کیا ماہ شوال منحوس ہے ؟

 

                                 کیا ماہ شوال منحوس ہے ؟

حدیث: عن عائشۃ قالت : تزوجنی رسول اللہ فی شوال , و بنى بی فی شوال , فای نسائہ کان احظى عندہ منی , وکانت عائشۃ تستحب ان یبنى بنسائہا فی شوال (سنن ترمذی), و فی روایۃ ابن ماجۃ: و کانت عائشۃ تستحب أن تدخل نساءہا فی شوال ۔

       (  احمد , مسلم, کتاب النکاح , حدیث نمبر 1423, سنن ترمذی , ابواب النکاح , حدیث نمبر 1099, سنن نسائی , کتاب النکاح , باب التزویج فی شوال,  ابن ماجہ ,  کتاب النکاح , حدیث نمبر 1990)

ترجمہ:  ام المؤمنین حضرت عائشہ کی روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ نے ماہ شوال میں عقد نکاح کیا اور میری رخصتی بھی شوال میں  ہوئی ۔ پس آپ کی کون سی بیوی مجھ سے زیادہ آپ کی قریبی اور  مقام و مرتبہ والی تھی یا زیادہ نصیب و قسمت والی تھی  ۔ حضرت عائشہ کو یہ پسند تھا کہ ان( کے  قوم )کی عورتوں کی رخصتی بھی شوال میں ہو۔ اور ابن ماجہ کی روایت ہے کہ حضرت عائشہ کو یہ پسند تھا کہ ان (کے قوم  )کی عورتوں کو  شوال میں مردوں پر داخل کیا جائے ۔

معانی کلمات:

شوال : یہ شول سے صیغہ مبالغہ ہے ۔ اور شول کا معنى کمی و نقص ہے ۔ اسی سے شائلہ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جس کا دودھ خشک ہوجائے ۔ اور شال القوم اس وقت بولا جاتا ہے جب ان کے گھر مخفی ہوجائیں اور وہ کہیں اور چلے جائیں یا جب وہ منتشر ہوجائیں یا جب وہ ہلاک و برباد ہوجائیں اور ان میں سے کوئی باقی نہ رہے یا جب ان کی شان و شوکت فنا ہوجائے ۔ اور شوال کو شوال اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں اونٹنی کا دودھ خشک ہوجاتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے ۔ (فتح المنعم شرح صحیح مسلم, 5/532 )

بنى بی : بناء کا معنى ہوتا ہے: رخصتی , دلہن کو شوہر کے پاس بھیجنا , شوہر کا اس کے پاس جانا , اس سے صحبت  اور جماع کرنا ۔

شرح:  صحابہ کرام نے بعد کے مسلمانوں کے لیے نبی کریم کی سیرت و کردار کو شادی , نکاح, خور د و نوش ,  سماجی و خانگی امور  وغیرہ معاملات میں منتقل کردیا ہے ۔ اور اس حدیث میں حضرت عائشہ نے بذات خود نبی کریم کے ساتھ  اپنی شادی  و رخصتی میں پیش آمدہ امور کو بیان کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی شادی اور رخصتی دونوں شوال کے مہینہ میں ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود ان کا مقام و مرتبہ نبی کریم کے یہاں سب سے زیادہ تھا ۔ آپ پیارے نبی کی سب سے محبوب اور چہیتى  بیوی تھیں ۔ آپ کی قسمت و نصیب سب سے اچھا و بہتر تھا ۔

اور یہ آپ کی خوش قسمتی تھی کہ  آپ کی رخصتی رمضان کا مہینہ ختم ہونے کے بعد  ماہ شوال میں ہوئی کیونکہ رمضان کے آخر میں آپ اپنی بیویوں سے الگ ہوجاتے تھے ۔ ایسی صورت میں  ایک شوہر اپنی بیوی کا  زیادہ مشتاق ہوجاتا ہے اور اسے اپنی بیوی سے  ملاقات  کا کچھ زیادہ ہی جذبہ و  شوق ہوتا ہے ۔

اسی وجہ سے حضرت عائشہ چاہتی تھیں کہ ان کی قوم کی عورتوں کو ان کے شوہروں کے پاس برکت کے لیے  شوال میں رخصت کیا جائے کیونکہ اس ماہ میں ان کو رسول اللہ سے خیر و برکت حاصل ہوا ۔

در اصل حضرت عائشہ نے اپنے اس کلام کے ذریعہ زمانہ جاہلیت کے عادات و اطوار کا رد کیا ہے ۔ اس زمانہ کے عقائد و اوہام , خرافات کا ابطال کیا ہے کیونکہ بعض افراد  ماہ شوال میں شادی اور رخصتی کو معیوب سمجھتے تھے ۔ اس کو برا خیال کرتے تھے ۔اور اس سے فال بد لیتے تھے ۔ کیونکہ شوال یہ شول سے بنا ہے جس کا معنى ہے کسی چیز کا ختم ہوجانا, اٹھ جانا۔اس لیے ان کا عقیدہ تھا کہ جو شوال میں  اپنی بیوی کی رخصتی کرے گا تو ان کے درمیان سے محبت ختم ہوجائے گی ۔ پیار نہیں ہوگا ۔ اور برکت حاصل نہیں ہوگی ۔ان کے درمیان جدائی ہو سکتی ہے ۔ اسی طرح وہ حج کے مہینوں میں  اور عیدین کے درمیان شادی اور رخصتی کو با برکت نہیں سمجھتے تھے ۔ لہذا حضرت عائشہ کا ارادہ تھا کہ وہ ان تمام چیزوں کا رد کریں اور اس کا عملی و علمی  جواب دیں ۔(الدرر السنیہ)

ایک قول یہ بھی ہے کہ عرب اس مہینہ میں نکاح کرنے سے بد فالی لیتے تھے ۔ ان کا ماننا تھا کہ منکوحہ یعنی بیوی اس مہینہ میں اپنے ناکح یعنی  شوہر سے (جماع سے )  رک جاتی  ہے جس طرح اونٹنی اونٹ سے باز رہتی ہے جب وہ گابھن ہوجائے اور اپنے دم کو اٹھا لے ۔ تو نبی کریم نے ان کی بد شگونی کو باطل قرار دیا ۔ (الاسلام سوال و جواب, سوال 12364, تاریخ نشر 2/10/2008)

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ہمارے پیارے نبی شرک کے اثرات اور جاہلی عقائد کو مٹانے کے بہت زیادہ حریص تھے کیونکہ آپ نے حضرت عائشہ سے شوال میں شادی اور رخصتی کرائی ۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے جیسا کہ امام نووی نے لکھا ہے کہ ماہ شوال میں نکاح کرنا اور کروانا نیز رخصتی مستحب ہے ۔ (شرح صحیح مسلم)

معلوم ہوا کہ کہ اسلام میں کوئی مہینہ یا دن یا وقت و زمانہ منحوس نہیں ہوتا ہے ۔ اس کے اندر کوئی نحوست نہیں پائی جاتی ہے ۔ اگر کوئی مسلمان اس قسم کا کوئی عقیدہ رکھتا ہے تو وہ سراسر غلط ہے ۔ اسلام کے مخالف ہے ۔ اور کسی کی خوش نصیبی یا بد نصیبی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ جیسا کہ حضرت عائشہ کی اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے شوال میں شادی کی, ان کی رخصتی بھی شوال میں ہوئی لیکن ان سب کے باوجود ان کی قسمت سب سے اچھی  تھی اور وہ نبی کو سب سے زیادہ محبوب تھیں ۔

 اس لیے ایک مسلمان ان اوہام و خرافات سے دور رہتا ہے اور بد فالی سے بچتا ہے اور شادی و رخصتی سمیت تمام  نیک کام کو کسی بھی وقت انجام دیتا ہے ۔ اس کے لیے کافروں کی طرح سے مہورت و فال نہیں نکالتا ہے ۔ علماء اور داعیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے غلط عقیدہ و عادات کو مٹانے کی کوشش کریں ۔ ان میں رواج پذیر بعض مہینوں , دنوں یا شخصیات سے بد شگونی اور بدفالی سے منع کریں کیونکہ یہ سب شرک کے اثرات میں سے ہے ۔ اور آج کے دور میں زمین کے مختلف حصوں میں ان کی بہت زیادہ کثرت ہے  اور ان میں مختلف قسم کے خرافات و اوہام پھیلے ہوئے ہیں ۔


التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: