بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ
بتاریخ:
28-9-1435ھ/
25-7-2014ع
خطبہ
وتحریر:ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
امام
وخطیب مسجد حرام وڈین فیکلٹی آف جوڈیشیل و سسٹم اسٹڈیز،ام القری یونیورستی،مکہ
مکرمہ
ترجمہ:
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
متعاون
مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ
ماہ
رمضان:عبرت وموعظت
پہلا خطبہ:
سب تعریف اللہ کے
لیے ہے،اس کی عظمت اور بڑائی کی وجہ سے جو جلال میں تنہا اور کامل جمال والا ہے،جو
تقدیر وتدبیر کے لحاظ سے حالات میں اجمالی وتفصیلی طور پر اکیلا تصرف کرنے والا
ہے،جو اپنی عظمت اور بزرگی کے لحاظ سے بڑا اور برتر ہے اور جس نے اپنے بندے پر
فرقان یعنی قرآن نازل فرمایا تاکہ دنیا والوں کو ڈرائے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ
کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میں گواہی
دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،اس کے منتخب بندے اور خلیل
ہیں،اس کی مخلوق میں سب سے بہتر اور افضل ہیں،اللہ کی رضا کے لیے نماز پڑھنے اور
قیام کرنے والوں میں سب سے اچھے ہیں اور اس کے لیے حج کرنے اور روزہ رکھنے والوں
میں سب سے افضل ہیں۔اللہ کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ پر،آپ کی نیک اور پاکیزہ آل
واولاد پر،آپ کے بابرکت اور درخشاں صحابیوں پر اور جو بھی قیامت تک ان کی اتباع
کرے،ان سب پر سلامتی ہو۔
امابعد:اے
لوگو!میں پہلے اپنی ذات کو اور پھر آپ سب کو اللہ کے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں کیوں
کہ تقوی ہی سفر آخرت سے پہلے کا توشہ ہے،آرام کرنے کے وقت کا سایہ ہے،اسی کے ذریعے
انسان کے نفس کا تزکیہ ہوتا ہے،پھر نہ وہ گمراہ ہوتا ہے اور نہ ادھر ادھر مائل
ہوتا ہے۔فرمان الٰہی ہے:”تم سے پہلے ہم نے جن کو کتاب دی تھی،انھیں بھی یہی نصیحت
کی تھی اور اب تمھیں بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو۔“
اللہ کے
بندو!یقیناً سب سے کوتاہ وقت فنا ہونے کے اعتبار سے زندگی ہے،اگرچہ وہ کتنی ہی
لمبی کیوں نہ ہو،چیزوں میں سب سے زیادہ قریب وقت ہے۔وقت فنا ہونے کا اشارہ ہے،غیر
جانب دار ہے اور دوبارہ واپس نہیں آتا،اس میں دن بادل کی طرح گزرتے ہیں،جس میں
اللہ رات کو دن پر ڈھانپ لیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے۔اللہ نے
اپنی دائمی اور باقی رہنے والی نعمت کے سوا ہر چیز کے لیے فنا اور خاتمہ مقدر
کردیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:”اور سورج وہ اپنے ٹھکانے کی طرف چلاجارہا ہے،یہ زبردست
علیم ہستی کا باندھا ہوا حساب ہے اور چاند اس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں
یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی ٹہنی کی طرح رہ جاتا ہے۔“(یس:۳۸۔۳۹)
اللہ کے بندو!ابھی
کل کی بات ہے،ہماری زبانیں ماہ رمضان کی آمد پر خوشیوں کا اظہار کررہی تھیں۔لیکن
پورا مہینہ چند گھڑیوں کی مانند لگا اور وہ تیز ہوا کی طرح گزر گیا۔اس کے گزرنے
جانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے کوئی چیز تھی ہی نہیں اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ
اس کی جدائی کے آنسو ہمارا گلا گھونٹ رہے ہیں اور اس کے فراق کے آنسو ہمارے
رخساروں پر رواں ہیں۔اللہ کی قسم!محبوب کی جدائی کس قدر شاق ہے اور دل اپنے اس
مہمان کے رخت سفر باندھنے پر کس قدر مغموم ہے جو اپنی سواری پر بیٹھا اجازت کا
طالب ہے اور ہم نہ چاہتے ہوئے بھی اسے اجازت دینے پر مجبور ہیں،کوئی ایسا حیلہ
نہیں کہ اسے اپنے یہاں روک سکیں۔
اے مسلمانو!ہم نے
ایک ایسا مہینہ گزارا جو سکون واطمینان سے لبریز تھا،ایک ایسا مہینہ جس میں مومنوں
کی روح میں بلندی پیدا ہوئی،انھوں نے اپنے روزوں،اپنی نمازوں اور تلاوت قرآن کے
ذریعے اللہ سے انس ومحبت اور اس سے قربت میں ترقی کے مدارج طے کیے اور ان کے دلوں
میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش پورا سال ہی رمضان کا ہوتا۔رمضان کی راتیں بلاشبہ
دلوں کو جلادینے والی راتیں ہیں،دنیا کے غموں کو دور کرنے والی راتیں ہیں،دنیا کی
پریشانیوں اور مشکلات سے نجات دینے والی راتیں ہیں،تلاوت قرآن کی راتیں ہیں اور آپ
کو کیا پتا کہ قرآن کیا ہے؟یقیناً وہ ہمارے رب کا کلام ہے،اس میں پہلے لوگوں کی
خبریں ہیں،بعد والوں کی باتیں ہیں،وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرنے والا ہے،وہ حق
ہے،مذاق نہیں ہے جس کسی نے قرآن کو ظلم وسرکشی سے چھوڑ دیا تو اللہ اس کی کمر توڑ
دے گا اور جس نے اسے چھوڑ کر عزت پانے کی کوشش کی،اللہ اسے ذلیل کردے گا۔اس بابرکت
ماہ کی راتوں میں قیام اللیل کے دوران مجمع عام میں کلام اللہ کی تلاوت کی گئی جس
نے مسلمانوں کے کان عبرت وموعظت سے بھردیے۔تلاوت کے دوران کئی طرح کے مضامین قیام
اللیل کرنے والوں کے سامنے آئے مثال کے طور پر آسمان وزمین کی تخلیق،جنتیوں کا جنت
میں داخلہ اور جہنمیوں کا جہنم میں جانا،گزشتہ قوموں کے حالات وواقعات،ان میں سے
بعض کو ملنے والی سزائیں،دنیا میں اللہ کی اطاعت کرنے والوں کو انعام اور اس کی
نافرمانی کرنے والوں کو عذاب وغیرہ۔اللہ کا ارشاد ہے:”اے نبی!ہم اس قرآن کو تمھاری
طرف وحی کرکے تم سے واقعات اور حقائق بہترین پیرایے میں بیان کرتے ہیں،ورنہ اس سے
پہلے آپ ان باتوں سے بالکل ہی بے خبر تھے۔“(یوسف:۳)
برادران
اسلام!گنتی کے چند دنوں کا رمضان کا بابرکت مہینہ گردش لیل ونہار کی وجہ سے ختم
ہوگیا۔اگر کسی نے رمضان کے گزرے ہوئے دنوں میں کوتاہی کی ہے اور غلطی کی ہے تو اب
اس سے بڑی غلطی یہ ہوگی کہ وہ آنے والے دنوں میں غلطی کرے۔اے اللہ کے بندے! غور
کر،تیرا معاملہ رمضان کے ساتھ کس طرح کے لوگوں جیسا ہے؟کیا تیرا شمار ان لوگوں میں
ہے جنھوں نے اس ماہ میں اپنی ذات پر ظلم ڈھائے یا تو ان لوگوں میں سے ہے جنھوں نے
میانہ روی اختیار کی اور اللہ کے حکم سے نیکی اور بھلائی کے کاموں میں سبقت کی۔اگر
تونے رمضان میں قرآن سے نصیحت نہیں حاصل کی تو پھر کس چیز سے نصیحت حاصل کرے
گا،اگر تو نے رمضان کے مدرسے سے کسب فیض نہیں کیا تو پھر کس مدرسے سے کسب فیض کرے
گا،اگر تونے رمضان میں صدقہ وخیرات نہیں کیا تو پھر کب صدقہ وخیرات کرے گا۔خبردار
اے اللہ کے بندے!تجھے معلوم ہونا چاہئے یہ بابرکت مہینہ تمھارے حق میں گواہی دے گا
یا تمھارے خلاف گواہی دے گا۔ایسی حالت میں تم اس کی باقی راتوں میں کیا کرنے والے
ہو۔ارشاد ربانی ہے:”کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں کوئی شخص کہے کہ افسوس میری اس
تقصیر پر جو میں اللہ کی جناب میں کرتا رہا۔“(الزمر:۵۶)
ہائے افسوس!انسان
نے کس طرح اپنے آپ کو ضائع اور برباد کردیا اگر اس نے رمضان کو ضائع کردیا۔حیلہ
بازیوں اور ٹال مٹول نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا،توبہ کرنے سے غافل رہا یہاں تک
کہ اس نے دیکھا کہ اس کے خیمے کی رسیاں کھولی جارہی ہیں ہماری غفلت اور سستی کے
عالم میں اس کے سائبان سمیٹے جارہے ہیں۔ہمارے گلے میں جو آج اس کی جدائی اور رخصت
کی پھانس لگی ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ لوٹ کرنہیں آئے گا
بلکہ ماہ رمضان یقینی طور پر دوبارہ لوٹ کر آئے گااور قیامت تک یہ بابرکت سلسلہ
جاری رہے گا لیکن گلے کی پھانس اس آدمی کے لیے ہے جسے یہ نہیں معلوم کہ رمضان جب
دوبارہ آئے گا تو وہ اسے پانے کے لیے دنیا میں موجود بھی رہے گا یا اس سے پہلے رخت
سفر باندھ چکا ہوگااور دنیا میں صرف اس کی خبریں اور نشانیاں باقی رہ جائیں
گی۔اللہ کی قسم!وہ شخص کتنا بدبخت ہے جس نے خود کو باب ریان سے محروم کردیا اور
اللہ کی قسم!وہ شخص کتنا بدبد نصیب ہے جو نبی اکرم ﷺ کی آمین کا مصداق بن گیا جب
آپ سے جبریل نے کہا کہ اس آدمی کی ناک خاک آلود ہوجسے رمضان کا مہینہ ملا لیکن اس
کی مغفرت نہ ہوسکی۔جبریل کی اس بات پر نبی اکرم ﷺ نے آمین کہا۔
اے لوگو!بلاشبہ
تمھارا یہ مہینہ رخصت ہونے والا ہے اور اس ماہ کے چند ایام جو باقی بچے ہیں وہ بھی
پلک جھپکتے گزر جائیں گے کیوں کہ سوجھ بوجھ رکھنے والا ہرشخص جانتا ہے کہ یہ سایے
کی پرچھائیں کی طرح ہے جو کو آنکھیں مکمل دیکھتی ہیں لیکن وہ جلد ہی سکڑ جاتا
ہے،دیکھنے میں یہ بڑا نظر آتا ہے لیکن بہت جلد وہ کم ہوجاتا ہے۔مہینے کے یہی آخری
ایام ہی شہ سواروں کے لیے اصل میدان ہیں،ان ایام میں مسابقت مطلوب ہے اور جنت کا
انعام ان کے اختتام ہی پر رکھا گیا ہے۔یہ بات ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ منزل قریب
آنے پر گھوڑوں کی رفتار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ایک صاحب توفیق اور کامیاب بندے کو
معلوم ہے کہ حسن خاتمہ،آغاز کی کوتاہی کی تلافی کردیتا ہے۔اے اللہ کے بندے!تجھے
کیا خبر کہ شاید تیرے عمل کی برکت تیرے آخری کام میں پوشیدہ ہو کیوں کہ اعمال کا
دارومدار خاتمہ پر ہے۔کتنے لوگ ایسے ہیں جن کو مشک کی خوشبو اس کے ختم ہونے پر
ملی۔افسو اس گنہگار پر جس نے ماہ رمضان میں توبہ نہیں کی،بربادی ہے اس جنت کے طلب
کرنے والے پر جس نے رمضان کا مہینہ غفلت میں گزار دیا،ہائے جہنم کے بھاگنے والے پر
جو ماہ رمضان میں سوتا رہا۔ارشاد ربانی ہے:”جو لوگ دوسروں پر بازی لے جانا چاہتے
ہوں وہ اس چیز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔“(المطففین:۲۶)
اے اللہ کے
بندو!خبردار،صرف اللہ سے ڈرو اور اے روزہ دارو اور قیام کرنے والو!موت سے پہلے عمل
کرو اور دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اللہ کے مطیع اور فرماں بردار بن جاؤ۔کیوں کہ
فرمان الٰہی ہے:”وہ دن ہوگا جب تم پیش کیے جاؤ گے ،تمھارا کوئی راز بھی چھپا نہ رہ
جائے گا۔“(الحاقہ:۱۸)
یاد رکھو!ہمارے
اور جنت وجہنم کے درمیان صرف ایک ہی چیز حائل ہے اور وہ ہے ہماری موت۔ایک ایسا
مقصد جس کے پورا ہونے میں صرف اسی لمحہ یعنی موت کی کمی ہے۔موت زندگی کو بہت مختصر
کردینے والی ہے خواہ وہ کتنی لمبی کیوں نہ ہو۔اسی لیے اس شخص پر اللہ کی رحمت نازل
ہو جس نے توبہ کو مقدم رکھا اوراپنی شہوت کو کنٹرول کیاکیوں کہ موت کاوقت اسے نہیں
معلوم۔اس کی آرزو اسے فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔موت اور آرزو کے درمیان اگر کوئی
ہے تو وہ شیطان ہے جو اس کے لیے گناہوں کو خوبصورت بناکر پیش کرتا ہے تاکہ وہ ان
کا مرتکب ہو اور پھر اسے توبہ کی امید دلاتا ہے لیکن اسے ٹال مٹول کرنے پر آمادہ
کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:”وہ ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انھیں امیدیں
دلاتا ہے مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فريب کے کچھ بھی نہیں ہیں۔“(النساء:۱۲۰)سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان
کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی مغفرت کا وعدہ کیا ہے جس کا خیال ہے کہ عزیر
اللہ کے بیٹے ہیں،جس کا گمان یہ ہے کہ اللہ فقیر ہے،جس کا تصور ہے کہ اللہ کے ہاتھ
بندھے ہوئے ہیں اور جس کا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تین میں سے تیسرا ہے۔اللہ ان سب کو
مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ:”یہ لوگ اللہ سے توبہ کیوں نہیں کرتے اور اس سے مغفرت
کیوں نہیں طلب کرتے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“(المائدۃ:۷۴)
دوسرا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف
صرف اللہ کے لیے ہے اور درود وسلام ہو اس پر جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔وبعد:
اللہ کے بندو!اللہ
سے ڈرو اور یاد رکھو!اب تم بابرکت عید کے بہت قریب پہنچ چکے ہوجس میں تم روزوں کی
گنتی مکمل کرنے کے بعد اللہ کی بڑائی بیان کروگے۔عید تمھارے لیے اللہ کی طرف سے
وسعت اور کشادگی ہے جس میں اس نے تمھارے لیے خوشی اور مسرت منانا جائز قرار دیا
ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ عید کی خوشی اللہ کے غضب کا باعث نہ ہو،ایسی خوشی جو کفران نعمت
نہ ہو اور کبروغرور اور اکڑ سے پاک ہو۔کیوں کہ اللہ نے اس شخص کی مذمت کی ہے جس کی
خوشی کفران نعمت اور فخروغرور سے عبارت ہو۔اللہ کا ارشاد ہے:”اللہ اترانے والوں کو
پسند نہیں کرتا ہے۔“(القصص:۷۶)۔ایک
سچا مسلمان جب خوشی مناتا ہے تو اس کی خوشی متقیوں جیسی ہوتی ہے،جو ظلم
وزیادتی،کجروی اور گمراہی سے پاک ہوتی ہے۔اللہ کو ناراض کرنے والی خوشی اگر کسی
ایسے شخص کی طرف سے ہو جس نے رمضان میں اللہ کا حق ادا کیا ہے تو یہ عمل کسی
شکرگزار کا نہیں ہوسکتا ہے اور اگر کسی ایسے کی طرف سے ہو جس نے رمضان میں کوتاہی
کی ہے تو یہ عمل کسی ایسے انسان کا نہیں ہوسکتا جو اللہ سے ڈرنے والا ہو۔
غور سے سنو!اللہ
آپ سب کی نگہبانی فرمائے،تمھارے کچھ بھائیوں پر گھمسان کی جنگ مسلط ہے،جس کی وجہ
سے ممکن ہے کہ وہ عید کی خوشیاں بھول جائیں۔وہ عید کی خوشیاں کیوں کر مناسکتے ہیں
جب کہ انھیں کوئی کپڑا پہنانے والا نہیں،انھیں عید کی خوشی کیسے میسر آسکتی ہے جب
کہ انھیں کوئی کھانے کھلانے والا نہیں۔عید کی انھیں کیسی خوشی جب کہ ان کے یتیموں
پر کوئی دست شفقت پھیرنے والا نہیں۔جن ماؤں کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے شہید
کردیے گئے،کوئی غم خوار ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں۔سنو!ہمارے لیے ضروری ہے کہ
ہم سب اپنے مال،جذبات اور اپنی دعاؤں سے ان کا ساتھ دیں کیوں کہ رحم کرنے والوں پر
اللہ بھی رحم فرماتا ہے۔
اللہ آپ سب پر رحم
فرمائے!یہ بھی یاد رہے کہ اللہ نے تم پر صدقہ فطر کو فرض کیا ہے جو تمھارے روزوں
کو پاک صاف کردینے والا ہے۔اس کی مقدار تین کلو گیہوں،پنیر،کھجور،کشمش یا جو ہے جو
ہر مسلمان مرد،عورت،آزاد غلام اور چھوٹے بڑے پر فرض ہے۔ہمارے نبیﷺ صدقہ فطر نماز
عید سے پہلے ادا فرمادیا کرتے تھے جب کہ
بعض صحابہ اسے عید سے ایک دودن پہلے ادا کردیا کرتے تھے۔اللہ کا ارشاد ہے:”اللہ
تعالیٰ کا ارادہ تمھارے ساتھ آسانی کا ہے،سختی کا نہیں،وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی
پوری کرلواور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اور اس کا
شکرکرو۔جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں توآپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی
قریب ہوں،ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ مجھے پکارے،قبول کرتا ہوں،اس لیے
لوگوں کو بھی چاہئے کہ وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں،یہی ان کی
بھلائی کا باعث ہے۔“(البقرۃ:۱۸۵۔۱۸۶)
اللہ آپ سب پر رحم
فرمائے۔درود بھیجو حوض کوثر اور شفاعت کبری کے حامل محمد بن عبداللہ پر جو ساری
مخلوق میں سب سے افضل اور پاکیزہ ہیں۔اللہ نے تمھیں اسی کام کا حکم دیا ہے جس کی
ابتدا اس نے اپنی ذات سے فرمائی ہے اور پھر اپنے ان فرشتوں کا جس کا حکم دیا ہے جو
اس کی پاکی کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور اے مومنو!جانتے ہو وہ کیا ہے؟اللہ جل وعلا
نے فرمایا:”اے ایمان والو!نبی پر درود وسلام بھیجو۔“(الاحزاب:۵۶)
اے اللہ!درود
وسلام نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد پر جو روشن چہرے اور منور پیشانی والے
ہیں۔اے اللہ!تو راضی ہو آپ ﷺ کے چاروں خلفاء ابوبکر،عمر،عثمان اور علی سے اور اپنے
نبی محمد کے دیگر تمام صحابہ سے،تابعین عظام سے اور ان تمام حضرات سے جو قیامت تک
اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی اختیار کریں۔ان کے ساتھ ساتھ اپنے عفوودرگزراوراپنے جود
وکرم سے ہم سے بھی راضی ہوجا۔تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم فرمانے والا
ہے۔
اے اللہ!اسلام اور
اہل اسلام کو غلبہ وسرفرازی عطا فرما،اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ
وسرفرازی عطا فرما،اے اللہ!اسلام اور اہل اسلام کو غلبہ وسرفرازی عطا فرما،شرک اور
اہل شرک ذلت اور پسپائی دے۔اے اللہ!اپنے دین،اپنی کتاب،اپنے نبی کی سنت اور اپنے
مومن بندوں کی مدد فرما۔
اے اللہ اپنی رحمت
سے غم زدہ مسلمانوں کا غم دور فرمادے،مصیبت زدہ مسلمانوں کی پریشانیوں کودور
کردے،قرض داروں کا قرض ادا کرادے،مسلمان مریضوں کو شفا عطافرما۔تو ہی سب رحم کرنے
والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
اے اللہ!نیکیوں
اور بھلائیوں کے موسم کو ہمارے لیے مفید اور غنیمت بنادے،برکتوں اور خوشیوں کے
اوقات کو اپنی رحمت تک رسائی کا ذریعہ بنادے۔
اے اللہ!ہمیں
ہمارے وطن میں امن وامان عطافرما،ہمارے سربراہوں اور حکومتی اہل کاروں کی اصلاح
فرما اور ہمارے ملک کی رعیت کے اندر،اپنا خوف اور تقوی پیدا کردے اور اسے اپنی
مرضی کا پابند بنادے،تو ہی سارے جہان کا پالنہار ہے۔
اے اللہ!ہمارے ولی
امر یعنی خادم الحرمین الشریفین کو ایسے اعمال واقوال کی توفیق عطافرما جو تجھے
پسند ہوں اور تیری مرضی کے مطابق ہوں تو ہمیشہ زندہ رہنے والا اور نظام کائنات کو
سنبھالنے والا ہے۔اے اللہ!ان کے مشیروں اور رازداروں میں صلاح وتقوی پیدا فرما تو
ہی عزت وجلال والا ہے۔
اے اللہ!دنیا کے
ہر خطے میں مسلمانوں کے حالات درست فرمادے،اے اللہ!دنیا کے ہر خطے میں مسلمانوں کے
حالات درست فرمادے۔اے اللہ!دنیا کے تمام ممالک میں اپنے دین کی وجہ سے ہمارے جو
بھائی کمزور بنادیے گئے ہیں،ان کی مدد فرما۔اے اللہ!غزہ میں ان کی مدد فرما،اے
اللہ!غزہ کے مسلمان بھائیوں کی تکالیف دور فرمادے،اے اللہ!ان کے دشمنوں کو زیر
کردے اور ان کی طاقت کو ان کے لیے عذاب بنادے۔تو ہی عزت وجلال والا ہے۔
اے اللہ!ملک شام
میں ہمارے کمزور بھائیوں کی مدد فرما،برما میں ان کی مدد فرما اور دنیا کے ان تمام
خطوں میں ان کی مدد فرما جہاں جہاں وہ تیرا نام لیتے ہیں۔تو ہی عزت وجلال والا ہے
اور تو ہی سارے جہان کا پالنہار ہے۔
اے اللہ!ہمیں دنیا
میں بھی نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے نجات
دے۔“(البقرۃ: ۲۰۱)
ہمارا رب ان تمام
عیبوں سے پاک ہے جن سے وہ اسے متہم کرتے ہیں،وہ عزت اور بزرگی والا ہے،اس کے
رسولوں پر رحمت اور سلامتی ہو اور ہماری آخری بات یہ ہے کہ تمام حمد وثنا اس اللہ
کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
0 التعليقات: