شعور اور بیداری کی اہمیت


بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ:28-3-1437ھ/ 8-1-2016ع

خطبہ وتحریر:ڈاکٹر سعود بن ابراہیم الشریم
امام وخطیب مسجد حرام وڈین فیکلٹی آف جوڈیشیل و سسٹم اسٹڈیز،ام القری یونیورستی،مکہ مکرمہ


ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ





شعور اور بیداری کی أہمیت 
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو ساري كائنات كا پالنہا ر , بے انتہا مہربان,  رحم کرنے والا اور قیامت کے دن کا مالک ہے ۔اسی کے لیے تعریف ہے یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائے۔ اسی کے لیے رضامندی کے بعد بھی تعریف ہے۔اسی کے لیے ہر حال میں تعریف ہے جس نے پیدا کیا اور صحیح سالم بنایا۔جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی ۔اسی کے لیے دنیا و آخرت میں تعریف ہے۔ اسی کی حکومت ہے اور اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے۔وہ اکیلا ہے , اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد   اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں, خوشخبري دینے والے, ڈرانے والے اور روشن چراغ ہیں ۔آپ نے پیغام پہنچادیا۔أمانت ادا کردی۔امت کی خیرخواہی کی۔اوراپنی موت تک  اللہ کی راہ میں جہاد کیا جیسا کہ جہاد کا حق ہوتا ہے۔اللہ کی رحمتیں اور سلامتی نازل ہو آپ   پر اور آپ   کے پاکیزہ و نیک گھر والوں پر , اور آپ   کی بیویوں پر جو تمام مومنوں کی مائیں ہیں , اور آپ   کے صحابیوں پر اور تابعین پر اوران پر جو ان کی قیامت کے دن تک حق کے ساتھ اتباع کرنے والے ہیں,ان   سب پر بہت زیادہ سلامتی ہو ۔
اما بعد:
اے لو گو:  بلاشبہ مجھ کو اور آپ کو جو نصیحت کی جاتی ہے وہ خلوت وجلوت  اورظاہر و باطن میں اللہ کا تقوی  اختیار کرنا ہے  - کیونکہ وہی پہلے اور بعد کے تمام لوگوں کے لیے اللہ کی  نصیحت  ہے -  اللہ کا فرمان ہے :   [ ﮠ ﮡ ﮢ ﮣ ﮤ ﮥ ﮦ ﮧ ﮨ ﮩ ﮪ ﮫ]  تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یہی نصیحت  کی تھی اور اب تم کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو۔(نساء/131)
اے لوگو : بے شک اللہ جل و علا نےحو اس(Senses) کی عظیم نعمت عقل , کان اور نگاہ عطا کرکے بنو آدم پر احسان کیا ہے ۔ فرمان الہی ہے :[ﯤ ﯥ ﯦ ﯧ ﯨ ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ] اور اللہ ہی نے تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے اس حالت میں کہ تم کچھ نہ جانتے تھے , اور اسی نے تمھارے لئے کان , آنکھیں اور دل بنائے ( نحل / ۷۸)
بیشک یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کے ذریعہ اکثر بنی آدم تصرف کرتے ہیں گرچہ ان میں سے زیادہ تر اسے اس کی جگہ پر نہیں استعمال کرتے ہیں جس کے لئے اللہ نے اس کو پیدا کیا ہے ۔ اسی وجہ سے وہ ان کے لئے غور و فکر , شعور اور آگہی نیز ہدایت کی راہ نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ وہ لوگ اس کی وجہ سے خود گمراہ ہوتے ہیں اوربسا اوقات  دوسروں کو بھی گمراہ کرتے ہیں ۔ اور  دنیا میں اللہ کی رضا مندی اور آخرت میں اچھے انجام کی کامیابی کے حصول میں اس کے استعمال کی لذت کو ضائع کر دیتے ہیں  ۔ ارشاد باری تعالی ہے :[ﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡ ﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﭧ ﭨ ﭩ ﭪ ﭫ ﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ] اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لئے پیدا کیا ہے ۔ ان کے پاس  دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں ہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے  دیکھتے نہیں۔ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گذرے, یہ وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں (اعراف/ 179)
جس قوم  کو یہ حواس خیر وبھلائی کی طرف رہنمائی نہ کریں بلا شبہ وہ قوم واضح خسارہ اور ہلاکت میں ہے ۔ اور ان اہم چیزوں  میں سے ایک جن میں ان حواس سے فائدہ اٹھا یا جاتاہے وہ صاحب حواس کی عادت شعور کا کامل ہونا, نیز اس کے ادر اک کی سلامتی وباریک بینی ہے کہ وہ ان حواس کو منطق اور حقیقت سے خالی اثرات سے دور رکھے ۔ اور بلا شک وشبہ جس کا شعور وآگہی سب سے  اچھا ہوتا ہے اس کا احتیاط و بیداری بھی اچھا ہوتاہے ۔ اور وہ واقعات و حوادث کے ما بین السطور کو پڑھنے کی قدرت رکھتا ہے۔کیونکہ شعور اور بیداری   محض سننے اور دیکھنے  کے علاوہ دو  زائد امر ہیں۔ اسی وجہ سے  ہر بینا شخص باشعور نہیں ہوتاہے اور ہر وہ چیز  جس کو وہ دیکھتا ہے  اس سے ہوشیار نہیں رہتاہے۔ اسی طرح ہر سننے والا بھی نہیں ہوتاہے ۔ ارشاد خداوندی ہے: [ﯲ ﯳ ﯴ ﯵ ﯶ ﯷ ﯸ ﯹ ﯺ ﯻ  ]  (حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں)  (حج/46)
اور چونکہ امت موجودہ وقت میں تاریک واقعات اور جلدی جلدی  کثرت کے ساتھ واقع  ہونے والی مصیبتوں سے گذر رہی ہے۔ اس کے بعددیگر  ایسے مصائب آرہے ہیں جن کے نتائج غیر معلوم ہیں اور یہ نہیں پتہ  کہ اللہ نے ان میں کیا چھپا رکھا ہے ۔اور جب اشخاص اپنے شعور میں کامیاب  ہوں گے تو وہ اپنی ہوشیاری اور احتیاط میں بھی کامیاب  ہونگے۔ اس طرح سے سماج عمومی طور پر ایک  ایساباشعور سماج ہوگا جسے مصائب کے وقت اتفاق واتحاد کی اہمیت کا علم ہوگا, اور وہ  اکثر نوعی اختلافات کو ایک جانب پھینک دے گا ۔ اور شاید متضاد اختلاف کے بارے میں گفتگو کومؤخر کردےگا   کیونکہ پیش آمدہ خطرہ زیادہ بڑا اور اس کی مدافعت اولی  وافضل ہے۔ ایسی ہی  امت ایک باشعور  امت ہے۔ اور ایسا سماج ایک  کامیاب سماج ہے جو اچھے کو برے اور دوست کو دشمن سے الگ کرسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ نے مسلمانوں کو اپنے اس قول سے نصیحت کی ہے  فرمایا:[ﮖ ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ] اے ایمان والو ہوشیار رہو (نساء/17)۔
بلا شبہ امت کا شعور اور اس کی ہوشیاری و بیداری اللہ کی توفیق سے یہ دونوں اس بات کی گارنٹی ہیں کہ وہ اس امت کو ایک طاقتور امت بنادیں  جو اپنے مخالفین ودشمنوں کے سامنے طاقت وقوت والی ہو جو اس کے لیے گردش زمانہ کے منتظرہیں, اس وقت اسے یہ  معلوم ہو جائیگا کہ وہ کب صبر وبردباری سے کام لے۔ وہ جان لے گی کہ کب حزم اور دوراندیشی اختیار کرے۔ اسے یہ علم ہوجائیگا کہ کب دور رہے اور کب عزم اور پختہ ارادہ کرے۔
کیونکہ نرمی اور  مروت والا بسا اوقات روندا اور ذلیل کیا جاتا ہے جبکہ بلا شبہ حزم میں ہیبت اوررعب ہے۔ اور عزم میں اللہ کی توفیق کے بعد قوت اور کامیابی ہے۔ایک شاعر کا کہنا ہے :اگر تو رائے والا ہے تو عزیمت والا بن کیونکہ تذبذب اور تردد فساد رائے ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالى نے امت مسلمہ کو وسائل قوت کے حاصل کرنے کی نصیحت کی ہے تاکہ وہ اہل طمع وحرص کی لوٹ اور گھات  میں لگے ہوئے لوگوں کا نشانہ اور ہدف نہ بنے۔ اللہ کا فرمان ہے:[ﯘ ﯙ ﯚ ﯛ ﯜ ﯝ] اور تم ان کے لیے اپنی طاقت بھر قوت  تیار کرو  ( انفال /60)    اور یہ قوت کے تمام اجزاء ترکیبی کو شامل ہے خواہ وہ اقتصادی ہو یا سیاسی, یا علمی یا معاشرتی یا فوجی ۔ کیونکہ ملک کی قوت وہ اس کے اثر انداز ہونے کی قدرت ہے ۔ اس طرح سے کہ امت کی یہ قوت  اس کے  شعور اور بیداری کی حالت میں   اس  کی اپنی تاثیر اور وجودثابت کرنے کے اہم ستونوں میں سے ایک ہو۔ جو اس کے ذرائع  قوت پر مشتمل ہو۔ تاکہ ایک ہم آہنگ و منظم نقشہ  ہو جس کے ذریعہ وہ امن وجنگ کے وقت اپنے موقف کی تحدید کرسکے۔جیسا کہ ایک کہنے والے نے کہا ہے:تلوار کی جگہ شبنم کو رکھنا بلندی کے لیے اسی طرح نقصان دہ ہے جس طرح شبنم کی جگہ تلوار کو رکھنا ہے۔
بلا شبہ ایک  ایسا مسلم سماج جس کے یہاں شعور وآگہی کو مقام ومرتبہ حاصل ہے اور وہ اس کے اہم اور ترجیحی امور میں سے ایک ہے تووہ بحرانوں کے وقت اللہ کے حکم  سے ہر گز ناکام نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ کب اپنی نگاہ اوپر کرے اور کب نیچی کرے۔ اور وہ خطروں کو ان  کے واقع ہونے سے پہلے دور کرنے کی مصلحت کو جانتا ہے۔ اور یہ کہ وہ اس کے واقع ہونے کے بعد اس کو دور کرنے سے زیادہ افضل وبہتر ہے۔
بندگان الہی: ایک باشعور اسلامی سوسائٹی وہ ہے جو اس چیز میں کامیاب ہے کہ اس کا کوئی اندرونی  دشمن باقی نہیں ہے۔ تاکہ وہ  اس کا دوسرا دشمن ہو۔ ہاں ایک اندرونی دشمن  جو اپنی انانیت وخود غرضی کی وجہ سے ہوتاہے ۔ ایک داخلی  دشمن جو لڑائی , اختلاف اور تفرقہ کی وجہ سے ہو تاہے گویا وہ بیرونی دشمن کا قاصد ہے۔ اور شرعی طور پر ثابت ہے کہ خارجی دشمن کے ظاہر ہونے اور اس کے اپنے دانتوں کو نکالنےیعنی دھمکی دینے  کی صورت وحالت میں ان تمام چیزوں سے واجبی طور پر بچا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اللہ تعالى کا فرمان ہے: [ﯩ ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯ ﯰ ﯱ ﯲ ﯳ ﯴ ﯵﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞ ﭟ] اے لوگو جو ایمان لائے ہو جب کسی گروہ سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو۔ اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمھیں کامیابی حاصل ہو۔ اور اللہ واس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تم ناکام ہو جاؤ گے اور تمھاری ہوا اکھڑجائے گی۔ صبر سے کام لو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (انفال/45-46)
اللہ تعالے میرے اور آپ کے لیے قرآن و حدیث  میں برکت عطافرمائے اور ان دونوں میں موجود آیتوں , ذکر و حکمت سے   مجھے اور آپ کو نفع پہنچائے۔مجھے جو عرض کرنا تھا عرض  کردیا۔اگر یہ باتیں حق اور صواب ہیں تو اللہ کی جانب سے ہیں،اور اگر غلط ہیں تو یہ میری ذات اور شیطان کی طرف سے ہیں۔میں اللہ سے ہر گناہ اور غلطی کی اپنے لیے،آپ کے  لیے اور تمام مسلمان مرد و ں وعورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں لہذا اللہ ہی سے مغفرت طلب کرو،اسی سے توبہ کرو۔ بیشک ہمارا رب  بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
اللہ کے احسان پر ہر قسم کی تعریف اسی کے لیے ہے۔ اورا س کی توفیق ونوازش پر ہر طرح کا شکر اسی کے لیے ہے۔
 حمد وصلاۃ  کے بعد:
اللہ کے بندو! اللہ سے خوف کھاؤ اور جان لو کہ سب سے بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے۔ اور سب سے بہتر سیرت محمد کی سیرت ہے۔ اوردینی امور میں بد ترین چیزیں نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں۔اور ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے۔اور ہر بدعت گمراہی ہے۔اور تم سب جماعت کو لازم پکڑو کیونکہ اللہ کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہوتا ہے۔اللہ کا فرمان ہے:[ﭮ ﭯ ﭰ ﭱ ﭲ ﭳ ﭴ ﭵ ﭶ ﭷ ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ ﭾ ﭿ ﮀ ﮁ ﮂ   ] مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درانحالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہوتو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے(نساء/115)۔پھر جان لو ۔ اللہ تم سب کی نگہداشت فرمائے۔کہ یہ بابرکت زمین ایسی ہے جس سے حسد کی جاتی ہےاور جو نشانہ ہے۔ اور جس کی خیرات, استحکام اور حرمین شریفین میں اس کےمقدس میدانوں کی طرف اہل طمع وحرص کی نگاہیں اٹھتی ہیں۔ لھذا وہ اس کی طرف بغض اور دشمنی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو اقتصادی , سیاسی اور جغرافی   لالچ وطمع سے لبریز ہے ۔ جس کا مقصد پورے  علاقہ کے گرد حصار ڈالنا, اس کی خیرات  و اجزاء ترکیبی پر قبضہ کرنا, اور ملک حرمین شریفین کو ان دونوں کی نگہداشت ,رعایت  اور شرف کا جو عطیہ ملا ہو اہے اس پر تسلط جمانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل طمع  وحرص کو اسی وقت چین وسکون نصیب ہوتاہےاور حاسدوں کواسی وقت نیند آتی ہے  جب وہ انار کی وانتشار پھیلاتے اور غیر متعلق  چیزوں میں دخل اندازی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ وہ انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے بحث و تکرار  کرتے ہیں جبکہ وہ  کئی عربی اور اسلامی ملکوں میں اس کے قاتل  ہیں۔ معصوم خونوں کے ساتھ کھیلتے ہیں اورپھر وہ  حرم میں مکھی کے قتل سے احتراز کرتے ہیں۔ یقینا انھوں نے احسان کا بدلہ برائی , بردباری کا جہالت ,  صبر و انتظار کا حماقت اوربے صبری و جلد بازی سے دیا۔
بلاشبہ ملک حرمین شریفین ۔ اللہ اس کی نگرانی فرمائے۔اپنے حزم و عزم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ اللہ کی طاقت , اس کی توفیق  اور پھر اپنے حکمرانوں , عالموں اور قوم کی طاقت سے طاقتور ہے۔اپنے ثوابت کا پابند  اور اپنی شناخت  سے سر بلند ہے۔ اور اسےکئی راستوں سے جاری  فتنہ و فساد برپاکرنےنیز تفرقہ و اختلاف پھیلانے کی چیخ وپکار – اللہ کی حفاظت و نگہداشت سے۔ہر گزکوئی نقصان نہیں پہنچائے  گی۔یہاں تک کہ ان کے چیخ وپکار کی   گونج بیٹھی ہوئی آواز کے ساتھ پلٹ جائے گی اور وہ سخت ندامت و افسوس والی ہوگی۔[ ﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡ ﭢ ﭣ   ] اور  اللہ ہی سب سے بہتر حفاظت کرنے والا ہے۔ وہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔(یوسف/۶۴) اور اسی پاک ذات  سے مدد طلب کی جاتی ہےاور اسی پر اعتماد و بھروسہ ہے۔اسی سے پناہ طلب کی جاتی ہے اور اسی سے حمایت چاہی جاتی ہے۔وہی ہمارا مولا ہے جو کتنا بہترین مولا اور کتنا بہترین مدد گار ہے۔
اور اب ۔اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے۔تمام مخلوق میں سب سے بہتر اور تمام بنی نوع انسان میں سب سے پاکیزہ شخصیت محمد بن عبداللہ پر درود بھیجو جو حوض وشفاعت والے ہیں۔اللہ نے تمھیں اس کام کا حکم دیا ہے جس کی ابتدا اس نے اپنی ذات سےکی ہے  اور اپنی پاکی بیان کرنےوالے فرشتوں کی  تعریف کی ہے،اور اے مومنو!تمہیں اس کا حکم دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے: [ﭸ ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ ﭾ ﭿ] اے مومنو!نبی ﷺ پر درودوسلام بھیجو۔“(الاحزاب:۵۶)۔........

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: