علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے

 

          علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے

حدیث:  عن عبد اللہ بن مسعود قال: قال رسول اللہ : لا تزولُ قدَما العبدِ يومَ القيامةِ حتَّى يُسألَ عن أربعٍ: عن عمرِه فيما أفناهُ  , وعن شبابهِ فيما أبلاهُ  , وعن مالهِ من أين اكتسبَهُ وفيما أنفقَهُ وعن علمهِ ما عمِلَ به.

  یہ روایت  ترمذی, طبرانی, بیہقی , بزار و ابو یعلى  وغیرہ میں  بہت معمولی اختلاف کے ساتھ آئی ہے ۔ اس کے مختلف اسناد ہیں ۔ منذری نے ترغیب و ترہیب میں, ,  ہیتمی مکی نے الزواجر عن اقتراف الکبائر میں  اور علامہ البانی نے  صحیح الجامع میں اس کو  متابعت کی وجہ سے حسن قرار دیا ہے۔ اور علامہ البانی نے ہی   ہدایۃ الرواۃ میں اس پر صحیح لغیرہ   کا حکم لگیا ہے ۔عبد اللہ بن مسعود کے علاوہ  کچھ دوسرے راویوں سے بھی یہ حدیث مروی ہے ۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:  قیامت کے دن  بندہ کا پاؤں اپنی جگہ سے نہیں ہٹے گا  یہاں تک کہ اس سے چار چیزوں کا سوال کر لیا جائے 1- اس نے اپنی زندگی کہاں  فنا کی۔2- اپنی جوانی کہاں کھپائی  3- اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا 4- اور اپنی علم کے مطابق کتنا عمل کیا ۔

شرح: اس حدیث سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ ہر شخص سے قیامت کے دن  چار سوالات کیے جائیں گے ۔ اور جب تک یہ سوالات کر لیے نہیں جائیں گے  اس وقت تک کوئی بھی بندہ  میدان محشر میں اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکے گا ۔ ان میں سے ایک سوال علم کے مطابق عمل کرنا ہے ۔ معلوم ہوا کہ پہلے علم لینا پھر اس کے مطابق عمل کرنا دونوں فرض ہے کیونکہ علم کے بغیر عمل کا تصور بھی محال ہے ۔  آج کی میری گفتگو اسی نقطہ پر ہے ۔

برادران اسلام : ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام دین علم  و تعلیم ہے ۔ دین و علم  میں اسلام میں کوئی تعارض و تضاد نہیں ہے اور اسلام علم کا مخالف نہیں ہے بلکہ وہ ہر قسم کے نفع بخش علوم کا حامی ہے اور اس کے حصول کا حکم دیتا ہے ۔ اسی وجہ سے اسلام نے ہر مسلمان پر ضروری علم شرعی کا حاصل کرنا فرض کیا ہے ۔ بنا بریں قیامت کے دن  اس سے سوال ہوگا کہ کیا تم نے فرض علم شرعی کو حاصل کیا تھا؟ اور اگر حاصل کیا تھا تو اس کے مطابق عمل کیا تھا ؟ اب اگر اس کا جواب مثبت ہوتا ہے تو وہ خوش نصیب ہوگا اور نجات پاجائے گا ۔ لیکن اگر کوئی علم تو حاصل کر لیتا ہے لیکن عمل نہیں کرتا ہے یا عمل میں کوتاہ ہے  تو وہ ناکام و نامراد ہوگا اور تباہ و برباد ہوگا۔ اور یہی معاملہ اس کا بھی ہوگا جو ضروری علم حاصل نہیں کرتا ہے ۔ وہ بھی ہلاک و برباد ہوگا۔ کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ سخت تباہی و بربادی ہے اس کے لیے جو علم نہیں رکھتا ہے  اور اس کے لیے بھی جو علم رکھتا ہے لیکن اس کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے ۔

 اسلام میں جہاں ایک طرف علم حاصل کرنا ضروری ہے  وہیں دوسری طرف اس کے مطابق عمل کرنا بھی فرض ہے ۔ کیونکہ عمل کرنا ہی علم کا نتیجہ و فائدہ ہے ۔ اس کا مقصود و ٹارگٹ ہے ۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے  عالم بے عمل کواس  گدھا سے تشبیہ دی ہے  جس کے پشت پر کتابوں کا انبارلگا دیا گیا ہو لیکن وہ اس سے کچھ نہیں سمجھتا ہے (جمعہ/5) ۔ اسی طرح دوسرے کو عمل کی دعوت دینے کے لیے مستحسن ہے کہ آدمی خود بھی عمل کرے کیونکہ بغیر عمل کے دعوت دینا اللہ کو سخت ناپسندیدہ ہے ۔ (بقرہ/44 و سورہ صف 2-3) اور پھر ہمارے اسلاف کا شیوہ تھا کہ وہ علم کے ساتھ عمل بھی کرتے تھے ۔ اور صحابہ کرام نبی کریم سے اسی لیے سوال کرتے تھے تاکہ وہ اس کے مطابق عمل کریں ۔ صرف علم کے لیے ان کا سوال نہیں ہوتا تھا۔ مثلا عبد اللہ بن مسعود نے آپ سے سوال کیا: کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ ( بخاری و مسلم)اسی طرح نبی کریم کے غلام ثوبان نے آپ سے سوال کیا کہ مجھے ایسے عمل کے بارے میں بتلائیے جس پر عمل کرکے میں جنت کا حقدار ہوجاؤں ؟ (مسلم)  یہ دونوں احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ صحابہ کرام کا سوال صرف علم کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتا تھا۔اور ہمارے نبی نے ان لوگوں کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے جو علم کے باوجود عمل نہیں کریں گے اور امت کو گمراہ کریں گے ۔ عمل نہ کرنا یہ گمراہی کا سبب بنتا ہے خصوصا علماء کا عمل نہ کرنا عوام کے لیے  حجت و دلیل فراہم کرتا ہے ۔خود مجھ سے  کئی لوگوں نے اس طرح کی شکایت کی ہے تو میں نے ان کو یہی جواب دیا ہے کہ علماء آپ کے لیے دلیل نہیں ہیں ۔ صرف قرآن و حدیث آپ کے لیے دلیل ہے ۔

ہم کو معلوم ہونا چائیے کہ علم و عمل کا آپس میں وہی تعلق ہے جو جسم اور روح کا ہے ۔ جس طرح جسم کے بغیر روح و روح کے بغیر جسم  میں بگاڑ و خلل واقع ہوجاتا ہے اسی طرح علم بغیر عمل کے یا عمل بغیر علم کے خراب ہوجاتا ہے ۔ علم بغیر عمل کے قیامت کے دن ہمارے لیے رحمت کے بجائے زحمت اور ثواب کے بجائے عذاب کا سبب ہوگا ۔ ہمارے اسلاف اس چیز سے بخوبی واقف تھے لہذا وہ ہمیشہ عمل کے درپے رہتے تھے اور وہ ہمارے لیے بہترین اسلاف ہیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ علم حاصل کرنا اور پھر عمل کرنا دونوں اسلام میں ضروری ہے اور قیامت کے دن نجات و کامیابی کے لیے دونوں کا پایا جانا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر کامیابی و فلاح مشکل ہے ۔

عصر حاضر کے مسلمانوں کی حالت: آج کے مسلمانوں کے بارے میں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت دین اسلام کی ضروری تعلیمات سے نا واقف ہے ۔ اور ان کو دینی تعلیم حاصل کرنے کی کوئی فکر و رغبت بھی نہیں ہے اور ساتھ ہی بے عملی میں  تو بہت آگے ہے ۔ اس کی بابت جو کچھ بھی لکھا جائے کم ہے ۔ اس کو بیان کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ ہر دانا بینا شخص خود ہی اس کا مشاہدہ کر رہا ہے اور دیکھ رہا ہے ۔ دور حاضر کے مسلمانوں کی سب سے بڑی مصیبت, پریشانی , آفت و خرابی ان کی بے عملی و بد عملی ہی ہے ۔

اللہ تعالی ہم سب کو ضروری اسلامی تعلیم کو حاصل کرنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: