سیرت نبی کی اہمیت و فضیلت , شان و عظمت
حدیث: عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أنا سيد ولد آدم يوم القيامة ولا فخر، وبيدي لواء الحمد ولا فخر، وما
من نبي يومئذ آدم فمن سواه إلا تحت لوائي، وأنا أول من تنشق عنه الأرض ولا فخر (سنن الترمذي | أبواب المناقب باب (حديث
رقم: 3615 ) اس کو احمد
اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے ۔اور ایک دوسری روایت میں اتنا اضافہ ہے: و
أنا اول شافع و اول مشفع و لافخر ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی)
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا: میں قیامت کے
دن تمام انسانوں کا سردار ہوں گا لیکن اس
پر مجھے کوئی فخر نہیں ہے , اور میرے دست مبارک میں حمد کا علم ہوگا اور اس پر
کوئی فخر نہیں ہے , اور اس دن ہر نبی آدم
سے لیکر آپ تک میرے علم کے نیچے ہوں گے , اور سب سے پہلے میری قبر کی زمین پھٹے گی اور اس پر بھی مجھے کوئی فخر نہیں
ہے ۔ اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا
سفارش کرنے والا ہوں گا اور پہلا وہ شخص جس کی شفارش قبول کی جائے گی اور مجھے اس پر
کوئی فخر نہیں ہے ۔
نوٹ:
یہ حدیث مختلف کتابوں میں مختلف جملوں و
الفاظ کے ساتھ بیان کی گئی ہے ۔ کسی میں
چند جملے ناقص ہیں اور کسی میں اضافہ ہے ۔ مجموعی طور پر اس حدیث کو علامہ البانی
نے صحیح قرار دیا ہے ۔
شرح
: اس حدیث میں سرور کائنات نے اللہ سبحانہ
و تعالى کی طرف سے قیامت کے دن عطا کردہ اپنی چھ اہم صفات: "تمام انسانوں کے
سردار, علم حمد کے حامل, تمام انبیاء کا
آپ کے ما تحت ہونا, سب سے پہلے آپ کے قبر
کا پھٹنا , پہلا سفارشی اور پہلا شخص جس
کی سفارش قبول ہوگی" کا بیان کیا ہے
جو صرف اور صرف آپ کے ساتھ مخصوص ہیں جن
سے قطعی طور پر پتہ چلتا ہے کہ آپ دونوں جہاں میں سب سے افضل ہیں ۔ آپ کا مقام و
مرتبہ سب سے بلند ہے ۔اور یہ حیثیت آپ کے علاوہ کسی بھی انسان یا نبی و رسول کو
حاصل نہیں ہے ۔ اورموقع الدرر السنیہ میں
مذکور ہے کہ آپ کو یہ مقام و مرتبہ اللہ
کا عطا کردہ ہے اور وہی تنہا اس کا مالک ہے کیونکہ کسی بھی انسان کے لیے یہ جائز
نہیں ہے کہ وہ کسی نبی کو کسی پر فضیلت دے
۔یہ اختیار صرف اور صرف اللہ کو ہے ۔
اور شفاعت یہ الفاظ و قول کے ذریعے ثالثی کرنا ہے تاکہ کسی شخص کو دنیاوی یا
اخروی فائدہ حاصل ہو، یا اسے کسی نقصان سے
بچایا جائے ۔ نیز شفاعت دو قسم : اچھا اور برا ہوتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ
باری تعالیٰ ہے: ’’جو شخص اچھی شفاعت کرے گا اس کو اس میں سے حصہ ملے گا اور جو بری
شفاعت کرے گا اسے اس میں سے حصہ ملے گا۔‘‘ (نساء: 85) (موقع الوکہ)
ان
نعمتوں کو بیان کرنے کے بعد پیارے نبی یہ بھی فرما رہے ہیں کہ آپ کو ان پر ذرہ
برابر بھی فخر نہیں ہے ۔ اور فخر کی تعریف ہے: الْفَخْرُ اِدِّعَاءُ الْعَظَمَةِ وَالْمُبَاهَاةِ
بِالْأَشْيَاءِ الْخَارِجَةِ عَنْ الْإِنْسَانِ كَالْمَالِ وَالْجَاهِ (سنن
الترمذی) فخر: عظمت کا دعوى کرنا اور
انسان سے باہر کی چیزوں پر شیخی بگھارنا ہے جیسے مال و منصب وغیرہ, بلا شبہ یہ آپ کی طرف سے انتہائی تواضع ہےکہ ان جلیل
القدر نعمتوں کے حصول کے باوجود بھی آپ کو ذرہ برابر بھی فخر نہیں ہے ۔ اور سید کا اطلاق اس پر
ہوتا ہے جو خیر و بھلائی میں اپنی قوم میں سب پر فائق ہوتا ہے یا ایسا شخص جو
مصائب و پریشانیوں میں لوگوں کا سہارا ہوتا ہے ۔ ان کے معاملات کی اصلاح کرتا ہے,
ان کی مکروہ چیزوں کو برداشت کرتا ہے اور
ان کی طرف سے ان کو دور کرتا ہے ۔( موقع
الدرر السنیہ)
اس
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر تکبر کے انسا ن اپنے اوپر اللہ کی عطا کردہ نعمت کو
بیان کرسکتا ہے ۔ اور اس میں یہ وضاحت ہے کہ
امت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند
مرتبہ کو جاننا چاہیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا چاہیے، اس کے مطابق عمل
کرنا چاہیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرنی چاہیے۔ اس بلند مقام و مرتبہ کے
مطابق جو اللہ نے انہیں عطا کیا ہے ۔اور اس میں دلیل ہے کہ آپ کو تمام مخلوقات پر
فضیلت عطا کی گئی ہے ۔
سیرت
نبی کی اہمیت و فضیلت , شان و عظمت
برادران
اسلام : مذکورہ بالاحدیث سے سیرت نبی کی اہمیت و فضیلت, شان و عظمت کا بھی علم
ہوتا ہے کیونکہ جو شخص جس قدر اعلى منصب و
عظیم عہدہ پر فائز ہوتا ہے, اس کا رتبہ و
مرتبہ جتنا ہی بلند و بالا ہوتا ہے اور جس قدر اس کے اندرکمال کی خوبیاں اور صفات محمودہ پائی جاتی ہیں اسی قدر اس کی سیرت بھی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت کی حامل ہوتی ہے ۔ اس کی سیرت کا مقام و مرتبہ اور حیثیت بھی بہت
ہی بلند و ارفع ہوتا ہے اور اس کی شان و عظمت بھی بہترین و زبردست ہوتی ہے ۔
اس
کے علاوہ درج ذیل امور سے بھی سیرت نبی کی عظمت و اہمیت اور مقام و مرتبہ کا پتہ
چلتا ہے: ----
1-آپ
کی سیرت کا مطالعہ کرنا واجب اور عبادت ہے
کیونکہ اللہ تعالى نے آپ کو ہم مسلمانوں
کے لیے نمونہ و قدوہ قرار دیا ہے اور آپ کی اتباع و اقتداء کا حکم دیا ہے اور تمام
مسلمانوں کو اس کا مکلف بنایا ہے ۔ ارشاد
الہی ہے: لَّقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (
احزاب /21) در حقیقت تمہارے لیے اللہ کے
رسول میں بہترین نمونہ اور قدوہ ہے ۔اور یہ واضح ہے کہ ہم اس وقت تک آپ کی کامل اتباع و اقتداء نہیں کرسکتے ہیں جب تک ہم
آپ کی سیرت کا مطالعہ نہیں کریں گے, اس کو
پڑھیں اورسمجھیں گے نہیں ۔کیونکہ سیرت آپ
کی پوری زندگی کو اپنے اندر عملى طور پر سموئے ہوئے ہے اور بلا شبہ آپ کے افعال زیادہ تر سیرت میں پائے جاتے ہیں۔
اور
فقہاء اسلام کا اصول ہے : ما لا یتم الواجب الا بہ فہو واجب یعنی جس چیز کے بغیر
واجب پورا نہ ہو تو وہ بھی واجب ہوجاتا ہے ۔ اس لیے سیرت کا مطالعہ , اس کا پڑھنا
ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کامل اتباع و
اقتداء نہیں ہوسکتی ہے ۔
2-
ہم قرآن پاک کو اس وقت تک باریکی سے نہیں سمجھ
سکیں گے جب تک کہ ہم سیرت نبوی کا مطالعہ نہیں کریں گے، اور ہم سیرت کے واقعات کو صرف
قرآن کی روشنی میں کامل طور سے سمجھ سکتے ہیں ، اور ہم بہت ساری احادیث کو بہتر طریقے سے اس وقت تک نہیں سمجھ
سکتے ہیں جب تک ہم ایک ساتھ قرآن اور سیرت
کی طرف رجوع نہ کریں۔
مثال
کے طور پر جب یہ آیت :" إِنَّ
ٱلصَّفَا
وَٱلْمَرْوَةَ
مِن شَعَآئِرِ ٱللَّهِ
ۖ
فَمَنْ حَجَّ ٱلْبَيْتَ
أَوِ ٱعْتَمَرَ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ
وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ ٱللَّهَ
شَاكِرٌ عَلِيمٌ (بقرہ/158) " نازل ہوئی تو اس
سے حضرت عروہ بن زبیر نے سمجھا کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی ضروری نہیں ہے بلکہ
حاجی کو اختیار ہے وہ چاہے کرے یا نہ کرے ۔ بنا بریں جب حضرت عائشہ کو ان کی اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے اس کی اصلاح فرمائی اور کہا کہ
اس آیت کا ایک شان نزول ہے ۔ وہ یہ ہے کہ انصار صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے میں
حرج و تنگی محسوس کرتے تھے کیونکہ اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں ان کے حج کے
ارکان و واجبات میں ان دونوں کے درمیان سعی کرنا
داخل نہیں تھا ۔ تو آپ نے یہ وضاحت فرمادی کہ حج و عمرہ میں ان دونوں کے
درمیان سعی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
بلکہ یہ ان دونوں کا شرعی رکن ہےاور اس کے
بغیر حج یا عمرہ مکمل نہیں ہوگا ۔ اس لیے اس کی ادائیگی ضروری ہے ۔
3-
سیرت کا مطالعہ کرنے سے رسول کی شخصیت کی معرفت میں ہر پہلوسے اضافہ ہوتا ہے اور مطالعہ کرنے والے کی معلومات
میں گہرائی اور باریکی پیدا ہوتی ہے اور اس کا ہر گوشہ اس کے سامنے کھل کر آجاتا
ہے ۔پیدائش, پرورش, زمانہ جاہلیت میں شب و
روز کی زندگی, رسالت سے سرفراز ی, دعوت کی نشرو اشاعت, اس کے لیے بے مثال جد و
جہد, انتھک محنت, شب و روز کی بھاگ دوڑ,
تعلیم و تربیت, مصائب و پریشانیوں کا برداشت کرنا, جنگوں کی قیادت, دینی رہنمائی , مسائل و اختلافات کا حل کرنا, امہات المؤمنین کے ساتھ سلوک و
برتاؤ, غلاموں کے ساتھ معاملہ اور عبادات
وغیرہ غرضیکہ ایک مسلمان کے سامنے آپ کی
پوری زندگی ہوتی ہے اور گویا کہ وہ آپ کے
ساتھ زندگی گذار رہا ہوتا ہے ۔ اور یہ ایک
مسلمہ حقیقت ہے کہ جس قدر کسی چیز کی معرفت میں اضافہ ہوتا ہے اسی قدر اس کی تعظیم
و احترام میں اضافہ ہوتا ہے , اس کی قدر و منزلت بڑھتی ہے , اتباع کا جذبہ پروان
چڑھتا ہے وغیرہ ۔اسی لیے اللہ تعالی نے
اپنے بندوں میں سب سے زیادہ علماء کو اپنے سے خوف کھانے والا قرار دیا ہے ۔اللہ کا
فرمان ہے: انما یخشى اللہ من عبادہ العلماء(فاطر/28)
4-
دنیا بھر کے مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ کرنے کی ضرورت
بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہ تبدیلی اور اصلاح، تعلیم و تربیت، علم اور عمل کا وسیع نقطہ
آغاز ہے۔ اور جب یہ امت اپنے دین و عقیدہ
میں نشانہ پر ہے ایسی صورت میں ہمارے لیے خوشبودار سیرت کی طرف دوڑنا واجب ہے ۔تاکہ
ہم ایمانی اور اخلاقی تعمیر کے نمایاں نشانیوں سے واقف ہوں ۔ اور مسلم نوجوانوں کو
ان کی شناخت سے الگ کرنے اور ان کے ذہنوں اور دلوں میں موجود علامتوں کو منہدم کرنے
کی کوششیں اس وقت تک پرسکون نہیں ہوں گی جب
تک وہ اپنا کردار دوبارہ شروع نہیں کرتے۔ لہذا ہمیں سیرت کی طرف لوٹنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنی نسلوں کا بہترین نمونہ اور افضل قدوہ پر تربیت کریں۔ اور ہم ان کے ولاء و صداقت, محبت اور وفاداری کو اس عظیم ترین نسل کے ساتھ اور گہرا کریں جس کو
اللہ نے کائنات کے لیے وجود بخشا ہے ۔
عصر
حاضر میں افکار و نظریات کے باہمی ٹکراؤ ، متضاد طریقوں اور اور اس کی کثرت کے درمیان، سیرت ہی معیار ہے، اور یہ شیریں
گھاٹ ہے، اور اس کے میدان میں خیالات، آراء
اور نقطہ نظر کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے. اور
اگر عصری تہذیب اب اپنی خواہشات اور رغبتوں میں مگن ہے اور آسمان کے ساتھ اس کی رسیاں کٹ چکی
ہیں اور اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو نمکین پانی پیتا ہے جس سے اس کے پیاس میں
صرف اضافہ ہوتا ہے ۔تواب وقت آگیا ہے کہ سب سے بڑے انسان کی بات سنی جائے ۔ جس نے کائنات
کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے ایک وسیع مقام بنایا۔ اور جب بھی قوم پر کوئی مصیبت
نازل ہوتی ہے یا اس پر بحرانوں کی شدت ہوجاتی
ہے اور دل حلقوں تک پہنچتے ہیں تو ان کی سیرت
طیبہ سے وہ روشنیاں پھوٹتی ہیں جو ہر مصیبت زدہ یا مایوس کو راہ حق کا پتہ دیتی ہیں
تو وہ اپنے ماتھے پر جھنڈے لہراتے دیکھتا ہے۔ اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان
میں اضافہ ہوتا ہے، اوراللہ تعالى حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت کر دیتا ہے اور
اس سے باطل پر مارتا ہے جس سے باطل مر جاتا ہے ۔
غرضیکہ بہت سارے اسباب و وجوہات کی بنیاد پر سیرت نبی کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت, مقام و مرتبہ نیز شان و عظمت ہے ,جن کو اس مختصر مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔ بلکہ سیرت کی عظمت و اہمیت, فضیلت و مرتبہ کو الفاظ کا جامہ پہنانا مجھ جیسے خاکسار و نوآموز شخص کے لیے نا ممکن ہے اور الفاظ اس کے حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہیں۔ سیرت نبی کی سچائی و اخلاص کے ساتھ مطالعہ میں جو چاشنی, لذت, مٹھاس و شیرینی ہے اس کو الفاظ میں ادا کرنا بہت مشکل ہے ۔ جو بھی اس کا مطالعہ کرتا ہے یا اس کو سماعت فرماتا ہے اس کا گرویدہ ہوجاتا ہے اور اس سے ضرور متاثر ہوتا ہے ۔ اس کے ذکر میں قلبی سکون و راحت ہے, روحانی لذت و فرحت ہے , دنیاوی و اخروی مسرت و شادمانی ہے , اطمینان قلب و انبساط روح ہے ۔ اس کا ذکر سب سے اعلى, برتر, پاکیزہ, دل کش, جاذب نظر, پرکشش , تازہ , زندہ و تابندہ ہے ۔اس سے ذہنوں کو تروتازگی ملتی ہے ۔ مردہ دلوں میں زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔قصہ مختصر یہ کہ اس میں ہر نوع کی خوبی و اچھائی پائی جاتی ہے اور ہر متلاشی کو جس نوع کے جواب , خوبی و مثال کی تلاش ہوتی ہے وہ اس کو مل جاتی ہے۔ بلا شبہ یہ اپنے اندر ہر قسم کی خوبیوں کو سمیٹے ہوئے ہے ۔
لیکن
کس قدر افسوس , دکھ و تکلیف کی بات ہے کہ جس قدر آپ کی سیرت کی عظمت و اہمیت, مقام و
مرتبہ اور شان و عظمت ہے اسی قدر ہم مسلمانوں کی آپ کی سیرت کو جاننے , مطالعہ
کرنے میں بے رغبتی, بے اعتنائی , اعراض و
عدم دلچسپی ہے ۔دعا ہے کہ اللہ ہم مسلمانوں کے احوال پر رحم فرمائے اور آپ کی سیرت کو جاننے , اس پر عمل کرنے کی
توفیق عطا کرے ۔ آمین ۔
0 التعليقات: