مولانا محمود احمد مکی رحمہ اللہ کے حالات زندگی

 

مولانا محمود احمد مکی   رحمہ اللہ  کے حالات زندگی

                                                         ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی

جمعرات کا دن,  جنوری 2024 ع کی 11/تاریخ, صبح 6/بجے نماز فجر کے لیے بیدار ہوا , اور جب قضاء حاجت اور وضو سے فارغ ہو کر واش روم سے باہر آیا  تو ام میمونہ نے بہت ہی غمناک و المناک خبر سنائی کہ مولانا  محمود نیپالی کا  آج شب انتقال ہوگیا ہے , خبر سن کر یقین نہیں ہوا لہذا میں نے پوچھا کہ تم کو کیسے معلوم ہوا؟ تو ان کا جواب تھا کہ ام فوزان زینب کا رات میں تین بج کر چالیس منٹ پر  فون آیا تھا ۔ اب یقین کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کیونکہ ام فوزان و ام میمونہ میں کافی گہرے  تعلقات ہیں اور ہمارے ایک طویل عرصہ سے  آپسی  گھریلو اچھے  تعلقات رہے  ہیں ۔ میری زبان سے بے ساختہ  انا للہ و انا الیہ راجعون نکلا , اور  مرحوم کے لیے اللہ تعالى سے مغفرت کی دعا فرمائی ۔

بلا شبہ موت ایک اٹل و  ناقابل تردید  حقیقت ہے اور جو کوئی بھی اس دنیا میں آیا ہے اس کو ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے ۔ اللہ کے علاوہ  کائنات کی ہر چیز فانی ہے۔ یہ قرآن کا واضح و صاف اعلان ہے : کل من علیہا فان, و یبقى وجہ ربک ذو الجلال و الاکرام   یعنی اس روئے زمین پر موجود ہر چیز فنا ہونے والی ہے  اور صرف تمہارے رب کا چہرہ  یعنی ذات جو عظمت و عزت والی ہے باقی رہ جائے گی  (رحمان/26-27)۔مولانا کی موت سے مجھ کو بہت زیادہ تکلیف ہوئی اور کافی صدمہ ہوا کیونکہ ابھی آپ کی کل  عمر پچاس سے کم تھی ۔ لیکن عمر کا موت سے کیا تعلق ہے, ہر ایک کا محدد و متعین وقت ہے, جب پورا ہوجاتا ہے تو اس میں میں نہ ایک منٹ کی تاخیر ہوتی ہے اور نہ ہی تعجیل , کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس کا بلاوا اوپر سے کب آجائے ۔ بھلا  کیا کسی کو امید تھی کہ مولانا اتنی جلدی ہمارے درمیان سے رخصت ہوجائیں گے ۔  صرف مجھے ہی نہیں بلکہ کسی کو اس خبر پر یقین نہیں ہو رہا تھا, لیکن اللہ کے سامنے سب عاجز و بے بس ہیں , اور یہی زندگی کی حقیقت ہے اور بلا شبہ وہ پانی کا ایک بلبلہ ہے جو کسی بھی  وقت پھوٹ جاتا ہے ۔ بقول شاعر:

      کیا بھروسا ہے زندگانی کا                            آدمی بُلبُلا ہے پانی کا

اس دن مجھے اتنا رنج و غم ہوا کہ  میں انہیں کے بارے میں بہت دیر تک سوچتا رہا اوران  کی یاد میں کھویا رہا ۔ اپنی موت کو بھی یاد کرتا رہا ,اور یہ سوچ کر اور زیادہ تکلیف ہوتی کہ ابھی ان کی والدہ محترمہ باحیات ہیں , ان کے چھوٹے بچے ہیں ,سب سے چھوٹی بچی نوال     کی عمر صرف چار سال ہے۔جب والدین یا ان میں سے کسی ایک کی زندگی میں ان کا  کوئی بچہ انتقال کرتا ہے تو والدین کی تکلیفوں کو بیان کرنا اور ان کو  کاغذ پر منتقل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے, والدین کی بس یہی خواہش ہوتی ہے کہ میرے بچے کے بجائے میری موت ہوجاتی, اللہ تعالى مجھے اٹھا لیتا۔ماں باپ دونوں  یا ان میں سے با حیات  کوئی بھی  کس کرب و تکلیف سے گذرتا ہے  , مصیبت کا کون سا پہاڑ ان کے اوپر ٹوٹ پڑتا ہے اس کو  الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا ہے , اس کا اندازہ تو صرف اسی کو ہوتا ہے جو اس قسم کے حادثہ کو جھیل چکا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالى تمام والدین کو اس قسم کے حوادث سے محفوظ رکھے ۔ آمین     

مولانا محمود سے میری پہلی ملاقات مکہ میں دوران تعلیم ہوئی تھی , وہ اپنی فیملی کے ساتھ اسی محلہ ریع الکحل  میں مقیم تھے جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا تھا ۔وہیں پر تعارف ہوا اور فیملی تعلقات بھی ہوئے اور یہ تعلقات الحمد للہ اب تک قائم ہیں ۔ وہاں مکہ میں آپس میں آنا جانا رہنا تھا , ایک دو بار ساتھ میں حج کرنے کا موقع ملا, طلباء کے اجتماع میں باہمی ملاقات ہوتی رہتی تھی , اور بارہا اپنی گاڑی سے  مختلف کام سے ایک ساتھ آنا جانا ہوا ۔  جب وہ جالیات میں ملازمت کرتے تھے تو بھی مکہ آنے پر بسا اوقات  میرے گھر تشریف  لاتے تھے  ۔ اور جب میں سعودیہ سے  واپس آیا اور 2020 ع میں على گڑھ منتقل ہوا تو آپس میں اور زیادہ قریب ہوگئے  کیونکہ دلی اور على گڑھ کی دوری صرف 120 کلو میٹر ہے ۔ میں نے آپ کو 2020 ع و 2022 ع میں اپنے بچوں کی شادی  میں مع فیملی مدعو کیا  تھا لیکن   آپ کسی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے  البتہ ان   کی اہلیہ اور بچے میرے گھر پر تشریف لائے تھے ۔ ضرورت پر موبائل سے آپس میں گفتگو ہوتی رہتی تھی ۔

آپ سے میری آخری ملاقات 16/جولائی 2023 ع کو فورٹس اسپتال نوئیڈا میں ہوئی تھی جب آپ میرے دل کے بائی پاس  آپریشن سے پہلے  میری عیادت کے لیے تشریف لائے تھے , فورٹس اسپتال میں مریضوں سے ملاقات کا وقت بہت محدود و کم ہے اور نگرانی بھی سخت ہوتی ہے , لہذا جب آپ ملاقات کے لیے آئے تو فورا واپس جانے لگے ۔ میں نے کہا شیخ دعا تو کر دیجیے ۔ کہنے لگے کہ باہر لوگ لائن میں کھڑے ہیں اور باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں ہے آپ دعا کر دیجیے تب جائیے,  دوسرے لوگ ملاقات کرکے فورا نکل جائیں گے ۔ تو انہوں  نے بیٹھ کر دعا کی پھر واپس ہوئے ۔ اللہ تعالى آپ کو جزائے خیر دے اور مغفرت فرمائے ۔ کسے معلوم تھا کہ یہ آخری ملاقات ہوگی ۔

ذیل میں مولانا مرحوم کی زندگی پر تفصیل سے  روشنی ڈالی جا رہی ہے ۔

نام و نسب:

آپ کا پورا نام محمود احمد محمد نعیم ہے, اوراق میں درج    تاریخ پیدائش 27/3/1977 ع ہے , ولادت   سوجان  ڈہوا (محمد پور), تنہوا, لمبنی , نیپال میں ہوئی, آپ کا آبائی وطن نیپال ہے ۔ کل نو بھأئی و بہنوں میں سب سے بڑے تھے , پرورش و پرداخت  و ابتدائی تعلیم گاؤں پر ہوئی تھی ۔

تعلیمی مراحل:

مرحوم کی مکتب کی  تعلیم کا آغاز1981 ع میں ہوا اور سب سے پہلے درجہ طفلاں سے چہارم تک کی تعلیم  مدرسہ الاصلاح , لمبنی , روپندیہی  میں پائی, اور پھر    درجہ پنجم و ششم کی تعلیم مدرسہ اصلاح المسلمین, مہراج گنج, کپل وستو , نیپال میں حاصل کی۔ اس کے بعد پہلی جماعت سے تیسری جماعت تک کی تعلیم کی تکمیل المعہد الاسلامی, تولہوا, کپل وستو , نیپال میں کی۔

بعد ازاں آپ نے مزید تعلیم کی  حصول کے لیے انڈیا کا رخ کیا اور 1990 ع میں معہد التعلیم الاسلامی, ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سینٹر, دلی میں داخلہ لیا  اور متوسطہ کی تعلیم حاصل کی  اور پھر جامعہ اسلامیہ سنابل  میں تین سال رہ کر 1995 ع  میں  ثانویہ کی ڈگری حاصل کی , اس کے  بعد فضیلت کی تعلیم کے لیے جامعہ ریاض العلوم دہلی گئے  جہاں سے 1996 ع میں فضیلت کا امتحان  فرسٹ ڈویزن میں پاس کیا ۔

2001ع میں اللہ کے فضل و کرم سے آپ کا داخلہ دنیا کی مشہور یونیورسٹی ام القرى , مکہ مکرمہ میں ہوا اور آپ نے وہاں پر پہلے 1423ھ/2002ع  میں عربی زبان کا کورس مکمل کیا  اور امتیاز کے ساتھ اس کی ڈگری حاصل کی,  پھر بی اے کی تعلیم کے لیے شریعہ اور دراسات اسلامیہ کالج کا انتخاب کیا  اور قسم الشریعہ میں داخلہ لیا  اور 1427ھ/2006 ع میں بی اے کا کورس مکمل کیا  اور اس میں  امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کی ۔ 

یہاں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ آپ نے مکہ میں عربی کا  دو سالہ کورس ایک سال میں اور  بی اے کا کورس اس کی کم از کم مدت چار سال میں پورا کر لیا ۔ جب کہ انڈیا و نیپال کے بیشتر طلباء وہی نصاب اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چھ سال میں مکمل کرتے ہیں , بلکہ بعض تو اس حد کو تجاوز کرجاتے ہیں ,  اور اس کی ایک  خاص و اہم وجہ کسی مناسب ملازمت کے نہ حاصل ہونے کی وجہ سے  وطن واپسی کو سوچ کر پریشان ہونا ہے اور  سعودی عرب میں زیادہ مدت تک قیام کرنے کی خواہش ہے ۔ لیکن آپ نےاس سہولت کا غلط استعمال  نہیں کیا  اور کورس کو جلد از جلد پورا کر لیا ۔ اس سے آپ کا  اللہ پر توکل,  دور اندیشی,  جد و جہد , محنت و لگن اور وقت کی اہمیت و قدر و قیمت کا پتہ چلتا ہے ۔ راقم سطور نے بھی اللہ کے فضل و کرم سے عربی  زبان کا کورس صرف ایک فصل میں اور بی اے کا کورس تحویل کے بعد صرف چار سال میں مکمل کیا تھا۔

اساتذہ کرام:

مختلف مدارس, معاہد و جامعات میں تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے آپ کے اساتذہ کی فہرست کافی طویل ہے , جن میں چند مشہور اساتذہ کے نام درج ذیل ہیں :---

جامعہ ام القری:ڈاکٹر وصی اللہ محمد عباس , ڈاکٹر اسماعیل عبد الستار میمنی , ڈاکٹر عبد الرحمن بن محمد قرنی, ڈاکٹر حمود بن جابر حارثی و غیرہم

انڈیا کے اساتذہ میں چند مشہور نام ہیں :

مولانا عبد الحئی مدنی, مولانا عاشق علی اثری, ڈاکٹر بدر الزماں نیپالی مدنی, مولانا عبد التواب سراج الدین مدنی (مرحوم کے سسر) مولانا على اختر امان اللہ مکی , مولانا مطیع اللہ حقیق اللہ مدنی وغیرہم ۔

تدریس و عمل :

1996 ع میں ریاض العلوم سے فراغت کے بعد آپ نے اسی مدرسہ میں تدریس کا فریضہ انجام دینا شروع  کیا  اور 1999 ع تک برابر تدریس میں لگے رہے , اس کے بعد پھر دوبارہ 2019 سے 2021 ع تک  اسی مدرسہ میں پڑھانے کا کام کیا ۔ آپ مختلف اوقات میں کل چھ سال تک ریاض العلوم میں  تعلیم و تدریس سے وابستہ رہے ۔کچھ مہینوں تک آپ نے جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی میں پڑھانے کا م کیا ۔

1427ھ/2006 ع میں جامعہ  ام القرى سے فارغ ہونے کے بعد آپ  انڈیا واپس آگئے , اور 1429ھ /2008ع میں آپ کو دوادمی , سعودی عرب کے توعیۃ الجالیات میں داعی و مترجم کی حیثیت سے ملازمت مل گئی , آپ نے یہاں پر1-4-1429/8-4-2008ع سے  30/3/1431ھ/ 16-3-2010 ع  تک کام کیا ۔ اس کے بعد آپ کی تقرری  مجاردہ کے توعیۃ الجالیات میں  ہوئی اور آپ نے وہاں پر لگاتار سات سال 1-11-1432ھ /  29-9-2011ع سے لے کر 1-8-1439 ھ /14-7-2018ع تک دعوت و تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دیا۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد ایک بار پھر آپ نےپہلے کچھ مہینوں تک  جامعہ سید نذیر حسین محدث دہلوی  میں پھر  ریاض العلوم میں تدریس کی ذمہ داری سنبھالی  جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ۔

اس کے علاوہ آپ نے دوران طالب علمی جامعہ ام القری کے مرکز ابحاث الج میں رمضان و حج کے زمانہ میں  کئی بار موسمی کام کیا , اسی طرح  وزارت اسلامی امور, سعودی عرب   کے ما تحت مکہ  میں حج کے مواسم  میں متعدد بار ترجمہ کا کام انجام دیا۔

تصنیف و تالیف: درس و تدریس , تعلیم و تربیت اور دعوت و تبلیغ  اور آخر سالوں میں تجارت میں مشغولیت کی وجہ سے آپ نے تصنیف و تالیف پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔ لیکن اس کے باوجود آپ نے دو کتابوں کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ۔ان میں سے ایک کتاب الطریق الى التوبہ ہے جو محمد بن ابراہیم الحمد کی تصنیف ہے , اس کا اردو نام توبہ کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقہ ہے,  موصوف کے کہنے پر خاکسار راقم سطور نے اس پر نظر ثانی کی تھی , یہ کتاب  دوادمی کے جالیات آفس سے مطبوع ہے ۔  ایک دوسری کتا ب  کا ترجمہ انہوں نے کیا ہے لیکن اس کی بابت مجھ کو کچھ معلوم نہیں ہو سکا, اور دعا و اذکار سے متعلق  ایک تیسری کتاب کا وہ ترجمہ کر رہے تھے لیکن مکمل نہیں ہوسکی ۔

کپڑے کا کاروبار: کورونا کے زمانہ میں  تعلیم و تدریس کا سلسلہ ایک طویل عرصہ تک منقطع ہونے کی وجہ سے آپ نے تجارت کی طرف دھیان دیا اور جعفر آباد دلی میں کپڑوں کا کاروبار شروع کیا تاکہ اپنی معاشی ضرورتوں کو پوری کرسکیں ۔

اخلاق و عادات: آپ  زمانہ طالب علمی ہی سے انتہائی  شریف, بااخلاق , متواضع , ملنسار, خوش مزاج, دیندار  انسان تھے ۔ بقول مولانا عبد المبین ندوی آپ کی اسی  صالحیت و نیک نفسی کو دیکھ کر  جامعہ ریاض العلوم کے سابق شیخ الجامعہ مولانا عبد التواب مدنی حفظہ اللہ نے آپ کو اپنا داماد بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنی ایک  دختر نیک اختر زینب سلمہا کی شادی 2001 ع میں  ان سے کر دی ۔بقول بعض آپ فرشتہ صفت انسان تھے اور اپنے اخلاق سے بہتوں کو متاثر کیا تھا ۔ آج کے دور میں بلا شبہ یہ ایک ایسی خوبی ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے ۔ اور یہ ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے ۔ یقینا یہ آپ کی زندگی کا ایک نمایاں گوشہ ہے ۔ اللہ تعالى ہم سب کو با اخلاق بنائے ۔ آمین

وفات: دس جنوری 2024ع کی شام کو طبیعت میں کچھ گرانی محسوس ہوئی تو  مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھر تشریف لائے , اسی دوران آپ کی طبیعت مزید بگڑنے لگی اور  ہاتھ پیر میں سن کی کیفیت کا احساس ہونے لگا ۔کچھ دیر کے بعد واش روم میں عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے گئے اور وہیں پر گر گئے , اس کے بعد آپ کو جی پی پنت  اسپتال منتقل کیا گیا  جہأں پہلے  آپ کا ایم آر آئی ہوا۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ برین ہیمبرج لگ رہا ہے ۔ دو بجے رپورٹ ملے گی ۔ لیکن آپ نے  اس سے پہلے ہی  11/جنوری کی رات  ساڑھے بارہ بجے آخری سانس لی اور دارفانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر گئے ۔  تدفین اسی دن بعد نماز ظہر ویلکم قبرستان میں ہوئی , نماز جنازہ شیخ محمد رحمانی , صدر مرکز ابو الکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر , دہلی , کی امامت میں جامع مسجد ابن تیمیہ جعفر آباد میں ادا کی گئی جس میں قرب و جوار کے علاوہ  ریاض العلوم, جامعہ اسلامیہ  سنابل و جمعیت اہل حدیث کے  کافی افراد نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ نو مختلف جگہوں پر  آپ کی نماز جنازہ غائبانہ انڈیا ,   نیپال, قطر و  مجاردہ , سعودی عرب  میں ادا کی گئی ۔

پسماندگان: آپ کی شادی 2001 ع میں  مولانا عبد التواب کی لڑکی زینب سے ہوئی جیسا کہ اوپر ذکر کیا  گیا , آپ کے کل پانچ اولاد ہیں تین بیٹے و د بیٹیاں , سب سے بڑا لڑکا فوزان  حافظ قرآن ہے جس کی عمر 18/ سال ہے اور سب سے پھوٹی لڑکی نوال  ہے جس کی عمر صرف چار  سال ہے, آپ کی والدہ محترمہ با حیات ہیں ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ مرحوم  کے تمام نیک اعمال کو قبول فرمائے , ان کی لغزشوں کو بخش دے,  ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے , ان کے لواحقین خصو صا   والدہ, اہلیہ, بچوں  کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ان سب کو ہر شر و بلا سے محفوظ رکھے اور  ان کے بچوں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ  بنائے  اور دین و دنیا میں ترقی عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین ۔

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: