مجالس ذکر میں حاضری کے فوائد
حدیث: عن أبی
ہریرۃ قال: قال رسول اللہ : ما جلس قوم مجلسا یذکرون اللہ الا حفت بہم الملائکۃ و غشیتہم الرحمۃ و ذکرہم اللہ فیمن عندہ (مسلم) و فی روایۃ: و نزلت علیہم السکینۃ
ترجمہ: حضرت ابو
ہریرہ کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی قوم کسی مجلس میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور رحمت ان کو
ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالى ان کا ذکر اپنے پاس والوں یعنی فرشتوں میں کرتا ہے ۔اور ایک روایت میں ہے کہ ان کے
اوپر سکون نازل ہوتا ہے ۔
یہ حدیث صحیح
ابن حبان , ابن ماجہ و مسند احمد
وغیرہ مختلف کتب احادیث میں کئی راویوں سے
معمولی الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مروی ہے ۔
معانی الفاظ:
حفت : گھیر لیا ,
بولا جاتا ہے: حف القوم الرجل و بہ و حولہ: گھیرنا, احاطہ کرلینا, حفتہ الحاجۃ: ضرورت لاحق ہونا , حفت الشجرۃ و
الحیۃ : سرسراہٹ ہونا ۔ بہت سارے معانی ہیں یہاں مراد گھیرنا ہے ۔
غشیتہم : ان کو ڈھانپ لیتی ہے ۔ غشاء کا معنى غطاء
ہے یعنی جس طرح ڈھکن ہرطرف سے کسی چیز کو
ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے ۔(المعجم الوسیط و مصباح اللغات)
شرح: اوپر مذکور حدیث میں مجالس ذکر میں حاضری کے تین
اہم فوائد کو بیان کیا گیا ہے ۔ اور مجلس
میں مساجد و اس کے علاوہ مدرسہ , رباط,
عیدگاہ و میدان وغیرہ کی مجلسیں سب
شامل ہیں لیکن بلا شبہ مساجد کی مجالس افضل و اشرف ہوتی ہیں ۔ اسی وجہ
سے ایک دوسری روایت میں ہے : ما اجتمع قوم فی بیت من بیوت اللہ , یتلون کتاب
اللہ و یتدارسونہ بینہم ....الخ(مسلم) جب بھی
کوئی قوم اللہ کے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے اکٹھا ہوتی ہے اور آپس
میں اس کا مطالعہ کرتی ہے تو ان کے اوپر سکون و اطمینان نازل ہوتا ہے ۔ لیکن مجلس
ذکر ضروری نہیں ہے کہ صرف مسجد میں ہو۔ ہاں اگر مسجد میں ہو تو افضل ہے لہذا یہ ہر
مجلس کو شامل ہے ۔
ذکر سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد صرف مشہور معروف ذکر : تسبیح, تحمید, تکبیر, حوقلہ
اور تلاوت قرآن اور اس کے مشابہ چیزیں ہیں یا اس میں مجالس علم بھی داخل ہیں جن
میں سیکھا اور سکھایا جاتا یا مطالعہ و
مذاکرہ کیا جاتا ہے ۔
علماء کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے ۔ بعض کا کہنا ہے
کہ اس روایت میں ذکر سے مراد مشہور ذکر کی مجالس ہیں اور ان کی دلیل بخاری و
مسلم میں وارد حضرت ابو ہریرہ کی طویل روایت ہے جس میں مذکور ہے : ان للہ
ملائکۃ سیارۃ , یطوفون فی الطرق یلتمسون
اہل الذکر....الخ کہ اللہ کی زمین میں اہل ذکر کو تلاش کرتے ہوئے گشت لگانے والے فرشتے ہیں ۔ لہذا جب یہ کسی کو
ذکر کرتے ہوئے پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ آؤ اپنی حاجت
کی طرف, پھر وہ ان کو اپنے پروں سے دنیاوی آسمان تک گھیر لیتے ہیں ۔ پھر اللہ
تعالى ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حالت میں پایا؟ تو وہ جواب دیتے
ہیں : کہ وہ تیری تسبیح, تحمید, تمجید اور تکبیر کا ورد کر رہے تھے ......الخ ۔ان
علماء کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں تسبیح, تحمید اور تکبیر کا ذکر بطور نص ہے ۔ اور
اسی قول کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری
میں راجح قرار دیا ہے ۔
دوسرا قول یہ ہے
کہ مجالس ذکر میں مجالس علم بھی شامل ہیں
کیونکہ اللہ تعالى نے خطبہ جمعہ کو سورہ جمعہ, آیت نمبر 9/ میں ذکر اللہ سے تعبیر کیا ہے ۔فرمان باری تعالى ہے
: کہ اے ایمان والوجب جمعہ کے دن نماز کے لیے ندا دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف
دوڑو۔ اور اللہ کا ذکر خطبہ جمعہ اور نماز ہے ۔
معلوم ہوا کہ درس و تدریس, تعلیم و تعلم , سیکھنے و
سکھلانے کی مجالس بھی مجالس ذکر میں داخل
ہیں ۔ اور اس قول کو شیخ محمد بن عثیمین نے راجح قرار دیا ہے کیونکہ آیت کی دلالت
واضح اور ظاہر ہے ۔( https://sharh-alhadith.com)
اس سے مجالس علم کے عظیم شرف اور بڑے فضل کا علم ہوتا ہے ۔ اور اگر کسی مسلمان کو ان مجالس میں حاضری سے صرف حدیث میں
مذکور فوائد ہی حاصل ہوتے ہیں تو وہی بہت
کافی ہے ۔ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں , رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے, ان کے اوپر سکون
و اطمینان نازل ہوتا ہے , اللہ ان کا ذکر اپنے پاس والوں یعنی فرشتوں میں کرتا ہے اور فرماتا ہے: میں تم سب کو گواہ
بناتا ہوں کہ میں نے تم کو بخش دیا ہے ۔
یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ یہ فوائد صرف اسی کو حاصل
ہوں گے جو مجالس ذکر میں حاضر ہوگا ۔لہذا ایک طالب علم کو اس کا حریص ہونا چائیے ۔
سوشل میڈیا کے ذریعہ صرف سننے اور
دیکھنے پر اکتفا نہیں کرنا چائیے مگر جو معذور ہو ۔ کیونکہ صرف اپنی حاضری سے وہ
یہ عظیم فضل حاصل کرے گا لہذا اگر وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہا تو وہ اس میں داخل
نہیں ہوگا ۔ ہاں اس کو تعلیم و تعلم کا اجر و ثواب ضرور حاصل ہوگا اور وہ فائدہ
بھی اٹھائے گا ۔ لیکن حدیث میں مذکورہ شرف و فضیلت اس کو حاصل نہیں ہوگا۔
ایک مسلمان کو مجلس ذکر میں اتنا سکون و اطمینان ملتا ہے
جو اس کے علاوہ میں نہیں ملتا ہے ۔ اللہ ان کا ذکر اپنے پاس والوں میں کرتا ہے اور
ان کو گواہ بنا کے کہتا ہے کہ میں نے ان کو بخش دیا ۔
کیا ان سب کے بعد بھی کوئی مسلمان اس طرح کی مجالس میں
حاضری دینے سے بے رغبت ہوگا اور اس میں شریک نہیں ہوگا ۔ یقینا یہ بہت بڑا
شرف ہے اور اس میں بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔ اور صاحب توفیق وہی ہے جس کو اللہ تعالى
توفیق دے ۔اسی لیے ایک مسلمان کو اس قسم کی مجالس و دروس میں
حاضری پر صبر کرنا چائیے ۔
کیا فرشتے ذاکرین کو ان کے اکرام و تکریم میں یا ذکر میں رغبت کی وجہ سے اور اس میں شریک ہونے کے
لیے ان کو گھیر لیتے ہیں۔ اس کا جواب ہے کہ اس کی وجہ دونوں ہے ۔ یعنی فرشتے ان کی تکریم اور ذکر کی رغبت و
مشارکت کے لیے ان کو گھیر لیتے ہیں ۔۔( https://sharh-alhadith.com)
غشیتہم الرحمۃ یعنی ان کو رحمت ہر طرف سے گھیر لیتی ہے ۔
غشاء کا معنى غطاء ہے جیسا کہ اوپر ذکر
کیا گیا ۔پوری کی پوری فضا رحمت سے ڈھک جاتی ہے ۔
نزلت علیہم السکینۃ: بعض کا کہنا ہے کہ سکون سے مراد
رحمت ہے اور یہ قاضی عیاض کا قول ہے ۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ سکون رحمت کے علاوہ
چیز ہے جس کو اللہ دل میں ڈال دیتا ہے جس سے انسان کو اطمینان, سکون, استقرار حاصل
ہوتا ہے اور وہ اضطراب, بے چینی و پریشانی , اور شک و شبہ سے محفوظ رہتا ہے ۔ اور
یہی قول راجح ہے کیونکہ اللہ عز وجل کا فرمان ہے: ہو الذی انزل السکینۃ فی قلوب
المؤمنین(فتح/4) , اس آیت میں سکینہ سے
مراد سکون و اطمینان ہی ہے , رحمت
نہیں ہے ۔
اور اللہ تعالى ذاکرین کا ذکر اپنے پاس
موجود فرشتوں میں کرتا ہے ۔اس کی کیفیت کیا ہے اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے
لیکن وہ ان کا ذکر تعریف و مدح کے طور پر کرتا ہے ۔ اور اس مجلس میں حاضر تمام
لوگوں کو بخش دیتا ہےاگر چہ وہ ان میں سے
نہیں ہے ۔ یعنی وہ کوئی عام آدمی ہے , طالب علم نہیں ہے , صرف ان کے ساتھ مجلس کی
برکت و فضیلت حاصل کرنے کے لیے بیٹھ گیا
ہے , وہ ان کی بہت ساری باتوں کو سمجھتا بھی نہیں ہے۔ وہ بھی اس مغفرت و فضائل کا
حقدار ہے اور اس میں شامل ہے ۔
لیکن یہ کس
قدر افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے اوقات کو
فضول و بیکار مثلا گپ شپ, چائے نوشی, اخبار بینی, فلم بینی وغیرہ کے کاموں میں ضائع کردیتی ہے لیکن اسے مجالس
ذکر میں حاضری کی توفیق نہیں ہوتی ہے ۔
فوائد :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجلس ذکر میں حاضری کے تین
فوائد ہیں اور دوسری روایات میں دو فوائد
کا مزید تذکرہ ہے یعنی کل مندرجہ ذیل پانچ
فوائد ہیں :
1-
فرشتے ذاکرین کو بوقت ذکر گھیر لیتے ہیں۔
2-
اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے ۔
3-
اللہ ان کا ذکر اپنے پاس موجود فرشتوں میں کرتا ہے ۔
4-
اللہ ان کے دلوں میں سکون و اطمینان بھر دیتا ہے ۔
5-
اللہ تعالى ان کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابو
ہریرہ کی اوپر مذکور بخاری و مسلم کی
روایت میں ہے ۔
یہ
کل پانچ فوائد ہیں , اگر مجالس ذکر میں حاضر ہونے سے ان میں سے کوئی ایک فائدہ مل
جائے تب بھی یہ ایک مسلمان کے لیے بہت بڑا
سبب و محرک ہے کہ وہ ان میں حاضری کا حریص ہو , اور اگر سب حاصل ہوجائیں تو نور
على نور اور سونے پر سہاگہ ہے ۔( https://sharh-alhadith.com)
آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو مجالس ذکر کی دینی و شرعی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے , اس میں حاضری دینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
0 التعليقات: