حاکم اور رعایا کے حقوق: شریعت کی روشنی میں

 

بسم الله الرحمن الرحيم

مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ:۲۸-۱-۱۴۳۶ھ/۲۱-۱۱-۲۰۱۴ع

 

خطبہ وتحریر: ڈاکٹر اسامہ بن عبداللہ خیاط

امام وخطیب مسجد حرام

 

ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق

متعاون مدرس ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


 

حاکم اور رعایا کے حقوق

ہر قسم کی تعریف وثناء اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اپنے مومن بندوں کو اپنی، اپنے رسول اور مسلمان امراء اور حکمرانوں کی اطاعت و فرماں برداری کا حکم دیا، میں اس کا ثنا خواں ہوں  وہ پاک ذات ہے، اور اس کی ثنا خوانی ہمہ وقت ہر مسلمان پر اس کا واجبی حق ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے، وہ تنہا ہے اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،روزی دینے والا اور زبردست قوت والا ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور پیشوا محمد ﷺ ا للہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں،اللہ کے آخری نبی اور پوری دنیا کے لئے اس کی رحمت ہیں، اے اللہ تو اپنے بندہ اور رسول محمد ﷺ پر رحمت وسلام نازل فرما،اور اے اللہ تو ان کے آل اولاد اور ان کے تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا،اورتابعین سے اور ان  سب سے جو قیامت کے دن تک احسان کے ساتھ ان کی پیروی کریں۔

اما بعد:

اللہ کے بندو ں اللہ سے ڈرو اور قیامت کے دن اس کے حضور میں اپنی ملاقات اور پیشی کو یاد کرو، فرمان الہی ہے: جس روزآدمی وہ سب کچھ دیکھ لیگا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا (نباء / 40)، پس خوش نصیب ہے وہ شخص جس نے اپنی اس حاضری کے لئے خوب اچھی طرح تیاری کی  اس حال میں کہ وہ بہترین توشہ اختیار کرنے والا،  ہر وادی میں اللہ کی طرف چلنے والا، ہر راستہ سے اس کی طرف کوشس کرنے والا، اس  کی قربت اور وسیلہ تلاش کرنے والا، اور اسی سے قبولیت، مغفرت اور رضامندی کی امید رکھنے والا ہے۔

اللہ کے بندو ں: جب اللہ کی طرف سے اپنے رسول پر نازل کردہ واضح نشانیوں اور ہدایت پر جہالت ولا علمی کا غلبہ ہوجاتا ہے، اور جب رسول کے ذریعہ لائے گئے حق کے بارے میں علم کم ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں بہت سارے لوگوں کا فہم و سمجھ گمراہ ہو جاتا ہے، اور ان کی عقلیں بھی بھٹک جاتی ہیں، چنانچہ وہ اللہ کی راہ سے ہٹ جاتے ہیں اور ان راستوں کی پیروی میں لگ جاتے ہیں جو ان کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیتا ہے، پھر ان کی اکثریت جلد ہی گناہ اور سرکشی میں واقع ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اللہ کے بارے میں بنا کسی علم کے بات کرتے ہیں، اسی طرح جھوٹی اور بری باتیں پھیلاتے ونشر کرتے ہیں، اور ایسا وہ اپنے خواہش نفس کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے نیز شیطان کی عبادت  میں کرتے ہیں کیونکہ شیطان اور اس کی جماعت جو بھی مسلک ان کے لئے خوشنما بنا کے پیش کرتا ہے اور جس بھی منہج وطریقہ کی طرف بلاتا ہے، اور جو بھی بنا علمی دلیل کے باتیں، نعرے اور تجاویز وأفکار پھیلاتا ہے ان سب میں وہ شیطان کی اطاعت کرتے ہیں، کیونکہ کتاب وسنت  یا سلف امت کے عمل میں کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی ہے جو ان سب کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہو، اسی طرح موجودہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اس کے سپورٹ وتائیدمیں ہو، نا ہی زمانہ کی کوئی ایسی ضرورت ہے جو اس کو تقویت بخشتی ہو یا اس کے کہنے کو درست قرار دیتی ہو۔

بندگان الہی: اور اس میں سر فہرست وہ جماعتیں، فرقے، پارٹیاں اور تنظیمیں ہیں جو کسی چیز کا انکار کرکے یا اس میں شک وشبہ پیدا کرکے یا اس کی صحیح ودرست شکل وصورت سے تحریف کرکے اس کے خلاف لڑائی وجنگ کرتی ہیں، اور انھوں نے اہل سنت و جماعت کے اصولوں میں سے عقیدہ سے متعلق ایک بہت ہی اہم اصل کو اس انکار کا اپنا میدان بنا لیا ہے، اور اس کو شک وشبہ، دجل وفریب اور تحریف کا مجال قرار دیدیا ہے، جس کی بہت کم مثال ملتی ہے، اور عقیدہ سے متعلق وہ اصل و ضابطہ مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کا واجب ہونا اور ان کے خلاف بغاوت و سرکشی کا حرام ہونا ہے، اور اس سلسلے میں ان کو ان دلیلوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے جن کا بیان قرآن مجید کی محکم آیتوں میں ہوا ہے یا جو واضح صحیح روایتوں میں پائی جاتی ہیں یا جن پر اماموں کا اتفاق ہے اور جو ان سے مستند طور پر ثابت ہیں۔

برادران  اسلام: جان لو کہ مسلمان حاکم کی اطاعت کا حکم اللہ تعالی کی کتاب قرآن مجید میں بالکل واضح اور صاف طور پر موجود ہے جس میں کسی طرح کا کوئی شبہ نہیں ہے،فرمان الہی ہے: اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں جھگڑا ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے( نساء / 59)

اس آیت میں اولوالأمر کا ذکر ہے، جن سے مراد تفسیر نگاروں کے امام  علامہ ابن جریر طبری کے قول کے مطابق امراء اور ولاۃ یعنی حکمراں ہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کی صحیح احادیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے حکمرانوں کی اطاعت کا ہر اس چیز میں حکم دیا ہے جس میں اللہ کی اطاعت اور مسلمانوں کے لئے مصلحت و فائدہ ہے، اور یہی قول امام احمد بن حنبل اور اور علماء کی ایک جماعت کا بھی ہے ۔

 علامہ ابن جریر نے اپنے اس قول پر اس طرح سے استدلال کیا ہے کہ جب یہ چیز معلوم ہے کہ اللہ، اس کے رسول اور امام عادل کو چھوڑ کے کسی اور کی اطاعت واجب نہیں ہے، اور اللہ نے اپنے قول أطیعوااللہ وأطیعوا الرسول وأولی الأمر منکم میں ہمارے امور کے جو اولیا ء اور سرپرست ہیں ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالی نے جن اولیاء امور کے اطاعت کا حکم دیا ہے وہ ہمارے امام اور وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے امور کے والی ہیں، اس میں ان کے علاوہ لوگ شامل نہیں ہیں، اور اگر چہ ہر اس حکم دینے والے کی بات ماننا ضروری ہے جو اللہ کے اطاعت کی طرف بلاتا ہے اور اس کی نافرمانی سے روکتا ہے لیکن امر ونھی یعنی حکم و ممانعت میں اطاعت صرف انھیں اماموں کی واجب وضروری ہے جن کی اطاعت کو اللہ نے اپنے بندوں پرہر اس چیزمیں لازم قرار دیا ہے جس کا حکم وہ اپنی رعایا کو دیں اور جس میں لوگوں کے لئے مصلحت ہو، علامہ ابن جریر طبری کی بات ختم ہوئی۔

حضرات گرامی:اسی طرح یہ حکم صحیح احادیث میں بھی بالکل واضح وصریح طور پر آیا ہے جیسا کہ صبح واضح اور روشن ہوتی ہے، چنانچہ امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر مسلم شخص پر امام کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب ہے خواہ اس کو وہ چیز پسند ہو یا نا پسند ہو، لیکن جب اس کو معصیت و نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کے اوپرامام کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا واجب نہیں ہے۔

اس حدیث میں پسند و نا پسند سے مراد جو اس کے مقصد و خواہش کے موافق ہو یامخالف ہو، اور صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ امام و حاکم کی اطاعت و فرماں برداری کو شدت وآسانی میں، خوشی وناراضگی میں، مشقت و غیر مشقت میں لازم پکڑو۔

اس حدیث کا مطلب ہے کہ خوشی وناراضگی کی حالت میں، سختی اور آسانی کی حالت میں، بھلائی اور برائی کی حالت میں اور ان تمام چیزوں میں جو نفس پر بھاری و شاق ہوتا ہے،اس کو نا پسند ہوتا ہے مگر وہ معصیت و نافرمانی نہیں ہوتی ہے۔

ا سی طرح بخاری اورمسلم میں حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جس نے میری اطاعت کی تو اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی تو اس نے اللہ کی نافرمانی کی، اور جس نے میرے امیر کی اطاعت کی تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے میری نافرمانی کی، اور مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے امیر کی اطاعت کی تو اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی تو اس نے میری نا فرمانی کی۔

اور امام بخاری نے اپنے صحیح میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنو اور اطاعت کرو اگر چہ تمہارے اوپر کوئی حبشی غلام ہی حاکم  اورامیربنا دیا جائے جس کا سر کشمش کی طرح ہو یعنی بہت ہی چھوٹا اور کالا ہو، مطلب یہ کہ بہت ہی حقیر وذلیل انسان ہو۔

اور حضرت عبادہ بن صامت ؓ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺنے ہم سب کو بلایا تو ہم نے آپ سے بیعت کی، پھر وہ کہتے ہیں کہ جن چیزوں پر آپ نے ہم سے بیعت لی تھی وہ یہ تھی کہ ہم آپ ﷺ کی بات مانیں گے اور آپ ﷺ کی اطاعت کریں گے خوشی ونا خوشی کی حالت میں، شدت و آسانی کی حالت میں اور مصیبت اور غیر مصیبت میں، اور یہ کہ ہم کسی حاکم یا امیر سے اس کے حکم کے بارے میں اختلاف و جھگڑا نہیں کریں گے، مگر یہ کہ تم لوگ کفر بواح دیکھو جس پر تمھارے پاس اللہ کی  طرف سے دلیل ہو۔

اور بواح کا مطلب ہے کہ بالکل واضح اور ظاہر ہو جس میں کسی طرح کا کوئی شک نہ ہو۔

بندگان خدا: اس عظیم قاعدہ واصل کی حفاظت اور اس  بنیادی قانون کے تحفظ اور لوگوں کو اس کا عادی بنانے کے لئے شریعت نے جن چیزوں کا حکم دیا ہے اور ان پر ابھارا ہے، ان میں حاکم کی عزت کرنا، اس کا احترام کرنا، اور ان چیزوں سے مکمل طور سے دور رہنا جس سے اس کی عزت میں کمی آتی ہو اور اس کی شان میں گستاخی ہوتی ہو یا اس کے خلاف بغاوت ہوتی ہو۔

 اسی وجہ سے بعض علماء کا کہنا ہے کہ حاکم کی عدم موجودگی میں اس کے بارے میں گفتگو کرنا یا علانیہ طور پراس کو نصیحت کرنا اور اس کو بد نام کرنا دراصل اس کی اہانت و تذلیل ہے جس کے مرتکب کو اللہ نے  ڈرایا و دھمکایا ہے، لھذا بلا شبہ اس چیز کی رعایت اور اس کا خیال رکھنا ان علماء کے لئے ضروری ہے جو حکام کو نصیحت کرنے کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ ان کا ان سے تعلق ہوتا ہے، اور وہ ان سے ملاقات کرتے رہتے ہیں اوردوسروں کو چھوڑ کر ان کی نصیحتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، کیونکہ دین کی ضروریات میں سے بعض مشتبہ اور مختلط چیزوں پرعلانیہ بادشاہ کی مخالفت کرنا، اور اس پر محفلوں، مجلسوں، مسجدوں، میگزینوں اور جلسوں  وغیرہ میں رد کرنا درحقیقت یہ نصیحت کرنا نہیں ہے، لھذا جو ایسا کرتے ہیں ان کے فعل وعمل کو دیکھ کے دھوکہ مت کھاؤ اگر چہ اس کی نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ایسا کرنا ہمارے مقتدی سلف صالحین کے خلاف ہے، اور اللہ تمہارے ہدایت کا والی ہے۔ ان کی بات ختم ہوئی۔

اسی وجہ سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اہل  علم نے  مسلمان حاکم اور سرپرست کے اس توقیر، احترام اور عزت کو  عوام اور رعایا پر واجب قرار دیا ہے،اور اس کی وجہ جیسا کہ اما م قرافی نے تحریر کیا ہے یہ ہے کہ پبلک اور عوامی مفادات کو ضبط و کنٹرول کرنا واجب ہے، اور یہ واجب اسی صورت میں منضبط ہوگا جب رعایا کے دلوں میں اماموں اور حکمرانوں کی تعظیم ہوگی، اور جب بھی رعایا کے اندر ان کے بارے میں اختلاف ہوگا تو مصلحت ناپید ہو جائیگی، اور یہ شرعی قاعدہ ہے کہ جس چیز کے بغیر واجب حاصل نہ ہو تو وہ چیز واجب ہوجاتی ہے۔ 

چنانچہ اے بندگان اللہ: سن لو اور اہل سنت و جماعت کے عقائدی اصولوں میں سے اس عظیم اصل کو مضبوطی سے پکڑ لو، اور امت کے سلف صالحین صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کی اس درست طریقہ کی پابندی کرنے میں احسان کے ساتھ اقتداء  اور پیروی کرو، کیونکہ اس سے لڑائی اور جگھڑا کا دروازہ بند ہوتا ہے،دلوں میں محبت پیدا  ہوتی ہے، اتفاق و اتحاد پروان چڑھتا ہے، فتنہ اور سازش کی آگ بجھ جاتی ہے، برائیا ں دور ہوتی ہیں،دشمن ذلیل و خوار ہوتے ہیں،اور ان کے مکر و سازش کی تیریں انہیں کی طرف پلٹ جاتی ہیں،ترقی اور نمو برابر جاری رہتا ہے، خوشحالی اور آسودگی متصل ہوتی ہے، ملک محفوظ رہتاہے، شہر آباد ہوتے ہیں، خیر کی کثرت ہوتی ہے، امن و امان عام ہوتا ہے،سلامتی پھیل جاتی ہے۔ 

اللہ تعالی مجھ کو اور آپ سب کو اپنے کتاب کی ہدایت اور اپنے نبی ﷺ کی سنت سے فائدہ پہونچائے، میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ عظیم وجلیل بزرگ وبرتر سے اپنے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہر قسم کے گناہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں یقنا وہ بخشنے والا بہت مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ:

بیشک ہر قسم کی تعریف اللہ کے لئے ہے، ہم اس کی تعریف کرتے ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں اور اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں، اوٍر ہم اللہ کے ذریعہ اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنی بد اعمالیوں سے پناہ طلب کرتے ہیں، جس کو اللہ ہدایت بخش دے اس کو کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ہے اور جس کو گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں ہے وہ یکتا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ  اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ کی بہت زیادہ رحمت و سلامتی نازل ہو آپ پر اور آپ کے اہل خانہ پر اور آپ کے اصحاب پر۔

اما بعد: اللہ کے بندو ں: نبی کریم ﷺ کے جامع کلمات اور محمدی ہدایت کے ذخیروں میں سے ایک بیش قیمتی ذخیرہ یہ حدیث شریف ہے جس کو امام احمد بن حنبل نے اپنے مسند میں صحیح سند کے ساتھ محمد بن جبیر بن مطعمؓ سے روایت کیاہے جو اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ منی میں خیف کے مقام پر کھڑے ہوئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی اس آدمی کے چہرے کو خوبصورت، تروتازہ و بارونق بنا دے جس نے میری کو ئی بات سنی اور اس کو یاد کر لیا، اور پھر اس کو ایسے شخص سے بیان کیا جس نے اس کو نہیں سنا تھا، کیونکہ بہت سارے علم والے ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس فقہ و سمجھ نہیں ہوتی ہے، اور بہت سارے علم والے ایسے ہوتے ہیں کہ دوسرا اس سے کہیں زیادہ سمجھدار ہوتا ہے، تین چیز یں ایسی ہیں جن کے ذریعہ مومن کے دل کی اصلاح ہوتی ہے، اس پر عمل کرنے سے اس کا دل بغض و کینہ سے پاک ہوجاتاہے۔

(۱) عمل میں اخلاص وللہیت،

(۲) حاکم کی خیر خواہی، اور دوسرے الفاظ میں اس طرح سے ہے کہ حاکم کی اطاعت 

(۳) جماعت کو لازم پکڑنا

 اور ان کے لئے غائبانہ طور پر دعا کی جائے گی اور دوسرے الفاظ میں اس طرح سے ہے کہ ان کی دعا سب کو شامل ہوتی ہے۔

یہ ایک بہت ہی عظیم اور جامع حدیث ہے جو کہ اپنے اندر ان تمام چیزوں کو جمع کئے ہوئے ہے جس سے دین ودنیا دونوں قائم ہیں اور جس میں دنیا  اور آخرت دونوں کی بھلائی پوشیدہ ہے۔

اور یہ تین چیزیں جن کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے قول کے مطابق دینی اصول اور اس کے قاعدوں کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہیں، اور ان حقوق کو بھی شامل ہیں جو اللہ اور اس کے بندوں کے ہیں، اور اس سے دنیا و آخرت دونون کے فوائد حاصل ہوتے ہیں، اور اس کا بیان یہ ہے کہ حقوق کی دو قسمیں ہیں:  اللہ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق، اللہ کا حق یہ ہے کہ ہم صرف اسی کی عبادت کریں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہرائیں، اور بندوں کے حقوق کی دو قسمیں ہیں:  (۱) خاص حق  (۲) عام حق۔

خاص حق مثلا ہر انسان کا اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنا، بیوی کا حق،پڑوسی کا حق، یہ خاص حقوق ہیں جو کہ دین کے فروع میں سے ہیں کیونکہ بسا اوقات یہ مکلف پر واجب نہیں رہ جاتا ہے اور اس کی مصلحت بھی خاص اور شخصی ہے۔

اور جہاں عام حقوق کا سوال ہے تو اس میں دو طرح کے لوگ آتے ہیں:  نگہبانی یعنی حکمرانی کرنے والے لوگ  (۲) رعایا اور پبلک۔

پس حکمرانوں کا حق ان کو نصیحت کرنا اور ان کے خلاف بغاوت نہیں کرناہے، اور پبلک کا حق جماعت کو لازم پکڑنا ہے کیونکہ رعایا کی مصلحت اور پبلک کا فائدہ صرف یکجا ہونے اور اتفاق و اتحاد میں ہے، اور وہ کبھی بھی گمراہی و ضلالت پر اکٹھا نہیں ہوسکتے ہیں، بلکہ ان کے دین ودنیا دونوں کی مصلحت اور مفاد اسی میں ہے کہ وہ ایک ہوکر رہیں اور اللہ کی رسی کو مضبوطی پکڑلیں، معلوم ہوا کہ یہ خصلتیں، عادتیں اور خوبیاں دین کے اصول کو جامع ہیں،ابن تیمیہ کی بات ختم ہوئی۔

نبا بریں اللہ کے بندو ں: اللہ سے خوف کھاؤ اور اِس نبوی ہدایت کو دنیا وآخرت  میں سعادت اور خوش بختی حاصل کرنے کے لئے اپنا بہترین سازو سامان بنا لو، اور اب اللہ کے مخلوق کی سب سے بہتر وافضل شخصیت محمد ﷺ بن عبداللہ پر درود وسلام بھیجو کیونکہ اِس کا حکم اللہ نے دیا ہے، فرمایا: یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں لھذا اے مسلمانوں تم لوگ بھی ان پر بکثرت درود وسلام بھیجو۔

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: