خوارج کے خطرات


بسم الله الرحمن الرحيم
مسجد حرام کے خطبہ جمعہ کا اردو ترجمہ

بتاریخ: ۱۹–۱۰–۱۴۳۵ھ/ ۱۵-۸-۲۰۱۴ع

خطبہ وتحریر:عالی جناب پروفیسر ڈاکٹرعبدالرحمن بن عبدالعزیز السدیس
صدر اعلی: رئاست عامہ برائے امور حرمین شریفین،وامام وخطیب مسجد حرام 


ترجمہ: ڈاکٹر عبدالمنان محمد شفیق
 ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ


خوارج  کے خطرات
      پہلا خطبہ:
          بلاشبہ ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے ہے۔ہم اسی کی تعریف کرتے ہیں،اسی سے مدد چاہتے ہیں،اسی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اور اسی سے توبہ کرتے ہیں۔پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے اوپر ان گنت اور بے شماراحسانات کیے ہیں اور ہم کو ایک ایسی شریعت عطا کی ہے جو صلاح،بہتری،کامیابی اور سعادت مندی سے آراستہ ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ اکیلا ہے،اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے،جس نے اس دنیا میں شروفساد برپا کرنے والوں کو شہر بدر کیے جانے سے ڈرایا ہے اور آخرت میں اس جہنم کی وعید سنائی ہے جو بہت برا ٹھکانا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور امام محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جن کی رحمت اور محبت پوری دنیا کے لیے عام ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو آپ پر،آپ کے اہل خاندان پر اور آپ کے ان اصحاب کرام پر جو تعمیر واصلاح کے علم بردار تھے اور ترقی کے سرچشمہ سے سیراب ہونے والے تھے اور ہر اس شخص پر جو ان کے نقش قدم پر اخلاص کے ساتھ چلے۔یہ رحمت اور سلامتی اس قدرزیادہ ہو کہ سمندر کی روشنائی بھی اس کے لیے ناکافی ہوجائے۔
        امابعد:یاد رہے کہ سب سے بہترین چیز جس کی وصیت اور نصیحت کی جاتی ہے،جس پر وعظ کیا جاتا اور تذکیر کی جاتی ہے،وہ اللہ کا تقوی ہے،اس اللہ کا تقوی جو غالب اور قدرت والا ہے۔لہذا اللہ کے بندو!اللہ سے خوف کھاؤ اور برے انجام اور ہلاکت سے خود کو بچانے کی کوشش کرو،غفلتوں سے پرہیز کرو کیوں کہ طاعتوں کی بھی ایک محدودمدت ہے،اپنی آخرت کے لیے محنت کرو گویا کہ تم کل ہی اللہ کی طرف واپس لوٹنے والے ہو۔فرمان الٰہی ہے:”اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا تیاری کی ہے اور اللہ سے ڈرو۔یقیناًاللہ تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔“(الحشر:۱۸(
        اے مسلمانو!تاریخ کی مختلف کتابوں کی ورق گردانی،اس کے مختلف ادوار کا مطالعہ،اس کی حقیقتوں اور عبرتوں کی تہہ تک رسائی اور اس میں موجود سنتوں اور نصیحتوں کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے کو آسانی سے اس حقیقت کا ادراک ہوجاتا ہے کہ حق وباطل اور ہدایت وگمرہی کے درمیان کشمکش اور لڑائی اللہ کی شرعی اور تکوینی سنتوں میں سے ایک ہے۔حق اور باطل دونوں کے پیروکار اور طرف دار ہیں اوردونوں کا دفاع کرنے والے اور حمایت کرنے والے ہیں۔جب جب حق بلند ہوتا ہے اور اس کی روشنی اور چمک زیادہ ہوتی ہے تو باطل کی بھی شرارت اور اس کی شدت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔اس طرح ہلاکت خیز مصیبتوں اور خطرناک اور مہیب ظلمتوں کے بعد کفر وفسق کے علم برداروں کی وجہ سے حق کی روشنی ماند پڑجاتی ہے۔
        تاریخ کے مختلف ادوار میں رونما ہونے والے کافروں کے قبیح افعال،تاتاریوں کے عام مصائب،منگولوں کی عام آزمائشوں یا قرامطہ کے وحشتناک فتنوں کے بارے میں مت پوچھئے جنھوں نے اسلام،مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کو بھی ماضی اور حال میں ختم کرنے کی کوشش کی،جن کے کفر پر مبنی جرائم اور شر سے بھرپور کینہ وبغض کے نتیجے میں آسمان وزمین تنگ ہوگئے۔یہاں سوال صرف یہ ہے کہ یہ اور ان جیسے لوگ اب دنیا میں کہاں باقی بچے ہیں،زمین میں شروفساد پھیلانے اور ہلاکت کا طوفان برپا کرنے کے بعد وہ خود ہی ہلاک ہوگئے،انھوں نے مسلمانوں کے خلاف مکروفریب کا جال پھیلایا لیکن آج وہ صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں وہ ظالمانہ سرکشی کی سیاہ مثال بن گئے،جبرواستبداد کی عبرتناک کہانی بن گئے لیکن اللہ کا دین اپنی بلندی،عظمت،خود داری اور عزت کے ساتھ ڈٹا اور جمارہا اور اپنی الٰہی قوت اور ربانی خصوصیت کی وجہ سے ان شاء اللہ ہمیشہ باقی رہے گا۔مسلمان اس دین کو اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ تھامیں گے،اس روشن چراغ کے ذریعے ان کی ہدایت،اتحاد اور اتفاق میں مزید اضافہ ہوگا۔ارشاد ربانی ہے:”ان کا ارادہ ہے کہ اپنے منہ سے اللہ کی روشنی بجھادیں حالانکہ اللہ اپنی روشنی مکمل کرکے رہے گا اگرچہ کافروں کو یہ چیز ناپسند ہے۔“(الصف:۸(
        اے مسلمان بھائیو!تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے،آج اور کل میں کتنی مشابہت ہے۔جس طرح اسلام کی سب سے اچھی صدی بھی شیطانی حرص وآز سے محفوظ نہیں رہی اور اسلام میں پہلی بدعت خلافت راشدہ کے آخر میں ظاہر ہوئی،اسی طرح آج کے اس دور میں ان کے جانشینوں کی کچھ ایسی جماعتیں اپنے اسلاف کے طریقہ پر عمل پیرا ہیں جن کے فکرونظر میں کجی اور عقلوں میں خرابی ہے،انھوں نے شرعی نصوص کو غلط معنی پہنائے جو صحابہ کرام اور اسلاف کی سمجھ کے بالکل خلاف ہے۔اپنی فکری کجی کی وجہ سے انھوں نے اسلام کی صاف ستھری اور فطری تصویر کو مسخ کرکے اسے بدنام کردیا اور اپنی حرکتوں کے ذریعے اس کی رواداری اور اعتدال پسندی کو بٹہ لگادیا۔مزید حیرت اس بات پر ہے کہ وہ یہ شروفساد دین کے نام پر برپا کیے ہوئے ہیں اوریہ سارا تماشہ دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے کانوں کے پردوں کے قریب کر رہے ہیں۔وہ شخص جو اسلام کی حقیقت سے ناآشنا ہے،وہ یہی سوچتا ہے کہ ان لوگوں کے اعمال وافعال ہی اصل اسلام ہے،جب کہ حقیقی اسلام ان سے بری الذمہ ہے۔ایک شاعر کہتا ہے:
        میں نے نوعمروں میں وہ چیزیں دیکھی ہیں جن کے دیکھنے سے حددرجہ افسوس ہوتا ہے اور ان کے خوف اور وحشت سے ہمارے جگر چھلنی ہوجاتے ہیں اور وہ ہیں:گمراہی،افواہ،غصہ،فتنہ،کج روی،ترش روئی اور ناسمجھی۔
        اسلامی بھائیو!یقیناًایک باغیرت مسلمان ان سے اور ان کے جیسے تاریکی میں سرگرداں ایمان کے ہر دعوے دار پر تعجب کرتا ہے جو جھوٹی اور باطل تاویل کی آڑ میں جیتے اور باطل راستوں پر علی الاعلان چلتے ہیں،جن کا مسلک تشدد اور سختی ہے،جن کے یہاں زندگی بہت سستی اور بے قیمت ہے،جو قتل وخوں ریزی کرتے ہیں،معصوموں کا خون بہاتے ہیں،تباہی وبربادی پھیلاتے ہیں،اسلام کے لیے ننگ وعار کا سبب بنتے ہیں،ملکوں کو تباہ کرتے ہیں اور دین وشریعت کی روح کو نقصان پہنچاتے اور اسے بدنام کرتے ہیں۔عقل ونقل دونوں کو پس پشت ڈال دینے والی عقلوں کی گمراہی پر ہر غیرت مند متعجب ہے،وہ حسرت وافسوس سے یہ سوال کرتا ہے کہ آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے،جو بدترین جہالت کی بدبودار کیچڑ میں لت پت ہیں اور اس اللہ کی آواز پر بھی کان نہیں دھرتے جس نے انسانی جان کی حرمت بیان کی ہے،اس کی تعظیم کی ہے اوراس کو جرم اور سرکشی کے گڈھے میں گرنے سے دور رکھنے کی تعلیم دی ہے۔آخر ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کو گمراہ کن افکار وخیالات نے اپنا شکار بنالیا ہے اور جن کو بربادی کی لہروں نے اپنی طرف کھینچ لیا ہے۔ارشاد ربانی ہے:”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ برپا کرو تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ہم لوگ تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔جان لو کہ بلاشبہ وہی فسادی ہیں لیکن ان کو اس کا احساس نہیں ہے۔“(البقرۃ:۱۱۔۱۲(
        امام طبری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ زمین میں فساد برپا کرنے کا مطلب ہے کہ جس چیز سے اللہ نے منع کیا ہے،اسی کا ارتکاب کیا جائے اور جس چیز کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے،اس کو ضائع کیا جائے۔
        شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ بگاڑ اور فساد دوطرح کا ہوتا ہے۔ایک دین کا،دوسرے دنیا کا۔دنیا کا سب سے بڑا بگاڑ کسی کو ناحق قتل کرنا ہے۔اسی وجہ سے کفر کے بعد سب سے بڑادینی فساد یعنی سب سے بڑا گناہ یہی قتل ناحق ہے۔
        امام شاطبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ شرعی دلیل میں غور کرنے والے ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے سے پہلے لوگوں کے فہم دین کا خیال رکھے اور اس کے مطابق اپنے عملی رویوں کو استوار کرے۔یہی طرز عمل درستگی کے قریب اور علم وعمل کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ایک شاعر کی زبان میں:
        اے امت اسلامیہ!تو ہدایت کے راستے سے بھٹک گئی۔اس کانتیجہ یہ سامنے آیا کہ نفع کادن لوگوں کے لیے خسارے کادن بن گیا لہذا تو پھر اپنے اسی طریقہ کی طرف لوٹ جا جس کی وجہ سے تو ایک عَلَم کی صورت میں تھی جو سروں پر اسی طرح بلند تھا جس طرح تاج ہوا کرتا ہے۔
        اے مسلمانوں کی جماعت!یقیناً یہ دعوے اور پروپیگنڈے جو عام طور سے اسلامی سوسائٹی کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور خاص طور پر نوجوانوں کی عقلوں کا اغوا کرتے ہیں،ان کا واحد مقصد اسلامی سوسائٹی کو برباد کرنا ہے،اس کے اندر تفرقہ ڈالنا اور اس کے امن وسکون کو درہم برہم کرنا ہے۔یہ لوگ جن شرعی اصطلاحات کا استعمال ہمارے نوجوانوں کو تباہی وبربادی کی راہ پر کھینچنے کے لیے کرتے ہیں،ان کی حقیقت سے اہل بصیرت واقف ہوچکے ہیں،ان کے مذموم مقاصد سے بھی پردہ اٹھ چکا ہے،ان کے فضول اور باطل اعمال وافعال اور ان کی لایعنی چکنی چپڑی باتیں،ان کے دلوں میں پوشیدہ عزائم کو آشکارا کررہی ہیں اور ان کے رازوں سے پردہ اٹھارہی ہیں۔انھوں نے اپنے گھٹیا مقاصد کے لیے دین کو وسیلہ اور اپنی قبیح،گمراہ کن،فریب خوردہ اور حریص خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا ہے۔لہذا ان فریب خوردہ نوجوانوں،گمراہ اور شرپسند مٹھی بھرجماعت،کم عقلوں اور کم عمروں کی بابت اللہ ہی سے شکوہ ہے،جنھوں نے اپنے حکمرانوں اور علماء کے خلاف جھوٹی باتیں گڑھیں،ان پر الزامات لگائے اور جوکبرونخوت اور ضلالت کے دلدل میں بھٹک رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نےفتنوں کو جنم دیا ہے،مصائب پیدا کیے ہیں اور برائیاں عام کی ہیں۔ایک عربی شاعر کے الفاظ میں:
        اور ہم خوارج کے دین سے اظہار براء ت کرتے ہیں کیوں کہ انھوں نے گناہ کا مرتکب ہونے پر ہر توحید پرست کو کافر قرار دے کر غلو کیا ہے اور اپنی احمقانہ رائے کی وجہ سے جسے انھوں نے دین سمجھ لیا ہے،وہ دین میں بہت زیادہ تشدد کرتے ہیں۔ہم ہر اس دین سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں جو حق اور ہدایت کے خلاف ہے اور ہمارے نبی محمد ﷺ کے طریقے پر نہیں ہے۔
        لہذا اے امت کے نوجوانو!بیدار ہوجاؤ،کھوٹے لیکن چمک دار نعروں سے دھوکہ نہ کھاؤ،دین سے خارج کردینے والے گمراہ کن طریقوں سے دور رہو اور ان لوگوں سے ہوشیار رہو جو تمھیں دھوکہ دے کر اورمکروفریب میں مبتلا کرکے جلد از جلد فتنوں کی جگہوں پر پہنچانا چاہتے ہیں اور جنگ کے گڈھوں میں ڈھکیلنا چاہتے ہیں۔تمھارے لیے تو وہی کافی ہے اور اسی میں وسعت ہے جو تمھارے سلف صالحین اور ربانی علماء کے لیے کافی تھا اور جس میں ان کے لیے وسعت تھی۔ایک عربی شاعر کہتا ہے:
        ہمیں ایک مٹھی بھر جماعت کی حماقت سے کیا حاصل ہوا جس نے دین کا چولا پہن کر دین ہی کے گلے پر چھری چلادی۔یہ کم عقلوں کے اعمال ہیں جن کا زہر زمین چاٹ رہی ہے اور جن سے ہدایت کا راستہ افسردہ اور لرزہ براندام ہے۔
        ان نازک حالات میں علمائے کرام،مفکرین ملت،داعیان اسلام اور مربیان نسل نو پر واجب ہے کہ وہ اپنے عزائم اور ہمتوں کو مہمیز دیں،اپنے آپ سے کوتاہی،غفلت،سرد مہری،خاموشی اور کمزوری کو دور بھگائیں،مکمل شرح صدر کے ساتھ حق بات کا اعلان کریں،اللہ کے دین کے سلسلے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہ کریں کیوں کہ اس وقت ہماری ملت اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزررہی ہے۔جلد ہی ہماری تاریخ ان لوگوں کے خلاف گواہی دے گی جو آج دشمنوں کا آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور جن کا استعمال ہمارے دشمنوں نے امت مسلمہ کو تقسیم کرنے،اس میں تفرقہ ڈالنے  اور اسلام کی صاف شفاف صورت کو مسخ کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ سلامتی کی راہ کو طریقہ کار کی سلامتی پر ترجیح نہ دیں،موجودہ نسلوں کے اندر ایمان وعقیدہ کو راسخ کریں جس میں شرعی ضوابط اور مقاصد کے مطابق اپنی وحدت اور وطنی اتحاد کا حسین امتزاج ہو،جس میں وطن اسلام سے ایسے ہی جڑا ہو جیسا کہ الف لام سے جڑا ہوتا ہے اور جس کا محور ومرکز مضبوط علم،پائیدار اساسی فکر،درست اخلاق اور درخشاں فضیلت ہو۔
        ان حماقت آمیز اور غیر دانش مندانہ فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم سب ان لوگوں کے خلاف متفق اور متحد ہوجائیں جو اسلام کو یرغمال بناکر اسے بدنام کرنے کوشش کررہے ہیں۔کس قدر شرم کی بات ہے کہ انسانوں کے قاتل اور مجرم دین کے نام پر اپنی دہشت گردی،سرکشی اور جرائم کو انجام دیں،جب کہ دین ان سے بری ہے اور اسی کو وہ دنیا کے سامنے ایسی صورت میں پیش کررہے ہیں کہ گویا وہ غلو،نفرت،دہشت گردی اور خوں ریزی کا دین ہے۔اس سے ان کا مقصد دانستہ طور پر اسلام کے تصور جہاد کو بدنام کرنا ہے جو برحق ہے اور اسلام کی علامت ہے اور اس کے کوہان کی چوٹی ہے۔ (جس کا اسلام میں ایک بلند مقام ہے(
        علاوہ ازیں ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے بھائیوں کا خون فلسطین،غزہ اور ملک شام میں بغیر کسی استثناء کے اجتماعی مذبح کی شکل میں انسانیت کے خلاف جنگی جرائم کا ارتکاب کرتے ہوئے بنا کسی دینی،انسانی یا اخلاقی جواز کے بہایا جارہا ہے۔یہاں تک کہ اب دہشت گردی کی مختلف شکلیں سامنے آرہی ہیں خواہ وہ کسی جماعت،تنظیم یا ملک کی طرف سے ہوں۔لیکن اندرون ملک کی دہشت گردی،اپنے امکانات،وسائل،منصوبہ بندی اور جعل سازی کی وجہ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔حیرت اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ بین الاقوامی معاشرے کے تمام اداراوں اور تنظیم کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے کانوں کے پردے کے قریب ہورہا ہے،جس سے یہ اندیشہ مزید قوی ہوگیا ہے کہ اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل تیار ہوجائے جو صرف تشدد اور دہشت گردی پر یقین رکھتی ہو،جو تہذیبوں اور ادیان کے تصادم پر عقیدہ رکھتی ہو،ان کی باہم گفتگو اور پرامن بقائے اہم پر جسے اعتماد نہ ہو۔جو لوگ آج ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں وہی کل اس کا پہلاشکار ہوں گے۔موجودہ صورت حال میں مسلم ممالک اور بین الاقوامی خاموشی کے لیے کوئی دینی،اخلاقی اور انسانی وجہ جواز نہیں ہے۔
        لہذا اے مسلمانو!اللہ تم سب کا نگہبان ہو،ہمارے اندر اس بات کی تڑپ ہونی چاہئے کہ فتنوں کو ان کے گہوارے میں ہی دفن کردیں،ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور ان کے سوتوں کو خشک کردیں کیوں کہ ان فتنوں کو مسلم دنیا میں بڑی زرخیز زمین مل گئی ہے،جس کو ہماری ملت کے خلاف بغض وکینہ رکھنے والے مفادات پرستوں نے اپنے خفیہ ایجنٹوں اور دہشت گرد تنظیموں کے ذریعے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی ہیں لہذا آج جو لوگ اپنے وقتی مفادات یا غیر یقینی منصوبوں کی وجہ سے دہشت گردانہ سازشوں کے خلاف اپنی تاریخی ذمہ داری ادا کرنے سے گریز کررہے ہیں وہ یقیناً پچھتائیں گے اور اپنی ندامت کا اظہار کریں گے لیکن وہ وقت ندامت کا نہیں ہوگا۔بین الاقوامی اور مسلم معاشروں کے حرکت میں نہ آنے کی وجہ سے کہیں یہ ملت مایوسی اور ناامیدی کا شکار نہ ہوجائے۔اس لیے ضروری ہے کہ تہذیبی اور تاریخی منصوبوں کو اعتدال وتوازن اور میانہ روی پر مبنی عملی اور قابل اعتماد پروگراموں کے ذریعے ہر اس چیز کے خلاف موثر بنایا جائے جو اسلام کے صحیح اور حقیقت پسندانہ طریقہ کے مخالف ہے۔
        اس بات کی سخت حاجت وضرورت ہے کہ عزت وشرف کا ایک عالمی چارٹر تیار کیا جائے جس میں قائدین،سیاسی حکمراں اور علمائے امت اپنا کردار ادا کریں،اسی چارٹر کی روشنی میں نوجوان اپنے افکار کی تعمیر کریں اور جس میں جدید ذرائع ابلاغ کو کنٹرول کرنے کا مکمل انتظام ہو۔اس سے پہلے کہ وہ ملت کے پاس باقی بچے دینی اثاثے،اس کی نئی نسل کے ذہن اور امن ووحدت کا خاتمہ کردے اور پھر آخر میں ٹھیک اس طرح ہوجائیں جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے:
        تم دونوں وحی یعنی قرآن وحدیث کو لازم پکڑو،ان سے تجاوز نہ کرومناسب اور صحیح سمجھ کے ساتھ کتاب وسنت کی راہ پر چلو،اگر کبھی کسی پیچیدہ اور باریک نص کا سمجھنادشوار معلوم ہورہا ہو تو اہل علم سے ہدایت اور رہنمائی طلب کرنے والوں کی طرح پوچھ لو۔
        کیوں کہ اللہ کا فرمان ہے:”اور بچو اس فتنہ سے جو تم میں سے صرف ظالموں کو نہیں پہنچے گا اور جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔“(الانفال:۲۵(
        اللہ تعالیٰ میرے اور آپ کے لیے دونوں وحی میں برکت عطافرمائے اور مجھے اور آپ سب کو انسانوں اور جنوں کے سردار کے طریقہ سے نفع پہنچائے۔میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ بزرگ وبرتر سے اپنے لیے،آپ سب کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ہرگناہ سے معافی مانگتا ہوں لہذا تم بھی اسی سے مغفرت طلب کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو،یقیناً وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ
        سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو توفیق دینے والا اور احسان فرمانے والا ہے۔ہم اسی بزرگ وبرتر سے سوال کرتے ہیں کہ برائیوں اور فتنوں کو دور کردے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے،وہ تنہا ہے،اس کا کوئی شریک نہیں ہے،جس نے اسے مضبوطی سے تھام لیا تو وہ غیروں سے محفوظ ومامون رہے گا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ سب سے بہتر اور اچھے ہیں جنھوں نے ہمیں سخت حالات اور مصائب میں پاکیزہ اور بہترین طریقے کی رہنمائی فرمائی۔اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکت ہو آپ پر،آپ کے اہل خاندان پر اور آپ کے صحابیوں پر جو وحی کی روشنی سے مستنیر اور سنتوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے والے تھے،تابعین پر اور ہر اس شخص پر جو اخلاص کے ساتھ قیامت کے دن تک ان کی اتباع کرے۔
        امابعد:اے اللہ کے بندو!اللہ کا تقوی اختیار کرواور اپنے تمام پچھلے گناہوں کی توبہ کے ذریعے تلافی کرو،اس سے تمھیں عزت وغلبہ حاصل ہوگا اور تم اقتدار وسلطنت کے مالک بن جاؤ گے۔
        اے مسلمانوں کی جماعت!بلاشبہ یہ ایک عجیب وغریب معاملہ ہے اور ایک عقل مند کو حیرت زدہ کردینے والا ہے کہ زہر آلود تیر چلانے والے اور برافروختہ تنگ نظر رکھنے والے اپنے منحوس تیروں کا نشانہ ایک بیش قیمت مثالی،نزول وحی کی جگہ،ایمان کی آخری پناہ گاہ اور حرمین شریفین کے ملک کو بنارہے ہیں جو توحید اور وحدانیت کا ملک ہے،جو قرآن اور سنت کا ملک ہے جس کو اللہ نے تمام لوگوں کے لیے مرکز اور جائے امن قرار دیا ہے۔
        اے ملت اسلامیہ!جان لے کہ ہر بھلائی کی جڑ،سب سے زیادہ سیدھی راہ اور سب سے زیادہ ہدایت یافتہ طریقہ تاریک فتنوں اور ہلاکت خیز مصیبتوں سے نجات پانے کے لیے،فتنوں اور ان کی طرف بلانے والوں سے ہوشیار رہنا ہے۔ارشاد الٰہی ہے:”فتنہ خوں ریزی سے زیادہ خطرناک ہے۔“(البقرۃ:۱۹۱)۔اسی طرح ہر مسلمان کے لیے جماعت کو لازم پکڑنا،امام کی بات ماننا،اس کا حکم بجالانا اور فرقہ واریت،تعصب،جتھا بندی اور تفرقہ اندازی کو چھوڑ دینا ضروری ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:”اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھام لو اور فرقوں اور جماعتوں میں تقسیم نہ ہوجاؤ۔“(آل عمران:۲۶)۔امام مسلم نے اپنی صحیح میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:”جس نے بھی امام کی اطاعت ترک کردی اور جماعت سے علاحدگی اختیار کرلی اور اسی حال میں اسے موت آگئی تو وہ جاہلیت کی موت مرا اور جس نے بھی مجہول اور نامعلوم جھنڈے کے نیچے جنگ کی،جس کا غصہ مبنی برعصبیت تھایا عصبیت کی طرف اس نے دعوت دی یا اس کی بنیاد پر اس نے کسی کی مدد کی اور وہ اس جنگ میں مارا گیا تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہے اور جس نے میری امت کے خلاف بغاوت کی،بغیر کسی فرق وتمیز کے اس کے نیک وبد کو قتل کیا حتی کہ مومن کوقتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور عہد والے کے عہد کو بھی پورا نہیں کیا تو وہ مجھ سے نہیں ہے اور نہ میں اس سے ہوں۔“فتنوں ہی کے بارے میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑو۔(بخاری ومسلم(
        امام ابن ابی شیبہ اپنی مصنف میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے ایک دن لوگوں کے سامنے خطبہ دیا جس میں فرمایا:جماعت میں جو چیز تمھیں ناپسند ہے،وہ اختلاف اور جماعت سے الگ ہوکر زندگی گزارنے میں محبوب چیز سے زیادہ بہتر ہے۔ایک عربی شاعر کہتا ہے:
        یقیناً جماعت اللہ کی رسی ہے لہذا اللہ کے مطیع وفرماں بردار بندے کو چاہئے کہ اس کے ذریعے اس کے مضبوط سہارے کو مضبوطی سے پکڑ لے،اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ وہ حاکم کے ذریعے دین اور دنیا کی ہماری بہت سی پریشانیاں اور الجھنیں دور فرماتا ہے۔اگر امامت نہ ہوتی تو ہمارا کوئی بھی راستہ مامون ومحفوظ نہ ہوتا اور ہم میں سے طاقتور کمزور کو لوٹ لیتا۔
        آخر میں ہم اپنے بزرگ وبرتر رب سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک،ملک حرمین شریفین کے عقیدہ اور ہماری بیدا رآنکھوں یعنی امن کے محافظین کو ہر خیر وبھلائی کی توفیق دے،ان کو سیدھی راہ کی رہنمائی فرمائے۔خصوصاًملت اسلامیہ کی گھات میں لگے ہوئے دشمنوں کے مکروفریب سے اس ملک کو محفوظ رکھے اوراسے باعزت،ثابت قدم،باعظمت اور حق کی قیادت کرنے والا اور اس کا علم بردار بنائے۔یقیناً ہمارا رب سننے والا اور دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔
        درود وسلام بھیجو۔۔۔اللہ تم سب پر رحم فرمائے۔۔۔نبی رحمت اور جہاد کے سپہ سالار اور بغیر کسی اختلاف کے تمام انسانوں کے سردار پراور دین کی طرف سے سب سے بہتر دفاع کرنے والے پر جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے:یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود وسلام بھیجتے ہیں لہذا اے مومنو!تم بھی ان پر درود وسلام بھیجو۔“(الاحزاب:۵۶)ایک شاعر کہتا ہے:
        اے میری قوم کے لوگو!ان پر درود بھیجو اس سے تمھیں خوشی حاصل ہوگی اور خوش حال زندگی میسر آئے گی،ان پر اللہ جل جلالہ کی رحمت نازل ہوجب تک فرقد ستارہ آسمان میں چمکتا رہے۔





التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: