نوٹ: یہ تحریر 6/ ربیع الثانی 1438 ھ کی ہے۔اس وقت میں نے
اردو مجلس کے ایک پیغام میں لکھا تھا کہ إحیاء خلافت ایک فریضہ ہے۔ تو اس پر ہمارے
ایک سلفی بھائی نے بہت سارے اعتراضات کیے تھےجن کا میں نے جواب دیا تھا۔آج میں اسی
تحریر کو عوام و خواص کے فائدہ کے لیے أپنی ویب سائٹ پر چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ
نشر کر رہا ہوں۔اللہ تعالى ہم سب کو حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بسم اللہ و الجواب بعون الوہاب
ایک مثل ہے : جواب جاہلاں باشد خموشی , اور ایک شعر ہے :
تا مرد سخن نگفتہ باشد عیب و ہنرش نہفتہ باشد
سچ پوچھیے تو آپ کی یہ پوری تحریر اور جواب اسی قبیل کا ہے
۔ جس سے اس موضوع سے آپ کی لا علمی, عدم واقفیت ,
جہالت اور آپ کے تمام عیوب و ہنر کا پتہ چل جاتا ہے ۔ کیونکہ:---
پہلی بات: آپ کے جواب کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ میں
نے لکھا تھا کہ احیاء خلافت ایک فريضہ ہے ۔ پھر آپ نے اسی فريضہ کے سامنے
کئی سوالیہ نشان لگائے ۔لیکن آپ اس متعین موضوع
کا جواب نہیں دیتے ہیں۔ ہمیشہ بات ٹو دا پوائنٹ ہونی چاہیے۔ موضوع سے باہر
نہیں نکلنا چاہیے اور نہ ہی بات کو گھمانا و پھرانا چاہیے۔لیکن ہمیشہ سوال کچھ اور
جواب کچھ ہوتا ہے۔ اس کو کہتے ہیں سوال از آسماں جواب از ریسماں ۔
دوسری بات : جو
دلیلیں آپ نے دی ہیں ان کا بھی موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہی بات ان تحریروں کو پڑھ کے ایک جاہل اور طفل مکتب بھی کہے گا۔ اسی کو کہتے
ہیں ماروں گھٹنا پھوٹے سر۔
تیسری بات : آپ کے جواب میں خلافت کے کئی موضوعات کو ایک
ساتھ شامل کردیا گیا ہے ۔ خلافت و احیاء
خلافت کا حکم بیان کرنے کے بجائے خلافت کے رائج کرنے کا طریقہ, شیعہ کا خلافت کےبارے
میں نظریہ , فرض کی تعریف وغیرہ۔در اصل یہ سب وہی کرتا ہے جو
بے بس و لا جواب ہوجاتا ہے ۔تو وہ موضوع
پر گفتگو کرنے کے بجائے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتا ہے ۔ بات کو گھماتا
پھراتا ہے ۔ اس میں توڑ مروڑ کرتا ہے۔یہ نری جہالت ہے۔
چوتھی بات : آپ کی تحریر سے واضح ہے کہ آپ کا تخصص اسلامیات
بالکل نہیں ہے اور نہ ہی آپ کسی دینی مدرسہ یا جامعہ کے پڑھے ہوئے ہیں جس سے آپ کو
موضوع کا کوئی گہرا علم نہیں ہے اور نہ ہی اس پر آپ کی گرفت ہے۔
یہ ہیں عام ملاحظات ۔ اب میں آپ کی تحریر کا جواب دیتا ہوں:
اعتراض : خلافت کا احیاء ایک فریضہ؟؟،،،، جب کسی چیز کے فرض
یا وجوب کی بات کرتے ہیں تو لازم ہے کہ شارع سے ایسا کوئی حکم ،کوئی فرمان بھی
ہمارے علم میں ہونا چاہیے ۔ جس کی رو سے اس چیز کا حصول ، دعوت توحید ،ایمان ،
عبادات پر مقدم ہوجائے ۔مسلمانوں کے مسائل کا حل صرف "خلافت" کے احیاء میں
ہے ، اگرحصول کی کوشش نا کی گئی تو مسلمان مٹ جائیں گے ۔اورحال یہ ہے کہ ہم فرضیت
کی دلیل اللہ کی وحی سے طلب نہیں کرتے ۔ ایسا برا وقت بھی نہیں آیا کہ ہم غیر واجب
چیز کو اپنے اوپر واجب کرلیں ۔ اس کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ خلافت کا اس
طرح کا حصول اصل میں روافضہ شیعہ کی ضرورت تھی ۔ ان کے نزدیک خلافت اسلام کےرکن کی
طرح ہے ۔۔سلف صالحین ہمیشہ اس سے دور رہے۔
میرا جواب :ما شاء اللہ تبارک اللہ کیا لاجواب جواب ہے ۔ میں نے آپ جیسا علامہ
دیکھا ہی نہیں۔ أگر میرے بس میں ہوتا تو میں آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ سے نوازتا ۔غور
کیجیے اس عبارت پر : جب کسی چیز کے فرض یا
وجوب کی بات کرتے ہیں تو لازم ہے کہ شارع سے ایسا کوئی حکم ،کوئی فرمان بھی ہمارے
علم میں ہونا چاہیے ۔ جس کی رو سے اس چیز کا حصول ، دعوت توحید ،ایمان ، عبادات پر
مقدم ہوجائے ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا میں نے یہ بات کہی ہے کہ خلافت کا
حصول دعوت توحید , ایمان اور عبادات پر مقدم ہے۔ اگر کہی ہے تو ثبوت دیجیے۔نہیں تو
اس موضوع کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی۔
"فرض "کی آپ نے جو توضیح کی ہے اور جو مطلب بیان
کیا ہے ۔ ماشاء اللہ امت کے کسی عالم نے چودہ سو سال میں یہ مطلب نہیں بیان
کیا۔اسی وجہ سے آپ علامۃ الدہر, مجتہد
العصر اور امام دوراں کے خطاب کے بجا مستحق ہیں ۔اگر اس تعریف کا حوالہ دیدیتے تو
سب کو پتہ چل جاتا کہ فرض کیا ہوتا ہے۔
اور پھر اسلام میں بہت ساری چیزیں فرض ہیں ۔ مثلا عدل و
انصاف فرض ہے۔ امن و امان کا قیام فرض ہے۔ نبی کا نام آنے پر درود و سلام پڑھنا فرض ہے۔بیوی و بچوں کے
ساتھ انصاف کرنا فرض ہے۔ والدین کے ساتھ
حسن سلوک کرنا فرض ہے ۔ جہاد کرنا فرض ہے ۔ ظلم کو مٹانا فرض ہے ۔ یہ تمام فرائض
ہیں۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟ کیا یہ بھی توحید, ایمان اور عبادات پر مقدم ہیں؟ ہر چیز کی
أپنی جگہ پر اہمیت ہوتی ہے۔ اور کامل اسلام پر عمل کرنا فرض ہے۔ناقص اسلام پر عمل
کرکے ہم کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔ اور ہر چیز میں مقارنہ کرنا ضروری نہیں ہے۔صرف
عمل کرنے و نافذ کرنے کی ضورت ہے۔
آپ خلافت کی مخالفت میں اتنے اندھے ہوگئے ہیں کہ آ پ کو اس کا بھی علم نہیں ہے کہ یہ سب باتیں اسی
وقت ہوں جب ایک انسان مومن ہوگا۔ اگر وہ مومن نہیں ہوگا تو وہ خلافت کی بات کیوں
کرے گا۔ کیا کافروں کے یہاں بھی اسلامی خلافت کا کوئی باب ہے؟ ایمان پر کسی چیز کو
کوئی مقدم کیسے کر سکتا ہے ۔ کیا کوئی آدمی بنا ایمان ہی کے اسلامی خلافت کے بارے
میں سوچنے لگے ۔ یہ آپ جیسے کم علم و کم
فہم لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کی سراسر جہالت ہے ۔ اور کم علم لوگوں کو دھوکا
دینا و بیوقوف بنانا ہے۔
آپ نے اس میں عبادت کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اگر آپ کو اس
کی تعریف معلوم ہوتی تو آپ قطعا یہ لفظ یہاں استعمال نہ کرتے ۔ عبادت کی تعریف
ہے: ہی اسم جامع لکل ما یحبہ اللہ سبحانہ
وتعالی و یرضاہ من الاقوال و الاعمال الظاہرۃ و الباطنۃ, یہ تعریف علامہ ابن تیمیہ
کی ہے ۔ اور اس تعریف کی رو سے ایک مسلمان کا ہر عمل حتى کہ کھانا پینا, اٹھنا
بیٹھنا, سونا جاگنا , چلنا پھرنا , یہی نہیں بلکہ اس کا اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ
ڈالنا اور اس سے ہمبستری کرنا بھی عبادت ہے ۔ لیکن اس کے لیے دو شرطیں ہیں۔ نمبر ایک : اخلاص , نمبر دو
: عمل کا کتاب و سنت کے موافق ہونا۔
معلوم ہوا کہ عبادات صرف نماز , روزہ , حج , زکوۃ وغیرہ یعنی شعائر تعبدیہ
میں منحصر نہیں ہیں۔ بلکہ ایک مسلمان کا
ہر کام دو شرطوں کے ساتھ عبادت ہے جس میں
احیاء خلافت بھی شامل ہے۔ لگتا ہے کہ عبادت سے آپ کی مراد شعائر تعبدیہ ہیں۔تو اس
کا وہی جواب ہے جو اوپر ذکر ہوا کہ اور بھی فرائض اسلام میں ہیں۔
اعتراض :مسلمانوں کے مسائل کا حل صرف "خلافت" کے
احیاء میں ہے ، اگرحصول کی کوشش نا کی گئی تو مسلمان مٹ جائیں گے۔
جواب : یہ میں نے
کہاں لکھا ہے ۔ ثبوت دیجیے ۔ ورنہ یہاں اس کو لانے کی کیا ضرورت تھی ۔ میں تو صرف
یہ کہتا ہوں کی مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کو ختم کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں ۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔تقریبا میرے سارے مضامین و تبصرے اردو مجلس میں موجود ہیں
۔ آپ ان کو دیکھ سکتے ہیں۔
اعتراض : اورحال یہ ہے کہ ہم فرضیت کی دلیل اللہ کی وحی سے
طلب نہیں کرتے ۔ ایسا برا وقت بھی نہیں آیا کہ ہم غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب
کرلیں ۔ اس کے لئے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ خلافت کا اس طرح کا حصول اصل میں
روافضہ شیعہ کی ضرورت تھی ۔ ان کے نزدیک خلافت اسلام کےرکن کی طرح ہے ۔۔سلف صالحین
ہمیشہ اس سے دور رہے۔
جواب : ماشاء اللہ کیا خوب آپ نے داد تحقیق دی ہے ۔ایک نیا
انکشاف کیا ہے ۔ اسی لیے میں آپ کو علامۃ
الدہر و مجتہد العصر کا خطاب عطا کیا ہے۔خلافت و احیاء خلافت واجب نہیں ہے۔ کس قدر
دھوکا اور فریب دیا جا رہا ہے ۔ خلافت جس کے وجوب پر تمام علماء امت کا اتفاق ہے
اس کو غیر واجب کہا جارہا ہے ۔ علامہ ابن تیمیہ نے اس کو "من اوجب ومن اعظم الواجبات "کہا ہے ۔لیجیے پڑھیے خلافت کے
بارے میں مختلف بڑے علماء کے اقوال:
ولبيان وجوب الخلافة وأهميتها، أذكر هنا مجموعة من أقوال
أهل العلم ليتدبر فيها الناس اليوم عسى أن يفتح الله من خلالها ما أغلق من قلوب،
وأن ينير بها ما أظلم من عقول:
قال أبو المعالي الجويني (في غياث الأمم): "الإمامة:
رياسة عامة، وزعامة تامة، تتعلق بالخاصة والعامة في مهمات اولدين والدنيا، متضمنها
حفظ الحوزة ورعاية الرعية، وإقامة الدعوة بالحجة والسيف، وكف الجنف والحيف،
والانتصاف للمظلومين من الظالمين، واستيفاء الحقوق من الممتنعين وإيفاؤها على
المستحقين... فإذا تقرر وجوب نصب الإمام فالذي صار إليه جماهير الأئمة أن وجوب
النصب مستفاد من الشرع المنقول...".
· وقال ابن حزم (في الفصل في الملل والأهواء والنحل):
"اتفق جميع أهل السنة وجميع الشيعة، وجميع الخوارج (ماعدا النجدات منهم) على
وجوب الإمامة" .
· وقال الماوردي (في الأحكام السلطانية): "وعقدها لمن
يقوم بها واجب بالإجماع وإن شذ عنهم الأصم".
· وقال ابن حجر العسقلاني (في فتح الباري): "وقال
النووي وغيره: أجمعوا على انعقاد الخلافة بالاستخلاف وعلى انعقادها بعقد أهل الحل
والعقد لإنسان حيث لا يكون هناك استخلاف غيره وعلى جواز جعل الخليفة الأمر شورى
بين عدد محصور أو غيره وأجمعوا على انه يجب نصب خليفة وعلى أن وجوبه بالشرع لا
بالعقل".
· وقال ابن حجر الهيثمي (في الصواعق المحرقة): "اعلم
أيضا أن الصحابة رقضوان الله عليهم أجمعوا على أن نصب الإمام بعد انقراض زمن
النبوة واجب بل جعلوه أهم الواجبات حيث اشتغلوا به عن دفن رسول الله صلى الله عليه
وسلم".
· وقال ابن خلدون (في المقدمة): "إن نصب الإمام واجب
قد عرف وجوبه في الشرع بإجماع الصحابة والتابعين؛ لأن أصحاب رسول الله صلى الله
عليه وسلم عند وفاته بادروا إلى بيعة أبي بكر رضي الله عنه وتسليم النظر إليه في
أمورهم، وكذا في كل عصر من بعد ذلك ولم يترك الناس فوضى في عصر من الأعصار، واستقر
ذلك إجماعا دالا على وجوب نصب الإمام".
· وقال النسفي (في العقائد): "والمسلمون لا بد لهم من
إمام يقوم بتنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وسدّ ثغورهم وتجهيز جيوشهم وأخذ صدقاتهم
وقهر المتغلبة المتلصصة وقطاع الطريق وإقامة الجمع والأعياد وقبول الشهادات القائمة
على الحقوق وتزويج الصغار والصغيرات الذين لا أولياء لهم وقسمة الغنائم".
· وقال جمال الدين الغزنوي في (أصول الدين): "لا بد
للمسلمين من إمام يقوم بمصالحهم من تنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وتجهيز جيوشهم
وأخذ صدقاتهم وصرفها إلى مستحقيهم لأنه لو لم يكن لهم إمام فإنه يؤدي إلى إظهار
الفساد في الأرض".
· وقال عضد الدين الإيجي (في المواقف): نصب الإمام عندنا
واجب علينا سمعا... وأما وجوبه علينا سمعا فلوجهين: الأول إنه تواتر إجماع
المسلمين في الصدر الأول بعد وفاة النبي امتناع خلو الوقت عن إمام حتى قال أبو بكر
رضي الله عنه في خطبته ألا إن محمدا قد مات ولا بد لهذا الدين ممن يقوم به فبادر
الكل إلى قبوله وتركوا له أهم الأشياء وهو دفن رسول الله ولم يزل الناس على ذلك في
كل عصر إلى زماننا هذا من نصب إمام متبع في كل عصر... الثاني إنه فيه دفع ضرر
مظنون وإنه واجب إجماعا. بيانه إنا نعلم علما يقارب الضرورة أن مقصود الشارع فيما
شرع من المعاملات والمناكحات والجهاد والحدود والمقاصات وإظهار شعار الشرع في
الأعياد والجمعات إنما هو مصالح عائدة إلى الخلق معاشا ومعادا وذلك لا يتم إلا
بإمام يكون من قبل الشارع يرجعون إليه فيما يعن لهم...".
· وقال القرطبيّ (في تفسيره): "هذه الآية أصلٌ في نصب
إمامٍ وخليفةٍ يُسمعُ له ويطاعُ؛ لتجتمع به الكلمةُ؛ وتنفذ به أحكامُ الخليفة. ولا
خلافَ في وجوب ذلك بين الأُمة ولا بين الأئمَّة إلا ما روي عن الأصَمِّ- أبو بكرٍ
الأصم من كبارِ المعتزلة- حيث كان عن الشريعة أصمَّ؛ وكذلك كلُّ مَن قال بقولهِ
واتبعه على رأيهِ ومذهبهِ، قال: إنَّها غيرُ واجبةٍ في الدِّين بل يسوَّغ ذلك، وأن
الأمةَ متى أقاموا حَجَّهُم وجهادَهم، وتناصفوا فيما بينهم، وبذلوا الحقَّ من
أنفسهم، وقسَمُوا الغنائمَ والفيء والصدقات على أهلها، وأقاموا الحدودَ على مَن
وجبت عليه، أجزأَهم ذلك، ولا يجبُ عليهم أن ينصِّبوا إماماً يتولَّى ذلك. ودليلُنا
قَوْلُ اللهِ تَعَالَى: (إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيْفَةً) وقَوْلُهُ
تَعَالَى: (يَا دَاوودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الاَرْضِ) وقال: (وَعَدَ
اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم
فِي الأرض) أي يجعلُ منهم خلفاءَ، إلى غيرِ ذلك من الآيِ".
· وقال ابن تيمية (في السياسة الشرعية): "يجب أن يعرف
أن ولاية أمر الناس من أعظم واجبات الدين، بل لا قيام للدين إلا بها. فإن بني آدم
لا تتم مصلحتهم إلا بالاجتماع لحاجة بعضهم إلى بعض، ولا بد لهم عند الاجتماع من
رأس حتى قال النبي صلى الله عليه وسلم "إذا خرج ثلاثة في سفر فليؤمروا
أحدهم" رواه أبو داود من حديث أبي سعيد وأبي هريرة ... ولأنّ الله تعالى أوجب
الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، ولا يتمّ ذلك إلا بقوة وإمارة..".
· وقال الشوكاني (في السيل الجرار): فصل يجب على المسلمين
نصب إمام: أقول قد أطال أهل العلم الكلام على هذه المسألة في الأصول والفروع
واختلفوا في وجوب نصب الإمام هل هو قطعي أو ظني وهل هو شرعي فقط أو شرعي وعقلي
وجاءوا بحجج ساقطة وأدلة خارجة عن محل النزاع والحاصل أنهم أطالوا في غير طائل
ويغني عن هذا كله أن هذه الإمامة قد ثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الإرشاد
إليها والإشارة إلى منصبها كما في قوله الأئمة من قريش وثبت كتابا وسنة الأمر
بطاعة الأئمة ثم أرشد صلى الله عليه وسلم إلى الاستنان بسنة الخلفاء الراشدين فقال
عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين الهادين وهو حديث صحيح وكذلك قوله الخلافة بعدي
ثلاثون عاما ثم يكون ملكا عضوضا ووقعت منه الإشارة إلى من سيقوم بعده ثم إن
الصحابة لما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم قدموا أمر الإمامة ومبايعة الإمام
على كل شيء حتى إنهم اشتغلوا بذلك عن تجهيزه صلى الله عليه وسلم ثم لما مات أبو
بكر عهد إلى عمر ثم عهد عمر إلى النفر المعروفين ثم لما قتل عثمان بايعوا عليا
وبعده الحسن ثم استمر المسلمون على هذه الطريقة حيث كان السلطان واحدا وأمر الأمة
مجتمعا ثم لما اتسعت أقطار الإسلام ووقع الاختلاف بين أهله واستولى على كل قطر من
الأقطار سلطان اتفق أهله على أنه إذا مات بادروا بنصب من يقوم مقامه وهذا معلوم لا
يخالف فيه أحد بل هو إجماع المسلمين أجمعين منذ قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم
إلى هذه الغاية فما هو مرتبط بالسلطان من مصالح الدين والدنيا ولو لم يكن منها إلا
جمعهم على جهاد عدوهم وتأمين سبلهم وإنصاف مظلومهم من ظالمه وأمرهم بما أمرهم الله
به ونهيهم عما نهاهم الله عنه ونشر السنن وإماتة البدع وإقامة حدود الله فمشروعية
نصب السلطان هي من هذه الحيثية ودع عنك ما وقع في المسألة من الخبط والخلط
والدعاوي الطويلة العريضة التي لا مستند لها إلا مجرد القيل والقال أو الإتكال على
الخيال الذي هو كسراب بقيعة يحسبه الظمآن ماء حتى إذا جاءه لم يجده شيئا. ثم من
أعظم الأدلة على وجوب نصب الأئمة وبذل البيعة لهم ما أخرجه أحمد والترمذي وابن
خزيمة وابن حبان في صحيحه من حديث الحارث الأشعري بلفظ من مات وليس عليه إمام
جماعة فإن موتته موتة جاهلية ورواه الحاكم من حديث ابن عمر ومن حديث معاوية ورواه
البزار من حديث ابن عباس".
· وقال شمس الدين الرملي (في غاية البيان): "يجب على
الناس نصب إمام يقوم بمصالحهم، كتنفيذ أحكامهم وإقامة حدودهم وسد ثغورهم وتجهيز
جيوشهم وأخذ صدقاتهم أن دفعوها وقهر المتغلبة والمتلصصة وقطاع الطريق وقطع
المنازعات الواقعة بين الخصوم وقسمة الغنائم وغير ذلك، لإجماع الصحابة بعد وفاته
صلى الله عليه وآله وسلم على نصبه حتى جعلوه أهم الواجبات، وقدموه على دفنه صلى
الله عليه وآله وسلم ولم تزل الناس في كل عصر على ذلك".
· وقال الشيخ الطاهر بن عاشور (في أصول النظام الاجتماعي في
الإسلام): "فإقامة حكومة عامة وخاصة للمسلمين أصل من أصول التشريع الإسلامي
ثبت ذلك بدلائل كثيرة من الكتاب والسنة بلغت مبلغ التواتر المعنوي. مما دعا
الصحابة بعد وفاة النبي صلى الله عليه وسلم إلى الإسراع بالتجمع والتفاوض لإقامة
خلف عن الرسول في رعاية الأمة الإسلامية، فأجمع المهاجرون والأنصار يوم السقيفة
على إقامة أبي بكر الصديق خليفة عن رسول الله للمسلمين. ولم يختلف المسلمون بعد ذلك
في وجوب إقامة خليفة إلا شذوذا لا يعبأ بهم من بعض الخوارج وبعض المعتزلة نقضوا
الإجماع فلم تلتفت لهم الأبصار ولم تصغ لهم الأسماع. ولمكانة الخلافة في أصول
الشريعة ألحقها علماء أصول الدين بمسائله، فكان من أبوابه الإمامة. قال إمام
الحرمين [أبو المعالي الجويني] في الإرشاد: (الكلام في الإمامة ليس من أصول
الاعتقاد، والخطر على من يزل فيه يربى على الخطر على من يجهل أصلا من أصول
الدين)".
· وقال الجزيري (في الفقه على المذاهب الأربعة): "اتفق
الأئمة رحمهم الله تعالى على أن الإمامة فرض وأنه لا بد للمسلمين من إمام يقيم شعائر
الدين وينصف المظلومين من الظالمين وعلى أنه لا يجوز أن يكون على المسلمين في وقت
واحد في جميع الدنيا إمامان لا متفقان ولا مفترقان...".
هذا ما تيسر جمعه، والله نسأل أن يعجل بنصره للأمة
الإسلامية فتعود دولة الخلافة على منهاج النبوة.
اور ان لنک پر بھی نظر ڈال لجیے:
http://shamela.ws/browse.php/book-96234/page-75
اعتراض : ہم غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلیں
جواب : اللہ تعالی
سے ڈرئیے اور خلاف شریعت بات مت کیجیے۔یہ شریعت کے خلاف آپ کی بہت بڑی جسارت ہے۔
یہ سراسر جہالت و نادانی ہے۔اور یہ جان لیجیے کہ کسی چیز کے واجب یا نہ واجب ہونے
کا تعلق ہمارے اور آپ کے واجب کرنے یا نہ کرنے
سے نہیں ہوتا ہے ۔ ہم اور آپ کون ہیں کہ شریعت میں کوئی چیز واجب کریں یا نہ
کریں؟ ہماری اور آپ کی کیا حیثیت ہے؟ یہ تو شارع کا کام ہے۔
مزید برآں میں نے پڑھا تھا اور سنا بھی تھا کہ قرآن و حدیث
کے نصوص کی بے جا تاویل و تحریف مرجئہ ,
قدریہ , جہمیہ , معتزلہ اور اس طرح کے باطل و گمراہ فرقے کرتے ہیں لیکن آج ایک نیا انکشاف ہوا کہ یہ
کام صرف یہ فرقے ہی نہیں کرتے ہیں بلکہ کچھ
وہ حضرات بھی کرتے ہیں جو اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں ۔واقعی آپ بات و موضوع کو
گھمانے, ایک موضوع کو دوسرے موضوع سے ملانے , توڑ مڑوڑ کرنے میں کافی مہارت رکھتے
ہیں۔
شیعہ کا خلافت کے بارے میں کیا نظریہ ہے ۔ اس کا اس موضوع
سے کیا تعلق ہے۔ہمیں شیعہ سے کیا لینا دینا ہے۔ اور آپ نے جو دلیل علامہ ابن تیمیہ
کی دی ہے اس میں اسی شیعہ نظریہ کا رد کیا گیا ہے۔آپ کو علامہ کی یہ تحریر نظر آگئ
لیکن دوسری تحریر نظر نہیں آئی ۔ کیونکہ وہ آپ کی رائے کے موافق نہیں ہے۔
اعتراض : یہ الگ بات ہے کہ ہم وہ خلافت نہیں چاہتے جو
ہمارے" ایمان" سے زیادہ ضروری ہوجائے ۔
(النور: 55)"(اللہ تعالی نے ان لوگوں سے جو تم میں سے
ایمان لائے اور انہوں نے صالح اعمال کیے، وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں زمین میں ضرور
خلافت دے گا، جس طرح ان لوگوں کو دی جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لیے ان کے اس دین
کو ضرور اقتدار دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے اور ہر صورت انہیں ان کے
خوف کے بعد بدل کرامن دے گا۔ (بشرطیکہ) وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی چیز
کو شریک نہ ٹھہرائیں گے، اور جس نے اس کے بعد کفر کیا تو یہی لوگ نافرمان ہیں)""
پس اگر ہمیں خلافت راشدہ چاہیے تو ان باتوں کو پورا کریں۔
(جن کا حکم دیا گیا ہےاور جس کے بدلے میں اللہ نے خلافت دینے کا وعدہ فرمایا ہے)۔
اور توفیق دینے والا تو اللہ تعالی ہی ہے۔
جواب : ماشاء اللہ کیا زبر دست استدلال ہے۔یہ تو علمی دنیا میں تہلکہ مچانے والا انکشاف ہے۔میں
نے کب انکار کیا کہ اللہ کا وعدہ برحق نہیں ہے ۔ بلا شبہ اللہ اپنے وعدہ میں سچا
ہے۔لیکن محترم علامہ صاحب یہ تو بتا دیجیے کہ کیا اللہ تعالى خود نازل ہوکے خلافت
قائم کردے گا یا خلافت خود بخود بنا کسی جد و جہد و عمل کے قائم ہوجائے گی۔
اللہ نے تو بہت
سارے وعدے کیے ہیں ۔مثلا روزی کا وعدہ کیا ہے؟ فتح و نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ مسلمانوں کے غلبہ کا وعدہ کیا
ہے۔وغیرہ اب آپ یہ بتائیے کہ کیا مسلمانوں
کو غلبہ , فتح و نصرت بغیر جہاد و اس کی تیاری کے مل جائے گا؟ اگر معاملہ ایسا ہی
ہے توپھر ہمارے اسلاف نے جہاد کیوں کیا؟ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر پاکستان میں
کئی نام نہاد جہادی تنظیموں کو کیوں پال رکھا ہے اور ان کو کشمیر میں جہاد کے لیے
کیوں اکسایا جاتا ہے؟ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر روزی کے لیے دوڑ بھاگ کیوں
کرتے ہیں جناب گھر میں بیٹھے رہیے ۔ روزی آپ کےپاس آجائے گی۔ یہ سب باتیں سراسر
جہالت و نادانی ہے اور کم علم لوگوں کو دھوکا دینا و بیوقوف بنانا ہے۔اس دنیا کے
کچھ قوانین الہی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری
ہے۔
اور اس آیت میں یعبدوننی کا لفظ آیا ہے ۔ اور عبادت کی
وضاحت میں نے اوپر کر دی ہے۔جس میں احیاء خلافت کے لیے کوشس بھی شامل ہے۔
اعتراض : تیسری بات لکھی تھی کہ جس کا حال درست نہیں.اس کا
مستقبل کیسے درست ہو گا۔ خلافت کے احیاء کے لئے جو طریقے اپنائے گئے ہیں ۔ وہ یقننا
غلط ہیں ۔آپ نے خود ہی انکار کردیا ہے کہ خلافت کا احیاء حکمرانوں اور علماء کا کام
ہے کوئی گروہ یا فرقہ ایسا نہیں کرسکتا ۔لیکن عقائد ونظریات کو درست کرنے کے بجائے
حکمرانوں ، علماء اور عوام کو ایک متفقہ فیصلہ پرجمع کر دینا نا ممکن ہے ۔کسی نے صحیح
لکھا ہے کہ ٹیڑھی لکڑی کا سایہ بھی ٹیڑھا ہی آتا ہے ۔ رائے کی حد تک آپ سے متفق ہوں
۔ لیکن عملا ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ۔علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی دلیل یہاں نہیں
بنتی ۔ آپ ﷺ کی احادیث ہیں ۔ خلافت تیس سال تک رہے گی ۔ اس کے بعد ملوکیت ہوگی ۔ صرف
بنو امیہ کی خلافت میں مسلمان ایک خلیفہ کے حکم پر جمع تھے ۔ اس کے بعد ایسا نہیں ہوا
۔ خلافت عباسیہ کے زمانے اوربھی خلافتیں تھیں جیسے فاطمی ،اندلس میں اموی و غیرہ ۔
یہی عثمانیوں کا رہا ۔قیامت تک ویسی خلافت آنا نا ممکن ہے۔ اس کی دلیل بھی اہل علم
صحیح مسلم کی حدیث بتاتے ہیں ۔ لہذا یہ فرض کرلینا کہ خلافت ہی آخری حل ہے ۔صحیح
معلوم نہیں ہوتا ۔
مزید وضاحت درج ذیل مضمون میں ملاحظہ کیجاسکتی ہے ۔ جو لوگ خلافت
یا (ایک خلیفہ )کے حصول پر غلوسے کام لیتے ہیں۔ بجائے اس کہ شرعی و عقلی دلیل سے مددلیں
۔خلافت کے اسباب پیدا کریں ۔ راہ ہموار کریں ۔ توحید کی دعوت دیں ۔ لوگوں کو شرک و
بدعات سے نکال کر ایک وحدہ لاشریک کی عبادت پر جمع کریں ۔
إن هذه الفكرة-و هي تعظيم أمر الخلافة, و توقيف جميع
الأحكام عليها, ولا استئناف للحياة الإسلامية إلا بها-لهي توأمة فكرة الرافضة
الإمامية الشيعية الإثني عشرية, فهم جعلوا الإمامة من أعظم الفروض، والسعي إليها
من آكد الأمور, فلا أدري أهي مجرد صدفة أم اتحاد المشرب!!.
ثم قال: و قوله: (أن الإمامة أحد أركان الدين)
جهل وبهتان, فإن النبي-صلى الله عليه و سلم-فسَّر الإيمان
وشعبه, ولم يذكر الإمامة في أركانه, ولا جاء ذلك في القرآن).
]فهذا رد من شيخ الإسلام ابن تيمية على من جعل الخلافة أو
الإمامة من أركان الإسلام, فكيف يكون رده على من جعل الخلافة أهم الأركان و
الفروض؟!
(موقف المسلم من الدعوة إلى الخلافة الإسلامية)لفضيلة الشيخ
سعد بن فتحي الزعتري-حفظه الله-
http://www.al-sunna.net/articles/file.php?id=3467
Click to expand...
جواب : آپ نے تیسری بات میں جو کچھ لکہا ہے اس کا جواب ہے :
جواب جاہلان باشد خموشی کیونکہ جب آپ کو
یہی نہیں معلوم ہے کی کو ن سی خلافت تیس سال رہے گی۔ اس کے بعد والے ملوک خلیفہ
کہلائیں گے یا نہیں؟ خلافت کی کتنی قسمیں ہیں؟ خلافت عثمانیۃ کے زمانہ میں کون سی دوسری خلافت
قائم تھی؟ ہم کس خلافت کی بات کر رہے ہیں؟ کیا ضروری ہے کہ خلافت علے منہاج النبوۃ
ہی قائم ہو خلافت ناقصہ نہیں ہو سکتی ہے؟
اور آپ نے آخری دلیل جو دی ہے اس کا بھی موضوع سے کوئی تعلق
نہیں ہے ۔ اس میں بھی خلافت کے بارے میں شیعہ کے فکرو نظر کی تردید کی گئی ہے۔ اس
سے ہمارا کیا تعلق ہے۔ ان کا اپنا نظریہ ہے ۔ ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہے ۔ آپ
مجھ کو اس سے کیوں جوڑتے ہیں؟کیا میں نے ایسا لکھا ہے یا اس کی دعوت دی ہے؟
اور بہت ساری چیزوں کا جواب اوپر گذر چکا ہے۔
بات لمبی ہوگئی ۔ کیا کروں موضوع بھی بہت اہم ہے ۔ اب میں
چند باتوں پر خاتمہ کرتا ہوں۔ایک تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ آپ کو
خلافت سے اتنی چڑھ کیوں ہے۔ کیا سلفیوں میں سے بھی کوئی جماعت خلافت سے اتنی چڑھتی
ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کفار خصوصا یہود و نصاری خلافت سے چڑھتے ہیں ۔
اس کا نام تک سننا گوارا نہیں کرتے ہیں۔لیکن آپ کیوں , کافروں نے جب اسلامی خلافت
کا خاتمہ کردیا تو اس پر زیادہ خوش ہوئے اور خوب خوشی منائی کیونکہ ان کی ایک
دیرینہ آرزو و تمنا پوری ہوگئ۔اور ان کی آرزو ہے کہ اب خلافت دوبارہ دنیا میں قائم
نہ ہو, کیا آپ کی بھی یہی آرزو ہے؟ کیا آپ بھی کسی جگہ کے حاکم و بادشاہ ہیں ۔ اور
ڈرتے ہیں کہ خلافت کی وجہ سے آپ کی کرسی چلی جائے گی۔یا کیا بات ہے۔یا آپ کو خلافت
کے بے شمار فوائد کا علم نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے جب بھی آپ سوچتے ہیں تو منفی پہلو
سے سوچتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہمارے دشمنوں کو خلافت کی اہمیت و افادیت کا علم ہے
لیکن ہم مسلمانو کو نہیں ہے۔علامہ اقال نے سچ فرمایا:
وائے ناکامی متاع
کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اللہ کا فضل و کرم ہے کہ
میں کئی سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہوں۔ اور جو مواد میں پڑھاتا ہوں ان میں ایک مادہ خلفاء
راشدین بھی ہے ۔ جس کا آغاز ہی خلیفہ کی
تعریف, اس کے شروط, خلافت کی قسمیں, خلافت سے متعلق احادیث و خلافت کی تاریخ وغیرہ
سے بحث کی جاتی ہے۔ لہذا للہ کا فضل ہے کہ مجھے اس موضوع سے واقفیت ہے ۔ آپ مجھے
سمجھانے یا بیوقوف بنانے کی کوشس نہ کریں۔ موضوع کو بدلنے, باتوں کو گھمانے و
پھرانے اور اس میں توڑ مروڑ کرنے سے آپ حقائق کو بدل نہیں سکتے ہیں۔ اور آخر میں :
رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی پہ معاف , بہت بہت شکریہ
1 التعليقات: