مومنوں سے اللہ سبحانہ وتعالى کے مشروط وعدے
آیت: يَا
أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ
أَقْدَامَكُمْ(محمد/7)
ترجمہ:
اے ایمان والو: اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت
قدمی عطا کرے گا۔
تفسیر:مذکورہ
بالا آیت میں اللہ عزوجل نے اہل ایمان سے ایک مشروط وعدہ کیا ہے اور ایک شرط کے ساتھ ایک عظیم خوشخبری دی ہے , وہ یہ ہے کہ اگر تم
اللہ کی مد دکروگے تو وہ تمھاری مدد کرے گا کیونکہ بدلہ عمل کے جنس سے ہوتا ہے ۔
ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے , اس
کو کسی کے مدد کی ضرورت نہیں ہے , تو پھر اللہ کی مدد کا کیا مطلب ہے اور اس کو یہ مدد کیوں چائیے
؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی مدد سے
مراد اس کے دین کی مدد ہے , مطلب ہے کہ اگر اخلاص کے ساتھ اس کے دین کی مدد کرو گے بایں طور
کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو گے , اس
کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروگے , اس کے احکام پر عمل کروگے اور منہیات سے پرہیز کرو
گے تو اللہ تمہاری دشمنوں کے خلاف مدد کرے گا , اور قتال وجنگ میں تمہیں ثابت قدمی
عطا فرمائے گا۔ (تفسیر میسر) اس کو ہم دوسرے الفاظ میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اگر
تم دین کے مطابق عمل کرو گے تو تم اس کی مدد کے حقدار ہوگے ورنہ نہیں ۔
اور اس کو یہ
مدد اس لیے درکار ہے کیونکہ وہ
اپنی ربانی سنت و اسباب کے مطابق اپنے دین
کی مدد اپنے مومن بندوں کے ذریعہ ہی کرتا ہے , یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت
اور اس کی دعوت و تبلیغ مخلص ہو کر کرتے ہیں تو اللہ تعالى ان کی مدد
فرماتا ہے یعنی انہیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا کرتا ہے , جیسے صحابہ کرام اور
ابتدائی صدیوں کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے , وہ دین کے ہوگئے تھے تو اللہ بھی ان
کا ہوگیا تھا , انہوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انہیں بھی دنیا پر غالب فرما
دیا , جیسے دوسرے مقام پر فرمایا: و لینصرن اللہ من ینصرہ (حج/40) یعنی اللہ اس کی ضرور با ضرور مدد فرماتا ہے جو اس
کی مدد کرتا ہے۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ
ثابت قدمی سے مراد اسلام یا پل صراط پر ثابت قدم رکھنا ہے ۔(تفسیر احسن البیان)
معلوم
ہوا کہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اس آیت میں اہل ایمان سے جو وعدہ کیا ہے وہ دین پر
عمل و اس کے نفاذ کے ساتھ مشروط ہے , اس کا
واضح مطلب ہے کہ اگر شرط پایا جاتا ہے تو مشرو ط بھی پایا جائے گا ورنہ
نہیں ۔اور یہ شرط صرف اسی وعدہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ اللہ تعالى نے جتنے بھی وعدے مؤمنوں و مسلمانوں سے کیے ہیں وہ سب ایمان کے
ساتھ ایک دیگر شرط عمل سے بھی مشروط ہیں ۔کوئی بھی وعدہ قرآن و حدیث میں ایسا نہیں ہے جو عمل سے مربوط
نہ ہو اور اس کے بغیر پورا ہو ۔ یہی وجہ ہے اور ہم سب مسلمان خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے نبی ہر چیز پر عمل کرتے تھے ۔ صحابہ کرام اور ہمارے اسلاف باعمل تھے ۔ تبھی ان سب کو دنیا میں
کامیابی و کامرانی ملی اور ان کو سربلندی و سرفرازی نصیب ہوئی ۔ لیکن
جب مسلمان اپنے دور زوال میں آہستہ آہستہ بے عمل و بد عمل ہوتے گئے جیسا کہ آج کے مسلمانوں کی اکثریت بے عملى و بد عملی کا شکار ہے تو پھر ان سے دنیا کی قیادت و سیادت چھین لی
گئی اور ان پر ذلت و رسوائی مقدر کردی گئی ۔
اب اگر اس امت کا خیال
ہے کہ اسے عمل کے بغیر ہی کامیابی مل جائے گی ۔اسی وجہ سے مسلمان عمل نہیں
کرتے ہیں ۔ تو یہ ایک خواب و خیال ہے جو
کبھی حقیقت میں بدلنے والا نہیں ہے۔اسلام پر
عمل کے بغیر ہمارا بیڑا پار ہونے
والا نہیں ہے خواہ ہم کچھ بھی کر لیں ۔ بقول حضرت عمر بن خطاب: نحن قوم اعزنا اللہ
بالاسلام و مہما ابتغینا العزۃ بدونہ اذلنا اللہ یعنی ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کو
اللہ نے اسلام کے ذریعہ عزت بخشی ہے اور اس کے بغیر ہم خواہ کتنی ہی عزت حاصل کرنا
چاہیں اللہ تعالى ہم کو ذلیل کرے گا ۔اور
بقول امام مالک : لں یصلح آخر ہذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا مطلب ہے کہ اس امت
کے پچھلے لوگوں کی اصلاح اسی میں ہے جس سے اس امت
کے پہلے لوگوں کی اصلاح ہوئی ہے ۔
جتنی جلد اس حقیقت کا ادراک اس امت کو ہوجائے اس کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا۔
یقینا عمل ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ اگر عمل کے بغیر کامیابی ملتی تو ہمارے نبی و
صحابہ کرام اس کے ہم سے کہیں زیادہ مستحق تھے ۔ اللہ ان کو عمل کا مکلف نہیں بناتا
اور وہ عمل بھی نہیں کرتے ۔ لیکن یہ دنیا ہے جہاں عمل قانون الہی , ضروری و ناگزیر
ہے ۔ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے ۔اور جب شرط پایا جائے گا تبھی مشروط پورا ہوگا۔ جب
ہم باعمل بنیں گے اسلام کو نافذ کریں گے تبھی اللہ کا وعدہ پورا ہوگا ورنہ نہیں۔
لہذا مسلمانو: خواب و
خیال کی دنیا سے باہر نکلو , اسلام کی طرف
واپس آؤ اور اس کو انفرادی و اجتماعی سطح پر اپنی زندگی میں نافذ کرو اسی میں
تمہاری زندگی , کامیابی و سربلندی ہے ۔و
ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
0 التعليقات: