برادران
اسلام :
نبی
کریم کی ایک صحیح حدیث میں تین بد بخت و
بد نصیب مسلمانوں کا ذکر آیا ہے۔آپ بھی جاننا چاہیں گے کہ وہ تین بد بخت مسلمان کون ہیں ؟ اسلام و ایمان کے باوجود ان کو بد بخت کیوں کہا
گیا ہے اور ان کی بد بختی کی وجہ کیا ہے؟ تو آئیے جانتے ہیں کہ وہ تین بد بخت
مسلمان کون ہیں۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:--
عن
جابر بن عبد اللہ أن النبي صلى الله عليه وسلم رَقِي المنبر، فلمَّا رَقِي الدرجة الأولى قال: آمين،
ثم رَقِي الثانية فقال: آمين، ثم رَقِي الثالثة فقال: آمين، فقالوا: يا رسول الله،
سمعناك تقول: آمين ثلاث مرات؟ قال: لَمَّا رقيت الدرجة الأولى جاءني جبريل فقال: شَقِي
عبدٌ أدرك رمضان فانسَلَخ منه ولم يُغفَر له، فقلت: آمين، ثم قال: شَقِي عبدٌ أدرك
والدَيْه أو أحدَهما فلم يُدخِلاه الجنة، فقلت: آمين، ثم قال: شَقِي عبدٌ ذُكرتَ عنده
ولم يصلِّ عليك، فقلت: آمين .
حدیث
کا ترجمہ:
حضرت
جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے , وہ کہتے ہیں کہ ایک بار نبی کریم خطبہ کے لیے منبر
پر تشریف لائے , اور جب آپ اس کے پہلے زینہ پر چڑھے تو آپ نے آمین کہا۔پھر جب دوسرے
زینہ پر چڑھے تو آپ نے آمین کہا۔پھر جب تیسرے زینہ پر چڑھے تو آپ نے آمین کہا۔لہذا
خطبہ کے بعد صحابہ کرام نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ہم نے آپ کو آج تین بار آمین
کہتے ہوئے سنا ہے۔ تو آپ نے جواب دیا: جب میں منبر کے پہلے زینہ پر چڑھا تو میرے پاس
جبرئیل تشریف لائے اور کہا: ایسا انسان بد بخت
ہو جس کو رمضان کا مہینہ ملا اور وہ
ختم ہوگیا لیکن اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔تو میں نے آمین کہا۔
پھر
انہوں نے کہا: ایسا انسان بد بخت ہو جس نے أپنے
والدین یا ان میں سے کسی ایک کوپالیا لیکن جنت کا حقدار نہیں بنا۔تو میں نے کہا
: آمین۔
پھر
انہوں نے کہا: ایسا انسان بد بخت ہو جس کے پاس میرا ذکر ہوا لیکن اس نے مجھ پر درود
نہیں بھیجا۔تو میں نے کہا: آمین۔
یہ روایت
أحمد , ترمذی , ابن خزیمہ اور الادب
المفرد کی ہے۔ علامہ ألبانی نے اس کو صحیح لغیرہ کہا ہے۔
یہ
روایت مختلف أحادیث کتب میں مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔جن میں سے چند یہ ہیں:----
ایسا انسان ذلیل و خوار ہو جس کو رمضان کا مہینہ ملا
اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔
ایسا انسان دور ہو یعنی اللہ کی رحمت سے دور ہو جس کو رمضان کا مہینہ ملا اور اس کی مغفرت نہیں
ہوئی۔
ایسا
انسان جس کو رمضان کا مہینہ ملا اور اس کی مغفرت نہیں ہوئی جس کی وجہ سے وہ جہنم میں
داخل ہوا۔تو اللہ تعالى اس کو دور کرے اور تباہ و برباد کرے۔
حدیث
کی شرح:
حضرات
و خواتین :
مذکورہ
حدیث میں تین بد نصیب مسلمانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اور ساتھ ہی ان کی بدنصیبی کی
وجہ بھی بتلادی گئی ہے۔
پہلا
بد نصیب شخص تو وہ ہے جس کو رمضان کا مبارک و مقدس مہینہ ملتا ہے لیکن اس کی مغفرت کے بغیر یہ مہینہ ختم ہو جاتا
ہے۔ توایسا شخص یقینا بہت بڑأ بد بخت ہے۔ ایسا کیوں ہوا کہ رمضان کے باوجود اس کی مغفرت نہیں ہوئی اور شقاوت اس کا نصیب
بنی۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے رمضان
کی قدر نہیں کی۔اس کے حقوق کو ادا نہیں کیا۔ اس سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ عبادات سے
غافل رہا۔تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار سے دور رہا۔یہی نہیں بلکہ جھوٹ بولتا رہا۔
غیبت کرتا رہا۔ہر طرح کی معصیت میں ڈوبا رہا۔تو پھر ایسے شخص کی مغفرت کیسے ہوسکتی
ہے؟ اور جس کی مغفرت نہیں ہوئی وہ یقینا بہت بڑا شقی, بدنصیب و بد بخت ہے۔اس سے
بڑا منحوس و بد قسمت کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ہے۔ اور آج کل تو بہت سارے لوگ روزہ ہی نہیں رکھتے ہیں جو حرام اور گناہ کبیرہ
ہے۔ یہ انتہائی بے شرمی و بے حیائی ہے ۔
ایسے لوگوں کی مغفرت کیسے ہو سکتی ہے۔
دوسرا
بد نصیب فرد وہ ہے جس کی قسمت بہت اچھی تھی اس کو أپنے ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کی خدمت کرکے, ان کوخوش کرکے أپنے
لیے جنت حاصل کرنے کا موقع تھا ۔لیکن اس نے اس زریں موقع کو گنوادیا۔اس نے
ماں باپ کی خدمت میں کوتاہی برتی۔ والدین کے ساتھ أچھا سلوک نہیں کیا۔ ان کی ٹھیک
سے دیکھ بھال نہیں کی۔ یہی نہیں بلکہ ان کے اوپر ظلم سے باز نہیں رہا۔جس کیوجہ سے
اس کی بھی مغفرت نہیں ہوئی اور در حقیقت
ایسا شخص بہت ہی شقی ہے۔
دین
اسلام میں والدین کا جو مقام و مرتبہ ہے
وہ کسی پر خصوصا اہل علم پر مخفی نہیں
ہے۔اللہ سبحانہ و تعالى نے بذات خود قرآن مجید میں ان کے حقوق کا تذکرہ کیا ہے۔اور اہل اسلام کو اس کی تاکید کی ہے۔ ایک آیت میں
اللہ نے أپنی عبادت کے حکم کے ساتھ والدین کے احسان کو جوڑا ہے۔ ان کو بڑھاپے میں
اف تک کہنے سے روکا ہے ۔اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَقَضَىٰ
رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوٓاْ إِلَّآ إِيَّاهُ وَبِٱلْوَٰلِدَيْنِ
إِحْسَٰنًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ
عِندَكَ ٱلْكِبَرَ أَحَدُهُمَآ
أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَآ أُفٍّۢ
وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ( اسراء/23)
ترجمہ:
اور یہ تمھارے رب کا حکم ہے کہ تم اس کے علاوہ اور کسی کی عبادت مت کرو اور والدین
کے ساتھ حسن سلوک کرو۔اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ
جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا , نہ انہیں ڈانٹنابلکہ ان سے احترام سے گفتگو
کرنا۔
احادیث
میں تو بہت تفصیل کے ساتھ حقوق والدین کا ذکر ہوا ہے۔اور بہت ساری احادیث میں اس
کی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا ہے کہ والدین کی رضامندی میں
اللہ کی رضامندی ہے اور والدین کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے (رواه
الترمذي ( 1821) وحسنه الألباني في "السلسلة الصحيحة" (516) و تحفۃ
الاحوذی۔اور ایک صحیح حدیث میں ہے کہ آپ
نے أپنے ایک صحابی کو حکم دیا: أپنی ماں کی صحبت کو لازم پکڑو کیونکہ جنت اس کی دونو قدموں کے نیچے ہے( ابن ماجہ, نسائی, أحمد,
طبرانی)۔آپ کی حقیقی ماں آمنہ کا انتقال تو بچپن میں ہی ہوگیا تھا لیکن آپ حضرت
علی بن ابوطالب کی والدہ کو أپنی والدہ مانتے تھے اسی طرح أپنی خادمہ ام ایمن برکہ
حبشیہ کو أپنی ماں مانتے تھے۔ اور ان دونوں عظیم خواتین اسلام کے ساتھ آپ کا
معاملہ وبرتاؤ بالکل ماں جیسا تھا۔بلکہ ایک بار جب حضرت أم ایمن نے آپ سے پانی طلب کیا تو آپ نے ان کو پانی پیش
کیا۔آپ خود ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔اس طرح آپ نے عملی طور پر برت کے دکھادیا
کہ ایک ماں کا کیا مقام ہےاور اس کے ساتھ کیسے برتاؤ کیا جانا چاہئیے۔
اب
اتنی بڑی نعمت جس شخص کو مل جائے اس کا کیا پوچھنا ہے۔ اس کو تو اللہ کا شکریہ ادا
کرنا چاہئیے اور ماں باپ کی خدمت کرکے جنت کی سرٹیفکٹ لے لینی چاہیئے ۔لیکن اس نے
موقع ضائع کردیا ۔ والدین کے حقوق ادا نہیں کیے۔ ان کی خدمت سے دور رہا۔ان کو أپنے
آرام میں خلل تصور کرکے ان کے ساتھ برا معاملہ کیا۔ تو جیسی کرنی ویسی بھرنی۔
شقاوت کا حقدار ٹہرا۔ اور واقعتا ایسا شخص شقی ہے۔
تیسرا
شخص وہ ہے جس کے سامنے نبی کا ذکر خیر ہوا لیکن اس نے آپ کا نام سننے کے باوجود
درورد نہیں بھیجا۔لہذا بدنصیبی و شقاوت اس کے حصے میں آئی۔
ایسا
کون امتی ہوگا جو أپنے نبی کے مفام و مرتبہ , عظمت و رفعت سے ناواقف ہو۔آپکی تعریف
و توصیف کرنا , عظمت و بڑائی بیان کرنا انسانی قلم کے بس کی بات نہیں ہے۔ جس ذات
کی منقبت و مدح خود اللہ رب العالمین نے کی ہو اس کی منقبت , تعریف و توصیف کوئی
دوسرا کیا کرے گا۔ اور اس کے بعد اس کو
کسی دوسرے کے منقبت کی حاجت نہیں ہے۔اس کی شان تو بہت ہی بلند و برتر ہے۔اس کی ذات بہت ہی نرالی
ہے۔وہ تو سید ولد آدم اور خیر البشر ہے۔افضل الرسل و الانبیاء و خاتم النبیین ہے۔
قصہ مختصر اس جیسا آج تک نہ دنیا میں کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ قیامت
تک پیدا ہوگا۔اس کے حقوق بے شمار ہیں۔یہ وہ ذات ہےکہ اگر پوری امت مل کرکے ۲۴ گھنٹے دن و رات اس کے حقوق کو ادا کرنے میں
لگی رہے تو اللہ کی قسم قیامت تک نہیں ادا
کر سکتی ہے۔اب اگر کوئی امتی آپ کا ایک معمولی و ادنى اور بہت ہی آسان حق درود بھیجنے
میں کوتاہی کرتا ہے۔یا کسی بھی وحہ سے اس کو ادا نہیں کرتا ہے ۔ مثلا
حقارت, بے اہمیتی تو وہ یقینا بد بخت ہے۔
احتساب
نفس:
اسلامی بھائیو و بہنو: اب ہم سب کو اس صحیح حدیث کی روشنی میں اپنا
اپنا جائزہ لینا چاہیے ۔ أپنے نفس کا از خود احتساب کرنا چاہیے اور یہ دیکھنا
چاہیے کہ ہم اس حدیث پر کتنا عمل کرتے ہیں؟ کیا جب ہمیں ماہ رمضان کا مبارک مہینہ
ملتا ہے تو ہم اس کا حقوق ادا کرتے ہیں؟
کیا ہم رمضان میں برائیوں سے دور رہتے ہیں ؟ کیا ہم اپنے والدین کی خدمت
کما حقہ کرتے ہیں؟ کیا ہم نبی کریم پر آپ کا نام سن کر درود بھیجتے ہیں ؟ آج کل کے
دور میں ایسی خبریں بھی ملتی ہیں کہ بیٹا باپ کو قتل کر دیتا ہے۔بہت سارے بیٹے
اپنے والدین کا ذرہ برابر نہیں خیال کرتے ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جو ان کی بات تک نہیں
سنتے ہیں۔ظلم و زیادتی الگ سے کرتے ہیں۔بہت سارے مسلمان نبی کا نام سن کر خاموش
رہتے ہیں۔
حضرات
و خواتین: یہ ایک ایسی حدیث ہےجس کو پڑھ کے
ایک مسلمان کا دل دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اس کے اوپر کپکپی
طاری ہوجاتی ہے۔اور اگر اس میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے تو وہ
اس سے نصیحت حاصل کرتا ہے ۔ کیونکہ اس حدیث میں بد دعا کرنے والی ذات حضرت جبرئیل کی
ہے جو فرشتوں میں سب سے افضل ہیں۔وحی کے امین اور اللہ کے بہت ہی مقرب ہبں۔ جن کا لقب روح القدس ہے۔اور اس پر آمین
کہنے والی وہ ذات ہے جو تمام انسانوں کے سردار, سب سے افضل رسول اور خیر بشر ہیں۔ اور
دونوں ہی مستجاب الدعوات ہیں۔ تو کیا ان کی بددعا کی قبولیت میں کوئی شک ہے۔ اور بلاشبہ
مذکورہ بالا ایسے تینوں قسم کے مسلمان بد بخت ہیں۔
آخر
میں اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانو کو رمضان , والدین اور نبی کریم تینوں کے حقوق
کو ہمیشہ کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کسی بھی طرح کی کوتاہی سے محفوظ
رکھے۔اور بدنصیب مسلمان نہ بنائے۔ آمین
0 التعليقات: