مسلمانو کی سادگی و جذباتیت : کیا صرف قرارداد اور ٹویٹس سے
مسائل حل ہوجاتے ہیں
چند
دنوں پہلے اپریل و مئی 2020 ع کی بات ہے۔
کویت گورنمنٹ نے انڈین مسلمانو پر ہونے والے ظلم کے بارے میں ایک قرارداد پاس کی
اور چند عربوں خصوصا
شہزادی ہند القاسمی اور ایک وکیل نے
ٹویٹ کردیا۔ اور کچھ ممالک نے سنگھی ذہنیت
کے ہندووں کو أپنے یہاں سے نکال دیا۔ جس سے انڈین مسلمانو میں خوشی کی ایک لہر دوڑ
گئی۔ شاید سب سے زیادہ خوشی دہلی أقلیتی
کمیشن کے چیرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کو ہوئی۔ انہوں نے نہ صرف کویت کا شکریہ
ادا کیا بلکہ جوش میں آکے اور جذبات سے
مغلوب ہو کر یہ بھی لکھ دیا کہ ہم انڈین مسلمانو نے ابھی تک یہی راہ اختیار کی ہے کہ تمھارے نفرتی مہم, لنچنگ اور فسادات وغیرہ کی عربوں
نیز مسلم دنیا سے شکایت نہیں کی ہے۔ یقین جانو جس دن ہم شکایت کرنے کے لیے مجبور
ہوجائیں گے تم کو طوفان کا سامنا کرنا پڑ ےگا۔ یا بقول صحافی اجیت انجم زلزلہ
آجائے گا۔ ان کے علاوہ ہمارے بہت سارے
بھائیوں نے عربوں کا شکریہ ادا کیا کہ آپ ہماری طرف سے دفاع کر رہے ہیں۔شوسل میڈیا
میں اس کا کافی چرچا رہا خصوصا دا لائیو
ٹی وی اور دھاکڑ خبرنے بڑھاچڑھاکر پیش کیا۔ دھاکڑ خبر نے کہا کہ کب تک انڈین
مسلمان خلیج کی طرف دیکھتے رہیں گے؟ کسی نے لکھا کہ جب عرب خاموش رہتے ہیں تو ہم
کہتے ہیں کہ عرب کچھ بھی نہیں کرتے ہیں اور جب وہ بولتے ہیں تب بھی ہم اعتراض کرتے
ہیں۔خیر کچھ دنوں تک اس پر کافی چرچا رہا۔ایسا لگ رہا تھا کہ انڈین مسلمانو کو ظلم
سے نجات مل گئی اور ان کے تمام مسائل اب اور تب حل ہوگئے۔ہاں ان ٹویٹس کا ایک
فائدہ ہوا کہ کچھ بڑے سیاسی نیتاؤں کے لب
ولہجہ میں وقتی طور پر تبدیلی آگئی لیکن دوسرے نیتا أپنے ایجنڈا کے تحت کام کرتے
رہے۔بڑے نیتا اس پر خاموش رہ کر ان کو شہ دیتے رہے۔
برادران
اسلام : بلاشبہ انڈیا میں مسلمان کافی مظلوم ہیں اور جب سے یہ سنگھی حکومت قائم
ہوئی ہے ظلم مزید بڑھ گئے ہیں۔اور ڈوبنے والے کے لیے تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے۔
یہی حال انڈین مسلمانو کا بھی ہے۔ ان کے بارے میں کویت گورنمنٹ نے قرارداد کیا پاس
کردی اور چند لوگو نے ٹویٹ کیا کردیا کہ
وہ خوشى سے پھولے نہیں سمائے اور ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔خیر لیکن سوال
یہ ہے کہ کیا کویت گورنمنٹ کے محض قرارداد پاس کردینے اور چند افراد کے ٹویٹس سے مظالم بند ہوجائیں گے۔
کیا ان کا سلسلہ رک جائے گا؟ کیا اس قراداد اور ٹویٹس کا کوئی اثر ہوگا؟اور اگر ہوگا تو کتنے دنوں کے لیے
ہوگا؟یہاں پر یہ بھی ذکر کردوں کہ اس سے پہلے اسی طرح کی قرارداد کویت گورنمنٹ نے
چین کے ایغور مسلمانو پر ہورہے مظالم کے بارے میں پاس کیا تھا۔لیکن اس کا کوئی أثر
نہیں ہوا۔آج بھی چین میں مظالم جاری و ساری ہیں۔ ان میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔اور
انڈیا میں مسلمانو کی جو حالت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔
میرے
خیال میں ڈاکٹر ظفر الاسلام صاحب کا جو ٹویٹ ہے اور جس پر
اتنا ہنگامہ تھا اور ہے اس سے ان کی بھاری
بھرکم شخصیت کا پتہ نہیں چلتا ہے۔ مجھے تو تعجب ہے کہ انہوں نے ایسا ٹویٹ کیسے
کردیا؟ کیا ان کو نہیں معلوم کہ آج کے دور میں شکایت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
آج دنیا ایک گاؤں کی طرح ہے۔سائنس و انٹرنٹ کا زمانہ ہے۔آج کہاں کیا ہورہا ہے سب
کو پتہ ہے۔ کسی کو بتلانے یا خبر دینے کی ضرورت نہیں ہے۔آج کی دنیا میں خبریں پلک
جھپکتے پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔کون سا مسلمان ملک ایسا ہے جس کو فلسطین ,
برما , چین وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کے بارے میں نہیں معلوم ہے۔لیکن مسلمان ممالک
ان کے لیے گھڑیالی آنسو بہانے اور چند
مادی مدد کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا
پاکستان نے کشمیر کے حالات کےبارے میں مسلمان دنیا کو اطلاع نہیں دی؟ کیا اس سے
انڈیا میں طوفان آگیا؟کیا عرب شام و عراق میں ہونے والے مظالم سے بے خبر ہیں اس سے ان کے یہاں کون سا زلزلہ آگیا؟واہ رے
ڈاکٹر صاحب: لگتا ہے کہ آپ اس دنیا میں رہتے ہی نہیں ہیں اور اگر رہتے ہیں
تو حقیقت سے آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں۔
کیا ڈاکٹر ظفر صاحب آپ کو نہیں معلوم کہ بین الاقوامی قانون کے اعتبار
سے ایک ملک دوسرے ملک کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرسکتا ہے؟ کیا اپ کو نہیں
معلوم کہ مسلمانو خصوصا خلیجی ممالک کی دنیا میں کیا پوزیشن ہے؟ ان کی سیاسی طاقت و قوت کیا ہے؟کیا اپ کو عربوں
و مسلمانوکی زمینی حقیت کا علم نہیں ہے؟ یا تو اپ کو ان تمام امور کا علم نہیں ہے
یا علم ہے لیکن آپ نے قصدا اس کو نظر انداز کردیا ہے۔
مالدار
ممالک کے جو عرب عموما أپنے یہاں کام کرنے والےغیر ملکیوں خصوصا
ملازمین , مزدوروں , خادماؤں و عمال کی قدر نہیں کرتے
ہیں۔ عام طور سے ان کو حقارت کی نگاہ سے
دیکھتے ہیں۔ سماجی طور پر ان سے دوری بنا
کے رکھتے ہیں۔ مسلمانو کو بھی أخ
(بھائی)کے بجائے رفیق و صدیق کے القاب سے نوازتے ہیں ۔ان سے کم ہی گھلتے ملتے ہیں۔بہت
سارے انکے حقوق کو ہضم کرجاتے ہیں۔جہاں حقوق انسانی کی بہت زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔ قومیت
کی بنیاد پر تنخواہ میں تفریق کی جاتی ہے گرچہ ڈگری ایک ہی ہے۔ وہ عرب انڈین
مسلمانو کی کیا قدر کریں گے۔عربوں کی نگاہ میں ان کی کیا وقعت ہوگی یہ سب کو معلوم
ہے خصوصا اس کا تلخ تجربہ ان سب کو ہے جنہوں نے أپنی زندگی کا کچھ حصہ وہاں پر
گذارا ہے؟ کیا اہل عرب کے یہاں انڈین
مسلمانو کی قدر فلسطین و شام و عراق کے عرب سے زیادہ ہو سکتی ہے یا ہے؟ اگر وہ عربوں کو مظالم سے
نجات نہیں دلاسکے تو پھر ان سے اور کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟
ذرا
سوچئے اور بتلائیے : جو عرب خود أپنے باہمی مسائل نہیں حل کر سکتے ہیں وہ دوسروں
کے مسائل کو کیا حل کریں گے؟ بعض خلیجی ممالک میں بدون کا مسئلہ ہے جو ابھی تک وہ
حل نہیں کرسکے ہیں۔اسی طرح بعض علاقے ہیں جو ان کے درمیان متنازعہ فیہ ہیں وہ ابھی
تک لاینحل ہیں۔ مثلا تفصیل کے لیے دیکھئے: النزاعات الاقلیمیۃ فی الخلیج العربی - ویکیپیڈیا
جو عرب خود أپنی حفاظت نہیں کر سکتے ہیں وہ
دوسروں کی حفاظت کیا کریں گے۔جو أپنی حفاظت کے لیے دوسروں کے محتاج ہیں وہ کس طرح
دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ کیا ان کے پاس آج کے دور میں اتنی سیاسی , معاشی, فوجی
طاقت و قوت ہے کہ وہ دوسروں کی حفاظت کر سکیں؟
سیاسی
و فوجی طاقت کے معاملے میں یہ ممالک صفر یا انتہائی کمزور ہیں۔ ان کا کوئی بین الاقوامی اثر و رسوخ و وزن
نہیں ہے۔اس کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جن میں سے چند مثال یہ ہیں:
یکم
دسمبر 1992 ع میں شاہ فہد کی قیادت میں
جدہ میں تمام مسلمان ممالک کی ایک میٹنگ ہوئی جس میں بوسنیا و ہرزگووینا کے
مسئلہ پر بحث ہوئی۔اور ایک قرارداد یہ پاس کی گئی کہ 15 جنوری 1993 ع تک جنگ بند
ہوجانی چائیے اور اقوام متحدہ نے جو
قرارداد بوسنیا کے بارے میں پاس کیا ہے اس پے عمل در آمد شروع ہوجانا چائیے۔لیکن
اس کے بعد بھی جنگ ایک طویل عرصہ تک جاری رہی اور صرب مسلمانو کے خون سے ہولی
کھیلتے رہے اور اپنی پیاس مٹاتے رہے۔اور پوری دنیا تماشہ دیکھتی رہی۔
اسی
طرح 2003 ع میں جب امریکہ عراق پر حملہ
کرنے والا تھا تو تمام عرب ممالک نے ایک قراداد پاس کیا کہ عراق پر حملہ تمام عرب
ممالک پر حملہ مانا جائے گا۔ سب کو معلوم ہے کہ اس قراداد کا کیا حشر ہوا۔ امریکہ
اور اس کے حلیفوں نے اس کی چنداں پرواہ نہیں کی اور
پوری دنیا کے سامنے عراق پر حملہ کردیا۔ عربوں نے کیا کیا؟اسی طرح اس سے پہلے 2001 ع میں افغانستان سے متعلق اسلامی
تعاون تنظیم کے قرارداد کا بھی یہی حشر ہوا۔ وغیرہ
آج
کی دنیا میں چین کے ایغور مسلمانو پر بہت زیادہ ظلم ڈھائے جارہے ہیں۔ان کی شناخت
تک کو ختم کیا جا رہا ہے۔انکو تعلیم و ثقافت کے نام پر کیمپوں میں رکھ کرکے غیر
مسلم بنایا جا رہا ہے۔ان کو زبردستی شراب پلایا جاتا ہے اور سور کا گوشت کھلایا جاتا ہے۔
یہ بے شرم عرب و مسلمان ممالک کیا کررہے
ہیں۔ ان کی اتنی بھی جرأت نہیں ہے کہ وہ چین کے خلاف کچھ بول دیں بلکہ وہ الٹا اس
کی تایئد و حمایت کرتے ہیں۔
ہاں
جہاں تک اقتصادی و معاشی طاقت کا سوال ہے تو یہ ممالک دنیا میں اقتصادی اعتبار
سے اپنا وزن رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ پٹرول
کی سپلائی بند کردیں ۔ اپنے یہاں کام کرنے
والے تمام غیر مسلم عمال و مزدوروں کو نکال دیں تو بہت سارے مسائل حل ہو سکتے ہیں لیکن
سوال یہی ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ کیا ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت, جرأت و
ہمت ہے؟ تو اس کا جواب نفی میں ہے۔کیونکہ
عصر حاضر میں تمام ممالک ایک دوسرے سے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت مربوط ہیں۔پھر اقوام متحدہ میں ممبر ہیں۔ اور
اس کے میثاق پر سب نے دستخط کیا ہوا ہے۔ اور پھر ان کے بھی مصالح و مفادات ہیں جو
دوسرے ملک سے وابستہ ہیں۔ ان کا بھاری بھرکم سرمایہ دوسرے ملکوں میں لگا ہوا ہے۔اور
اس کے لیے جس عزم و حوصلہ کی ضرورت ہے اس سے بھی وہ عاری ہیں۔
آج
کے دور میں پٹرول کی سپلائی بند کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ پٹرول برآمد کرنے
والے ملکوں کا اقتصاد پٹرول پر ٹکا ہوا ہے۔اور اگر کوئی ملک کسی دوسرے ملک کو
پٹرول بیچنا بند کردے تووہ ملک انٹرنیشنل مارکیٹ سے اپنی ضروریات پوری کرلے گا۔ اس
طرح جو بھی ملک پٹرول کی سپلائی بند کرے گا وہ ایک خریدار سے محروم ہوجائے گا اور
اپنے حصہ کا پٹرول فرخت کرنے سے محروم ہوجائے گا۔اس سے اس کا اقتصاد بھی خراب
ہوگا۔پھر دوسرے غیر مسلم ممالک اس کے اوپر دباؤ ڈالیں گے اور اس کو پٹرول کی
سپلائی پر مجبور کریں گے۔اور آج پٹرول برآمد کرنے والے ملکوں میں خریدار حاصل کرنے
کے لیے جو منافست ہے وہی اس عمل سے باز رکھنے کے لیے کافی ہے۔
اور
یہ نقطہ بھی بہت اہم ہے کہ آج کے عرب أپنے اسلاف کی طرح سے بالکل نہیں ہیں۔ ان کے
دادا پردادا مشقتوں کے عادی تھے ۔ پریشانیوں کو جھیل لیتے تھے۔نمک روٹی و موٹا جھوٹا
پر گذارہ کر لیتے تھے۔لیکن آج کے عرب ایسا بالکل نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جس پر
تعیش زندگی کے عادی ہوچکے ہیں اس سے باہر
نکلنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان کے لیے زندگی گذارنا بے حد مشکل ہوگا۔
مزید
برآں عرب و مسلمان ممالک سیاسی اعتبار سے
یہ آپس میں 57 ممالک میں بٹے ہوئے ہیں۔ ان کے یہاں کئی ملکوں مثلا شام, عراق, یمن وغیرہ میں جنگ جاری ہے۔ ٹکنالوجی و سائنس میں ان کوئی حیثیت نہیں
ہے۔یہ اقتصادی غلامی کا دور ہے جس میں تمام اسلامی ممالک مبتلا ہیں۔غیر مسلموں نے
ان کو ایسی سازش میں جکڑا ہوا ہے جس سے فى
الحال باہر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ایسی صورت میں کوئی یک طرفہ ایکشن لینا
ممکن ہی نہیں ہے۔
جو
عرب 70 سال سے فلسطین کا مسئلہ حل نہ کراسکے۔ وہاں پر شب و روز ہونے والے ظلم کو
نہ روک سکے۔ جو شام میں جاری سفاکیت کو نہ بند کراسکے۔ جو عراق میں حالات کو نہ
کنٹرول کر سکے ۔ جو حوثی جیسی چھوٹی جماعت کو برسوں میں شکست نہ دے سکے۔ جو برما
کے مسلمانو کو انصاف نہ دلاسکے ان سے یہ توقع کرلینا کہ وہ صرف ایک قرارداد اور چند ٹویٹس سے
انڈین مسلمانو کے حالات کو بدل دیں گے, ان کے دکھ درد کو دور کردیں گے۔ ان کے اوپر ہونے والے
مظالم کو روک دیں گے۔ یہ ایک خواب کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔دل کے بہلانے کو غالب
یہ خیال اچھا ہے۔
آج
کی دنیا میں تقریبا دو ارب مسلمانو اور ان کے 57 ممالک کی حیثیت, اہمیت, قدروقیمت و وزن یا ان کی بے قدری , ذلت و پستی کا اندازہ اسی
سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کی
تاسیس 1945 ع سےلے کر آج تک مجلس امن( سیکورٹی کونسل) میں کوئی بھی مسلمان ملک اس کا دائمی ممبر نہیں
ہے اور نہ کسی ملک کو ویٹو کا حق حاصل ہے۔ اسی سے واضح طور پر اندازہ ہوجاتا ہے کہ
آج کی دنیا میں ہماری کتنی قدر و قیمت , مقام و مرتبہ ہے ۔ دنیا کے بڑے و ترقی
یافتہ ممالک ہم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ہم مسلمانو کی وہی حیثیت ہے جو ایک صحیح
حدیث میں بتلائی گئی ہے :غثاء کغثاء السیل یعنی ہم سیلاب کے کوڑا کرکٹ کی مانند
ہیں۔اس سے زیادہ ہماری حیثیت نہیں ہے۔چلو بھر پانی میں تمام مسلمان حکمرانو کو ڈوب
مرنا چاہئیے۔
اورکیا
صرف قرارداد پاس کردینے اور ٹویٹس سے
مسائل حل ہوتے ہیں؟ اگر ٹوٹس سے مسائل حل ہوتے ہیں تو پہلے عربوں کو اپنے سارے
باہمی مسائل حل کر لینے چاہئیے۔دنیا جانتی ہے کہ مسائل مکمل اسلام کے نفاذ ,سیاسی
اتفاق و اتحاد, فوجی طاقت و قوت کے ذریعہ
حل ہوتے ہیں ۔ صرف اور صرف قرارداد پاس کردینے اور ٹویٹس سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں ۔ مظالم کا
خاتمہ نہیں ہوتا ہے۔ صرف قرارداد اور ٹویٹس سے صرف ان کے مسائل حل ہوتے ہیں جو بہت
ہی سادہ لوح ہیں۔ جن کی حالات پر نظر نہیں ہے یا نظر ہے لیکن اس سے انجان بن رہے
ہیں ۔ جو مسلمانو کی موجودہ حقیت سے ناواقف ہیں یا تجاہل عارفانہ کا شکار ہیں۔
اے
پوری دنیا کے مسلمانو و حکمرانو: اگر تم اپنے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہو۔ ظلم و
جبر, ذلت وپستی سے نجات چاہتے ہو تو یقینی طور پر جان لو کہ ان دو چیزوں پر عمل
کرنا ضروری ہے:۔
1- صحیح اسلام کی طرف واپسی اور دینی, سیاسی, فوجی, اقتصادی یعنی کامل اسلام کی تنفیذ, ناقص اسلام پر عمل سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔
مزید معلومات کے لیے میرے مضامین کا مطالعہ کریں: کامل اسلام پر عمل فرض ہے ورنہ
ذلت و رسوائی مقدر ہے۔
2- تمام یا اکثر مسلمان ممالک میں حقیقی سیاسی اتفاق و اتحاد اور فوجی طاقت و قوت کا حصول۔
ان کے بغیر مسائل کا حل
نہیں ہوگا خواہ تم کچھ بھی کرلو۔ان کے بغیر مسلمان ذلیل تھے, ہیں اور رہیں گے۔
ختم شد و آخر دعوانا أن الحمد للہ رب
العالمین۔21-6-2020 ع /28-10-1441 ھ
0 التعليقات: