احسان اور بھلائی کا بدلہ دینا
حدیث:
عن عبد اللہ بن عمر أن النبی قال: من سأل باللهِ فأعطُوه، ومن استعاذ باللهِ
فأَعِيذُوه، ومن دعاكم فأجيبوه، ومن صَنَع إليكم معروفًا فكافِئوه، فإنْ لم
تَجِدوا ما تكافِئونَه فادْعُوا له حتى تَرَوا أنَّكم قد كافَأْتُموه ۔
(ابوداؤد/5109,
نسائی/2567 , احمد / 5365 نے معمولی
اختلاف کے ساتھ روایت کیا ہے , امام نووی و علامہ البانی نے صحیح قرار دیا
ہے)
ترجمہ:حضرت
عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ کا نام لے کر
تم سے سوال کرے( مانگے) تو اس کو دو , اور جو اللہ کی پناہ مانگے تو
اس کو پناہ دو , اور جو تم کو دعوت
دے تو اس کو قبول کرو, اور جو تمہارے ساتھ احسان کرے تو تم اس کو اس کا بدلہ دو ,
اب اگر تم اس کو اس کا بدلہ نہیں دے سکتے ہو تو اس کے لیے دعائیں کرو یہاں تک کہ تم کوغالب گمان ہو کہ تم نے اس کا بدلہ دیدیا ہے ۔
معانی
کلمات: استعاذ یہ عوذ سے بنا ہے , اس کا
معنى پناہ ہے, کہا جاتا ہے: اعوذ باللہ منک یعنی میں تم سے اللہ کی پناہ لیتا ہوں
, اسی سے عیاذ, معاذ و تعوذ , استعاذ وغیرہ ہے جس کا معنى پناہ لینا ہے۔استعاذ
بفلان من شرالناس یعنی لوگوں کے شر سے فلاں کی پناہ مانگی ۔
معروف:
عربی زبان میں مشہور, احسان, خیر و بھلائی , روزی
وغیرہ معانی میں مستعمل ہے , یہاں احسان مراد ہے ۔
کافئوہ:
یہ کافأ سے بنا ہے , اس کا ایک معنى بدلہ دینا ہے کہا جاتا ہے : کافاہ بصنعہ اس نے اس کے عمل کا
بدلہ دیا, دوسرامعنى نگرانی کرنا ہے ,
بولا جاتا ہے: کافأ کل تحرکاتہ یعنی اس کے ہر حرکت کی نگرانی کی, تیسرا معنی ہے دو
کاموں کے درمیان مقابلہ و موازنہ کرنا
کافأ بین العملین ای قابل بینہما ان کے درمیان مقابلہ کیا ۔ (المعجم الوسیط
و مصباح اللغات )
تشریح:بلا
شبہ ہمارا دین اسلام دین اخلاق ہے , اور
اس کی تمام تعلیمات بشمول اخلاقی تعلیمات بہت ہی
عمدہ, شاندار
, بہترین ,حسین اور بلند درجہ کی ہیں ۔در اصل آپ کی بعثت کا ایک مقصد عمدہ اور
اچھے اخلاق کی تکمیل تھی اور اس کا عملی اسوہ و نمونہ پیش کرنا تھا , اسی وجہ سے
آپ نے ہر اچھی عادت کی تاکید کی ہے اور اس
کو اپنانے پر ابھارا ہے اور ہر بری عادت سے منع کیا ہے اور اس سے دور رہنے کو کہا
ہے۔ اسی تعلق سے اس حدیث میں چار انتہائی بہترین خصلتوں و عمدہ عادتوں کا ذکر کیا گیا ہے :---
اللہ
کے نام پر مانگنے والے کو دو:یعنی
اگر کوئی اللہ کی رضامندی کے لیے تم سے
کچھ مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اللہ کے نام سے تم سے سوال کرتا ہوں , اور وہ اس کا ضرورت مند ہے تو اسے اللہ کی
تعظیم میں جس کے نام پر اس نے مانگا ہے
اپنی طاقت کے بقدر دے دو جو تمہارے
اوپر بوجھ نہ ہو یا اس کی حفاظت کرو ۔
لیکن
اگر کوئی حرام چیز کا سوال کر تا ہے مثلا
کہتا ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ کیا کرتے ہو مجھے بتاؤ ۔ تو اسے ہر گز مت بتاؤ بلکہ
اس کو ڈانٹ پلاؤ اور نصیحت کرو اور کہو کہ کہ یہ لا یعنی چیز ہے ۔ اسی طرح اگر
کوئی حرام چیز مانگتا ہے مثلا کہتا ہے کہ
مجھے اتنی رقم دے دو تاکہ میں سگریٹ خرید لوں تو ایسا ہرگز مت کرو کیونکہ سگریٹ
نوشی حرام ہے ۔ ایسے ہی کثرت مال کے لیے یا بطور لالچ مانگنے والے کو مت دو۔
خلاصہ
یہ ہے کہ اللہ کے نام پر سوال کرنے والے کو دو اگر وہ چیز حرام و ناجائز نہیں ہے
اور اس میں تمہارے لیے کوئی نقصان نہیں ہے ۔ کیونکہ حدیث میں ہے: لا ضرر و لا ضرار
(ابن ماجہ و احمد/صحیح) نہ خود کو نقصان پہنچاؤ اور نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ ۔ (موقع
اہل الحدیث و الاثر الشیخ ابن عثیمین شرح
کتاب التوحید )
اللہ
کی پناہ مانگنے والے کو پناہ دو:یعنی
اگر کوئی تم سے یہ کہتا ہے : اعوذ باللہ منک میں تم سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو
اس کو پناہ دو اور چھوڑ دو, یا اللہ کا نام لے کر یہ طلب کرتا ہے اور سوال کرتا ہے کہ اس کی
پریشانی و مصیبت , تکلیف و مشقت میں اس کی مدد کرو یا اللہ کی قسم تم پر لازم ہے
کہ تم مجھ سے اپنے شر و برائی اور غیر کے شر اور برائی کو دور کردو , یا فلان سے
مجھ کو بچالو اور میری حفاظت کرو تو اس کے لیے ہر قسم کی مدد و تعاون پیش کرو(
موسوعۃ الاحادیث النبویہ , موقع الدرر السنیہ شرح حدیث : من استعاذ ...)۔لیکن اگر
آپ کسی سے اپنا واجبی حق مانگتے ہیں اور
وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے تو ایسی صورت میں اس کو پناہ مت دو کیونکہ اللہ کی پناہ کسی عاصی و گنہ گار کے لیے
نہیں ہوتی ہے ۔
دعوت
والے کی دعوت کو قبول کرو: یعنی جو تمہیں ولیمہ ,
عقیقہ یا کھانے کی دعوت پر بلاتا ہے تو اس
کی دعوت قبول کرو۔بشرطیکہ اس میں تمہارے لیے کوئی نقصان نہیں ہے یا وہاں پر کوئی برائی نہیں ہے , اگر برائی ہے
اور تم اس کو بدل سکتے ہو تو اس کی دعوت قبول کرو اور اگر نہیں بدل سکتے تو مت
قبول کرو۔یا اگرکسی آدمی کے مال میں حرام
کمائی شامل ہے اور دعوت رد کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے تو مت قبول کرو۔
احسان
کا بدلہ دو : قولی یا فعلی احسان و بھلائی کرنے
والے کا بدلہ دو جو اس کے برابر ہو یا اس
سے زیادہ ہو جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے: {وَإِذَا
حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا إِنَّ
اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا} [النساء: 86]، ( موسوعۃ الاحادیث
النبویہ , موقع الدرر السنیہ شرح حدیث : من استعاذ ...)۔ ترجمہ: اور جب تم سے سلام
کیا جائے تو تم اس کا اس سے بہتر طریقہ سے جواب دو یا انہیں الفاظ کو لوٹا دو , یقینا اللہ تعالى
ہر چیز کا حساب لینے والا ہے ۔ مثال کے طور پر کسی نے آپ کے ساتھ صدقہ یا ہدیہ یا
عطیہ یا تعریف و اچھی بات وغیرہ سے
احسان کیا تو تم اس کا بدلہ دو ,
کسی نے آپ کی تعریف کسی مجلس میں تو تم بھی اس کی تعریف کسی دوسری مجلس میں کرو ,
کسی نے کوئی ہدیہ دیا تو تم بھی اس کو ہدیہ دو, کسی نے قرض دیا تو تم بھی اس کو
قرض دو , تمہارے لیے کسی خیر کا سبب بنا تو تم بھی اس کے لیے خیر کرو۔
اور
اگر مال سے احسان کا بدلہ چکانے
کی طاقت نہیں ہے کیونکہ اس کا احسان بہت
بھاری بھرکم ہے یا بطور عادت اس کو بدلہ نہیں دیا جاتا ہے مثلا: بادشاہ, حاکم و
رئیس وغیرہ یا اگر بدلہ دینے کو وہ احسان
کو لوٹانا سمجھتا ہے اور اس کو برا مانتا ہے یا ہر بار بدلہ دینے کی صورت میں اور زیادہ احسان
کرتا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ دیتا ہے تو اس
کا مطلب ہے کہ وہ بدلہ نہیں چاہتا ہے, تو ان
تمام صورتوں میں ان کے لیے خوب دعائیں کرو, بار بار دعائیں کرو کہ اللہ تعالى اس کو اس کے احسان کا بدلہ دے یہاں تک کہ تمہارا گمان غالب ہوجائے کہ تمہاری دعا اس کے حق میں
قبول ہوچکی ہے اور تم نے اس کا
حق پورا کردیا ہے اور اس کا بدلہ چکا دیا ہے
۔( موقع موسوعۃ الاحادیث النبویہ, شرح حدیث: من استعاذ باللہ ... (موقع اہل
الحدیث و الاثر الشیخ ابن عثیمین شرح کتاب
التوحید ))
بدلہ
دینے کے فوائد:
بدلہ
دینے کے دو اہم فوائد ہیں :----
پہلا
فائدہ :احسان و بھلائی کرنے والوں کو مزید
احسان و نیکی کرنے کی ترغیب دیناکیونکہ اگر
آپ احسان کرنے والے کو ایسا بدلہ دیں گے جو
اس کے مناسب ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی حوصلہ افزائی ہوگی، لیکن اگر اس نے
آپ کے ساتھ احسان کیا اور آپ کو مثلاً کوئی
ایسی چیز دی، جسے آپ نے حقیر سمجھ کر کہا۔ "اللہ تمہاری نیکیوں میں اضافہ نہ کرے ، یہ کیا کوئی تحفہ ہے، اس سے میری کیا مدد ہوگی "؟! اس
سے کیا ہو گا؟ کیا اسے اس کی حوصلہ افزائی
ہوگی اور وہ بعد میں بھی لوگوں کو دیتا
رہے گا ۔ یا کہے گا بس , جیسے پہلے نے کیا ویسے بعد والا کرے گا, لیکن اگر آپ اسے بدلہ
دیں گے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی حوصلہ
افزائی ہو گی۔
دوسرا فائدہ:جس شخص پر احسان کیا جاتا ہے تو اس
کے اندر ایک طرح سے ذلت کا احساس پیدا ہوتا ہے
تو یہ بدلہ اس احساس کو ختم کردیتا ہے
کیونکہ اگر کسی نے آپ کے ساتھ کسی بھی قسم کا احسان کیا ہے تو اس کی وجہ سے
آپ کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ پیدا ہوجاتا ہے , اور آپ اس کے لیے لازما نرم ہوجاتے ہیں, آپ اپنے سے اس کو بلند و برتر
خیال کرتے ہیں ۔ حدیث میں ہے: الید العلیا خیر
من الید السفلی یعنی اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔ بلا
شبہ اوپر والا ہاتھ دینے والے کا ہاتھ ہے ۔ اب اگر آپ اس کے احسان کا بدلہ دیتے
ہیں تو آپ میں موجود پستی و ذلت کا احساس
خود بخود دور ہوجائے گا ۔ یہ ایک بہت بڑا فائدہ ہے اس کے لیے جس کے ساتھ احسان کیا
جاتا ہے ۔ (موقع اہل الحدیث و الاثر الشیخ
ابن عثیمین شرح کتاب التوحید )
دھیان
رہے کہ مذکورہ بالا تمام امور کا تعلق قدرت اور طاقت سے ہے یعنی اگر ان
کو پورا کرنا و انجام دینا آپ کے بس میں
ہے تو کرنا ہے ورنہ نہیں , اور کسی گناہ پر کسی کا کوئی
تعاون قطعی نہیں کرنا ہے ۔
بلا
شبہ ان تعلیمات کو اگر دنیا کا ہر مسلمان اپنی زندگی میں اتار لے تو پوری دنیا
خصوصا مسلمان دنیا جنت کا نمونہ بن جائے گی۔ اور مسلمانوں کے اندر سے ہر شر و فساد
ختم ہوجائے گا۔ان کے درمیان عدل و انصاف ہوگا, محبت و الفت پروان چڑھے گی , ایک
مثالی سماج و معاشرہ وجود میں آئے گا اور
کسی کو کسی چیز کا غم و افسوس نہیں ہوگا۔ یہ تعلیمات اتنی شاندار, بہترین اور عمدہ
ہیں کہ ان کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہی
نہیں ہے۔
نبی
کریم کا طرز عمل:
جب ہم اس حدیث کی روشنی میں نبی کریم کے عمل کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم
ہوتا ہے کہ جس طرح آپ اسلام کے دیگر احکام پر عمل کرنے میں آگے تھے اسی طرح آپ ان
تعلیمات پر بھی مکمل طور سے عمل کرتے تھے ,احادیث میں آتا ہے کہ نبی کریم نے کبھی
بھی کسی سائل کو واپس نہیں کیا اور نہ کوئی کبھی خالی ہاتھ آپ کے گھر سے واپس گیا,
اسی طرح آپ پناہ مانگنے والے کو پناہ دیتے
تھے اور مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کی بھی دعوت قبول فرماتے تھے , اور جہاں تک سوال کسی کے احسان کے بدلہ دینے کا
ہے تو آپ نے ہمیشہ اس میں سبقت کی ہے اور لوگوں کے لیے ایک نمونہ پیش کیا ہے و
مثال قائم کی ہے ۔ اس قسم کے سیکڑوں واقعات حدیث و سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں
جن کو وہاں دیکھا جا سکتا ہے , اس مختصر تحریر میں ان کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے ۔
صرف احسان کا بدلہ دینے کے متعلق چند
واقعات کی طرف مختصرا اشارہ کیا جاتا ہے ۔
ہدیہ
دینا احسان ہے , آپ کا عمل ہدیہ دینے اور
لینے کا تھا لیکن آپ ہمیشہ بدلے میں زیادہ دیتے تھے ۔ایک روایت میں ہے: أن اعرابیا
اہدی لرسول اللہ بکرۃ فعوضہ منہا ست بکرات
....الخ کہ ایک اعرابی نے آپ کو ایک جوان
اونٹ ہدیہ میں دیا تو آپ نے اس کو اس کے بدلے میں چھ اونٹ دیا ...(صحیح
ترمذی/3945, علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے )
آپ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپ قرض دینے
والے کو بھی زیادہ دیتے تھے ۔صحیح مسلم کی روایت ہے: استسلف من رجل بکرا فجاءتہ أبل من ابل الصدقۃ .... کہ نبی کریم نے
ایک شخص سے چھوٹا اونٹ ادھار لیا , پھر جب آپ کے پاس صدقہ کے اونٹ آئے تو آپ نے
ابو رافع کو حکم دیا کہ آدمی کا اونٹ ادا
کردو۔ اس پر ابو رافع آپ کے پاس واپس آکر کہنے لگے کہ ان میں صرف رباعی بہترین
اونٹ ہیں , توآپ نے ان سے کہا : أعطہ ایاہ , ان خیار الناس احسنہم قضاء کہ وہی اس
کو دے دو کیونکہ بلا شبہ لوگوں میں وہ سب سے بہتر ہیں جو ادا کرنے میں بہتر ہیں ۔
اسی
طرح احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریم نے ایک بار تیس صاع قرض لیا اور بدلے میں ساٹھ
واپس کیا , اور ایک بار چالیس لے کر اسی واپس کیا۔(موقع الامام ابن باز, فتاوى
الجامع الکبیر, حکم قضاء الدین بزیادۃ دون اشتراط ذلک)
یاں
یہ وضاحت ضروری ہے کہ ہدیہ کے مثل یا اس
سے زیادہ واپس کرنا مستحب عمل ہے , اور ہدیہ دینے والے کو بدلہ کا نہیں بلکہ اللہ
سے ثواب کی امید رکھنی چائیے اور کسی کو بدلہ دینے پر مجبور نہیں کرنا چائیے ۔ ہاں
اگر کوئی اپنی خوشی سے ہدیہ کا بدلہ دیتا ہے تو یہ جائز ہی نہیں بلکہ یہ سنت نبوی
اور مستحسن عمل ہے۔جس کے پاس استطاعت ہو
اس کو ضرور اس پر عمل کرنا چائیے تاکہ احسان کرنے والے کی ہمت افزائی ہو اور اسے
احساس ہو کہ اس کی قدر کی جا رہی ہے ۔
اس
بابت نبی کریم کا طرز عمل جان لینے کے بعد اب آج کے مسلمانوں کا بھی جائزہ لیتے
ہیں ۔
دور
حاضر کے مسلمانوں کا جائزہ : موجودہ دور کے مسلمانوں کو اس حدیث کی روشنی
میں اپنا جائزہ لینا چائیےاور خود احتسابی
کرنی چائیے ۔موضوع کی طوالت کو دیکھتے ہوئے یہاں پر جائزہ صرف احسان کا بدلہ خصوصا زیادتی کے ساتھ قرض کی واپسی
اورہدیہ کے بدلہ تک محدود ہوگا۔
اگر
یہ کہا جائے کہ آج کا دور عموما احسان ماننے و تسلیم کرنے کے بجائے احسان
فراموشی کا ہے, بدلہ دینے کے بجائے بدلہ بھلانے کا ہے , دعا دینے کے بجائے بد دعا
کرنے کا ہے تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں
ہوگا ۔ آج کے اس دور میں کم ہی مسلمان ہیں
جو اس پر عمل پیرا ہیں, ایسے افراد کی تعداد نایاب تو نہیں لیکن کم یاب ضرور ہے , آج تو احسان کرنے والے کو لوگ بھول جاتے
ہیں , بدلہ دینے کی طاقت ہے تو بھی اس کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں ,
دعا دینے کو کون کہے الٹے دشمنی پر
اتر آتے ہیں , اور ایک بڑی تعداد احسان
کرنے والے کو پریشان کرتی ہے , یہ سماج و معاشرہ کا مزاج بن چکا ہے ۔
مثال
کے طور پر قرض کو لیجیے, ضرورت کے وقت کسی کو قرض دینا بہت بڑا احسان کا کام
ہے لیکن آج تو
حالت یہ ہے کہ قرض دے کر احسان کرنے والا
زیادہ کی بات تو دور ہے خود اپنی اصل رقم
واپس پانے کے لیے پریشان رہتا ہے, بارہا
مطالبہ کے باوجود بہت سارے مقروض قرض واپس
نہیں کرتے ہیں کیونکہ اس کو نہ اللہ کا
خوف ہوتا ہے اور نہ قرض واپسی کی فکر و غم , حالت یہ ہوجاتی ہے کہ مطالبہ کرنے
والا تھک ہار کر اپنا قرض ہی بھول جاتا ہے اور مطالبہ کرنا بند کردیتا ہے, ایسا
بہتوں کے ساتھ ہوا ہے اور ہورہا ہے اور یہ میرا خود کا ذاتی تجربہ بھی ہے ,مجھ
سے بھی کئی لوگوں نے واپسی کے وعدہ کے ساتھ قرض لیا اور کئی سال بیت گئے لیکن لوگ واپس نہیں کر رہے ہیں اور اب میں مطالبہ بھی نہیں کر رہا ہوں ۔ میں
نے کئی لوگوں سے کہا کہ آپ ماہانہ تھوڑا تھوڑا واپس کر دیجیے پھر بھی کوئی اثر
نہیں ہوا۔ انا لللہ و انا الیہ راجعون
بہت
سارے لوگ کتابوں کو واپس نہ کرنا اور وعدہ
کرکے اس کو پورا نہ کرنا کمال سمجھتے ہیں۔صرف قرض ہی نہیں بلکہ اگر آپ کسی کا
مالی نقد یا غذائی مدد و تعاون کرتے ہیں
تو وہ بھی آپ کو خاطر میں نہیں لاتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ آپ نے چند روپلی سے مدد
کردی تو کیا اجاگر کردیا ۔لوگ بسا اوقات
اپنی مصلحتوں و مفادات کے پیش نظر
احسان کرنے والے کو قتل بھی کرادیتے ہیں ۔باپ سے بڑا محسن کون ہوگا اس دنیا
میں لیکن کتنے والدین اپنے شیطان بچوں کے ذریعے ماضی میں موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔
یہ
احسان فراموشی صرف غیروں تک محدود نہیں ہے بلکہ اپنوں و رشتہ داروں کے ساتھ بھی
ہوتا ہے ۔ کتنے ملازمین و مزدور جو کسی کمپنی,
ادارہ, کارخانہ اور فیکٹری وغیرہ کو پروان چڑھانے میں اپنا خون پسینہ سب
بہادیتے ہیں, شب و روز محنت کرتے ہیں لیکن ایک دن انہیں کو کمپنی, کارخانہ ,
فیکٹری وغیرہ سے بنا کسی سبب کے نکال باہر
کیا جاتا ہے ۔ کتنے بھائی جو بسااوقات والدین کی وفات یا ان کی کم آمدنی کی وجہ سے
اپنی پوری کمائی گھر, بھائی بہنوں کی تعلیم و تربیت و شادی پر خرچ کر دیتے ہیں ,
اپنی پوری جوانی ملک سے باہر بنا فیملی و بچوں کے گذار دیتے ہیں , بہت ساری فیملیز
ان کی کمائی پر عیش و عشرت کرتے ہیں لیکن بعد میں جب وہ کمائی کے لائق نہیں ہوتے
ہیں یا ان کی ملازمت ختم ہوجاتی ہے تو ان کے گھر والےان کی مدد کرنے سے اپنا ہاتھ
کھینچ لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات اسی کی کمائی و مال سے تعمیر کردہ گھر سے اس کو
باہر کردیتے ہیں اور اس کی ساری پراپڑٹی پر قبضہ جما لیتے ہیں ۔ اس قسم کے ایک دو
واقعات نہیں ہیں بلکہ بہت سارے واقعات ہیں
جو سوشل میڈیا پر گاہے بگاہے نظر آتے
رہتے ہیں ۔
یہ
ہمارے سماج کی کڑوی حقیقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔اللہ تعالى ہم سب
کو اس شر و برائی سے محفوظ رکھے اور تمام اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔
0 التعليقات: