تبصرہ جواب تبصرہ


                               تبصرہ جواب تبصرہ

یہ دسمبر 2016 ع کی ایک پرانی تحریر ہے جو اردو مجلس سے ماخوذ ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ میں أپنی متفرق تحریروں کو أپنی ہی ویب سائٹ پر ایک جگہ جمع کردوں تاکہ ہمارے قارئین کو بھی استفادہ میں  سہولت ہو۔یہ میرے ایک  سابقہ مضمون "حلب کے لیے دعائیں  " حالیا " کیا ہمارے مسائل کا حل صرف دعاؤں میں ہے" پر تبصرہ ہے۔جس کا میں نے جواب دیا ہے۔ لہذا میں نے اس کا نام تبصرہ جواب تبصرہ رکھا ہے۔ اور کچھ اضافہ کے ساتھ میں اس کو نشر کر رہا ہوں۔  یہ تحریریں بہت مفید ہیں کیونکہ اس سے مسلمان دنیا کی حالت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مسلمانو کے سوچنے و غور و فکر کرنے کے زاویہ کا پتہ چلتا ہے۔ایک مسلمان کس ناحیہ سے سوچتا ہے اس کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کے اسباب و وجوہات کا بھی علم ہوتا ہے وغیرہ۔طوالت موضوع کے لیے پہلے سے معذرت خواہ ہوں۔
 
تبصرہ : ہم لوگ کہتے ہیں صبر اور دعاؤں سے کیا ہو گا؟ اگر ہم قرآن مجید کو غور سے پڑھتے اور اس پر عمل کرتے تو آج ہمیں صبر، دعا، توبہ اور استغفار سے کاری کوئی ہتھیار نہ لگتا۔ کیا اللہ کے نبی ﷺ نے کمزور مسلمانوں کے لیے دعائے قنوت نہیں پڑھی؟ کیا اللہ کے نبیﷺ نے ہمیں مشکل وقت کی دعائیں نہیں سکھائیں؟ کیا ہم لوگ اللہ کے نبیﷺ سے زیادہ دین کو جانتے ہیں۔ سورۃ العصر کے مطابق اللہ کی کتاب پر عمل کا ایک طریقہ یہ تھا کہ ایک دوسرے کو صبر اور حق پر جمے رہنے کی نصیحت کی جائے۔
یہ طے کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ جہاد کب کیا جائے۔ عام مسلمان ان کے حکم کا انتظار ہی کر سکتا ہے یا خدا سے دعا کر سکتا ہے کہ انہیں درست فیصلے کی توفیق دے۔ مسلمان حکمران ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھے۔ شام کے معاملے میں مسلم ممالک میں سے عراق، ایران اور لبنان نے شام کی حکومت کے ظلم کا ساتھ دیا۔ جب کہ کافروں میں سے روس اور نیٹو کے ممالک اس حکومت کے ساتھ تھے ۔ کوئی بھی اسلامی ملک اگر بشار کے ظلم کو فوج بھیج کر روکتا تو اس کو ایران، لبنان اور روس سے جنگ چھیڑنی پڑتی۔ نیٹو بھی کود پڑتا۔ جس سے فساد کئی اور علاقوں تک پھیل جاتا۔ بہرحال یہ طے کرنا حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ جہاد کب کہاں سے کیا جائے۔ ہم ایران اور لبنان کے مکروہ کردار پر تو بات نہیں کرتے، الٹا انہی ملکوں کو برا کہتے ہیں جو پھر بھی شام کا معاملہ یواین سیکیورٹی کاونسل میں اٹھا رہے ہیں۔

ام نور العین, ‏دسمبر 18, 2016 #2
 پسندیدہ پسندیدہ x 3
 ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ركن مجلسِ شوریٰ
شمولیت:‏جون 30, 2015
پیغامات:193
جواب تبصرہ : محترمہ ام نور العین صاحبہ: موضوع کچھ دوسرا ہے اور آپ کا تبصرہ اس کے بالکل برخلاف ہے ۔ یا تو آپ نے موضوع کو سمجھا نہیں یا مکمل طور سے پڑھا نہیں ہے ۔ آپ نے لکھا ہے کچھ لوگ کہتے ہیں کیأ آپ نے اسی میں مجھ کو بھی شامل کیا ہے۔ میں نے تو یہ سرے سے لکھا ہی نہیں ہے۔بھلا دعا استغفار قنوت وغیرہ کی اہمیت اور فضیلت کا کون انکار کرے گابلکہ اس کو تو میں نے خود اسی مضمون میں تحریر کیا ہے۔میرا موضوع ہے کہ کیا حلب کا مسئلہ صرف دعاؤں سے حل ہو سکتا ہے ۔ اسی کا جواب میں نے دیا ہے۔اور پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہمارے نبی نے صرف انہیں دعاؤں پر اکتفاء کر لیا اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا؟کیا ہمارے نبی نے کہا کہ صرف دعائیں کرتے رہنا اور کچھ نہیں کرنا؟
آپ کی یہ بات بالکل صحیح ہے کہ جہاد کا فیصلہ کرنا حکمرانوں کا کام ہے۔میں نے کب لکھا کہ جہاد کا فیصلہ کرنا عوام کا کام ہے بلکہ جہاد کے بارے میں میں نے اپنا موقف اپنے مضمون" نام نہاد اسلامی جہادی تنظیموں کا شرعی جائزہ "میں بیان کردیا ہے۔ آپ اس کو دیکھ لیجیے ۔ اور کیا ہم جہاد کر سکتے ہیں کیا اس کی تیاری ہمارے پاس ہے؟یہ آپ کی اپنی رائے ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمراں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں ۔ مسلمان ممالک کے حکمراں اگر اتنے ہی اچھے ہوتے توآج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ بالکل نہیں ہوتی۔ یہ صرف تنہا کسی ایک مسلمان ملک کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ اور اس کے علاوہ یہ علماء اور عوام کی بھی ذمہ داری ہے۔جو میں نے اپنے مضمون "أمت کی زبوں حالی اسی وقت ختم ہو گی جب یہ امت خود کو بدل لے گی" میں بیان کیا ہے۔ اس امت کے لیے اس سے بڑھ کربے غیرتی بے شرمی اور بے حیائی کیا ہوگی کہ ہم أپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے أپنے دشمنوں سے بھیک مانگیں۔ان سے رحم کی درخواست کریں۔سچ فرمایا ہمارے نبی نے کہ ہم آج کے مسلمان غثاء کغثاء السیل سیلاب کے کوڑے کرکٹ کی طرح ہیں۔
یاد رکھیے کہ اگر 60مسلمان ممالک سیاسی اقتصادی اور فوجی طور پر متحد ہوکر ایک ملک نہیں بنے۔ خلافت کا احیاء نہیں کیا۔ تو ان کی یہ درگت جاری رہے گی ۔ اس کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔اسلام صرف ایک خلیفہ اور ایک ملک چاہتا ہے ۔ 60 ملک اور 60 حاکم نہیں چاہتا ہے۔یہ تو ہمارے دشمنوں نے ہم کو اتنے ممالک میں تقسیم کر دیا ہے۔اور ان کی یہ پالیسی ابھی تک جاری ہے۔
امید ہے کہ آئندہ آپ کا تبصرہ موضوع سے متعلق ہوگا۔ خارج از موضوع نہیں۔ شکریہ

ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق, ‏دسمبر 18, 2016 #3
 پسندیدہ پسندیدہ x 1
 ام نور العین
ام نور العین
ركن مجلس علماء
شمولیت:‏مارچ 30, 2009
پیغامات:23,643
 تبصرہ : کچھ لوگوں سے مراد وہ تھے جو سوشل میڈیا پر ایسا کہہ رہے ہیں یا دعائے قنوت کی اپیل کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس مضمون میں دعا کی جو اہمیت بیان کی گئی ہے اسی کی تائید مقصود تھی۔
رہ گیا جہاد اور خلیفہ کا معاملہ تو ایک خاص قسم کے "انقلابی" اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے نام نہاد جہادی تنظیموں کے متعلق اپنے مضمون کا تذکرہ کر دیا۔ میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ میں نے ایک خاص تناظر میں یہ بات لکھی تھی۔ مسلم حکمران بالکل بھی مثالی نہیں، کیوں کہ ہم مسلم رعایا، اساتذہ، طلبہ وطالبات، ہم بھی مثالی نہیں۔ اگر وہ کمزور ہیں تو اس کی وجہ مسلم عوام کی کمزوری ہے۔ جب قوم باشعور اور توانا ہو تو رہنما خود بخود معیاری ہوتے ہیں۔
کچھ باتوں میں ایک دوسرا نقطہ نظر ہے۔ اگر کوئی مسئلہ یواین سکیورٹی کاؤنسل میں جاتا ہے یا عالمی عدالتی انصاف میں لے جایا جاتا ہےتو یہ غیر سے بھیک نہیں بلکہ مسئلے کو سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ شام کے مسئلے پر او آئی سی میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ شام کی رکنیت ختم کی گئی گویا سفارتی دباؤ کا ہر ممکن راستہ اختیار کیا گیا۔ باقی کام بھی مسلم ممالک اپنے اپنے وسائل کے حساب سے ہی کر سکتے ہیں۔
ہندوستان اور پاکستان کے مسلمان مل کر کشمیر اور برما کی کتنی مدد کر سکے؟ ہم نے بنگلہ دیش میں مسلمانوں کی کتنی پھانسیاں رکوا لیں؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟
ان سب سوالات کا جو جواب ہے وہ اس سوال کا بھی ہے کہ سعودی عرب، قطر، کویت، متحدہ عرب امارات شام کے لیے کچھ کیوں نہ کر سکے۔ جب کہ مقابل بشار قاتل نے ایران اور روس کی حمایت سے لہو کی ندیاں بہا دیں۔

ام نور العین, ‏دسمبر 18, 2016 #4
 پسندیدہ پسندیدہ x 3
 ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ركن مجلسِ شوریٰ
شمولیت:‏جون 30, 2015
پیغامات:193
جواب تبصرہ : مزید تبصرہ کے لیے بہت بہت شکریہ۔ اور جہاں تک سوال جہاد اور خلافت کا انقلابیوں کے ذریعہ غلط استعمال کا ہے تو اس کی بھی ذمہ داری ہم مسلمانوں خصوصا علماء کرام کی ہے ۔ احیاء خلافت ایک فریضہ ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پوری دنیا کے علماء اس موضوع پر خاموش ہیں۔ اسی وجہ سے انقلابی اس کا غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں ۔ اگر خلافت زندہ ہوتی  یا خلافت کا صحیح علم لوگوں کو ہوتا تو کیا وہ اس کا غلط فائدہ اٹھا سکتے تھے؟
اور بلا شبہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اللہ تعالى نے ہمارے خراب و برے اعمال کے نتیجہ میں ان ظالم حکمرانوں کو ہمارے اوپر مسلط کردیا ہے ۔ اگر ہمارے اعمال درست ہوجائیں تو ان شاء اللہ ان سے نجات مل سکتی ہے۔لیکن ان ظالم حکمرانوں کو سمجھانا اور ان کو راہ راست پر لا نا یہ ہمارے علماء کی ذمہ داری ہے ۔ لیکن علماء کرام اس سے بھی غافل ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی بعض وجوہات کی  بناء پر ادا نہیں کر رہے ہیں۔ جن میں ایک اہم وجہ ان کا حکمرانوں سے خوف کھانا, ان کے اوپر دباؤ ہونا , حق بات کہنے کی جرأت نہ ہونا اور خود بھی ہر طرح کی بیماریوں و بگاڑ میں مبتلا ہونا ہے۔ جس سے ان کو فری ھینڈ مل گیا ہے اور وہ حسب خواہش سب کچھ کر رہے ہیں۔
محترمہ ام نور العین صاحبہ: کیا آپ کو یہ نہیں معلوم ہے کہ اقوام متحدہ, عالمی بینک , انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ اور اس طرح کی دیگر تنظیمیں سب اسلام اور مسلمان دشمن ہیں ۔ اور ان کو اسی لیے بنایا گیاہے تاکہ ان کی آڑ میں مسلمانوں کو نقصان پہنچایا جائے۔غیر مسلموں کی مدد کی جائے ۔ اور جدید طریقے سے مسلمان ممالک کو غلام بنایا جائے۔اس کی سب سے بڑی دلیل ان کا دوہرا رویہ ہے جو وہ مسلمان ممالک کے بارے میں اختیار کرتے ہیں۔ کوئی ایک ایسا مسئلہ بتا دیجیے جو انھوں نے مسلمانوں کی مصلحت کے لیے کیا ہو۔ یہ سب اپنے مفادات کے غلام ہیں۔یہ ہم مسلمانوں کی کمزوری ,  ذلت,  بے شرمی اور بے غیرتی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ ہم غیروں سے اپنے مسائل کو حل کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔ ان کے سامنے عاجزی کرتے ہیں ۔ ان سے گڑگڑاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں فکری جنگ سے متعلق کتابوں کا مطالعہ بہت ہی مفید ثابت ہوگا۔ ان کی سازشیں اتنی گہری اور باریک ہیں کہ بہت سارے علماء و مفکرین دھوکا کھا جاتے ہیں۔عوام کی بات ہی الگ ہے۔
مسلمان تنظیموں کی بات کرنا تو حسین خواب دیکھنا جیسا یا اپنے من کو بہلانا جیسا ہے ۔ ان تنظیموں کا بین الاقوامی طور پر کتنا وزن ہے یہ ہر کوئی جانتا ہے۔ ان کی اتنی ہی قیمت ہے جتنا ہم مسلمانوں کی آج کے دور میں ہے۔بلکہ کچھ اس سے بھی کم ہے۔ او آئی سی نے شام کو اپنی رکنیت سے نکال دیا ۔ بہت اچھی بات ہے ۔ لیکن کیا اس کا کوئی اثر ہوا؟
آپ نے مسلم مسائل کو خانوں میں تقسیم کردیا ۔ اسی کا تو میں سخت مخالف ہوں۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہ مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں۔ کوئی بھی مسلم مسئلہ خواہ وہ کسی بھی علاقہ کاہوشرعی نقطہ نظر سے تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔اور اس کو حل کرنے کی ذمہ داری بھی تمام مسلمانوں کی ہے ۔ برما کا مسئلہ صرف انڈیا و پاکستان یا قرب و جوار کے مسلمانوں کا نہیں ہے۔ اسی طرح فلسطین یا شام کا مسئلہ صرف خلیجی ممالک کا مسئلہ نہیں ہے ۔ پوری امت ایک جسم کی طرح ہے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ اور یہ جو مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم 60 ملکوں میں متفرق اور بٹے ہوئے ہیں۔ ہمارے درمیان اتفاق و اتحاد بالکل نہیں ہے۔اوریاد رکھیے کہ جب تک ہم سیاسی, اقتصادی اور فوجی طور پر کامل طور سے متحد نہیں ہوں گے اسی طرح سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اور امت یوں ہی ذلیل ہوتی رہے گی۔ خون کی ندیاں بہتی رہیں گی۔ مسلمان تباہ و برباد ہوتے رہیں گے اور ہمارے بے حس مسلمان حکمراں خواب غفلت میں مد ہوش ہوکر نیرو کی بانسری بجانے میں مست رہیں گے۔
اور آخر میں ایک سوال ہے کہ آپ نے انڈین مسلمانوں کو برما کے مسئلہ سے کیوں جوڑ دیا۔ کیا آپ کو اس کا علم نہیں ہے کہ انڈیا ایک غیر مسلم ملک ہے۔ انڈیا کے مسلمان اپنی بقاء کی لڑائی میں خود مصروف ہیں۔ وہ خود تقسیم ہند کی غلط پالیسی کا برا انجام برداشت کر رہے ہیں۔ وہ خود ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کیا کر سکتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ بین الاقوامی مسلمان مسائل پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ احتجاج بھی کرتے ہیں۔جو اخباروں میں آتا رہتا ہے ۔ اور یہی ان کے لیے بہت ہے۔ شکریہ

تبصرہ : اللہ کا فضل ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو کسی تنظیم کو پورے کا پورا اسلام دشمن قرار دے دیں۔ دنیا میں آپ کو ہر جگہ دوست نہیں ملتےلیکن پھر بھی آپ کو مرکزی دھارے سے جڑا رہنا پڑتا ہے۔ کہیں آپ دوسروں کا وار سہتے ہیں کہیں کسی پر کاری وار کر کے ادھار چکاتے ہیں۔ اگر مسلمان ممالک کی حکومتیں اقوام متحدہ سے جڑی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔اس بات کا علمی تجزیہ ضرور ہونا چاہیے کہ ان تنظیموں نے کون سے اہداف حاصل کیے، کہاں کوئی نتیجہ دینے میں ناکام رہیں۔
مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کے بارے میں میرے خیالات مثبت ہیں، خوش قسمتی سے اس منفرد تنظیم کی کامیابیوں اور جدوجہد کا گہرا مطالعہ کرنا اور کروانا میری تدریسی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ او آئی سی پر تنقید کرتے ہوئے اگر اس کے چیلنجز اور وسائل کو سامنے رکھا جائے تو ہی منصفانہ تجزیہ ممکن ہے۔ہم چیزوں کو سطحی طور پر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عالمی سیاست کو سازش کہہ کر، اقوام متحدہ کو اسلام دشمن قرار دے کر اس دنیا سے فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح دین کا علم علما سے حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح مسلم جغرافیائی، سیاسی و دفاعی ماہرین کی آراء کا گہرا مطالعہ ہمیں ایک بہتر باشعور امتی بنائے گا۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرآن کا علم تھا تو جزیرہ عرب کا جغرافیائی اور سیاسی علم بھی تھا۔ اگر ہم پوری مسلم امت کو اس بنیاد پر کوس دیں کہ وہ ہزاروں ایروناٹیکل مائلز کی دوری پر واقع ایک ملک کی خانہ جنگی میں اڑن قالین پر مدد کرنے کیوں نہیں پہنچے یہ میرے خیال میں یہ انقلاب اور خلافت کا وہی رومانوی تصور ہے جس کے پیچھے ہزاروں نوجوان اپنی زندگیاں تباہ کر چکے ہیں۔ مسلم امہ کو ہم نے نہیں قدرت نے خانوں میں بانٹا ہے، یہ ہماری نہیں قدرت کی جانب سے کی گئی جغرافیائی تقسیم ہے، جو جس براعظم پر ہے وہاں اس کے قرب وجوار کے ممالک ہی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ بے شک مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں لیکن آنکھ صرف رو سکتی ہے اور ہاتھ زخم کو ڈھانپ بھی سکتا ہے دوا بھی لگا سکتا ہے۔ یہی مثال ہماری جغرافیائی اور سیاسی مجبوریوں کی ہے۔ ہم شام سمیت کئی ممالک کے غم میں آنکھ کی مانند روئے ہیں،کشمیر، افغانستان اور برما سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے ان کے لیے ہاتھ کی مانند کام کیا، ان کو پیروں پر کھڑا کیا اس لیے کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے ہماری دسترس (ہاتھ کی پہنچ ) میں تھے۔ پاکستان آج بھی اقوام عالم کی صف میں مہاجرین کی میزبانی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں جس کی تحریک آزادی میں میرے بزرگوں نے حصہ لیا اور مجھے یہ نعمت نصیب ہوئی۔ یہ اعزاز بھی او آئی سی کو حاصل ہے کہ اس کے تین رکن ممالک مہاجرین کی میزبانی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک ہیں۔
اگر اقوام متحدہ میں مسلم ممالک کے مسائل اور او آئی سی کے کردار پر کوئی تعمیری گفتگو شروع کی جائے تو مجھے اس کا حصہ بننے میں خوشی ہو گی۔

Last edited: ‏بوقت ہفتہ 5:01 شام
ام نور العین, ‏بوقت ہفتہ 4:30 شام #7
 معلوماتی معلوماتی x 1
 ام نور العین
ام نور العین
ركن مجلس علماء
شمولیت:‏مارچ 30, 2009
پیغامات:23,643
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق نے کہا:
انڈیا کے مسلمان اپنی بقاء کی لڑائی میں خود مصروف ہیں۔ وہ خود تقسیم ہند کی غلط پالیسی کا برا انجام برداشت کر رہے ہیں۔ وہ خود ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ وہ دوسروں کی مدد کیا کر سکتے ہیں۔ ان سب کے باوجود وہ بین الاقوامی مسلمان مسائل پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ احتجاج بھی کرتے ہیں۔جو اخباروں میں آتا رہتا ہے ۔ اور یہی ان کے لیے بہت ہے۔ شکریہ
تبصرہ: بالکل یہی ان کے لیے بہت ہے، اللہ ان کی مشکلات حل کرے اور انہیں باوجود کمزور ہونے کے دوسرے بھائیوں کے لیے آواز اٹھانے پر اجر دے۔
مسلم ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ سب اپنی مشکلات اور مجبوریوں کے باوجود جتنا ہو سکے مسلم امت کے مسائل کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔ اس لئے میں عرض کر چکی ہوں کہ مسلم ممالک سے جو بن پڑا وہ کر رہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے پر تنقید کی بجائے ایک دوسرے کی کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا شروع کریں گے تو زیادہ اچھا ہے۔ اس سے مثبت تعلقات بھی شروع ہوں گے اور مدد کے مزید راستے بھی نکل آئیں گے۔
ہندوستان کے مسلمان بھائی جب تقسیم ہند پر جذباتی گفتگو شروع کرتے ہیں تو میں نظر انداز کر دیتی ہوں۔ اسلامی اخوت اپنی جگہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ۔ اگر سیاسی بحث سے ایمانی اخوت پر کوئی فرق نہ آنے کی ضمانت دی جائے تو اس موضوع پر اچھا مذاکرہ ممکن ہے۔ بصورت دیگر ہمیں دعوت دین کے اس بنیادی مقصد پر توجہ رکھنی چاہیے جس کے لیے ہم اردو مجلس سے جڑے ہیں۔

ام نور العین, ‏بوقت ہفتہ 4:56 شام #8

ركن مجلس علماء
شمولیت:‏مارچ 30, 2009
پیغامات:23,643
تبصرہ: مجھے ایک سوال ضرور پوچھنا ہے کیا مصائب کا مطلب یہ ہے کہ ہم ذلیل ہو رہے ہیں۔ انسان پر بہت سے مصائب آتے ہیں لیکن اس سے نکلتا وہی ہے جو اس کو ذلت کی بجائے خود کو ثابت کرنے کا ایک موقع سمجھتا ہے۔ اس امت میں بہت خیر ہے۔ یہ ذلیل نہیں مصائب کا شکار ہے جس سے نکلنے کے لیے اس کے ہر طبقے کو کام کرنے کی ضرورت ہے چاہے حکمران ہوں یا عوام۔

ام نور العین, ‏بوقت ہفتہ 5:01 شام #9
 ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ركن مجلسِ شوریٰ
شمولیت:‏جون 30, 2015
پیغامات:193
ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق, کل بوقت 11:05 دن #10
 معلوماتی معلوماتی x 1  مفید مفید x 1
 ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ركن مجلسِ شوریٰ
شمولیت:‏جون 30, 2015
پیغامات:193
ام نور العین نے کہا:
تبصرہ: اللہ کا فضل ہے کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں جو کسی تنظیم کو پورے کا پورا اسلام دشمن قرار دے دیں۔ دنیا میں آپ کو ہر جگہ دوست نہیں ملتےلیکن پھر بھی آپ کو مرکزی دھارے سے جڑا رہنا پڑتا ہے۔ کہیں آپ دوسروں کا وار سہتے ہیں کہیں کسی پر کاری وار کر کے ادھار چکاتے ہیں۔ اگر مسلمان ممالک کی حکومتیں اقوام متحدہ سے جڑی ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے۔اس بات کا علمی تجزیہ ضرور ہونا چاہیے کہ ان تنظیموں نے کون سے اہداف حاصل کیے، کہاں کوئی نتیجہ دینے میں ناکام رہیں۔
مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کے بارے میں میرے خیالات مثبت ہیں، خوش قسمتی سے اس منفرد تنظیم کی کامیابیوں اور جدوجہد کا گہرا مطالعہ کرنا اور کروانا میری تدریسی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ او آئی سی پر تنقید کرتے ہوئے اگر اس کے چیلنجز اور وسائل کو سامنے رکھا جائے تو ہی منصفانہ تجزیہ ممکن ہے۔ہم چیزوں کو سطحی طور پر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ عالمی سیاست کو سازش کہہ کر، اقوام متحدہ کو اسلام دشمن قرار دے کر اس دنیا سے فرار اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح دین کا علم علما سے حاصل کیا جاتا ہے اسی طرح مسلم جغرافیائی، سیاسی و دفاعی ماہرین کی آراء کا گہرا مطالعہ ہمیں ایک بہتر باشعور امتی بنائے گا۔ نبی کریم ﷺ کے ساتھ قرآن کا علم تھا تو جزیرہ عرب کا جغرافیائی اور سیاسی علم بھی تھا۔ اگر ہم پوری مسلم امت کو اس بنیاد پر کوس دیں کہ وہ ہزاروں ایروناٹیکل مائلز کی دوری پر واقع ایک ملک کی خانہ جنگی میں اڑن قالین پر مدد کرنے کیوں نہیں پہنچے یہ میرے خیال میں یہ انقلاب اور خلافت کا وہی رومانوی تصور ہے جس کے پیچھے ہزاروں نوجوان اپنی زندگیاں تباہ کر چکے ہیں۔ مسلم امہ کو ہم نے نہیں قدرت نے خانوں میں بانٹا ہے، یہ ہماری نہیں قدرت کی جانب سے کی گئی جغرافیائی تقسیم ہے، جو جس براعظم پر ہے وہاں اس کے قرب وجوار کے ممالک ہی مدد کو پہنچ سکتے ہیں۔ بے شک مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں لیکن آنکھ صرف رو سکتی ہے اور ہاتھ زخم کو ڈھانپ بھی سکتا ہے دوا بھی لگا سکتا ہے۔ یہی مثال ہماری جغرافیائی اور سیاسی مجبوریوں کی ہے۔ ہم شام سمیت کئی ممالک کے غم میں آنکھ کی مانند روئے ہیں،کشمیر، افغانستان اور برما سے جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان پہنچے ان کے لیے ہاتھ کی مانند کام کیا، ان کو پیروں پر کھڑا کیا اس لیے کہ وہ جغرافیائی لحاظ سے ہماری دسترس (ہاتھ کی پہنچ ) میں تھے۔ پاکستان آج بھی اقوام عالم کی صف میں مہاجرین کی میزبانی کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں جس کی تحریک آزادی میں میرے بزرگوں نے حصہ لیا اور مجھے یہ نعمت نصیب ہوئی۔ یہ اعزاز بھی او آئی سی کو حاصل ہے کہ اس کے تین رکن ممالک مہاجرین کی میزبانی کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک ہیں۔
اگر اقوام متحدہ میں مسلم ممالک کے مسائل اور او آئی سی کے کردار پر کوئی تعمیری گفتگو شروع کی جائے تو مجھے اس کا حصہ بننے میں خوشی ہو گی۔
Click to expand...
جواب تبصرہ:  بسم اللہ الرحمن الرحیم محترمہ ام نور العین صاحبہ دل تو نہیں چاہتا ہے کہ آپ کی اس تحریر کا جواب لکھوں کیونکہ ایک تو فردا فردا سب کو سمجھانا ممکن نہیں ہے ۔ دوسرے جس کو قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ اور دور حاضر کا گہرا علم نہ ہو اور جس کی پکڑ مضبوط نہ ہو وہ اس طرح کی باتیں تحریر کرتا ہے۔ اور در اصل یہ کاتب کی غلطی نہیں ہے بلکہ اس نظام تعلیم کی غلطی ہے جو اکثر مسلمان ممالک میں رائج ہے جیسا  پاکستان میں ہے ۔ اسی وجہ سے شاہ فیصل رحمہ اللہ نے تعلیم کو اسلامی بنانے کا ایک عظیم الشان کام کا آغاز کیا تھا لیکن ان کی وفات کے بعد یہ کام تقریبا بند ہوگیا۔ اسی طرح اس میں محرر کی کوئی غلطی نہیں ہے کیونکہ آج کا ذرائع ابلاغ جس پر ہمارے دشمنوں کا قبضہ ہے وہ جیسا ذہن بناتا ہے اسی طرح بہت سارے لوگ سوچتے و تحریر کرتے ہیں۔ خیر آپ نے جو تحریر کیا ہے اس سے اسلامیات اور اسلامی تاریخ کی لا علمی کا پتہ چلتا ہے۔ اس پر دو تین موضوعات الگ سے تیار ہو سکتے ہیں۔ پھر بھی مختصر طور پر میں کچھ لکھ دیتا ہوں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے کئی جگہ دو موضوعات کو ایک ساتھ ملا دیا ہے ۔ یہ آپ کی سب سے بڑی بھول ہے۔ مثلا دشمنی اور اقوام متحدہ سے جڑے رہنا ۔ در اصل ہم سب کے ذہن میں ایک ہی بات رہتی ہے کہ دشمنی کا مطلب قطع تعلق ہے۔ ہمیشہ دشمن کے ساتھ لڑائی میں رہنا ۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے ۔ دشمنی کا مطلب ہے دشمن کی طرف سے چوکنا رہنا۔ اس کی چال بازیوں عیاریوں اور مکاریوں سے ہوشیار رہنا۔ اس کی طرف سے دھوکا نہ کھانا۔ اور جب ضرورت ہو تو لڑائی و دفاع کرنا۔
اور جہاں تک قطع تعلق کی بات ہے تو میں نے کب کہا کہ اقوام متحدہ سے تعلق ختم کرلیا جائے ۔ یہ تو کوئی بیوقوف شخص ہی کہے گا جس کو شریعت کا علم نہیں ہے۔ جس کو اسلامی تاریخ کا علم نہیں ہے۔کیا ہمارے نبی نے أپنے زمانہ میں مشرکوں و کافروں سے جنگ کے باوجود قطع تعلق کر لیا تھا۔ قطع تعلق الگ چیز ہے اور دشمنی الگ چیز ہے اور دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں لہذا ان کو آپس میں مت ملائیے اور خود قرآن میں اس کی دلیل ہے ۔ اللہ نے یہود و نصاری کو مسلمانوں کا دشمن قرار دیا ہے ۔ پھر اسی اللہ نے ان کا ذبیحہ , ان کی عورتوں سے شادی ان کے ساتھ کاروبار وغیرہ کو حلال کیا ہے۔میں اس پر اسی مجلس میں لکھ چکا ہوں۔
دوسری بات میں ان تنظیموں کو دشمن نہیں قرار دے رہا ہوں بلکہ خود اللہ نے ان کو دشمن قرار دیا ہے ۔ دیکھیے یہ آیت لتجدن أشد الناس عداوة للذين آمنوا اليهود والذين أشركوا ( مائدہ 182) اس طرح ان آیتوں کو بھی دیکھ لیجیے :---
سورہ بقرہ آیت نمبر 109 و 120 و 217
سورہ توبہ کی آیت نمبر 8 سے 10
سورہ ممتحنہ کی آیت نمبر 2
ان مذکورہ بالا آیتوں کا خوب غور سے مطالعہ کیجیے ۔ آپ کو خود ہی پتہ چل جائے گا کہ کافر قومیں ہماری دشمن ہیں کہ نہیں۔ اور ان دشمنوں کے بنائے ہوئے ادارے ہمارے دشمن ہیں کہ نہیں۔ در اصل ان آیات میں کافروں کی نفسیات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور وہ مسلمانوں کے تعلق سے کیا سوچتے ہیں اس کا بیان ہے۔ کیا یہ سب بھی غلط ہے؟ اور جس اللہ نے یہ بتلایا ہے اسی نے تعلقات کو بر قرار رکھنے کے لیے بھی کہا ہے جیسا کہ میں نے تحریر کیا۔
تیسری بات یہ ہے جس آدمی کی آنکھ پے پٹی بندھی ہو یا جو بصارت کے باوجود بصیرت سے محروم ہو اور جس کو عالمی سازشیں واضح ہونے کے باوجود نظر نہ آرہی ہوں اس کے بارے میں صرف ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ : گر نہ بیند بروز شپرہ چشم چشمہ آفتاب را چہ گناہ
کیا آپ کو معلوم ہے کہ سایکس بیکو معاہدہ کیا چیز ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ بلفور وعدہ کیا چیز ہے ؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہودیوں کے پروٹوکول کیا ہیں؟
کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ یہودیوں کو فلسطین میں بسانے والا اقوام متحدہ ہے؟
کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ عراق و افغانستان کو برباد کرنے والا امریکہ ہے؟
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسلامی ملک کو تقسیم در تقسیم کرنے والے یہود و نصاری ہیں ؟
چند سال پہلے سوڈان کو تقسیم کرنے والا کون ہے؟
اس کے علاوہ بے شمار چیزیں ہیں۔ میں کہاں تک لکھوں ۔ کیا یہ سب عالمی سازشیں نہیں ہیں؟ کیا یہ سب سطحی باتیں ہیں؟
چوتھی بات میں نے کب دنیا سے راہ فرار اختیار کرنے کی دعوت دی ہے ۔ در اصل اسلام میں تو رہبانیت ہے ہی نہیں۔ یہ توآپ لکھ رہی ہیں ۔ میں تو دنیا سے راہ فرار کی نہیں بلکہ ان سے مقابلہ کرنے کی دعوت شریعت کی روشنی میں دے رہا ہوں۔
پانچویں بات آپ نے معاذ اللہ خلافت کے تصور کو رومانوی تصور کہہ ڈالا جو سراسر غلط ہے ۔ خلافت کا شرعی تصور ہے ۔ اور خلافت شروع اسلام سے قائم رہا ہے ۔ اس کو انگریزوں و یہودیوں نے کمال اتاترک یہودی کے ساتھ مل کے 1924 ع میں ختم کیا۔
اس کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں خصوصا جغرافیائی تقسیم اور ذلت وغیرہ کا جن کا جواب ان شاء اللہ بعد میں دیا جائے گا۔ فی الحال اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔ شکریہ
محترمہ ام نور العین صاحبہ: قدرت نے ہم کو خانوں میں نہیں بانٹا ہے۔ یہ ہمارے دشمنوں اور حکمرانوں نے ہم کو خانوں میں بانٹا ہے۔۔(الحمد للہ اس پر میں نے ایک موضوع لکھا ہے: "تقسیم ہند شرعی اور تاریخی دلائل کی روشنی میں" تفصیل کے لیے اس کا مطالعہ بے حد مفید ہوگا۔) قرآن میں تو صاف صاف لکھا ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ایک دوسری جگہ ہے: إِنَّ هَٰذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ ( انبیاء/92 و سورہ مؤمنون /52 ) یقینا یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہےاور میں تمھارا رب ہوں لہذا تم لوگ میری ہی عبادت کرو۔اور سورہ مومنون کی آیت کے آخر میں ہے: لہذا تم لوگ مجھ سے ڈرو۔

نبی کریم و خلفاء راشدین نیز بنو امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کا صرف ایک حاکم اور ایک ہی خلیفہ تھا۔ اسلام میں تعدد ممالک کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہ تمام سرحدیں مصنوعی ہیں۔ غیرشرعی و ناجائز ہیں۔
لہذا یہ تقسیم اللہ تعالى یا ہماری شریعت کی طرف سے نہیں ہے۔ البتہ  جغرافیائی تقسیم قدرت کی طرف سے ہے لیکن یہ وحدت میں رکاوٹ نہیں ہے جس طرح اسلاف کے زمانہ میں رکاوٹ نہیں تھا۔
اور جہاں تک مسلمان ممالک و مسلمانو کی پوری دنیا میں ذلت کی بات ہے وہ بالکل واضح ہے۔یہ ایسے مصائب ہیں جن کو ہم نے خود دعوت دی ہے کیونکہ ہم اسلام کے سیاسی نظام کو نافذ نہیں کر رہے ہیں۔اگر تمام مسلمان یا اکثر مسلمان ممالک ایک ہوتے تو یہ نوبت آتی ہی نہیں۔ یہ کوئی قدرتی یا آسمانی مصائب نہیں ہیں۔یہ اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوئی ہیں لہذا ہم ذلیل ہیں۔ اگر کسی کو  یہ ذلت کسی وجہ سے نظر نہ آتی ہو تو ہم کیاکرسکتے ہیں۔ آج پوری دنیا میں جس طرح مسلمانو کا قتل کیا جارہا ہے کیا وہ ذلت نہیں ہے؟ مسلمان ممالک فوجی غلامی سے تو آزاد ہوگئے لیکن اب بھی وہ فکری و اقتصادی غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں کیا یہ ذلت نہیں ہے؟ ستر سال سے زائد ہوگئے لیکن فلسطین سے یہودیوں کو نہیں نکال سکے کیا یہ ذلت نہیں ہے؟تقریبا  دو ارب مسلمانو اور ان کے 57 ممالک کی اس سے بڑی بے عزتی , بے قدری اور بے اہمیتی اور کیا ہوگی کہ اقوام متحدہ کے مجلس امن میں آج  تک ان کو دائمی   رکنیت حاصل نہیں ہوئی اور نہ ان کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کی کوئی امید ہے۔وغیرہ
اسی سے واضح طور پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہم دنیا اور اس کی نظروں میں کہاں کھڑے ہیں اور همارا مقام و مرتبہ كيا ہے۔وغیرہ آج کے بے غیرت مسلمان حکمرانو  کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئیے۔








التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: