حرام
کمائی کا انجام
حدیث: عن القاسم بن مخیمرۃ قال: قال رسول اللہ من
اکتسب مالا من ماثم فوصل بہ رحمہ او تصدق بہ أو انفقہ فی سبیل اللہ , جمع ذلک کلہ
جمیعا فقذف بہ فی نار جہنم (صحیح الترغیب و
الترہیب/1721, حسن لغیرہ )
ترجمہ:
حضرت قاسم بن مخیمرہ کی روایت ہے ان کا کہنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: جس نے گناہ
سے مال کمایا پھر اس کے ذریعہ صلہ رحمی کی یا اس کا صدقہ کیا یا اس کو اللہ کی راہ
میں خرچ کیا تو وہ تمام کا تمام جمع کیا جائے گا اور اس کے ساتھ جہنم میں پھینک
دیا جائے گا ۔
معانی
کلمات:
ماثم: یہ اثم سے مصدر ہے جمع مآثم ہے اس کا معنى گناہ اور معصیت ہے ۔
رحم : اس کی جمع أرحام ہے, یہ مذکر و
مؤنث دونوں استعمال ہوتا ہے , عورت کے پیٹ کی وہ جگہ جس میں بچہ پرورش پاتا ہے ,
ذو رحم کا معنی رشتہ دار و قرابت دار ہے , اور صلہ رحمی کا مطلب رشتہ داروں کے
ساتھ حسن سلوک کرنا ہے ۔
قذف: زور سے پھینکنا, بہتان لگانا, الزام تراشی کرنا(المعجم الوسیط)
شرح:
اسلام نے انسان کی معنوی پاکیزگی و طہارت پر بہت زور دیا ہے , اور اس کا ایک بہت
بڑا ذریعہ حلال کمائی و پاکیزہ غذا ہے , اسی وجہ سے شریعت نے مال و دولت اور اس کے
کمانے کے طریقوں پر بہت زیادہ توجہ دی ہے , اس کی حقیقت سے آگاہ کیا ہے اور اس کے
بارے میں رہنمائی کی ہے , اس کے فتنہ میں پڑنے اور گمراہی میں واقع ہونے سے خبردار
کیا ہے , کمائی کے طریقوں اور خرچ کرنے کے
اصول و ضوابط کی تحدید کردی ہے اور حرام کمائی کے برے انجام سے ڈرایا ہے اور جہنم
میں داخل کرنے کی دھمکی دی ہے ۔
مذکورہ
بالا حدیث میں بھی حرام کمائی کے انجام بد سے آگاہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیاہے
کہ حرام کمائی سے گرچہ نیکیوں کا پہاڑ
قائم کردیا جائے تو وہ سراسر بیکار ہے اور اللہ کے نزدیک اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے
۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ جس نے گناہ سے مال کمایا یعنی اس کا کاروبار یا پیشہ
حرام ہے یا اس کا کوئی بھی ذریعہ آمدنی ایسا ہے جو شریعت کی نظر میں حرام ہے اور
پھر وہ اپنی حرام کمائی سےبہت سارے خیر و
بھلائی کے کام انجام دیتا ہے جن میں سے تین صورتوں کا ذکر اس حدیث میں ہے: --
رشتہ
داروں کے ساتھ حسن سلوک: اپنے رشتہ داروں
اور قرابتداروں کے ساتھ حسن سلوک, اچھائی
و بھلائی کرتا ہے, ان کی مال دولت کے
ذریعہ مدد کرتا ہے, اپنے اقرباء میں سے
کسی غریب لڑکی کی شادی کردیتا ہے , کسی کی تعلیم کا بندو بست کر دیتا ہے, کسی کے علاج کا انتظام کردیتا ہے, کسی کو روپیہ پیسہ قرض یا
بغیر قرض کے دے دیتا ہے, کسی کی کوئی حاجت و ضرورت پوری کردیتا ہے وغیرہ
صدقہ کرنا: وہ اپنی حرام کمائی سے صدقہ و خیرات کرتا ہے یعنی صرف اپنے رشتہ داروں
کا ہی خیال نہیں کرتا ہے بلکہ غیروں کی بھی اس حرام کمائی سے مدد کرتا ہے, وہ بھی
اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں , مسلمانوں کو نوازتا ہے اور غیر مسلوں کو بھی دیتا ہے۔
مثلا علاج و دوا , تعلیم, شادی , کھانا کپڑا یا کسی بھی طرح کا فائدہ پہنچاتا ہے ۔
صدقہ
میں صلہ رحمی بھی داخل ہے لیکن صلہ رحمی کو الگ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں
ڈبل اجر و ثواب ہے ایک تو صلہ رحمی کا دوسرے صدقہ کرنے کا ثواب ہے , اور بلا شبہ
مستحق اعزہ و اقرباء کسی آدمی کے صدقہ کے زیادہ حقدار ہوتے ہیں ۔
اللہ
کی راہ میں خرچ کرنا: اس کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے مثلا کوئی
مسجد تعمیر کردیتا ہے, یا مدرسہ بنا دیتا ہے یا کنواں کھودوا دیتا ہے, یا سرائے
خانہ, یتیم خانہ وغیرہ تیار کر دیتا ہے, یا جہاد کے لیے ساز و سامان وغیرہ مہیا
کردیتا ہے وغیرہ
کہنے
کا مطلب ہے کہ ایک مسلمان حرام کمائی کرتا ہے اور ڈھیروں مال جمع کر لیتا ہے اور
اپنے مال برے کاموں میں نہیں بلکہ نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے اور نیکیوں کا انبار
جمع کر لیتا ہے لیکن ان سب کے باوجود اس
کا انجام اچھا نہیں ہوگا ۔ اس لیے آپ نےآگے
فرمایا: قیامت کے دن اس کے تمام مالوں کو جمع کیا جائے گا اور پھر اس کو
مال سمیت جہنم میں پھینک دیا جائے گا کیونکہ اس نے حرام کمائی کرکے اللہ کے حکم کی
نافرمانی کی اور حرام مال سے سے کیا ہوا کوئی بھی نیک کام قابل قبول نہیں ہے خواہ
وہ کتنا زیادہ اور کتنا بڑا ہی کیوں نہ ہو ۔ایک دوسری روایت میں ہے, آپ نے ارشاد
فرمایا: جس نے حرام مال کمایا تو اللہ تعالی نہ اس کا صدقہ قبول کرے گا نہ ہی اس
کا کسی کو آزاد کرنا, نہ ہی حج اور عمرہ,
اور اس کو اسی کے بقدر گنا ہ ہوگا اور جو اس کی موت کے بعد باقی ہوگا تو وہ
اس کا جہنم کی طرف توشہ ہوگا۔(ترغیب و ترہیب/حسن)
علاوہ
ازیں حرام کمائی کھانے والے پر اللہ کی
لعنت ہوتی ہے , اس کی کوئی عبادت قبول
نہیں ہوتی ہے , صدقہ قبول نہیں ہوتا ہے, دعا رد کردی جاتی ہے , اولاد نافرمان ہوتی
ہے , اور اس میں کسی قسم کی برکت نہیں ہوتی ہے ۔(تفصیل
کے لیے دیکھیے: موقع اسلام ویب: المقالات:
اکل الحرام ... ضررہ و آثارہ)
معلوم
ہوا کہ حرام کمائی دنیا میں عزت و شہرت, نیک نامی و مقبولیت کا سبب ہو سکتا ہے
لیکن اللہ کے یہاں اس کی چنداں اہمیت و فضیلت نہیں ہے بلکہ ایسا مال اور مال والا
دونوں جہنم کے حقدار ہیں ۔
حرام
کمائی کی مختلف صورتیں :
ایک
مسلمان کی ہر وہ کمائی حرام ہے جس کی شریعت نے اجازت نہیں دی ہے اور اس سے منع کیا
ہے ۔اس کی مختلف شکلیں اور صورتیں ہیں جن
میں سے بعض درج ذیل ہیں :۔۔۔
انسان کا کاروبار , تجارت شریعت کی نظر
میں حرام ہو: مثلا شراب کی فیکٹری , جوا, افیم, منشیات,
کہانت, تنجیم, جادوگری, ناچ گانا, بیڑی سگریٹ , زنا کاری ,مورتی بنابنا و بیچنا
, سور پالنا و بیچنا, سودی بینک کھولنا,
فلم گھر بنانا و چلانا, سودی کاروبار کرنا وغیرہ,
یہ سب کاروبار حرام ہیں ۔
سود
کھانا اور اس کا سودا کرنا یہ سب سے بڑا حرام کام ہے اور سب سے خبیث کمائی ہے اور یہ اللہ و اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے
۔
انسان
کا پیشہ (پروفیشن) حرام ہو: مثال کے طور پر کسی انسان کا شراب یا منیشات کی دکان
ہے اور اس میں کوئی شخص کام کرتا ہے , اسی
طرح سودی بینکوں میں کام کرنا ,ر قص گاہوں
میں اور اوپر مذکور کسی بھی حرام
کاروبار میں نوکری کرنا , کام کرنا حرام اور اس سے ہونے والی کمائی بھی
حرام ہے ۔
چوری
خواہ سرکاری ہو یا غیر سرکاری ہر قسم کی
چوری حرام ہے , سرکاری و غیر سرکاری مال
میں غبن کرنا حرام ہے , بجلی چوری بھی حرام ہے , ڈکیٹی , غصب, غش و دھوکا دے کر مال کمانا حرام
ہے ۔
نقلی
مال کو اصلی کہہ کے فروخت کرنا حرام ہے ۔
سرکاری
و غیر سرکاری ملازمین, اساتذہ وغیرہ کا ڈیوٹی کیے ہوئے بغیر تنخواہ لینا حرام ہےاور
جس قدر ڈیوٹی میں کوتاہی ہوگی اسی قدر مال حرام ہوگا۔
عہدہ
اور منصب پر رہتے ہوئے ہدیہ اور گفٹ لینا
حرام ہے ۔
کسی
کا حق مارلینا : مثلا اپنے بہنوں کو ان کا حق نہ دینا یہ سراسر حرام ہے اس سے ہونے
والی کمائی حرام ہے۔ یتیموں اور نابالغوں
کا مال کھانا حرام ہے, اسی طرح بیویوں , اور کام کرنے والی عورتوں کا مال ناحق ہڑپ
لینا حرام ہے , یا عورتوں کو شادی سے روکنا اور اس میں تاخیر کرنا تاکہ ان کی
کمائی سے فائدہ اٹھائے حرام ہے ۔ یہ ظلم
ہے اور ساتھ ہی بے شرمی, بے غیرتی , رذالت اور چھچھورا پن ہے ۔
کمپنیوں
میں مزدوروں، اور گھریلو ڈرائیوروں و ملازموں کا پیسہ ہڑپ کرنا، تنخواہوں میں تاخیریا
ان میں کمی کرنا ، یا اس کو کم کرنے یا روکنے کے لیے حیلہ اختیار کرنا۔
جہیز
لینا اور دینا خواہ باہمی رضامندی سے ہو یا مطالبہ سے ہر صورت میں حرام ہے ۔
رشوت
لینا اور دینا : کسی ممنوع کام میں سہولت فراہم
کرنے کے لیے ، یا کسی ایسے شخص کو حق دینا جو مستحق نہیں ہے ، یا کسی ایسے شخص کو ٹینڈر
دینا جو شرائط پر پورا نہ اترتا ہو، یا کسی ایسے شخص کو نوکری یا کام دینا جو اہل نہیں
ہے۔ اور بلا شبہ اس میں قوم کے لیے جو نقصان اور عوام کے لیے جو برائی ہے وہ کسی
پر مخفی نہیں ہے ۔لہٰذا جو شخص ایسا کرے اور
اس میں مدد کرے وہ ملعون ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اللہ تعالیٰ رشوت دینے
والے، رشوت لینے والے اور رشوت لینے والے پر لعنت کرے) اور وہ ان دونوں کے درمیان ثالث
ہے۔
فروخت
اور لین دین میں دھوکہ دہی: سامان کے عیب کو
چھپانا، یا ناپ تول میں کمی کرنا ، سامان کو بیچنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھانا۔
یہ
تمام صورتیں حرام کمائی کی ہیں , اس کے علاوہ اور بھی صورتیں ہیں جن کو طوالت کی
وجہ سے بیان نہیں کیا جا رہا ہے, آج کے زمانہ میں تو وہ اور زیادہ ہوگئی ہیں , اس
لیے ایک مسلمان پر لازم ہے ہ وہ اپنے کام,
عمل, پیشہ و تجارت کے بارے میں کسی عالم دین سے معلومات حاصل کرلے تاکہ حرام سے
محفوظ رہے ۔
حرام
کمائی اور موجودہ دور کے مسلمان:
دور
حاضر میں جن چیزوں کا شکوہ
اللہ تعالى سے ہے ان میں سے ایک حرام کمائی اور خبیث مال و دولت کا پھیلاؤ ہے اورلوگوں کا اسے علانیہ طور
پر کمانا ہے اور اس کے حصول کی تگ و دو ہے , یہاں تک کہ یہ
عوام و خواص کے درمیان بہت بڑے پیمانہ پر پھیل
گیا ہے اور رائج ہوگیا ہے اور ایک بہت بڑی تعداد اس سے مانوس ہوگئی ہے ۔
فی
زمانہ یہ بیماری اور وبا مسلمانوں میں بہت
بڑے پیمانہ پر موجود ہے اور مسلمانوں کی اکثریت حرام کمائی میں مبتلا ہے ۔مادہ
پرستی اور دنیاداری کا ان پر غلبہ ہے ,
مال و دولت اور اس کو جمع کرنے کی چاہت حد سے متجاوز ہے , لہذا ان کی زندگی کا صرف
ایک مقصد ہے اور وہ مال و دولت کا انبار جمع کرنا خواہ وہ کسی بھی طریقہ سے ہو ۔ان
کے نزدیک حلال وہ ہے جو ان کے ہاتھوں میں ہے اور کسی بھی طرح سے ان کو مل گیا ہے
اور حرام وہ ہے جس سے وہ محروم ہیں اور اس کو حاصل نہیں کرسکے ہیں ۔
اس
دور میں بہت سے لوگوں کی زندگیوں میں ایک عام مصیبت یہ ہے کہ وہ اپنی کمائی میں یہ
نہیں دیکھتے ہیں کہ وہ کس طریقہ سے ہوئی ہے , ان کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے
اس لیے وہ حلال و حرام کو ایک ساتھ ملا
دیتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ ان رکاوٹوں
کو پار کرجاتے ہیں جن کو ہمارے اسلاف قطعا نہیں تجاوز کرتے تھے۔
لوگ
کسی بھی راہ سے مال و دولت جمع کرتے ہیں اور ان کو اس میں کوئی برائی نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی انہیں کوئی تنگی محسوس ہوتی ہے اور انہیں اس میں کسی عیب کا احسا س نہیں ہوتا ہے جب کہ جیب بھر
رہا ہو کیونکہ ان کے چہرے بے اثر, سخت
اور دل مردہ نما ہوچکے ہیں ۔ یہاں
تک کہ سود کھانا اور اس کا سودا کرنا، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس میں ملوث ہے
جو سودی کاروبار کرتے ہیں اور بینکوں کا سود کھاتے ہیں اور وہ اس کو برائی بھی
نہیں سمجھتے ہیں جب کہ یہ سب سے بڑا حرام
کام ہے اور سب سے خبیث کمائی ہے اور یہ
اللہ و اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے ۔
اس
کے علاوہ رشوت, گھوس خوری, خرید و فروخت میں فریب کرنا و جھوٹ
بولنا, سامان کے عیوب کو چھپانا , شراب و
منشیات کا کاروبار , وراثت میں لڑکیوں کا حق نہ دینا, لوگوں کے حقوق کو غصب کر
لینا , ملازمین کا اپنی ڈیوٹی کو صحیح طریقے سے ادا نہ کرنا وغیرہ صورتیں بہت عام
ہیں ۔
حرام
کمانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ ناجائز پیسہ اصلا خبیث ہوتا ہے ، اس کی
برکت ختم ہوجاتی ہے, یہ سب سے بری روزی , سب سے خبیث کمائی اور سب سے برا عمل ہوتا ہے ۔ اس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے اور یہ جہنم تک لے جانے والا توشہ ہوتا ہے ۔ جب کوئی
فرد سود، رشوت، ناانصافی، دھوکہ دہی یا لوگوں کا پیسہ ناحق ہڑپ کر کے اسے کماتا ہے
تو یہ فرد اور قوم کے لیے تباہ کن ہوتا ہے
اور اس کے بدترین اثرات و بہت برے انجام
ہوتے ہیں ۔
آخر
میں اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو حلال کمانے کی
توفیق عطا فرمائے , حرام کمائی سے محفوظ رکھے اور ان کے مال و دولت میں برکت عطا
فرمائے ۔ آمین
0 التعليقات: