غزہ کی المناک و خطرناک صورت
حال
(یہ تحریر 21/مارچ 2024 ع کی ہے )
حماس
و اسرائیل کے مابین جنگ کو 5/ماہ سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے,33/ہزار افراد موت کا
شکار ہوچکے ہیں اور مزید انسانی اموات کا
سلسلہ اب بھی جاری ہے, غزہ مکمل طور سے تباہ و برباد ہوچکا ہے, 12/لاکھ سے زائد
لوگ بھکمری کا شکار ہیں , مناسب و وافر
مقدار میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے, دوا و علاج تو دور کی بات ہے, لوگ گھاس پھوس کھانے کے لیے
مجبور ہیں , مشہور صحافی رویش کمار کی یہ
رپورٹ وہاں کی حقیقی صورت حال کو اجاگر کرتی ہے
جو بہت ہی خوفناک, وحشتناک اور رلانے والی ہے ۔
یہ
بلا شبہ انتہائی دکھ , افسوس, رنج و الم, تکلیف
اور غم کی بات ہے, ہم غیروں کی کیا شکایت کریں خود ہمارے اکثر مسلمان حکمران نااہل, ناکارہ, ایجنٹ اور خائن ہیں,
تقریبا 2/ ارب مسلمان اور 56/مسلمان ممالک
(ایران کو چھوڑ کر کیونکہ وہ شیعہ ملک ہے اور ہم اس کو مسلمان ملک نہیں مانتے ہیں, اور اس نے ہمیشہ در پردہ دشمنوں ہی کا ساتھ دیا
ہے ) اور ان کے اکثر حکمرانوں نے اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں , یہ کس قدر
لاچاری, مجبوری, بے بسی, بے غیرتی, ذلت و رسوائی و بے شرمی کی بات ہے کہ وہ
اسرائیل کو مناسب و کافی امداد غزہ تک پہنچانے کےلیے مجبور نہیں کر سکتے ہیں , ان حکمرانوں کو چلو پھر پانی میں ڈوب کے مر جانا
چائیے۔ معلوم نہیں یہ حکمراں کیا منہ لے کر قیامت کے دن اللہ سے ملاقات کریں گے۔
ہم
مسلمان بھی کم مجرم نہیں ہیں کیونکہ ہم
میں سے بھی ایک بہت بڑی تعداد کا ضمیر و دل مردہ ہوچکا ہے, احساس اخوت ختم ہوچکا ہے,
بے غیرتی و بے شرمی اپنے عروج پر ہے , بقول مولانا ابو الکلام آزاد مسلمان ایک
جذباتی قوم ہے, اس نے کچھ وجوہات کی بنا پر صرف دوڑنا سیکھا ہے , اس کو چلنا نہیں
آتا ہے , اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کچھ دنوں کے بعدکسی بھی مسئلہ میں ان کا جذبہ و جوش سرد پڑ جاتا ہے, اس لیے آج کل
مسلمان ممالک میں نہ کوئی پرامن احتجاج ہے نہ کوئی آواز ہے, اور اب تو میڈیا کوریج بھی بہت کم ہو رہا ہے
اور ہم مسلمان بھی خود اس مسئلہ کو بھول چکے ہیں اور رمضان کے مقدس مہینہ میں بھی لا یعنی و بیکار مباحث میں الجھے ہوئے ہیں ۔اسرائیل وزیر جنگ موشی دیان نے عربوں کے بارے میں کہا
تھا اور یہ تمام مسلمانوں پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے : العرب أمۃ لا تقرا و اذا قرات
لا تفہم و اذا فہمت لا تحفظ و اذا حفظت تنسى بسرعۃ و لا تتحرک یعنی عرب ایک ایسی
قوم ہے جو پڑھتی نہیں ہے اور جو پڑھتی ہے اس کو سمجھتی نہیں ہے اور جو سمجھ جاتی ہے اس کو یاد نہیں رکھتی ہے اور
جو یاد رکھتی ہے اس کو بہت جلدی بھول جاتی ہے اور اس پر ایکشن نہیں لیتی ہے ۔ اب
اس کے بعد بھی کیا کچھ کہنے یا تحریر کرنے
کو رہ جاتا ہے ۔
اللہ
کی قسم دشمنان اسلام نے 1924 ع میں
اسلامی خلافت کا خاتمہ کرکے اور پھر مسلمان ممالک کو تقسیم در تقسیم کرکے اور ان کے درمیان
مصنوعی سرحدیں قائم کرکےان کی سیاسی و اقتصادی کمر توڑ دی ہے اور اقوام متحدہ و
دیگر بین الاقوامی ایجنسیوں کا تماشہ کھڑا
کرکے ہمیشہ کے لیے ان کو اپنا تابع و غلام بنا لیا ہے, اسلامی اخوت کا تقریبا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب ہر مسلمان خصوصا حاکم صرف اپنے ملک و
عوام کی مصلحت و مفاد کو ترجیح دیتا ہے ۔کوئی اس سے اوپر اٹھ کر
سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
اور
ہم اکثر و بیشتر مسلمان صرف دعائیں کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور اسی میں مصروف ہیں
اور اللہ سے کسی معجزہ کی امید رکھتے ہیں , جب کہ 75/ سال سے یہ معجزہ نہیں ہوا اور
نہ ہونے والا ہے , اور جب حرمین کی دعائیں
فلسطین کے بارے میں قبول نہیں ہوتی ہیں تو ہم مسلمانوں کی دعائیں کیوں قبول ہوں
گی۔ اور دعاؤں کے عدم قبولیت کی وجہ یہ ہے کہ یہ قوانین فطرت و سنن الہیہ کے خلاف
ہیں ۔ دنیا دار الاسباب ہے یہاں صرف دعاؤں سے کام نہیں بنتا
ہے, دعاؤں کے ساتھ عمل اور ایکشن کی ضرورت ہوتی ہے جو دور حاضر کے مسلمانوں و اکثر نااہل و خائن حکمرانوں کے پاس بالکل نہیں ہے, ہم تو غیروں سے ایکشن کی امید رکھتے ہیں اور انہیں کے در کے بھکاری ہیں , اور یہ ہماری بین الاقوامی بد ترین پوزیشن و حیثیت کو ظاہر کرتا ہے ۔
خود سوچیے کہ اگر صرف دعاؤں سے مسائل حل ہوجاتے
تو اس کے سب زیادہ حقدار ہمارے پیارے نبی اور صحابہ کرام تھے, ان کی دعاؤں کی
قبولیت میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی صحابہ نے نبی کریم کے ساتھ جنگ
کیا, لڑائی کے میدان میں اترے اور دعا کے
ساتھ دوا کا استعمال کیا تب ان کو کامیابی
و کامرانی ملی, یہ مسلمان ممالک کے مسلمانوں و حکمرانوں کی ذمہ داری ہے لیکن آج کے
ہم جیسے کروڑوں لاچار و مجبور
مسلمان دعاؤں کے علاوہ اور کیا کر سکتے
ہیں , اے اللہ تو اہل غزہ کی ہر قسم کی مدد فرما اور ان کو ظالم و غاصب اسرائیل کے
ظلم سے نجات دے ۔ آمین
دعاؤں
کی بابت مزید تفصیل کے لیے گوگل سرچ کرکے پڑھیے: کیا ہمارے مسائل کا حل صرف دعاؤں
میں ہے۔
0 التعليقات: