اولیاء اللہ کون ہیں؟

 

                      اولیاء اللہ کون ہیں؟

آیت: الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیہم ولا ھم یحزنون , الذین آمنوا و کانوا یتقون, لہم البشرى فی الحیاۃ الدنیا و فی الاخرۃ , لا تبدیل لکلمات اللہ, ذلک ھو الفوز العظیم (یونس /62-64)

ترجمہ: سنو!بلا شبہ  اللہ کے اولیاء پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنج و غم کرتے ہیں , یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اہل تقوى میں سے تھے ۔ان کے لیے دنیاوی زندگی اور آخرت میں خوش خبری ہے , اللہ کی باتوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے , یہی بڑی کامیابی ہے ۔

معانی کلمات

الا: عربی کا ایک حرف ہے , سکون پر مبنی  ہے , اعراب میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے یعنی وہ ایک ایسا حرف ہے جو باعتبار اعراب غیر مؤثر ہے ۔ یہ ہمزہ اور لا نافیہ سے مرکب ہے  اور نفی پر ہمزہ کا آنا تاکید کا فائدہ دیتا ہے, یہ جملہ اسمیہ و فعلیہ دونوں پر داخل ہوتا ہے, یہ حرف استفتاح ہے یعنی کلام کی اس کے ذریعہ ابتدا ہوتی ہے اس وقت یہ اس کے بعد کی چیزوں کے قطعا  پورا ہونے پر دلالت کرتا ہے , جملہ کے شروع میں بطور  حرف تنبیہ بھی آتاہے۔ اس کے مختلف معانی ہیں, یہ تنبیہ کرنے, ملامت کرنے,کسی چیز کو طلب کرنے اور کسی چیز پر ابھارنے کے لیے بولا جاتا ہے, اس کے استعمال کرنے کا مقصد عموما قاری کی توجہ کو مبذول کرانا ہوتا ہے ۔ (موقع المعانی و  موضوع: انواع" الا "فی اللغۃ العربیۃ)  

اولیاء: یہ ولی کی جمع ہے , اس کا مادہ ول ی  ہے , یہ کئی معانی کے لیے بولاجاتا ہے,  اس کا ایک معنى قریب ہونا , متصل ہونا ہے, بولا جاتا ہے: ولی فلانا یعنی فلاں سے قریب ہوا, جلس مما یلیہ یعنی اس کے بغل میں بیٹھا,  اس کا ایک دوسرا معنى والی ہونا و متصرف ہونا ہے , کہا جاتا ہے: ولی الشئی و على الشئی یعنی اس چیز کا والی ہوا , اس کا متصرف ہوا۔ اس کا تیسرا معنى مدد کرنا ہے,  ولی الرجل و علیہ یعنی آدمی کی اس نے مدد کی , اسی طرح قبضہ کرنا و تصرف کے معنى میں بھی آتا ہے, مثلا ولی البلد یعنی اس ملک پر اس کا قبضہ ہوا اور محبت کرنے کے معنى میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے ولی الرجل یعنی اس آدمی سے اس نے محبت کی ۔ اس کا ایک معنى پیچھے پیچھے چلنا بھی ہوتا ہے, ولی اثرہ ای تبعہ یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلا۔

ولی کا معنى قریب, نگراں , سرپرست, محسن, مطیع , مددگار, حلیف وغیرہ ہے ۔یہاں پر قریب کے معنى میں ہے ۔(موقع المعانی و مصباح اللغات)

مختصر تفسیر: یہ سورہ یونس کی تین آیات ہیں جن  میں اللہ تعالى نے اپنے اولیاء و احباء کے بارے میں خبر دی ہے  اور ان کے اعمال, اوصاف , علامات, نشانیوں ,  ثواب اور بدلہ  کا ذکر کیا ہے۔

 پہلی آیت کا آغاز حرف" الا " سے ہوا ہے جس کا مقصد سامع کو تنبیہ کرنا, اس کے ذہن کو حاضر کرنا اور اس کے بعد آنے والے کلام کو قبول کرنے کے لیے تیار کرنا ہے  تاکہ یہ اس کی روح میں زیادہ سے زیادہ اتر جائے ۔(اسلام ویب: المقالات: القرآن الکریم, الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ...)

اولیاء یہ ولی کی جمع  ہے اور یہاں پر اس کا لفظی معنى " قریب" ہے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ۔ اس اعتبار سے اولیاء اللہ کے معنى ہوں گے وہ سچے اور مخلص مومن جنہوں نے احکام الہی کی پابندی کرکے اور برائیوں سے دور رہ کے اللہ کا قرب حاصل کرلیا ۔اسی لیے اگلی آیت میں خود اللہ تعالى نے بھی ان کی تعریف ان الفاظ سے بیان فرمائی :"جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقوى اختیار کیا"۔(احسن التفاسیر)

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان: "الذین آمنوا و کانوا یتقون " یہ ایک نیا جملہ ہے اس خصوصیت  کی وضاحت کے لیے جس نے انہیں ولایت کے درجے تک پہنچایا ۔ اور وہ  ان کے ایمان اور اچھی و بہتر اطاعت کا مجموعہ ہے۔کیونکہ تقوى در اصل احکام کی تعمیل  اور ممنوعات سے اجتناب ہے, اور یہ جملہ جواب کی جگہ پر آیا ہےکیونکہ جب سامع یہ سنتا ہے  کہ اللہ کے اولیاء  ہر قسم کے شر و برائی سے محفوظ رہیں گے تو اس کے اندر اس کا جواب جاننے کا شوق پیدا ہوتا ہے ۔اور یہ سوال کیا جاتا ہے کہ وہ اولیاء کون ہیں اور کس وجہ سے ان کو یہ عظیم فضیلت ملی ہے ۔ تو اس کا جواب دیا جاتا ہے : الذین آمنوا و کانوا یتقون یعنی جو لوگ ایمان لائے اور تقوى اختیار کیا ۔

 اور یہاں پر ایمان کا ذکر صیغہ ماضی کے ساتھ ہوا ہے کیونکہ یہ حجت کے فوراً بعد واقع  ہوتا ہے پھر روح میں بس جاتا ہے۔اور تقوى کا ذکر صیغہ مضارع کے ساتھ ہوا ہے  کیونکہ احکام کی تعمیل اور ممنوعات سے باز رہنا بار بار ہوتا ہے اور اس میں تجدد پایا جاتا ہے ۔ (اسلام ویب: المقالات: القرآن الکریم, الا ان اولیاء اللہ لا خوف علیھم ...)

اولیاء کے اوصاف و اعمال , علامات اور نشانیاں :

معلوم ہوا کہ اولیاء میں دوصفات اور خوبیوں  کا پایا جانا ضروری ہے (1) ایمان (2) تقوى  ان دو صفات کے بغیر کوئی بھی شخص ولی نہیں بن سکتا ہے۔اگر کوئی شخص مؤمن نہیں ہے تو وہ ہرگز ولی نہیں ہے اور اگر کوئی شخص مؤمن ہے لیکن اس کے اندر تقوى نہیں ہے تو وہ  بھی ولی نہیں ہے ۔ ولی کے لیے دونوں صفات کا ایک ساتھ پایا جانا ضروری ہے ۔ یہی ولایت کی نشانیاں اور علامات ہیں ۔

پہلی صفت :ایمان لانا:  اس سے مراد ہے کہ وہ اللہ ,  اس کے آخری رسول اور اس کے آخری و پسندیدہ دین اسلام  پر ایمان لائے , اس کے بغیر کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا ہے اور نہ آخرت میں اس کی نجات ہوسکتی ہے ۔ اب صرف یہی ایمان و اسلام معتبر ہے ۔ اس کے دلائل معروف و مشہور ہیں لہذا صرف ایک حدیث کا یہاں پر ذکر کیا جا رہا ہے جس میں آپ نے واضح کیا ہے کہ جس کو بھی آپr کی بابت معلوم ہوا  اور آپr کے بارے میں خبر پہنچی  لیکن  آپr کی نبوت پر ایمان نہیں لایا تو وہ جہنمی ہے ۔ آپr کا ارشاد گرامی ہے: والذی نفس محمد بیدہ, لا یسمع بی أحد من ہذہ الامۃیہودی و لا نصرانی , ثم یموت و لم یؤمن بالذی ارسلت بہ الا کان من أصحاب النار(مسلم)

ترجمہ: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد rکی جان ہے ۔ میرے بارے میں اس امت کے کسی یہودی و نصرانی کو علم ہوتا ہے پھر وہ اس حالت میں مرجاتا ہے کہ میری رسالت پر ایمان نہیں لاتا ہے تو وہ جہنمی ہے ۔ یہ روایت مسلم کی ہے ۔

دوسری صفت:تقوى  کا وجود

 تقوى کی لفظی تعریف: تقوى  یہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ وقى سے ماخوذ ہے۔ اسی سے وقایہ ہے۔ جس کا معنى ہے بچاؤ , حفاظت و حمایت۔اسی سے واضح ہوجاتا ہے کہ تقوى کو تقوى کیوں کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ ایک انسان کو گناہوں کے ارتکاب سے بچاتا ہے ۔ معصیتوں سے  اس کی حفاظت کرتا ہے ۔ حرام و ناجائز امور کے سامنے ڈھال ہوتا ہے اسی لیے اس کو تقوى کہا جاتا ہے۔

    تقوى کی شرعی تعریف: 

   تقوی کی سب سے مختصر و جامع تعریف یہ ہے :  الاتیان بالاوامر و الاجتناب عن النواہی یعنی اللہ کے  جملہ احکام کو بجا لانا اور تمام  برائیوں سے دور رہنا۔

    معلوم ہوا کہ تقوی در اصل اللہ سبحانہ و تعالی کی اطاعت و بندگی کا نام ہے ۔ اور یہ وہی کرے گا جس کے اندر اس کا خوف ہے ۔ اور اسی کا نام تقوی ہے ۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے :  تقوى کی تعریف اور اہمیت و فضیلت میرے ویب سائٹ پرdrmannan.com

تقوى کی تعریف سے واضح ہے کہ اس کے دو پہلو ہیں ۔ پہلا احکام پر عمل کرنا ہے یعنی تمام اسلامی احکام خواہ ان کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو ان سب کو نافذ کرنا۔ عبادت, اخلاق, معاملات, سیاست, تعلیم, معاشرتی زندگی, گھریلو زندگی, معاشیات, تجارت, اقتصاد, طب,  انجیرینگ وغیرہ سب میں اسلامی احکام کو لاگو کرنا اور ان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے لیکن اس کی تجارت اور بزنس شریعت کے مطابق نہیں ہے بلکہ حرام ہے تو وہ متقی ہرگز نہیں ہے ۔ یا اس کی معاشرتی و گھریلو زندگی میں اسلام کی پابندی نہیں ہے تو وہ متقی نہیں ہے ۔

تقوی کا دوسرا پہلو برائیوں سے دور رہنا ہے اور اس سے مراد وہ تمام برائیاں ہیں جن سے اسلام نے روکا ہے ۔مثلا: جھوٹ, غیبت, چغلی, سود خوری, رشوت, چوری, گالی گلوج, زنا کاری, قتل و خونریزی, حق تلفی, ظلم و ستم وغیرہ

اب اگر کوئی شخص ایک طرف  احکام کی پابندی سختی کے ساتھ کرتا ہے لیکن دوسری طرف  برائیوں سے دور نہیں رہتا ہے , اور اگر کسی بھی نوع کی برائی کرتا ہے تو وہ متقی نہیں ہے ۔

معلوم ہوا کہ متقی بننے کے لیے اس کے دونوں پہلؤں کا پایاجانا ضروری ہے , اس کے بغیر تقوى کا تصور محال و ناممکن ہے ۔ اور ولی وہی ہوگا جو  مؤمن کے ساتھ متقی ہو, ایمان و تقوى کے بغیر اس کا تصور محال و ناممکن ہے ۔اور جو شخص مؤمن متقی ہوگا وہی اللہ کا ولی ہوگا۔اس اعتبار سے ہر متقی مومن اللہ کا ولی ہے ۔یہی ولی کی پہچان, اس کی علامت و نشانی ہے ۔(راقم)

لیکن کچھ جماعتیں و فرقے ولایت کے لیے اظہار کرامت کو ضروری سمجھتے ہیں , اور پھر وہ اپنے بنائے ہوئے ولیوں کے لیے جھوٹی سچی کرامتیں مشہور کرتے ہیں ۔ یہ خیال سراسر باطل و غلط ہے ۔کرامت کا ولایت سے چولی دامن کا ساتھ ہے نہ اس کے لیے شرط۔ یہ ایک الگ چیز ہے , اگر کسی سے کرامت ظاہر ہوجائے تو اللہ کی مشیئت ہے , اس میں اس بزرگ کی مشیئت شامل نہیں ہے ۔ لیکن کسی متقی مؤمن اور متبع سنت سے کرامت کا ظہور ہو یا نہ ہو اس کی ولایت میں شک نہیں ۔ (احسن التفاسیر)

اولیاء کا ثواب اور بدلہ :

چونکہ اللہ کا حقیقی  ولی ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ بہت ہی مشکل کام ہے , اور ولی وہی بن سکتا ہے جس کے اندر خوف خدا ہو, ایمان و تقوى ہو لہذا اس کا ثوا ب و بدلہ  بھی بہت زیادہ  و عظیم ہے ۔

ان کا ایک  عظیم و عمدہ بدلہ  تو یہ ہے ان کو آخرت میں کوئی خوف و رنج نہیں ہوگا۔ خوف کا تعلق مستقبل سے ہے اور غم کا ماضی سے , مطلب یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے زندگی تقوى و خوف الہی کے ساتھ گذاری ہوتی ہے ۔ اس لیے قیامت کی ہولناکیوں کا اتنا خوف ان پر نہیں ہوگا جس طرح دوسروں کو ہوگا۔ بلکہ وہ اپنے ایمان و تقوى کی وجہ سے اللہ کی رحمت و فضل خاص کے امیدوار اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھنے والے ہوں گے ۔ اسی طرح وہ دنیا میں وہ جو کچھ چھوڑ گئے ہوں گے یا دنیا کی لذتیں انہیں حاصل نہ ہوسکی ہوں گی , ان پر انہیں کوئی حزن و ملال نہیں ہوگا ۔

ایک دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ دنیا میں جو مطلوبہ چیزیں انہیں نہ ملیں , اس پر وہ غم و حزن کا مظاہرہ نہیں کرتے, کیونکہ ان کا یقین ہے کہ یہ سب اللہ کی قضا و قدر ہے جس سے ان کے دلوں میں کوئی کدورت پیدا نہیں ہوتی بلکہ ان کے دل قضائے الہی پر خوش و مطمئن رہتے ہیں ۔(احسن التفاسیر)  اور جب ان کے اوپر کوئی خوف نہیں ہوگا اور نہ وہ غم کریں گے تو ان کے لیے امن , سعادت اور بہت زیادہ خیر   ثابت ہوگئی  جس کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں ہے ۔ (تفسیر سعدی)

اس کے علاوہ ان کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں بشارت اور خوش خبری ہے ۔

جہاں تک اس دنیا کی بشارت کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے: اچھی تعریف، مومنین کے دلوں میں پیار، سچا خواب ، اور بندہ جو اپنے اوپر اللہ کی مہربانی دیکھتا ہے اور وہ اس کے لیے بہترین اخلاق و اعمال کو آسان کردیتا ہے اور اس کو برے اخلاق سے دور کردیتا ہے ۔

 جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو اس کی سب سے پہلی  خوشخبری   اس وقت ہوگی  جب ان کی روح قبض کی جائے گی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان الذین قالوا ربنا اللہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکۃ الا تخافوا و لاتحزنوا و ابشروا بالجنۃ التی کنتم توعدون(حم السجدہ/30)یعنی بلا شبہ جن لوگوں نے اقرار کیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اسی پر ثابت قدم رہے تو ان کے اوپر فرشتے نازل ہوتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں)  نہ ڈرو اور نہ غم کرو, اور اس جنت کی بشارت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ۔ (تفسیر سعدی)

 اور قبر میں اللہ تعالی کی رضا اور ابدی نعمت  کی بشارت ہے۔

اور یہ بشارت آخرت میں مکمل ہوجائے گی جب مؤمن نعمتوں کے باغات میں داخل ہوجائے گا اور دردناک عذاب سے نجات پاجائے گا ۔

اللہ کے کلام میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ہے بلکہ اللہ نے جو بھی وعدہ کیا ہے وہ برحق ہے , اس کے اندر کوئی تبدیلی یا تغییر ممکن نہیں ہے, کیونکہ وہ اپنی بات میں سچا ہے  اور کوئی اس کی قضا و قدر کی مخالفت پر قادر نہیں ہے ۔

یہی بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ ہر قسم کے خوف و شر سے نجات اور ہر مطلوبہ خواہش کو حاصل کرنے پر مشتمل ہے, اور کامیابی کو صرف اسی میں محدود کردیا ہے  کیونکہ کامیابی صرف ایمان و تقوى والے کے لیے ہے ۔اس کے علاوہ کے لیے قطعا نہیں ہے ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ بشارت ہر اس  خیر و ثواب کو شامل ہے  جس کو اللہ تعالى نے دنیا و آخرت میں ایمان و تقوى پر مقرر کیا ہے , اس لیے اس کو مطلق رکھا ہے اور اس کو مقید نہیں کیا ہے ۔(تفسیر سعدی)

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام صادق مسلمانوں کو اپنے اولیاء میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: