علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ (1) علمی و تحقیقی دنیا کا ایک بے مثال نور گل ہوگیا

 <script async src="https://pagead2.googlesyndication.com/pagead/js/adsbygoogle.js?client=ca-pub-4702673796649958"

     crossorigin="anonymous"></script>


                                                                             علامہ محمد عزیر شمس رحمہ اللہ                                                                                                                                       ( پہلی قسط)

              

علمی و تحقیقی دنیا کا ایک بے مثال  نور گل ہوگیا

                 ہزاروں سال نرگ س  اپنی بے نوری پہ روتی ہے 

                 بہت مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

ابھی چند دنوں  پہلے3/ اکتوبر 2022 ع  کی بات ہے کہ ہمارے درمیان سے مولانا نیاز احمد مدنی  کوچ کر گئے ۔ ابھی ان کے موت کے خبر  کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی اور ان کا غم بھی نہیں بھلا پائے تھے  کہ آج 16/ اکتوبر 2022 ع کی  رات  انڈین وقت کے مطابق گیارہ بجے خبر ملی کہ شیخ محمد عزیر شمس کا مکہ مکرمہ میں ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔ مصدقہ اطلاع  کے   مطابق آپ اس وقت اپنے گھر پر ہی تھے اور دار الحدیث الخیریہ  کے  ایک نئے طالب علم  کو نصیحت فرمار ہے تھے ۔ اور ایک انڈین ڈاکٹر بھی وہاں پر موجود تھا جو آپ کو اپنے یہاں شام کے کھانے کے لیے لینے  آیا تھا ۔ عشاء کی اذان ہوئی آپ مسجد جانے کے لیے اٹھے اور پھر گر گئے اور آپ کی روح پروازکر گئی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ بلا شبہ  یہ دنیا ہے  اور یہاں کی ہر چیز فانی ہے اور جو یہاں آیا ہے اس کو ایک دن ضرور جانا ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہر کوئی کر رہا ہے ۔ اور اس کا کوئی انکار بھی نہیں کر سکتا ہے ۔

علامہ  عزیر شمس کے بارے میں مجھ خاکسار و کم علم کے ذریعہ کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے ۔چہ نسبت خاک را با عالم پاک , کہاں آپ اور کہاں میں , دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے ۔ آپ کی عظیم شخصیت پرلکھنے کا حق تبھی ادا ہو سکتا ہے جب آپ کا  اور آپ کی کتابوں کا ہر ناحیہ سے مطالعہ کر لیا جائے جس کے لیےکافی و قت اور فرصت در کار ہے ۔ پھر بھی میں چند چیزیں اپنی معلومات و تعلقات کی روشنی میں  آپ کے بارے میں لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں ۔میرا مقصد آپ کی سوانح عمری لکھنا یا آپ کی تالیفات و تصنیفات کا ذکر کرنا یا ان کا جائزہ لینا وغیرہ نہیں ہے  بلکہ  یہ ایک طرح سے تاثراتی و مشاہداتی مضمون ہے۔ یہ میرا احساس ہے اور  میں نے جس طرح محسوس کیا اور ملاحظہ کیا اسی کو میں بلا کم و کاست  تاریخی ترتیب کے ساتھ یہاں بیان کر رہا ہوں ۔

جامعہ سلفیہ میں شیخ سے پہلی ملاقات  

میرا شیخ سے کافی پرانا تعارف و تعلق رہا ہے اور آپ کے ساتھ اچھے روابط رہے ہیں ۔ اور یہ تعلق  و رابطہ تقریبا تین دہائیوں پر مشتمل ہے ۔اور آپ کی معیت و رفاقت میں  مکہ مکرمہ میں ایک بہت ہی لمبا وقفہ گذرا ہے ۔ اور آپ سے علمی استفادہ کا بارہا  موقع  ملا ہے ۔

