عبادت کا صحیح شرعی مفہوم
ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی عبادت کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عبادت صرف فرائض یا معروف ذکر و اذکار وغیرہ کا نام ہے ۔حالانکہ ایک مسلمان کا ہر کام حتی کہ اس کا اٹھنا بیٹھنا , سونا جاگنا , چلنا پھرنا اور اپنی بیوی سے اپنی خواہش کو پوری کرنا وغیرہ بھی عبادت ہے ۔ لیکن یہ نہ جاننے کی وجہ سے وہ ان کاموں کے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اب یہ ہمارے روز مرہ کے کام عبادت کیسے بن سکتے ہیں اور عبادت کیا ہے ۔ اسی چیزکی اس میں وضاحت کی گئی ہے۔ خود بھی جانیے دوسروں کو بھی بتائیے تاکہ ہر کوئی اس سے فائدہ اٹھائے ۔
---------------------------------------------------------------------------
زمانہ ماضی اور حاضر دونوں میں پیمانوں کے بدل جانے , مفاہیم و معانی کے بگڑ جانے کی وجہ سے ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی یہ سمجھتے رہے ہیں کہ عبادت کا مطلب صرف اور صرف عبادتی شعائر و فرائض کو ادا کرنا ہے مثلا نماز پڑھنا, روزہ رکھنا, حج و عمرہ کرنا یعنی عبادت صرف عبادت کے شعائر اور فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے یا اس کے علاوہ دیگر عبادتی کاموں کو انجام دینے کا نام ہے۔, مثلا دعوت و تبلیغ کرنا ,قرآن کی تلاوت کرنا, ذکر و أذکار کرنا اور صدقہ و خیرا ت کرنا ۔ اور ایک مسلمان کےروز مرہ کے بقیہ اعمال مثال کے طور پر کھانا پینا, اٹھنا بیٹھنا, سونا جاگنا, چلنا پھرنا, بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا یا اس سے ہمبستری کرنا, سفر کرنا, تعلیم و تعلم, روزی کمانا , والدین کے ساتھ حسن سلوک , اتحاو اتفاق یا قیام خلافت کے لیے کوشس کرنا, زمین کو آباد کرنا , گھر بنانا, غریبوں , مسکینوں , بیواوں حتى کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ یہ سب عبادت میں شامل نہیں ہیں۔یا بلفظ دیگر عبادت کا روز مرہ کے اخلاق و معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
زمانہ ماضی اور حاضر دونوں میں پیمانوں کے بدل جانے , مفاہیم و معانی کے بگڑ جانے کی وجہ سے ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی یہ سمجھتے رہے ہیں کہ عبادت کا مطلب صرف اور صرف عبادتی شعائر و فرائض کو ادا کرنا ہے مثلا نماز پڑھنا, روزہ رکھنا, حج و عمرہ کرنا یعنی عبادت صرف عبادت کے شعائر اور فرائض کو ادا کرنے کا نام ہے یا اس کے علاوہ دیگر عبادتی کاموں کو انجام دینے کا نام ہے۔, مثلا دعوت و تبلیغ کرنا ,قرآن کی تلاوت کرنا, ذکر و أذکار کرنا اور صدقہ و خیرا ت کرنا ۔ اور ایک مسلمان کےروز مرہ کے بقیہ اعمال مثال کے طور پر کھانا پینا, اٹھنا بیٹھنا, سونا جاگنا, چلنا پھرنا, بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنا یا اس سے ہمبستری کرنا, سفر کرنا, تعلیم و تعلم, روزی کمانا , والدین کے ساتھ حسن سلوک , اتحاو اتفاق یا قیام خلافت کے لیے کوشس کرنا, زمین کو آباد کرنا , گھر بنانا, غریبوں , مسکینوں , بیواوں حتى کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کرنا وغیرہ یہ سب عبادت میں شامل نہیں ہیں۔یا بلفظ دیگر عبادت کا روز مرہ کے اخلاق و معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تو
کیا یہ عبادت کا صحیح شرعی مفہوم ہے ۔ اگر نہیں ہے تو پھر اس کا صحیح شرعی مفہوم
کیا ہے؟
عبادت کا صحیح شرعی
مفہوم یہ نہیں ہے بلکہ عبادت شرعی طور پر
ان دونوں یعنی عبادتی شعائر , بنیادی و غیر بنیادی عبادات , فرائض و مباحات سب کو شامل ہے یعنی مسلمان کا
ہر کام عبادت ہے۔خواہ ان کا تعلق عبادت کے شعائر سے ہو یا نہ ہو۔اس بنا پر ایک
مسلمان کا گھر بنانا , روزی کمانا, کھیتی کرنا,سب کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا , چلنا
پھرنا, اٹھنا بیٹھنا, سفر کرنا, تعلیم و تعلم, درس و تدریس, سونا جاگنا, کھنا
پینا یہاں تک کہ اس کا اپنی بیوی سے بوس
کنار کرنا اور جماع کرنا بھی عبادت میں داخل ہے۔
اب
میں قرآن و سنت سے ان دلیلوں کا ذکر کرتا ہوں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلمان کا ہر کام عبادت میں داخل ہے:---
1- اللہ عز و جل کا فرمان ہے : وما خلقت الجن و الانس
الا لیعبدون (ذاریات /56) یعنی ہم نے انسانوں
اور جناتوں کی تخلیق صرف عبادت کے لیے کی ہے ۔
2- ایک دوسری آیت میں ہے: قل ان صلاتی و نسکی و محیای
و مماتی للہ رب العالمین (انعام /162) یعنی اے نبی کہہ دیجیے کہ بلا شبہ میری نماز
میری عبادت میرا جینا و میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
3-عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهم عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهم
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ يُصَلُّونَ
كَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ كَمَا نَصُومُ وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ
قَالَ أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ إِنَّ بِكُلِّ تَسْبِيحَةٍ
صَدَقَةً وَكُلِّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً وَكُلِّ تَهْلِيلَةٍ
صَدَقَةً وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ صَدَقَةٌ وَفِي
بُضْعِ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ
وَيَكُونُ لَهُ فِيهَا أَجْرٌ قَالَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَكَانَ
عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ فَكَذَلِكَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ كَانَ لَهُ أَجْرًا
))(صحيح مسلم)
یہ
حدیث بہت ہی مشہور حدیث ہے ۔ حضرت ابو ذر کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ کے اصحاب میں سے چند لوگوں
نے آپ سے فرمایا کہ اے اللہ کے رسول تمام نیکیاں تو مالدار ہی لے گئے کیونکہ وہ
نماز ادا کرتے ہیں جس طرح ہم نماز ادا کرتے ہیں ۔ وہ روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم
روزہ رکھتے ہیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ اپنے زائد مال سے صدقہ بھی کرتے ہیں۔ (اور بعض
روایات میں ہے کہ ہم لوگ صدقہ نہیں کرتے ہیں , وہ لوگ غلام آزاد کرتے ہیں اور ہم
لوگ نہیں آزاد کرتے ہیں )تو آپ نے جواب
دیا: کیا ایسا نہیں ہے یعنی ایسا مت کہو کیونکہ اللہ نے تمہارے لیے وہ چیزیں بنادی
ہیں جن کے ذریعہ تم صدقہ کرسکتے ہو۔پھر آپ نے وضاحت کی: ہر تسبیح ( سبحان اللہ کہنا )صدقہ ہے ۔ ہر تکبیر ( اللہ
اکبر کہنا)صدقہ ہے ۔ ہر تحمید( الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے۔ ہر
تہلیل( لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے ۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا
صدقہ ہے ۔اور تمھارا اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنا بھی صدقہ ہے ۔یہ سن کر صحابہ کرام
کو تعجب ہو ا تو انھوں نے سوال کیا : اے رسول اللہ کیا ہم میں سے کوئی اگر أپنی جنسی خواہش کو پوری کرتا
ہےتو اس میں بھی اس کو اجر ملے گا۔ تو آپ نے اپنے صحابہ سے سوال کیا : یہ بتلاؤ کہ
اگر کوئی اپنی خواہش حرام طریقہ سے پوری کرتا ہے تو کیا اس کو گنا ہ ملے گا کہ
نہیں؟ اسی طرح اگر کوئی اپنی خواہش حلال طریقے سے پوری کرتا ہے تو اس کو اجر حاصل
ہوگا۔
4-«إنك
لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت عليها، حتى ما تجعل في فم امرأتك»بخاری
و مسلم یعنی یقینا تو جو کچھ بھی اللہ کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتا ہے ۔اس پر تجھے
اجر حاصل ہوگا یہاں تک کہ جو تو کچھ بیوی کے منہ میں داخل کرتا ہے۔
5۔
(مَا أطعَمْتَ نَفْسَك فَهُوَ صدقةٌ وَمَا أطعمْتَ ولدك وزوجتَك وخادمك فهو صدقةٌ)
قال
الشيخ الألباني صحيح - في السلسلة الصحيحة: 452 .یعنی جو تونے اپنی نفس کو کھلایا وہ صدقہ ہے ۔ اور جو تونے اپنی بیوی,
بچوں اور نوکر کو کھلایا وہ صدقہ ہے۔
6۔كان
أحد الصحابة يقول: "إني لأحتسب نَومتي كما أحتسب قَومتي".ایک صحابی کہا
کرتے تھے کہ جس طرح میں اپنے قیام پر ثواب کی امید رکھتا ہوں اسی طرح میں اپنی
نیند پر بھی ثواب کی امید رکھتا ہوں۔
مذکورہ
بالا آیات , احادیث اور صحابی کا قول اس بات
کی واضح دلیل ہیں کہ اسلام میں عبادت کا مفہوم
, معنی و مطلب ہماری زندگی کے ہر جزء و فعل
کو شامل ہے ۔ کوئی بھی نیک کام عبادت سے خارج نہیں ہے۔کیونکہ پہلی آیت سے مراد صرف
عبادتی شعائر مثلا نماز روزہ وغیرہ ہی نہیں ہیں بلکہ اس کا مقصد ہے جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ نے عبادت کی تعریف میں
بتلایا ہے: "العبادة اسم جامع لكل ما يحبه الله ويرضاه من الأقوال والأفعال الباطنة
والظاهرة"،ترجمہ : وہ تمام ظاہری و باطنی اقوال و اعمال جو اللہ کو پسند ہیں اور
جن سے وہ راضی ہوتا ہے وہ سب عبادت میں شامل ہیں ۔ اور جیسا کہ ان
احادیث سے واضح ہے جو اوپر ذکر کی
گئیں جن میں کھانا کھلانے اور جنس
خواہش پر بھی اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔
اور
یہی عبادت کا عام مفہوم ہے۔ اور اسی کے ذریعہ ہم دوسری آیت کو سمجھتے ہیں ۔کیونکہ ان
دونوں آیتوں کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ایک
آدمی ہمیشہ مسجد میں بیٹھ کے صرف نماز و قرآن پڑھتا رہے یا ذکر و اذکار کرتا رہے ۔ تبھی اس کی تخلیق کا
مقصد پورا ہوگا جیسا کہ پہلی آیت میں ہے یا اس کی پوری زندگی اللہ کے لیے ہوگی جیسا
کہ دوسری آیت میں ہے۔ بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ کچھ بنیادی عبادات ہیں اور وہ مامورات ( وہ امور جن کے کرنے کا اللہ
نے حکم دیا ہے) و منہیات ( وہ امور جن سے اللہ نے روکا ہے) ہیں اور کچھ فرعی یا غیر
بنیادی عبادات ہیں اور وہ مباحات ہیں یعنی وہ جائز امور ہیں جن کو ایک انسان روز آنہ کرتا ہے ۔ لیکن یہی جائز امور ایک انسان
کے لیے اخلاص وموافقت شریعت کے ساتھ عبادت
بن جاتی ہیں۔
معلوم
ہوا کہ ایک مسلمان کا ہر نیک عمل عبادت ہے۔ کیونکہ اگر عبادت کو صرف شعائر تعبدیہ کے
اندر محصور کردیاجائے تو پھر انسان کی تخلیق کا مقصد پورا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی
پوری زندگی اللہ کے لیے ہوگی ۔ اور اس مقصد کا حاصل کرنا بھی محال ہوگا۔
لیکن
یہ یاد رکھیے اور ذہن نشین کر لیجیے کہ
ایک مسلمان کے تمام نیک اعمال ۔ بنیادی و فرعی , فرائض و غیر فرائض۔ اسی وقت
عبادت شمار ہوں گے اور عند اللہ مقبول ہوں گے جب ان میں دو شرطیں اخلاص و موافقت
شریعت۔ جیسا کہ اوپر گذرا۔ پائی جائیں۔ ان دونوں شرطوں کی تفصیل درج ذیل ہے:---
1-
موافقت
شریعت : عمل شریعت کے موافق ہو۔یعنی جس
طرح اللہ و اس کے رسول نے کرنے کا حکم دیا ہے اس کو اسی طرح سے کیا جائے ۔ اس میں
اپنی طرف سے کوئی کمی یا زیادتی نہ کی جائے۔ مثلا ظہر کی فرض رکعات چار ہیں تو چار
ہی ادا کریں ۔ اسی طرح روزہ صبح صادق سے لیکر غروب شمس تک ہوتا ہے ۔لہذا روزہ اسی محدود وقت میں رکھیں اس میں کمی یا زیادتی نہ کریں۔غرضیکہ جو کام بھی ہو چھوٹا یا بڑا اس کو شریعت کے موافق کیا
جائے۔
2-
اخلاص
: یعنی اس کے کرنے کا مقصد صرف اور صرف اللہ کی رضا جوئی حاصل کرنا اور اس کی
خوشنودی ہو۔ دکھاوا اور ریا و نمود سے پاک ہو۔لوگوں کی خوشنودی یا دنیاوی غرض و
غایت نہ ہو وغیرہ۔ورنہ آپ کی عبادت رحمت کے بجائے زحمت بن جائے گی اور بارگاہ الہی
میں قبول نہیں ہوگی۔خواہ وہ کوئی بھی عبادت ہو حتی کہ نماز بھی نہیں قبول ہوگی۔
اب میں چند مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت
کرتا ہوں تاکہ عام لوگ بھی اس کو سمجھ سکیں ۔صرف تین مثالیں : کھنا پینا , سونا جاگنا اور قضاء حاجت کرنا
1- کھانا پینا: اگر آپ کا کھانا پینا شریعت کے
موافق ہے اور اس میں اخلاص ہے توہ بھی
عبادت ہے۔ مثلا آپ کا کھانا حلال ہے۔ آپ کھانا داہنے ہاتھ سے بسم اللہ کرکے کھاتے
ہیں۔اسی طرح پانی تین سانس میں بسم اللہ کرکے پیتے ہیں۔ آپ کے کھانے پینے کا مقصد
اللہ کی رضا جوئی حاصل کرنا ہےیعنی اس کی عبادت کرنا, اسلام و مسلمانوں کی خدمت
کرنا وغیرہ ہے نہ کہ کسی پر ظلم کرنا ۔غرضیکہ
کھانے پینے کے جو شرعی آداب ہیں اگر آپ ان کو بجالاتے ہیں تو آپ کا کھانا پینا
عبادت ہے ۔ اس پر آپ کو ثواب ملے گا۔
2۔ سونا جاگنا: اسی طرح سونا جاگنا اگر
اسلامی آداب کے مطابق ہیں تو وہ بھی عبادت ہے ۔ یعنی جب آپ سوتے ہیں تو داہنی کروٹ
سوتے ہیں ۔ سونے کی دعائیں پڑھتے ہیں۔ پیٹ کے بل نہیں سوتے ہیں۔ آپ کے سونے کا
مقصد اللہ کی رضاجوئی ہے ۔ سو کر اٹھنے کے بعد دعا پڑھتے ہیں۔ یعنی سونے کے جو
اسلامی آداب ہیں اس پر عمل کرتے ہیں۔
3۔ قضاء حاجت کرنا:اسی طرح آپ کا پاخانہ و
پیشاب کرنا بھی ہے ۔ اگر اسے آپ اسلامی طریقے سے کرتے ہیں تویہ بھی عبادت ہے ۔ اس
پر آپ کو ثواب ملے گا۔ یعنی جب آپ ٹوائلٹ جاتے ہیں تو دعا پڑھتے ہیں۔ پھر بایاں
پیر داخل کرتے ہیں۔ اور جب قضاء حاجت کے
لیے بیٹھتے ہیں تو قبلہ رخ نہیں ہوتے ہیں۔ بائیں پیر پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ پھر
صفائی کرتے ہیں اس کے بعد نکلتے ہیں تو
دایاں پیر پہلے نکالتے ہیں پھر دعا پڑھتے
ہیں۔ اس طرح آپ کا یہ عمل عبادت ہوگا اور آپ کو ثواب ملے گا۔ کیونکہ یہ اللہ کا
حکم ہے اور اگر کوئی آدمی اپنا پاخانہ و
پیشاب روکتا ہے تو وہ بیمار ہوکر فوت بھی ہوسکتا ہے ۔ اور یہ شرعا منع ہے۔
اسی طرح آپ کے تعلیم وتعلم, درس و تدریس,
چلنا پھرنا, سفر کرنا, قیام خلافت یا
اسلامی نظام کے لیے کوشس کرنا, خدمت خلق کرنا, دعوت و تبلیغ کرنا یہ سب بھی عبادت
ہیں لیکن ان دونوں شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔ اگر یہ دونوں شرطیں نہیں پائی
جاتی ہیں تو پھر آپ کا ایمان بھی اللہ کے نزدیک غیر مقبول ہے ۔مثال کے طور پر
منافقین نبی کے زمانہ میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے ۔ نماز بھی ادا کرتے تھے ۔
اور ظاہری طور پر ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاو بھی کیا جاتا تھا۔ لیکن پھر بھی
وہ منافق کہلائے اور ان کا ایمان مردود ٹہرا کیونکہ ان میں اخلاص نہیں تھا وہ صرف
ظاہری طور پر دنیاوی غرض و غایت کے لیے اسلام لائے تھے۔
اسی طرح نماز اور دیگر عبادات کا بھی مسئلہ ہے۔
اگر کوئی شخص دن بھر میں پانچ فرض نماز کے
بجائے چھ نمازیں یا صرف چار نمازیں فرض سمجھ کے پڑھتا ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو
دکھانا ہے تو ایسی نماز بھی عند اللہ غیر مقبول عبادت ہے۔
معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کا ہر وہ کام عبادت ہے جو اللہ کی رضاجوئی اور اس
کے حکم کی تعمیل میں انسانوں کے حقوق کو ادا کرنے کے لیے شریعت کے موافق کیا جائے۔
میرے بھائیو اور بہنو: یہ جان لینے کے بعد تو اب دیر کس بات کی ہے۔ آپ خود عمل کیجیے تاکہ
آپ کے روز مرہ کے معمول کے کام بھی عبادت بن جائیں۔ ان پر آپ کو ثواب حاصل ہو۔۔ اسی
کو کہتے ہیں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام یا ایک پنتھ اور دو کاج ۔ اور دوسروں کو
بھی اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ بتلائیے کیونکہ بہت سارے مسلمان اس کے بارے میں
نہیں جاتے ہیں۔ اس سے ان کو بھی ثواب حاصل ہوگا اور آپ کو بھی۔ ہاں اگر آپ اسلامی
طور طریقوں اور دعاؤں کو نہیں جانتے ہیں
تو اس اعلى مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ان کو سیکھنے میں دیر مت کیجیے۔
اور اگر میرا کوئی دینی بھائ اس کا فولڈر بناکے افادہ عامہ کی غرض سے تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے تاکہ ہمارا اردو داں طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے ۔ اللہ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے کی توفیق دے ۔ آمین۔
اور اگر میرا کوئی دینی بھائ اس کا فولڈر بناکے افادہ عامہ کی غرض سے تقسیم کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے تاکہ ہمارا اردو داں طبقہ اس سے فائدہ اٹھا سکے ۔ اللہ ہمیں زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے کی توفیق دے ۔ آمین۔
وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان
الحمد للہ رب العالمین
0 التعليقات: