اسلام میں رسوم و رواج اور عادات و تقالید کا حکم (دوسری قسط)

 

<script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"
     crossorigin="anonymous"></script>

                    اسلام میں رسوم و رواج اور عادات و تقالید کا حکم 

 Ruling on Customs, Rituals & traditions in Islam 

دوسری قسم : بطور عادت منائے جانے والے رسوم و رواج کا حکم

                                                                                                                         دوسری قسط

اس قسط میں دوسری قسم کے رسوم و رواج جو بطور عبادت و دین تو نہیں انجام دئیے جاتے ہیں بلکہ بطور عادت انجام دئیے جاتے ہیں مثلا شادی بیاہ کے عمومی رسوم و رواج جہیز, بارات , منگنی  وغیرہ  , ان کے بارے میں شریعت کا  کیا حکم ہے؟ کیا صرف  عادت کی وجہ سے ان کا منانا جائز ہے یا اس کے ساتھ کچھ دیگر فقہی اصول و ضوابط کی پابندی اور سماج پر پڑنے والے ان کے اثرات و نتائج کا خیال رکھنا بھی  ضروری ہے ؟ آئیے شریعت کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ علماء و فقہاء کا اس سلسلے میں کیا کہنا ہے۔

بطور عادت انجام دئیے جانے والے اعراف و تقالید,  رسوم و رواج  کا حکم جاننے سے پہلے  ہمارے لیے ان اصول و ضوابط, قوانین  و قواعد کا جاننا از حد ضروری ہے جن پر ان دوسرے قسم کے رسوم و رواج کے حکم کا دار و مدار ہے اور جن کا تذکرہ  بعض علماء و فقہاء نے کیا ہے۔ ان سے ہمیں ان رسوم و رواج کے احکام کے جاننے و سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی۔اور جن کے نہ جاننے  یا نظر انداز کر دینے کی وجہ سے بعض علماء و فقہاء عادت کے تحت ان رسوم و رواج کو جائز قرار دیتے ہیں اور ان پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔وہ اصول و قواعد درج ذیل ہیں: -----

1-     يقول الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله:

" الواجب على كل مسلم أن لا يعتمد على العادات ، بل يجب عرضها على الشرع المطهر ، فما أقره منها جاز فعله ، وما لا فلا ، وليس اعتياد الناس للشيء دليلا على حله ، فجميع العادات التي اعتادها الناس في بلادهم أو في قبائلهم يجب عرضها على كتاب الله وسنة رسوله عليه الصلاة والسلام ، فما أباح الله ورسوله فهو مباح ، وما نهى الله عنه وجب تركه وإن كان عادة للناس " انتهى .( "مجموع الفتاوى" , 6/510)

ترجمہ: ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ عادات پر اعتماد نہ کرے بلکہ ان کا شریعت پر پیش کرنا ضروری ہے ۔ اب ان میں سے جن کا شریعت اقرار کرتی ہے  ان پر عمل کرنا جائز ہے لیکن جن کا اقرار نہیں کرتی ہے تو نہیں جائز ہے۔ لوگو کا کسی چیز کا عادی ہوجانا یہ اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ لہذا لوگو کے تمام وطنی و قبائلی عادتوں کا قرآن و سنت پر پیش کرنا ضروری ہے ۔ جو اللہ و اس کے رسول نے مباح قرار دیا تو وہ مباح ہے اور جس سے اللہ نے روکا ہے تو اس کو چھوڑنا ضروری ہے اگر چہ وہ لوگو کی عادت ہی کیوں نہ ہو۔

2-     والقاعدة في ذلك أن كل ما تعارَف عليه الناسُ واعتادوه وساروا عليه ولم يكن فيه حكم شرعي مقرَّر فإنه يوزن بميزان المصلحة الشرعية بعيدا عن الأغراض والعصبيات، فإذا كانت العادة أو العرف يحقق للناس مصلحةً راجحةً أو يدفع عنهم مفسدة ظاهرة ولا يُخِلُّ بالمجتمع فهو عُرْف مقبول وعادة نافذة، والإسلام أقر من الأعراف ما كان صالحا نافعًا لا يعارض أحكام الشرع المطهر وأصلح بعض الأعراف وقومها.(الشیخ صالح بن حمید: العادات و التقالید و أثرہا فی المجتمعات, خطبہ جمعہ, حرم مکی, 28-4-1440 ھ)

ترجمہ: اس سلسلے میں قاعدہ یہ ہے کہ لوگو کے مابین متعارف  و رائج عادات و تقالید جن کا کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہے اس کو تعصب و مصلحت سے دور رہ کر شرعی مصلحت کے میزان سے وزن کیا جائے  ۔ اب اگر اس عرف یا عادت میں عوام کے لیے کوئی غالب صلاح و فائدہ پایا جاتا ہے یا ان سے کوئی فساد دور کرتا ہے اور سماج میں اس سے کوئی خلل نہیں ہوتا ہے تو وہ قابل قبول عرف اور عمل پیرا عادت ہے۔

3-   إن اجماع الفقہاء یقضی  أن العادات والتقاليد التي تخالف الشرع مخالفة ظاهرة ، أو تخالف مقاصد الشريعة العامة ، أو تؤدي إلى المخالفة والتقصير ، يجب نبذها والسعي إلى تغييرها ، ويحتاج الأمر إلى شيء من الحكمة والرفق.( ) الاسلام : سؤال و جواب, حکم العادات و التقالید اذا خالفت الشرع او سببت الحرج,  فنوى نمبر 89642, تاریخ اشاعت: 26-2-2007 ع, بیان محمد الحرش: میزاتنا العادات و التقالیدأم الشرع و الدین, موقع رسالتی, موقع تیار الاصلاح : العادات و التقالید بین المشروع و الممنوع , الخمیس, 15 / محرم 1439/5 اکتوبر 2017ع , فتاوى الشیخ عبد اللہ جبر الخطیب و غیرہم  )
ترجمہ : فقہاء کا متفقہ طور پر فیصلہ ہے کہ جو  عادات و تقالید شریعت کے ظاہری طور پر مخالف ہیں یا شریعت کے عام مقاصد کے خلاف ہیں یا جو مخالفت و کوتاہی کی طرف لے جانے والے ہیں اس قسم کے تمام عادات کا چھوڑ دینا اور ان کو ختم کرنے کی کوشس کرنا واجب ہے ۔ اس معاملہ میں  حکمت و نرمی کی ضرورت ہے۔

4-   وقد عد أهل العلم التمسك بالعادات والتقاليد التي تشق على الناس ، وتؤدي إلى بعض المفاسد ، أو تؤدي إلى بعض الشقاق والنزاع ، أو توقع في الحرج ، عد ذلك أهل العلم من الغلو المذموم ، ومن التكلف والتنطع الذي جاء النهي عنه في شريعتنا .
عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
(
هَلَكَ المُتَنَطِّعُونَ . قالها ثلاثا ) رواه مسلم (2670)
قال النووي رحمه الله "شرح مسلم" (16/220(
"
أي : المتعمقون الغالون المجاوزون الحدود في أقوالهم وأفعالهم " انتهى) الاسلام : سؤال و جواب, حکم العادات و التقالید اذا خالفت الشرع او سببت الحرج,  فنوى نمبر 89642, تاریخ اشاعت: 26-2-2007 ع)
ترجمہ: اہل علم نے ان عادات و تقالید پر مضبوطی سے عمل کرنے کو جن میں لوگو کے لیے مشقت ہے اور جو خرابیوں و بگاڑ تک لے جانے والی ہیں یا  بعض اختلاف و تنازعہ  کا باعث ہیں یا تنگی و مشقت کا سبب ہیں , ان تمام کو علماء نے قابل مذمت غلو میں  سے شمار کیا ہے  اور شریعت میں ممنوع تکلف و تشدد  میں سے گردانا  ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:تشدد اختیار کرنے والے ہلاک و برباد ہوگئے , یہ بات آپ نے تین بار فرمائی(مسلم/2670) امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:  کسی چیز کی گہرائی میں جانے والے  قول و فعل کے ذریعہ  حدود کو تجاوز کرنے والے اور غلو کرنے والے.

5-    لإسلام أقرَّ من الأعراف ما كان صالحاً، وتلاءم مع مقاصده ومبادئه، ورفض من الأعراف ما ليس كذلك، أو أدخل على بعض الأعراف تصحيحات وتعديلات، فالأصل هو الشرع، فما وافق الشرع قبلناه، وما حاد عنه قليلاً صححناه، وما ناقضه رفضناه، ولو كان عرفاً يسري في الأمة جميعها.(موسوعۃ النابلسی: الخطب, خطبۃ الجمعۃ, 588, الاعراف و التقالید)

ترجمہ: اسلام اعراف میں سے صرف اسی کا اقرار کرتا ہے جواچھا و بہتر اور  صالح ہو , اور اس کے مقاصد و اصول کے موافق ہو , اور ان اعراف کو رد کردیتا ہے جو اس طرح نہ ہوں, یا کچھ اعراف میں تبدیلی لا دیتا ہے , لہذا اصل ہماری شریعت ہے جو اس کے موافق ہوگا ہم اس کو قبول کریں گے اور جو اس سے تھوڑا بہت ہٹا ہوگا ہم اس کو درست کریں گے اور جو اس کے خلاف ہوگا ہم اس کو رد کر دیں گے گرچہ ایسا عرف ہو جس پر پوری امت عمل پیرا ہو۔

6-     رعاية الأعراف والتقاليد نوع من أنواع رعاية مصالح المسلمين، لأن أحد العلماء يقول: الشريعة مصلحة كلها، رحمة كلها، عدل كلها، فأية قضية خرجت من المصلحة إلى المفسدة، وخرجت من العدل إلى الجور، وخرجت من الرحمة إلى خلافها، فليست من الشريعة ولو أدخلت عليها بألف تأويل وتأويل.(موسوعۃ النابلسی: الخطب, خطبۃ الجمعۃ, 588, الاعراف و التقالید)

اعراف و عادات کی رعایت کرنا یہ  ایک طرح سے مسلمانو کی مصلحت کی رعایت کرنا ہے  کیونکہ ایک عالم کا قول ہے:  شریعت مکمل طور سے مصلحت ہے, کلی طور سے رحمت ہے , کامل طور سے عدل و انصاف ہے , بنا بریں جو بھی مسئلہ صلاح سے فسادبن جائے,  عدل سے جور بن جائے ,رحمت سے زحمت بن جائے تو وہ قطعا شریعت نہیں ہے اگرچہ اس کی ہزار تاویل کی جائے۔

7-    العرف شأنه شأن الرؤيا، وشأنه شأن الإلهام،ُعتبر ويعتد به إن لم يخالف نصاً ثابتاً، أو إجماعاً يقينياً، وكذلك إن لم يكن من ورائه ضرر خالص أو راجح، أما العرف المصادم للنصوص الذي يحل حراماً، أو يبطل واجباً، أو يقرُّ بدعة في دين الله، أو يشيع فساداً أو ضرراً في دنيا الناس فلا اعتبار له إطلاقاً، ولا يجوز أن يُراعى فيه تقنين أو فتوى أو قضاء. .(موسوعۃ النابلسی: الخطب, خطبۃ الجمعۃ, 588, الاعراف و التقالید)

عرف کا معاملہ خواب کی طرح ہے ۔اس کا معاملہ  الہام یعنی دل میں کوئی بات ڈالنے کی طرح ہے ۔ اس  پر اسی صورت میں عمل کیا جائے گا جب وہ ثابت نص کے مخالف نہ ہو یا متعین اجماع کے مخالف نہ ہو یا اس میں صرف نقصان نہ ہو یا نقصان کا پہلو غالب نہ ہو لیکن جو عرف نصوص سے ٹکراتا ہے یا اللہ کے دین میں کسی بدعت کا اقرار کرتا ہے یا لوگو میں نقصان کا سبب بنتا ہے یا فساد و بگاڑ کا باعث ہے تو اس عرف و عادت کا مطلق طور سے کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کے لیے فتوی  دیا جائے گا یا قانون سازی کی جائے گی۔

علماء و فقہاء کے مذکورہ بالا  اقوال کا خلاصہ درج ذیل ہے: --

         ہر عادت, تقلید, عرف , رسم و رواج  کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینا ضروری ہے ۔اب اگر وہ شریعت کے مخالف ہے تو اس کا چھوڑ دینا ضروری ہے ۔ اور اگر اس کا حکم شریعت میں موجود نہیں ہے تو اس کا حکم بیان کرنے کے لیے درج چیزوں کی رعایت ضروری ہے:----

·       اسلام کے عام مقاصد کے خلاف نہیں  ہے بلکہ اس کے اصول و مقاصد کے موافق  ہے ۔

·       اس  کے اندر کوئی غالب صلاح و فائدہ ہے ۔

·       اس سے کوئی ظاہری فساد دور ہوتا ہے۔

·       سماج میں اس سے کوئی خلل واقع نہیں ہوتا ہے۔

·       مخالفت و کوتاہی کی طرف نہیں لے جاتا ہے۔

·       ان میں لوگو کے لیے کوئی مشقت نہیں ہے ۔

·       کسی خرابی یا بگاڑ تک پہنچانے والی نہیں ہے  ۔

·       کسی اختلاف و تنازعہ کا سبب نہیں ہے ۔

·       تنگی یا مشقت میں ڈالنے والی نہیں ہے ۔

     معلوم ہوا کہ کسی بھی رسم و رواج یا عرف و تقلید کو ہم صرف عادت کہہ کے جائز قرار نہیں دے سکتے ہیں جیسا کہ ہمارے بہت سارے علماء  کرام کرتے ہیں  بلکہ اس کے لیے مذکورہ بالا تمام  چیزوں کی رعایت ضروری ہے۔سماج پر پڑنے والے اس کے اثرات و نتائج کا بھی دھیان رکھنا از حد ضروری ہے ۔ پھر ہم اس کے جائز یا ناجائز ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔اب اگر کوئی بھی رسم و رواج, عادت و تقلید , عرف  ان اصول و ضوابط کے موافق ہے تو وہ جائز ہے ۔ اس پر عمل کیا جاسکتا ہے ۔ لیکن اگر اس کے اندر کوئی ایک خرابی, فساد یا ضرر  یا چند خرابیاں پائی جاتی ہیں  جس سے  وہ بہتری کے بجائے بگاڑ بن جائے , عدل سے جور بن جائے , رحمت سے زحمت بن جائے  تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور اس پر عمل کرنا ناجائز و حرام ہے ۔

        اور جب ہم شادی کے رسوم و رواج کا ان اصول و ضوابط کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو واضح طور پر پتہ چلتا ہے اور  ہر کوئی اس کو آسانی سے جان سکتا ہے  کہ وہ سراسر ان کے خلاف ہیں جن کی تفصیل میں تیسری قسط میں پیش کی جائے گی ۔ لہذا  ان رسوم و رواج پر عمل کرنا ناجائز ہے اور ان کے خلاف جنگ کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو سماج و معاشرہ سے غیر اسلامی رسوم و رواج , عادات و تقالید کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ سب کو یہ نیک کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین

                    و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

1 التعليقات:

avatar

جزاک الله خیر ۔
اللہ تعالٰی امت مسلمہ کو کتاب و سنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
یقیناََ ہمارے معاشرے میں بے شمار رسوم اور رواج ایسے ہیں جنکا اسلام سے تعلق تو دور بلکہ ان رسوم ورواج نے اسلامی تعلیمات کو لوگوں پر مشکل بنا دیا ہے ۔