 مجھے یاد ہے کہ آپ سے میری پہلى ملاقات 1988 ع میں جامعہ سلفیہ میں ہوئی تھی ۔آپ وہاں کسی پروگرام میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے اور میں اس وقت فضیلت میں زیر تعلیم تھا اورجامعہ سلفیہ کے طلباء انجمن " ندوۃ الطلباء "  کا ناظم تھا ۔ آپ جامعہ کی صحن  مسجد سے متصل   مشرقی  بالائی  گذر گاہ پر اکیلے کھڑے ہوئے تھے ۔ کچھ لڑکوں نے بتایا کہ یہی شیخ عزیز شمس ہیں ۔ میں موقع کو غنیمت سمجھتے  ہوئے جلدی جلدی آپ کے پاس گیا ۔ آپ سے گفتگو ہوئی اور آپ سے ندوۃ الطلبہ کی لائبریری کے لیے چند نئی کتابوں کا نام پوچھا تو آپ نے بہت ساری کتابوں کے نام لکھوائے ۔

یہ میری آپ سے تھوڑی دیر کے لیے  پہلی ملاقات تھی ۔

جامعہ سلفیہ سے فراغت کے بعد 1988 ع  میں میں   على گڑھ آگیا اور یہاں ڈھائی سال زیر تعلیم رہا ۔ یہاں پر آپ  ایک بار تشریف لائے تھے اور پروفیسر معین فاروقی کے یہاں پروگرام میں آپ سے ملاقات کا موقع ملا لیکن چونکہ میں پروگرام میں دیر سے پہنچا تھا اس لیے مکمل استفادہ نہ کرسکا ۔

مکہ مکرمہ میں شیخ کی طویل معیت و رفاقت اور استفادہ:

1991ع میں جامعہ ام القرى مکہ مکرمہ میں داخلہ کے بعد اے ایم یو کو خیر آباد کہہ کے  میں مکہ مکرمہ آگیا ۔ اور جس یونیورسٹی میں آپ ڈاکٹریٹ کر رہے تھا میں بھی  اسی کا ایک ادنى طالب علم ہوگیا  ۔ اس طرح سے آپ سے ملاقات کی راہ ہموار ہوگئی اور زیادہ سے زیادہ  ملنے و استفادہ کرنے کا موقع ملا۔اوراللہ کے فضل و کرم سے میں ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جن کا مکہ مکرمہ میں  شیخ سے لمبی رفاقت و معیت رہی ہے ۔ اور آپ سے  سیکڑوں بار حرم شریف, جامعہ, آپ کے گھر ,  میٹنگوں, مجالس و محاضرات وغیرہ میں ملاقات و  استفادہ کا موقع ملا ہے ۔

یہاں پر  آپ سے میری پہلی ملاقات آپ کے گھر پر ہوئی جو طارق بن زیاد ہاسٹل سے چند منٹوں کے  کے فاصلہ پر عزیزیہ میں ہی واقع تھا ۔ ایک دن میں اپنے روم میٹ   ڈاکٹر لیث محمد لال محمد سےآپ کے گھر کا پتہ  پوچھا ۔ آپ نے پتہ بھی بتایا اور ساتھ ہی ایک ذمہ داری بھی دیدی کہ میرا یہ موضوع شیخ عزیر کو دیدینا اور ان سے کہہ دینا کہ ترقیم کر دیں گے ۔میں  آپ کے گھر گیا  ۔ملاقات ہوئی , تعارف ہوا اور  میں نے داکٹر لیث کا  موضوع ترقیم کے لیے  آپ کے حوالہ کردیا  ۔ پھر آپ نے چائے سے میری ضیافت کی اور  بعد میں شام کا کھانا کھلایا پھر میں وہاں سے واپس آگیا۔

صفر 1412 ھ: مکہ سے انڈیا واپسی کا پہلا سفر آپ کے ساتھ :

یہ مکہ سے اپنے وطن واپسی کا پہلا سفر تھا اور اس سال سالانہ چھٹی صرف ایک ماہ کے لیے ہوئی تھی ۔ ادارہ  جامعہ  نے طلباء کو سفر کے لیے ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ پرانے طلباء کوشش میں مصروف تھے ۔ وکیل و مدیر جامعہ و دیگر ذمہ داروں سے ملاقات کا سلسلہ جاری تھا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تھا ۔ میں یہ دیکھ کر کچھ دنوں کے لیے مدینہ چلا گیا کہ جب ٹکٹ ملنے لگے گا تو آجاؤوں گا ۔ لہذا کئی دن کے بعد میں نے شیخ عزیر کو فون کیا تاکہ صورت حال معلوم کی جائے۔ تو آپ نے بتایا کہ ٹکٹ ملنے لگا ہے ۔ جلدی سے واپس آجاؤ۔ لہذا میں دوسرے دن واپس آگیا ۔ اور ریزرویشن کروایا ۔ اتفاق سے میرا ریزرویشن اسی فلائٹ میں تھا جس میں آپ کا ریزرویشن تھا ۔

اس وقت تمام انڈین طلباء سفر کر چکے تھے ۔ لہذا میں نے آپ سے پوری معلومات لی اور پوچھا کہ مکہ سے جدہ کیسے جائیں گے ؟ توآپ نے بتلایا کہ میں اپنے  کسی سعودی  ساتھی کو  کو فون  کروں گا اور اسی کے ساتھ ایرپورٹ جاؤں گا۔ اس پر میں نے بھی آپ کے ساتھ سفر کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ تو آپ نے فورا قبول کر لیا ۔ اور اس دن آپ اپنی فیملی کے ساتھ پیچھے  والی سیٹ پر بیٹھے اور میں آگے والی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھا ۔ اس طرح آپ کی رفاقت میں مکہ سے جدہ ایرپورٹ اور پھر وہاں سے دلی انٹر نیشنل ایرپورٹ تک ساتھ رہا ۔ وہاں سے باہر نکلنے کے بعد وہ  اپنے بھائی کے یہاں چلے گئے جو جے این یو میں ٹیچر تھے  اور میں اوکھلا آگیا ۔

 اس سفر میں آپ پینٹ و شرٹ میں ملبوس تھے اور شرٹ کو پینٹ کے اندر ان کیے ہوئے تھے ۔  اور عموما بین الاقوامی سفر کرتے ہوئے آپ پینٹ شرٹ ہی زیب تن کیا کرتے تھے ۔ میں نے پہلی بار آپ کو اس لباس میں دیکھا تھا۔

جمعیۃ البر کی تاسیس:

1412 ھ میں جب  اہل حدیث طلباء جامعہ نے  جمعیۃ البر کی بنیاد ڈالی تھی تو اس وقت آپ بھی جامعہ کے طالب علم تھے اور اس کی  بابت باہمی مشورہ کے لیے میٹنگ کا انعقاد جامعہ ہی کے ایک طالب علم" شکیل احمد "  کے گھر پر شامیہ میں ہوتا تھا ۔ میں بھی اس میں شامل ہوتا تھا اور مجھ خاکسار ہی کا مشورہ تھا کہ اس کی آفس و لائبریری على گڑھ میں قائم کی جائے کیونکہ وہاں پر على گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے ۔ اور مولانا ابو الکلام آزاد جیسی  ایک عظیم الشان لائبریری بھی ہے۔ لہذا آپ نے اس کی موافقت کی اور سب کی منظوری سے آفس اور لائبریری کا قیام على گڑھ میں عمل میں آیا ۔ اور اس کے لیے پروفیسر معین فاروقی رحمہ اللہ نے اپنے گھر کی زمین کا ایک حصہ وقف کیا جہاں بلڈنگ تعمیر کی گئی ۔ یہ بلڈنگ اور لائبریری اب تک قائم ہے اور شروع میں کئی سال تک مولانا رفیق حفظہ اللہ اس میں بیٹھتے تھے ۔ اور ان کی تنخواہ وہاں آتی تھی ۔ اور کچھ کتابیں وہاں سے اس لائبریری کے لیے فراہم کی گئیں تھی ۔ اس کے علاوہ کچھ علمی و مضمون نگاری کے مقابلے بھی ہوئے تھے ۔ اور کئی سالوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ لیکن بعد میں موقوف ہوگیا  اور اب تک موقوف ہے ۔لیکن کام اب بھی جاری ہے  اور اب اس کا پورا خرچ پروفیسر معین فاروقی کے ایک صاحبزادے جو امریکہ میں برسر روزگار ہیں وہ برداشت کرتے ہیں ۔

یہ جمادى الاخرى 1413 ھ / اور دسمبر 1992 ع کی بات ہے میں اس وقت جامعہ سے متصل سب سے قریبی ہاسٹل طارق بن زیاد میں رہتا تھا ۔ اور آپ اپنے عزیزیہ کے  پرانے گھر سے منتقل ہو کر عزیزیہ میں  ہی ایک دوسری جگہ منتقل ہوگئے تھے جو ہاسٹل سے قریب ہی تھا ۔ تو میں نے  آپ سے ہفتہ میں ایک دو دن  گھر آکر علمی  استفادہ کی خواہش ظاہر کی تو آپ  فورا تیا ر ہوگئے اور کئی مہینوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ میں ہفتہ  میں ایک دو دن جاتا اور آپ سے  تحقیق , تعلیق و تنقید وغیرہ کے بارے میں معلومات حاصل کی ۔ آپ نے بہت ساری اہم کتابوں کی طرف رہنمائی کی جن کے بارے میں جانتا بھی نہیں تھا ۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ میری سستی و کاہلی کی وجہ سے  یہ سلسلہ زیادہ دن قائم نہیں رہ سکا ۔

فیملی تعلقات:

اس کے بعد 1413ھ/1992 ع میں میری شادی ہوئی اور 1415ھ میں میں اپنی فیملی کو جامعہ ام القرى کی ایک طالبہ کی حیثیت سے  مکہ مکرمہ لانے میں کا میاب ہوگیا ۔اب  اس کے بعد ہمارے تعلقات کا  ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ۔انفرادی  تعلق ختم ہوتا ہے اور  اب  فیملی تعلق کا نیا زمانہ شروع ہوتا ہے  ۔ اور یہ سلسلہ کچھ شیرینی و تلخی, نرمی و گرمی کے ساتھ سعودیہ میں قیام تک برقرار رہا ۔ اس سے کھٹی میٹھی   بہت ساری یادیں وابستہ ہیں  جن کا ذکر میں یہاں کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ یہ گھریلو باتیں ہیں ان کو گھر کے اندر ہی محدود ہونی چائیے۔

اور اللہ کے فضل و کرم سے مجھے پہلے سال آپ کا پڑوسی بننے کا شرف حاصل ہوا ۔کیونکہ آپ عزیزیہ جنوبیہ میں  , مستوصف سلیمان القرشی کے پیچھے , ام القرى یونیورسٹی کے حضرت عمر بن عبد العزیز ہاسٹل کے قریب  رہتے تھے اور مجھے بھی کرایہ پر مناسب  فلیٹ آپ ہی کی بلڈنگ میں ملی ۔ میرا اور آپ کا فلیٹ ایک ہی بلڈنگ میں  بالکل متصل تھا۔اس طرح  آپ کے پڑوس میں ایک سال تک  رہنے کا شرف حاصل ہوا  ۔ اور بہت کچھ آپ سے سیکھنے و استفادہ کرنے کا موقع میسر آیا ۔ اور آپ سے ہر ممکنہ مدد حاصل ہوئی ۔

بلکہ جب میری فیملی پہلی بار مکہ پہنچی تھی اور جس  سعودی فلائٹ سےان کو آنا تھا وہ 12/ گھنٹے لیٹ تھی جب کہ میں جدہ جامعہ کے معہد البحوث الاسلامیہ و احیاء التراث الاسلامی کے  ایک  امریکی  باحث کے ساتھ  دن میں ہی جدہ پہنچ گیا ۔ فلائٹ لیٹ ہونے کی وجہ سے رات میں ان کے گھر پر قیام کیا ۔ اور فجر سے پہلے ایرپورٹ گیا ۔ اور وہاں پر اپنی فیملی کو ریسیو کرنے کے بعد جلدی جلدی ساری کاروائی کروائی ۔ اتفاق سے ایک سامان دلی ایرپورٹ ہی پر رہ گیا تھا کیونکہ فیملی نے نیچے جاکر اس وقت کے نظام کےمطابق   اس کا آئی ڈنٹیفکیشن نہیں کروایا تھا ۔ان کا پہلا بیرونی سفر تھا اور ان کو کچھ پتہ بھی نہیں تھا ۔ اس کی بھی  میں نے رپورٹ کروائی ۔ اس کے بعد جلدی سے ایرپورٹ سے باہر نکلا اوربنا کسی مول بھاؤ کے  فورا  ٹیکسی کرکے مکہ کے لیے روانہ ہوگیا کیونکہ اسی دن  ایک مادہ "فلسطینی قضیہ" کا   فائنل پیپر بھی تھا  ۔خیر اللہ کے فضل و کرم سے دس بجے مکہ پہنچ گیا اور اپنی اہلیہ کو شیخ کے گھر میں چھوڑ کے اسی ٹیکسی سے فورا یونیورسٹی گیا اور امتحان ہال میں ٹائم سے پہنچ گیا ۔ امتحان ختم ہونے کے بعد پھر گھر واپس آیا ۔

اس طرح سے میری فیملی کی پہلی ضیافت آپ کی فیملی نے کی تھی اور یہ دونوں فیملیز کی پہلی ملاقات تھی ۔ اور پھر برابرملاقات کا سلسلہ چلتا رہا ۔

یہاں آپ تقریبا ایک سال رہے اور پھر عزیزیہ جنوبیہ میں ہی مستشفی علوی تونسی کے قریب عمر بن خطاب مسجد کے پاس منتقل ہوگئے۔ یہاں  رہتے ہوئے آپ نے میرا بہت تعاون کیا تھا اور جب تک  میری دودھ پیتی بچی کو کسی کے پاس مستقل  چھوڑنے کا انتظام نہیں ہوگیا تو میں نے   نو دس دنوں کےلیے عارضی طور پر  اپنی بچی کو  آپ کے گھر پر چھوڑا ۔ اللہ تعالى آپ کو جزائے خیر دے ۔ یہ آپ کی بہت بڑی خدمت تھی ورنہ آج کے زمانہ میں لوگ دوسروں کے بچوں و بچیوں کو کہاں رکھتے ہیں ۔ لیکن جس طرح علم و فضل میں اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں اور سب سے بلند و اعلى نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح بلا شبہ آپ اخلاق میں بھی کافی بلند تھے ۔ 

ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ اپنے کسی متعارف درزی کے پاس کپڑا سلانے کے لیے گئے تھے ۔ ان درزیوں نے آپ کو روک لیا اور کہا کہ سحری کھانے کے بعد جائیے گا کیونکہ رمضان کا مہینہ تھا ۔ جب کافی دیر ہوگئی اور آپ گھر تشریف نہیں لائے ۔ تو اہل خانہ کو بہت زیادہ تشویش ہوئی اور وہ میرے گھر آئیں اور میری وائف سے  کہا کہ اپنے شوہر سے کہو کہ فون کرکے معلوم کریں کہ وہ کہاں پر ہیں ۔ لہذا میں فورا ٹیلیفون بوتھ پر گیا  جو اس وقت جگہ بجگہ لگے ہوئے تھے اور دو چار اپنے متعارفین کو فون کرکے معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ان میں سے کسی کے گھر پر نہیں ہیں ۔ اور نہ ان میں سے کسی کو ان کے بارے میں پتہ ہے ۔ اور اس طرح سے پتہ لگانا بھی مشکل تھا ۔ میں لوٹ کے گھر آیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ ان سے کہہ دو کہ زیادہ پریشان نہ ہوں ۔ ان شاء اللہ و خیریت سے ہوں گے اور واپس آجائیں گے ۔ جب واپس آئے تو پتہ چلا کہ انہیں درزیوں کے پاس تھے  اور انہوں نے سحری کے لیے آپ کو روک لیا تھا ۔ اس سے آپ کی انتہائی تواضع کا پتہ چلتا ہے ۔

1416ھ  میں  فیملی کے آنے پر جب میں آپ کے پڑوس میں رہتا تھا  تو آپ نے کئی بار  مجھ سے کہا کہ میں یہاں سے ایک دوسال میں میں چلا جاؤں گا ۔شاید آپ کو امید تھی کہ مقالہ کا مسئلہ حل ہوجائے گا اور مناقشہ کے بعد  فائنل مقالہ جمع کرکے چلا جاؤں گا ۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ اور جو بھی ہوا آپ کے حق میں بہتر ہی ہوا  جس کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ دوسری قسط میں ہے ۔

ایم اے کا مقالہ اور آپ کی رہنمائی:

الحمد للہ بی اے پاس کرنے کے بعد میرا ایڈ میشن ایم اے میں ہوگیا تھا ۔ اورمنہجی سال ختم ہونے کے بعد  1418 ھ میں  مجھے ماسٹر کے مقالہ کے لیے  ایک موضوع کی تلاش تھی۔ مختلف موضوعات زیر غور تھے اور مختلف حضرات سے مشورہ بھی کرتا رہتا تھا ۔ اس کے لیے میں نے  استاد محترم ڈاکٹر مقتدی حسن ازہری کو  خط بھی لکھا تھا جس کا انہوں نے جواب بھی دیا تھا ۔ اور وہ خط اب بھی میرے پاس محفوظ ہے ۔  ایک بار میں نے آپ سے بھی  بطور مشورہ اس کا   ذکر کیا اور آپ سے کوئی موضوع بتلانے کے لیے کہا  ۔ تو آپ نے مجھے فورا  تحریک شہیدین پر لکھنے کا مشورہ دیا اور اسی دن اس کا  ابتدائی خاکہ بھی تیار کردیا ۔  بعض مصادر و مراجع کی طرف رہنمائی کی۔ میں نے اس کو تیار کرکے  قسم میں پیش کیا اور اس کی منظوری بھی مل گئی اور آخر میں جامعہ کی  اعلى اٹھارٹی  نے بھی اس پر موافقت کی مہر لگادی اور اسی پر میں نے ماسٹر کا مقالہ لکھا اور ممتاز نمبر سے کامیاب ہوا جس کے مناقش ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس اور ڈاکٹر خلف بن دبلان وذینانی تھے ۔

مقالہ تیار کرنے کے دوران جب ضرورت محسوس ہوتی تھی تو آپ سے فون پر گفتگو کر لیتا تھا یا ملاقات ہونے پر استفسار کر لیتا تھا ۔اور آپ ہمیشہ تعاون کرتے تھے ۔

 1417 ھ کی بات ہے میں نے  شیخ صالح محمد جمال رحمہ اللہ کی حج و عمرہ سے متعلق ایک کتاب کا اردو میں ترجمہ کیا تھا ۔اس میں بھی جہاں کہیں  مجھے کچھ بھی  شک تھا   ترجمہ لے کر آپ کے گھر گیا اور اس کی بابت آپ سے پوچھ کر اصلاح کی ۔

ابھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے اور تقریبا تین دہائیوں پر مشتمل تعلقات کو چند صفحات میں سمیٹنا مشکل ہے ۔ لہذا میں آج اپنی بات یہیں پر ختم کرتا ہوں ۔ بقیہ باتیں ان شاء اللہ دوسری قسط میں تحریر کروں گا ۔ اللہ توفیق دے ۔ آمین  

جارى


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: