نبی
کریم کی نافرمانی کرنا در اصل آپ کا انکار کرنا ہے
حدیث:عن
أبی ہریرۃ أن رسول اللہ قال: کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبى , قالوا : و من یابى
؟ قال : من أطاعنی دخل الجنۃ و من عصانی فقد أبى ۔(بخاری, کتاب الاعتصام )
ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :میری پوری امت جنت میں
داخل ہوگی مگر جس نے انکار کیا ۔ اس پر صحابہ کرام نے پوچھا کہ آخر آپ کا انکار
کون کرے گا؟ تو آپ نے جواب دیا : جس نے میری اطاعت کی تو وہ جنت میں داخل ہوگا اور
جس نے میری نافرمانی کی تو درحقیقت اس نے انکار کیا ۔ (بخاری)
معانی
کلمات: امت کا لفظ قرآن کریم میں درج ذیل چار معانی میں استعمال ہوا ہے :-
1- دین , اللہ کا فرمان ہے : انا وجدنا آباءنا
على أمۃ یعنی دین (زخرف/22)
2- اللہ کا مطیع و فرماں بردار بندہ , ارشاد
ربانی ہے: ﴿ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ
كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لله حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ [النحل:
120].
3- جماعت و گروہ , مثلا:: ﴿ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ ﴾ [القصص:
23]، وقوله: ﴿ وَلَقَدْ
بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولًا ﴾ [النحل:
36].
4- مدت و زمانہ , مثال کے طور پر ارشاد الہی
ہے:: ﴿ وَقَالَ
الَّذِي نَجَا مِنْهُمَا وَادَّكَرَ بَعْدَ أُمَّةٍ ﴾ [يوسف:
45]؛
من
ابی: جس نے انکار کیا دعوت یعنی اسلام کو قبول کرنے سے یا نبی کا حکم ماننے سے (الوکہ)
شرح:مذکورہ بالا حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جودین کے ہر چیز میں آپ کے اتباع کی دعوت دیتی ہے۔ اس
قسم کی اور بھی روایتیں ہیں جو احادیث کی کتابوں میں کثرت سے موجود ہیں اور ہر
دینی معاملہ میں آپ کی اتباع و اطاعت کو واجب قرار دیتی ہیں ۔خیراس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اور یہ بہت بڑی خوشخبری ہے کہ آپ کی امت کا ہر با عمل
شخص صرف آپ کے منکر کو چھوڑ کر جنتی ہے ۔ یہ سن
کر صحابہ کرام کو تعجب ہوا اور یہ تعجب والی بات بھی ہے کیونکہ ایمان لانے کے بعد
کوئی آپ کا انکار کیوں کر سکتا ہے۔ اس لیے
آپ کے اصحاب نے آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ
آپ پر ایمان لانے کے بعد آخر آپ کا انکار کون کرے گا ؟ تو آپ نے جواب دیا
کہ جس نے میری اطاعت کی تو وہ جنت میں
داخل ہوگا یعنی اسلامی احکام پر عمل کرنے والا, شریعت کو نافذ کرنے والا اور
برائیوں سے بچنے والا جنت میں داخل ہوگا ۔ اور جس نے میری نافرمانی کی یعنی اسلامی
احکام کے اوپر عمل نہیں کیا, شریعت کو اپنی زندگی میں نافذ نہیں کیا اور گناہوں میں مبتلا رہا تو در اصل اس نےاطاعت کو چھوڑ کرکے جو جنت میں
داخلہ کا سبب ہے آپ کی نافرمانی کی تو اس نے
آپ کا انکار کیا اور اپنے کو جنت میں داخل ہونے سے روک لیا ۔ اس کا معاملہ
اللہ کے حوالہ ہے ۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالى اس کو جہنم میں عذاب دے کر پھر جنت میں
داخل کرے یا بلا عذاب ہی معاف کرکے اس کو جنت میں داخل کردے ۔
اس
حدیث میں سبب یعنی آپ کی نافرمانی کو مسبب یعنی جہنم میں داخل ہونے کی جگہ پر رکھا
گیا ہے ۔یعنی عبارت اس طرح ہے : من اطاعنی فقد دخل الجنۃ و من عصانی فقد دخل النار
, تو دخل النار کی جگہ پر ابی کا لفظ آیا
ہے جو سبب ہے۔مطلب ہے کہ جس کے اندر انکار کی صفت ہوگی اس کا برا انجام ہوگا۔ اور ان
کو گناہوں پرسختی برتنے اور ڈانٹنے و
روکنے کے لیے جنت میں داخلہ پانے والوں سے
الگ کر دیا ہے۔(الوکہ)
یہ
مفہوم اس صورت میں ہے جب امت سے مراد امت اجابت یعنی مسلمان قوم ہے لیکن بعض محدثین نے امت سے مراد امت دعوت لیا ہے ۔ایسی صورت میں معنى ہوگا کہ جو
میرے اوپر ایمان لایا ۔ جس نے میری تصدیق کی اور جو اسلام میں داخل ہوا تو اس نے میری
اطاعت کی ۔اور جو میرے اوپر ایمان نہیں لایا ۔ جس نے میری تصدیق نہیں کی اور جو
اسلام میں داخل نہیں ہوا اس نے میرا انکار
کیا ۔ اور بلا شبہ مومن کا ٹھکانہ جنت اور کافر کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔محدثین و شارحین حدیث سے دونوں اقوال منقول ہیں لیکن راجح پہلا قول ہی ہے ۔ اکثر نے اسی کو ذکر
کیا ہے ۔علامہ ابن باز نے بھی ایک سائل کے جواب میں پہلی والی شرح کی ہے ۔اس رابط پر جاکر علامہ کی
شرح دیکھ سکتے ہیں: https://binbaz.org.sa/fatwas/11072/معنى
حدیث کل امتی یدخلون الجنۃ
خیر:
امت اسلام پر آپ کا ایک حق جیسا کہ اسی
شمارہ کے تدبر قرآن میں دلائل کے ساتھ واضح کیا گیا کہ آپ کی اتباع و اطاعت ہے, آپ
کی فرماں برداری و پیروی ہے ۔آپ کے احکامات کو نافذ کرنا اور آپ کے ذریعہ منع کردہ
چیزوں سے رک جانا ہر امتی پر فرض ہے ۔ اب اگر کوئی اسلامی احکام پر عمل نہیں کرتا
ہے یا برائیوں کا ارتکاب کرتا ہے ۔ ان سے
بچتا نہیں ہے تو ایسا شخص آپ کی نافرمانی کرتا ہے ۔آپ کی اطاعت و فرماں برداری
نہیں کرتا ہے اور جوشخص آپ کی نافرمانی
کرتا ہے وہ آپ کا انکار کرتا ہے ۔ اور یہ عملا انکار کرنا ہے ۔ اگر چہ ایسا شخص
زبان سے انکار نہیں کرتا ہے ۔اور جو ایسا کرتا ہےتو وہ اپنی نافرمانی و معصیت کی وجہ سے اپنے کو جنت میں جانے سے روک دیتا ہے اور جہنم میں جانے
کا حقدار بنتا ہے ۔
اس
حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ کی نافرمانی جہنم میں میں جانے کا سبب ہے ۔ اور اعمال
صالحہ کی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ۔ آپ کی اپنی امت پر شفقت و محبت
کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ ایک مسلمان کو غور و فکر کرنی جائیے کہ کہیں اس کے اندر
انکار کی صفت تو نہیں پائی جاتی ہے ۔
اس
حدیث کی روشنی میں موجودہ دور کے مسلمانوں کو اپنے اعمال کا جائزہ لینا چائیے اور
اپنے نفس کا احتساب کرنا چائیے ۔یہ حدیث ایک آئینہ ہے جس میں ان کا چہرہ صاف طور
سے نظر آتا ہے ۔اور بلا شبہ دور حاضر کی امت عملی طور پر انکار میں مبتلا ہے جس کے
بھیانک و ہولناک نتائج دنیا میں بے انتہا ذلت و رسوائی کی صورت میں ہم خود دیکھ رہے ہیں اور آخرت میں نعوذ باللہ جہنم کا عذاب جیسا کہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ( مزیددیکھیے
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 84-85) ۔ اللہ تعالى اس امت کو سمجھ عطا کرے اور اس کو
زندگی کے ہر شعبہ میں اسلام کو نافذ کرنے والا بنائے ۔ آمین
0 التعليقات: