علم
وفضل میں تفاوت و فرق
آیت:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا
يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ ۖ
وَإِذَا قِيلَ انشُزُوا فَانشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ
أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ
وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (مجادلہ/11)
ترجمہ:
اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے کہ اپنی
مجلسوں میں ذرا کشادگی پیدا کرو تو جگہ کشادہ کردیا کرو, اللہ تمہیں کشادگی دے
گا ۔اور جب تم سے کہا جائے اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو ۔ اللہ تم میں سے ایمان لانے
والو اور اہل علم کے درجات کو بلند فرمائے گا ۔ اور اللہ کو تمھارے ہر عمل کی خبر
ہے ۔
تفسیر:
اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالى نے
مسلمانوں کے لیے مجلس کے آداب بتلائے ہیں اور پھر یہ ذکر کیا ہے کہ جو اہل
ایمان و اہل علم ہیں ان کو بلند درجہ دے گا ۔ مجھے یہاں پر آداب
مجالس سے بحث نہیں کرنی ہے میں یہاں صرف
آیت کے دوسرے جزء میں مذکور اہل علم کے بلندی درجات پر کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔
اس
آیت میں علم سے مراد علم شرعی و دینی مثل قرآن و سنت
اور اس کے معاون علوم ہیں ۔ اور
اللہ نے درجات کو مطلق و نکرہ رکھا ہے یعنی یہ عام ہے اور بنا کسی قید کے ہے ۔اور
ایسا اس لیے ہے کیونکہ درجات کی بلندی اس کے علم و ایمان کے مطابق ہوگا ۔جس کا علم و ایمان جتنا زیادہ بڑا, وسیع
اور گہرا ہوگا ۔جس قدر وہ علم کو نشر کرے
گا اور لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں گے اور
جتنی علمی وسعت و گہرائی اس کے اندر پائی جائے گی اتنا ہی اس کا رتبہ و مقام بلند
و بالا ہوگا۔ ان کو بلند درجہ آخرت و دنیا دونوں میں دیا جائے گا کیونکہ بدلہ جنس عمل سے ہوتا ہے ۔
اس
آیت میں اللہ تعالى نے ایمان کو بروئے کار لانے اور حصول علم پر ابھارا ہے کیونکہ
وہ عالم کو بلندی عطا فرماتا ہے ۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے:
العلم
یرفع بیتا لا عماد لہ و
الجھل یہدم بیت العز و الشرف
ترجمہ:
علم بنا ستون کے گھر کو بلندی عطا کرتا
ہے جب کہ جہالت عزت و شرف کے گھر کو برباد
کرتا ہے ۔
لہذا
علم کو لازم پکڑو۔ کسی نے کہا ہے : جو دنیا چاہتا ہے اس کے لیے علم ضروری ہے اور
جو آخرت کا طالب ہے اس کے لیے بھی علم
ضروری ہے اور جس کا دنیا و آخرت
دونوں کا ارادہ ہے اس پر بھی حصول علم فرض
ہے ۔ (ابن عثیمین: کتاب لقاء الباب المفتوح,
مکتبہ شاملہ) تفسیر سعدی میں بھی یہی تحریر ہے کہ اللہ تعالى ہر ایک کا درجہ اس کو اپنی جانب
سے عطا کردہ ایمان و علم کے اعتبار سے بلند کرے گا ۔
اور اس سے بلاشبہ ایمان و علم کی اہمیت و فضیلت کا پتہ چلتا ہے
کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ وہ اہل ایمان کو کافر پر اور مسلمانوں میں سے علم والے کو غیر اہل علم
پربلند درجہ عطا فرمائے گا۔ جس کا واضح و صاف مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ علوم دین
سے واقفیت مزید رفع درجات کا باعث ہے ۔(تفسیر احسن البیان) اور ایک دوسری آیت میں صاف
طور سے ذکر ہے کہ ہر ذو علم سے اوپر کوئی دوسرا عالم ہوتا ہے (یوسف/76) مطلب بالکل واضح ہے کہ علماء کے علم میں تفاوت و فرق ہوتا ہے ۔کوئی بڑا عالم
ہوتا ہے کوئی چھوٹا۔ کسی کا علم بہت زیادہ ہوتا ہے کسی کا کم۔
مذکورہ
بالا عبارات سے واضح ہے کہ اشخاص کے ایمان
و علم میں تفاوت و فرق ہوتا ہے اور اسی اعتبار سے اللہ عز و جل ہر ایک کو بلند
درجہ عطا فرماتا ہے ۔ اور یہ دنیا و آخرت دونوں کے لیے ہے ۔ اور یہ ایک مشاہد و
حسی چیز ہے جس کا مشاہدہ ہم اسی دنیا میں کرتے ہیں کہ کس طرح لوگ اس دنیا میں
ایمان و علم میں الگ الگ ہوتے ہیں ۔ ہر
ایک ایمان و علم میں دوسرے سے جدا ہوتا ہے
۔کسی کا ایمان و علم بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ وہ اس کے بلند مقامات پر فائز ہوتے ہیں ۔
کسی کا علم و ایمان کم اور بہت کم ہوتا ہے ۔ وہ اس کے کم تر درجہ پر فائز ہوتے
ہیں۔ اور سماج میں جو مرتبہ و مقام بڑے
ربانی علماء کا ہوتا ہے ان کا سماج میں وہ
مقام و مرتبہ نہیں ہوتا ہے ۔ لوگ بڑے ربانی علماء کی بہت زیادہ قدر کرتے ہیں ۔ ان کے ساتھ کافی احترام و عزت سے پیش آتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کا معاملہ بہت اچھا ہوتا ہے ۔ ان کو سماج میں
مقبولیت حاصل ہوتی ہے ۔ان کی تشریف آوری پر دور ہی سے ان کا استقبال ہوتا ہے , ان کا ذکر خیر ہوتا ہے وغیرہ ۔اس کے برعکس کم ایمان و علم والے کو اتنا بلند
و بالا مقام حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ سماج میں اتنی مقبولیت ہوتی ہے ۔اور ان کے قدر و منزلت میں بھی کمی ہوتی ہے ۔ یہ
دنیا کی حالت ہے اور ہم سب اس فرق کو یہاں پر ملاحظہ کرتے ہیں اور قیامت کے دن بھی
فرق ہوگا جو ہم وہاں مشاہدہ کریں گے ۔ اور
یہ سب نتیجہ ہوگا صرف اور صرف ایمان و علم
اور اس میں کمی و بیشی کا ۔
آخر
میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو عالم باعمل بنائے اور ہمارے علم و ایمان
میں اضافہ فرمائے ۔ آمین
0 التعليقات: