں پر بھی چھوڑ دیتا ہے جہاں اللہ کے سوا اس کو کوئی دیکھتا نہیں ہے, تو یہ اس کے صحیح ایمان کی دلیل ہے کیونکہ روزہ دار یہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو خلوت وتنہائی میں بھی اس کو دیکھ رہا ہے, اور اسی نے اس کے اوپر حرام کردیا ہے کہ وہ تنہائی میں بھی اپنی ان خواہشات  کو پوری کرے جس کی طرف میلان اس کی فطرت ہے, لہذا اس نے اپنے رب کی اطاعت کی اور اس کا حکم بجالایا ,اور اس کے عذاب کے ڈر سے اور اس کے ثواب کی رغبت میں اس کی روکی ہوئی چیزوں سے بچا تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی اس سے راضی ہوا، اور تمام اعمال کے درمیان سے اس کے اس عمل کو اپنے لئے خاص کرلیا۔

اے اللہ کے بندوں: اسی طرح روزہ کے مقاصد میں سے ایک نفسوں پر آسانی کرنا ,ان کو رواداری پر تربیت دینا اور اس کو مشقت وتکلیف سے دور رکھنا ہے, اور یہی اسلام کی خوبی ہے جس سے وہ موصوف ہے اور اپنے علاوہ سے جدا گانہ ہے, اور روزہ میں آسانی کے نمایاں مظاہر میں سے یہ ہیں :سورج کے غروب ہوتےہی افطار ی میں جلدی کرنے کا حکم دینا، سحری میں تاخیر اور اذان فجر تک سحری کھانے کی اجازت دینا، اور جو بھول کر روزہ کے دوران کھاپی لے تو نہ اس پر قضاء ہے اور نہ  ہی کفارہ، اسی طرح بیمار اور مسافر کو روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے تاکہ وہ مشقت میں نہ پڑیں، نیز حیض ونفاس والی عورتوں کے لئے بھی روزہ رکھنا منع ہے اور وہ بعد میں قضاء کریں گی۔ اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزہ نہ رکھنے کی چھوٹ ہے لیکن وہ بعد میں قضاء کرےگی، اور اگر کوئی انسان مرد یا عورت بہت زیادہ بوڑھا ہے یا کوئی ایسا بیمار ہے جس کے شفاء کی امید ہی نہیں ہے تو ایسے تمام لوگوں کے حق میں روزہ معاف ہے کیونکہ روزہ رکھنا ان کے لئے بہت مشکل ہوگا, ان کے لئے ہر روزہ کے بدلہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔

اس کے علاوہ آسانی کی اور بھی  بہت ساری صورتیں وشکلیں ہیں جو روزہ اور اس کے علاوہ عبادات میں نمایاں وواضح ہیں, جن  میں  دین کی مصلحتیں اکٹھا ہوجاتی ہیں ,اورجن کے ساتھ دنیا کے مقاصد بھی نام نہاد پادریوں کے ترک دنیا اور مادہ پرستوں کے اکسانے وبہکاوے سے دور ہوکر میل کھاتے واتفاق کرتے ہیں، ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: [ﯗ ﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ ﯞ ﯟ ﯠ ﯡ ﯢ ﯣ ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ   ] اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا  چاہتاہے۔ وہ تمہارے ساتھ سختی نہیں کرنا  چاہتاہے ، تاکہ تم لوگ عدد مکمل کرو, اور اس کی ہدایت پر اللہ کی بڑائی بیان کرو, اور تاکہ تم شکریہ ادا کرو(بقرہ/185)۔

اللہ ہمیں او ر تم لوگوں کو اپنی کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی کی سنت سے فائدہ پہونچائے، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور میں اپنے لئے اور تم لوگوں کے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر گناہ سے اللہ عظمت وجلال والے سے مغفرت طلب کرتا ہوں، بلاشبہ وہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ:

یقینا ہر طرح کی تعریف اللہ تعالی ہی کے لئے ہے, ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں, اسی سے مدد چاہتے ہیں, اسی سے مغفرت طلب کرتے ہيں ,اور ہم اللہ کے واسطہ سے اپنی نفسوں کی برائیوں اور اپنی بداعمالیوں سے پناہ مانگتے ہيں، جس کو اللہ ہدایت دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے, اور جس کو گمراہ کرد ے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے, وہ اکیلا ہے, اس کا کوئی شریک نہیں ہے ,او رمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندہ اور رسول ہیں, اللہ تعالی آپ پر , آپ کے اہل وعیال اور آپ کے اصحاب پر بہت زیادہ رحمت وسلامتی بھیجے۔

امابعد: بلاشبہ روزہ روزہ دار کے اندر چھپی ہوئی بھلائی  اور خیر کے جذبات اور کمال کے ملکہ کو بیدار کرتا ہے ,اور روزہ دار  کو ایسی راہ کی طرف لے جاتاہے جس میں  وہ بہت زیادہ برائی کا حکم دینے والی اپنی نفس پر بریک لگا دیتا ہے,نیز بدی اورشر کی عادتوں، برائی کےمظہروں اور گناہوں کے اسباب پر لگام لگادیتا ہے، لہذا نہ تو وہ بازو کے توڑے جانے  یعنی  ستائے جانے یا گالی دئیے جانے یا زیادتی کئے جانے کی صورت میں شور وہنگامہ کرتا ہے نہ ہی گالی گلوج کرتا ہے نہ جدال و تکرار کرتا ہے۔

جبکہ صبر اور ادائیگی واجب کی راہ میں پختہ عزم اور قربانی،  شفقت،  مہربانی، ہمدردی , مجبور کی حاجت وضرورت کا احساس اور اس کے علاوہ خیر کی دوسری عادتیں اور بھلائی کی دوسری خصلتیں یہ سب کے سب روزہ  میں معاون  اور مدگار ہوتی  ہیں بلکہ یہ روزہ کی ستون اور اس کا مرکزی نقطہ ہیں، اور ان کو چھوڑ کے ایک روزہ دار نفس کے تزکیہ  اور اس کی پاکیزگی کا جو اعلی ترین مقصد ہے اس سے بہت دور ہوجاتا ہے, اور اس کا روزہ ایک مشینی  روزہ ہوجاتا ہے, اور صرف ایک رسم ورواج بن جاتا ہے جس کو  ادا کیا جارہا ہے, اور ایک شکل و منظر کی صورت اختیار کر لیتا  ہے جو کسی مقصد تک نہيں پہونچاتا ہے ,اورجس کا اصلاح وسدھار اور شخصیت  کونکھارنے  و چمکانے میں کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔

اس طرح سے ہمیں دونوں خوشیوں کو حاصل کرنے کے  طریقہ اور  وسیلہ کا پتہ چل گیا جن دونوں خوشیوں کی بشارت نبی  کریم نے اپنے اس حدیث میں دی ہے کہ روزہ دار کے لئے دوخوشیاں ہیں ایک خوشی افطار کے وقت کی ہے اور دوسری خوشی اللہ تعالی سے ملاقات کے وقت ہوگی۔

کیونکہ یہ دونوں خوشیاں اس فریضہ کو ادا کرنے کی خاطر محنت و مشقت کرنے ، صبرکرنے,  نفسانی خواہشات پر غلبہ وقابو پانے, نفس کو اس پرآمادہ کرنے ، اس فریضہ کی وجہ سےعائد ہونے والی  پابندیوں  اور  مکملات کو ادا کرنے  , اس فریضہ کی ادائیگی میں روزہ دار کا  روزہ سے متعلق بدی,  فساد اور قبیح چیزوں سے الگ رہنے,  زبانی غلطیوں اور بکواس سے دور رہنے کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔

اے اللہ کے بندوں:اللہ سے ڈرو , رمضان کا مہینہ درحقیقت آچکا ہے جو برکت , مغفرت اور جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے, اللہ تعالى تم کو اس مہینے میں ڈھانپ لیتا ہےچنانچہ اس کی رحمت اس ماہ میں نازل ہوتی ہے, گنا ہ معاف کئے جاتے ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں, اور اللہ اس مہینے میں تمھاری  آپسی منافست اور  مقابلہ  کو دیکھتا ہے, اور تمھارے سبب اپنے فرشتوں پر فخر کرتا ہے, لہذا اے خیر و بھلائی کا متلاشی توجہ کر اور آگے آ جبکہ اے  بدی اور شر کا راغب کوتاہی کر اور پیچھے ہٹ۔

 لہذا  تم سب اللہ کو اپنی جانب سے خیر ہی پیش کرو, کیونکہ یقینا وہ بد بخت ہے جو اس ماہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا,اور تم اس مہینے میں سب سے اعلی مقصد اور سب سے با شرف غرض اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے ماہ رمضان کے روزہ ,اس کے قیام اور خیر و بھلائی کی خصلتوں میں محنت کرنے کو اپنا سب سے بہتر ہتھیار اور سامان بنا  لو ۔

اور اب اللہ کے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجو کیونکہ تمہیں اس کا حکم اللہ کی کتاب میں دیا گیا ہے، فرمان باری تعالی  ہے : یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے ایمان والوں تم بھی اس پر درود وسلام بھیجو۔

اےالله تو  اپنے بندہ اور رسول محمد پر رحمت و سلامتی نازل فرما، اے اللہ تو آپ کے چاروں خلفاء ابوبکر، عمر و عثمان و علی, آپ کے تمام اہل وعیال , اصحاب کرام, تابعین اور جو بھی ان کی احسان کے ساتھ قیامت تک اتباع کرنے والے ہیں ان سب سے راضی ہوجا، اور ہم سے بھی ان  کے ساتھ اپنی عفو و درگذر ، مہربانی اور احسان کی وجہ سے راضی ہوجا۔

اے اللہ تو اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا کر۔.............

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: