ہوشیار و عقلمند کی پہچان

 

   ہوشیار و عقلمند کی پہچان

حدیث:عن  ابی یعلى شداد بن أوس قال : قال رسول اللہ: الکیس من دان نفسہ و عمل لما بعد الموت , والعاجز من اتبع نفسہ ہواھا و تمنى على اللہ الامانی(ترمذی/2459, اس کی سند حسن ہے, ترمذی کے علاوہ احمد, ابن ماجہ, کتاب الزہد, 4260,  اور دیلمی نے بھی روایت کیا ہے)

معانی کلمات

کیس:(یا پر شدہ و کسرہ کے ساتھ) , دانا, سمجھ دار, اچھی سمجھ بوجھ والا, ہوشیار, عقلمند, ج اکیاس

دان:دانہ دینا: مالک ہونا, غلام بنانا, ناپسندیدہ بات پر اکسانا, ذلیل کرنا, حکم دینا, خدمت کرنا, بھلائی کرنا, دان الرجل: عزیز ہونا, ذلیل ہونا, فرماں برداری کرنا, نافرمانی کرنا, دان دینا و تدین: دین اختیار کرنا ۔دان  بمعنى اطاع یعنی اطاعت کی , دان لہ منہ ای اقتص یعنی قصاص لیا ۔(موقع المعانی و مصباح اللغات)

ترجمہ: ابو یعلیٰ شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عقلمند اور ہوشیار  وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اس کا جائزہ لے یا اس کو اپنے تابع کرلے، اور موت کے  بعد کے لیے عمل کرے، اورنادان و  بیوقوف  وہ ہے جو اپنے کو اپنی خواہشات نفس کا تابع کردے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے اور امیدیں باندھیں۔

شرح حدیث:اس حدیث میں نبی کریم نے جہاں ایک طرف  ہوشیار و عقلمندشخص  کی پہچان  بتائی ہے , اس کی علامات و نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہیں دوسری طرف  احمق و بیوقوف شخص کی بھی پہچان بتائی ہے اور اس کی علامات و نشانیوں کا ذکر کیا ہے ۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں دو نشانیاں پائی جائیں تو وہ ہوشیار اور عقلمند ہے :۔۔۔

        پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے نفس امارہ بالسوء یعنی برائیوں کا بکثرت  حکم دینے والے نفس   کو قابو میں کرلے, اپنی خواہشات نفسانی کو کنٹرول میں رکھے , ہمیشہ اس کی مخالفت کرے اور  اپنے آپ کو اللہ کے احکام کے تابع کردے  یا جو کچھ کرتا  اور چھوڑتا ہے اس پر اپنے نفس کا محاسبہ کرتا رہے, اس کا برابر جائزہ لے , اگر غلط کام کرتا ہے  تو اس کو چھوڑ دے اور توبہ کرے ۔

       امام ترمذی کے نزدیک دان بمعنى حاسب ہے , اس لیے   'من دان نفسہ' کا مطلب ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرلے اس سے پہلے کہ قیامت کے روز اس کا محاسبہ کیاجائے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیاجائے، اور عرض اکبر(آخرت کی پیشی) کے لیے تدبیر کرو، اور جوشخص دنیا ہی میں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے قیامت کے روز اس پر حساب وکتاب آسان ہوگا۔ میمون بن مہران کہتے ہیں: بندہ متقی و پرہیز گارنہیں ہوتا یہاں تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے جیسا کہ اپنے شریک سے محاسبہ کرتاہے اور یہ خیال کرے کہ میرا کھانا اور لباس کہاں سے ہے ۔(ترمذی)

       دوسری نشانی یہ ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں سے آخرت کو ترجیح دے, صرف امور دنیا میں گم ہوکر نہ رہ جائے , موت کو یاد کرتا رہے اور اس کے بعد کی تیاری کرے  کیونکہ حقیقی و  اصل وہی زندگی ہے , اور آخرت کی کامیابی ہی سب سے بڑی اور حقیقی کامیابی ہے , دنیا میں اگر کوئی شخص ناکام رہتا ہے تو کوئی افسوس , رنج و غم کی بات نہیں ہے لیکن آخرت کی ناکامی سب سے بڑا خسارہ ہے ۔

یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح كرديا   ہے  کہ چونکہ اصل زندگی یہ چند روزہ زندگی نہیں ہے بلکہ آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی ہی اصل زندگی ہے ، اور اُس زندگی میں کامیابی اُن ہی کے لئے ہے جو اس دنیا میں اللہ کی اطاعت اور بندگی والی زندگی گزار دیں ، اس لئے درحقیقت دانشمند اور کامیاب اللہ کے وہ بندے ہیں جو آخرت کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں ، اور جنہوں نے اپنے نفس پر قابو پا کر اس کو اللہ کا مطیع و فرمانبردار بنا رکھا ہے ۔

      پیارے نبی کے بتانے کے اعتبار سے یہ دو نشانیاں ہوشیار و عقلمند, زیرک و دانا شخص کی ہیں ۔اب اگر کسی شخص میں یہ دو علامات موجود ہیں تو وہ بلاشبہ دانا, زیرک, عقلمند و ہوشیار ہے ۔

    اس کے برعکس وہ شخص نادان,جاہل ,  احمق اور بیوقوف ہے جس میں یہ دو نشانیاں پائی جاتی ہیں :---

        پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے نفس امارہ بالسوء کا غلام ہے, جس نے اپنے کو نفس کا بندہ بنا لیا ہے, الله کے احکام و اوامر کی پابندی کے بجائے اپنے نفس کے تقاضوں پر چلتا ہے, اس کی خواہشات کو پوری کرنے میں لگا رہتا ہے, شب و روز برائیوں اور گناہوں میں غرق رہتا ہے, اسے نہ توبہ کی فکر ہے نہ آخرت کی, اسے بس ہمیشہ دنیا کی فکر دامن گیر رہتی ہے , وہ احکام الہی کو ترک کرنے کا خوگر ہے ۔

دوسری نشانی یہ ہے کہ ایسا شخص بھی  اللہ سے تمنائیں رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی آرزو رکھتا ہے۔ اس کی حماقت کی انتہا اس وقت ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالیٰ سے جھوٹی امیدیں بھی وابستہ کر لے۔اور وہ اس طرح کہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی معافی، مغفرت اور وسعت رحمت کا لالچ دے۔ یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کا مفہوم کتاب و سنت سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (وقل اعملوا) (کہہ دیجیے کہ تم عمل کیے جاؤ)، (وتوكل على الله) (اور اللہ پر بھروسہ رکھو)، (أم حسبتم أن تدخلوا الجنة) (کیا تم یہ گمان کیے بیٹھے ہو کہ جنت میں (یوں ہی) چلے جاؤ گے)۔( الجمہرۃ معلمۃ مفردات المحتوى الاسلامی)

بلاشبہ اس حدیث میں ان لوگوں کو خاص آگاہی دی گئی ہے ، جو اپنی عملی زندگی میں اللہ کے احکام اور آخرت کے انجام سے بے پروا اور بے فکر ہو کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں ، اور اس کے باوجود اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے امیدیں رکھتے ہیں ، اور جب اللہ کا کوئی بندہ ٹوکتا ہے تو کہتے ہیں اللہ کی رحمت بڑی وسیع ہے ، اس حدیث نے بتلایا کہ ایسے لوگ دھوکے میں ہیں ، اور اُن کا انجام نامرادی ہے ۔ پس معلوم ہوا کہ رجاء یعنی اللہ سے رحمت اور کرم کی امید وہی محمود ہے جو عمل کے ساتھ ہو ، اور جو امید بے عملی اور بد عملی اور آخرت کی طرف سے بے فکری کے ساتھ ہو ، وہ رجاءِ محمود نہیں ہے بلکہ نفس شیطان کا فریب ہے ۔ ( معارف الحدیث)

اللہ رب العزت کے غفور و رحیم ہونے میں کوئی شبہ نہیں، تاہم اس امید سے گناہ کرتے رہنا شیطان کے واروں میں سے ایک وار ہے، موت کا وقت کسی کے علم میں نہیں، نہ  معلوم کے بعد میں توبہ کا موقع ملے یا نہ ملے، لہذا گناہ پر توبہ نہ کرنا اور  کہتے رہنا کہ اللہ رحم کرنے والا ہے اور بہت بڑا ہے، کم عقلی کی بات ہے،  پس بشری بنیاد پر اگر  گناہ سرزد ہوجائے تو فوری توبہ کرلینا  چاہیے، توبہ کی شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ توبہ کرتے وقت  آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم ہو،  اگر یہ خیال ہو کہ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے ہیں، لیکن آئندہ گناہ نہ چھوڑنے کا پختہ ارادہ نہ ہو تو یہ توبہ نہیں ہے، توبہ یہ ہے کہ  دلی ندامت کے ساتھ وہ گناہ  فوری طور پر چھوڑ دیا جائے اور آئندہ نہ کرنے کا پختہ عزم کیا جائے، پس اس عزم کے باوجود بھی اگر گناہ سرزد ہوجائے تو نا امید ہونے کے بجائے پھر تو بہ کرلے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ بہترین خطا کار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔(جامعۃ العلوم الاسلامیہ: دار الافتاء, اللہ کی رحمت کی امید پر گناہ کرتے رہنا اور توبہ نہ کرنا)

 معلوم ہوا کہ وہ شخص انتہائی نادان  اور بیوقوف ہے جس میں یہ دو نشانیاں پائی جاتی ہیں ۔اور یہ اس کی پہچان ہے ۔اور وه  یقینا ہمیشہ ناکام رہنے والا ہے خواہ وہ دنیا کمانے میں کتنا ہی چست و چالاک اور پھرتیلا ہو۔

اسی حدیث  کے مشابہ ایک دوسری روایت ہے۔ پیارے نبی کا فرمان ہے: عَنِ عَبْدُاللهِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : رَجُلٌ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَنْ أَكْيَسُ النَّاسِ وَأَحْزَمُ النَّاسِ؟ قَالَ : « أَكْثَرَهُمْ ذِكْرًا لِلْمَوْتِ , وَأَشَدُّهُمُ اسْتِعْدَادًا لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِ الْمَوْتِ , أُولَئِكَ هُمُ الْأَكْيَاسُ ذَهَبُوا بِشَرَفِ الدُّنْيَا وَكَرَامَةِ الْآخِرَةِ » (طبرانى / المعجم الصغير )

ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ : اے اللہ کے پیغمبر ! بتلائیے کہ آدمیوں میں کون زیادہ ہوشیار اور دور اندیش ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : وہ جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے ، اور موت کے لئے زیادہ سے زیادہ تیاری کرتا ہے جو لوگ ایسے ہیں وہی دانشمند اور ہوشیار ہیں ، انہوں نے دنیا کی عزت بھی حاصل کی ، اور آخرت کا اعزاز و اکرام بھی ۔

اس حديث کے  اعتبار سے موت کو بہت زیادہ یاد کرنے والا اور آخرت کی خوب زیادہ تیاری کرنے والا  ہی ہوشیار , دانا اور عقلمند ہے کیونکہ ایسا کرنا دنیا و آخرت دونوں کے لیے فائدہ مند ہے,  عموما ایسے شخص کو دونوں جہاں میں سرخروئی و کامیابی ملتی ہے اور اگر دنیاوی عیش و آرام , مال و دولت کے  اعتبار سے وہ ناکام بھی ہوتو یہ ظاہری ناکامی ہے لیکن آخرت کی کامیابی اس کا مقدر ہے ۔ ان شاء اللہ -جس  کامیابی کے سامنے دنیا کی بڑی سی بڑی کامیابی ہیچ ہے اور اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور وہی حقیقی و بڑی کامیابی ہے ۔  

اور جب یہ حقیقت ہے کہ اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے ، جس کے لیے کبھی فنا نہیں ، تو اس میں کیا شبہ کہ دانشمند اور دور اندیش اللہ کے وہی بندے ہیں جو ہمیشہ موت کو پیشِ نظر رکھ کر اس کی تیاری کرتے رہتے ہیں ، اور اس کے برعکس وہ لوگ بڑے ناعاقبت اندیش اور احمق ہیں جنہیں اپنے مرنے کا تو پورا یقین ہے لیکن وہ اس سے اور اس کی تیاریوں سے غافل رہ کر دنیا کی لذتوں میں مصروف اور منہمک رہتے ہیں ۔

    ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے  کہ موت کی یاد  اور فکرِآخرت کوانسانی زندگی کی کامیابی اور سنوارنے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اس سے غفلت ہلاکت و بربادی ہے  ۔ یہی  وجہ ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں ان صفات کو پیدا کرنے کے لیے بہت محنت فرمائی، کبھی تو ان صفات کے فضائل و فوائد بیان فرمائے اور کبھی اللہ تعالیٰ کے جلال و قہر اور آخرت کے سخت ترین حالات کا تذکرہ فرمایا تاکہ دلوں میں اللہ کا خوف, موت کی یاداور  فکرِآخرت پیدا ہو اور اس سے غفلت و لاپرواہی کا خاتمہ ہو ۔

 اور یہ ایک  مسلمہ حقیقت ہے کہ جب یہ صفات دل میں اتر جائیں  تو انسان کی پوری  زندگی بدل جاتی ہے ، خواہشات و شہوات کی پیروی سے جان چھوٹ جاتی ہے اور انسان کے لیے دین اسلام پر عمل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےوعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت کو پیدا کیا جس کے اثرات یہ تھے کہ وہ معاشرہ جو ساری دنیا میں بدتہذیبی کی مثال بنا ہوا تھا وہی معاشرہ ساری دنیا کے سامنے مثالی معاشرہ کے طور پر رونما ہوا۔آج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہیں  تعلیمات پر عمل کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی کھوئی ہوئی اقدار حاصل کر سکے ۔(احناف ڈیجیٹل لائبریری , قسط -5, فکر آخرت)

   كوتاه  بیں اور حقیت سے غافل لوگ دنیا میں دانا, ہوشیار اور کامیاب  اس کو سمجھتے ہیں  ، جو دنیا کمانے میں چست و چالاک ہو ، خوب دونوں ہاتھوں سے دنیا سمیٹتا ہو ، اور جو کرنا چاہے کر سکتا ہو ، اور بے وقوف و ناتواں وہ سمجھا جاتا ہے جو دنیا کمانے میں تیز اور چالاک نہ ہو ۔ اور اہلِ دنیا جو اس دنیوی زندگی ہی کو سب کچھ سجھتے ہیں ، اُن کو ایسا ہی سمجھنا بھی چاہئے۔جب کہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ  وہی ہے جس کا ذکر حدیث میں ہوا ہے  ۔

    آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو  اس اہم و بنیادی حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: