روزہ رکھنے سے عاجز شخص کا فدیہ اور اس کی مقدار

 

روزہ رکھنے سے عاجز شخص  کا  فدیہ اور اس کی  مقدار



اسلام دین رحمت ہے اور اللہ تعالى سے زیادہ انسان کی انسانی  ضروریات, حاجات, حالات, مراحل ,  تقاضوں و مصلحتوں کو جاننے والا کوئی اور نہیں ہے , اسی لیے اللہ تعالى نے تمام  اسلامی  احکام میں لچک و اعتدال  رکھی ہے اور بہت ساری صورتوں میں استثناء رکھا ہے اور انسان کے انسانی تقاضوں کو کبھی بھی نظر انداز نہیں کیا ہے , اسی کا نام وسطیت و میانہ روی ہے جو اسلام کی ایک نمایاں خوبی و اس کی امتیازی شان ہے ۔ اور یہی چیز روزہ کے احکام میں بھی ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالى نے روزہ تمام  بالغین پر فرض کیا ہے لیکن اس  حکم سے  بعض حالات میں بہت سارے افراد کو مستثنى کر دیا ہے اور ان کو بعد میں روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے  مثلا مریض, مسافر, حامل و مرضعہ وغیرہ , اور کچھ حالات میں تو بالکل روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور اس کا بہت ہی آسان فدیہ مقرر کیا ہے جو ایک غریب و محتاج پر بھی بھاری نہیں ہے , اور اگر کوئی وہ فدیہ بھی ادا کرنے کے قابل نہیں ہے تو وہ بھی ساقط ہوجاتا ہے ۔(چیف ایڈیٹر)

اس موضوع میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ  روزہ  کا فدیہ کس کو ادا کرنا ضروری ہے اور اس کی مقدار کیا ہے؟  

روزے کا فدیہ کس پر واجب ہے؟

جو شخص رمضان کو پالے  اور وہ روزہ نہ رکھ سکے کیونکہ وہ بہت بوڑھا ہے یا بیمار ہے اور اس کے صحت یاب ہونے کی امید نہیں ہے تو اس پر روزہ رکھنا واجب نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ روزہ افطار کرے اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:اے ایمان والو تم پر روزے ركھنا فرض كيے گئے ہيں جس طرح پہلے لوگوں پر روزے ركھنے فرض تھے، تا كہ تم متقى بن جاؤ، چند گنتى كے دن ہيں چنانچہ تم ميں سے جو كوئى بھى بيمار ہو يا مسافر تو دوسرے دنوں ميں گنتى پورى كرے، اور ان لوگوں پر جو اس كى طاقت ركھتے ہيں ان پر ايك مسكين كا كھانا فديہ ہے، اور جو كوئى خوشى سے نيكى كرے تو اس كے ليے يہ بہتر ہے اور تمہارے ليے روزہ ركھنا بہتر ہے اگر تمہيں علم ہے (بقرۃ / 183 - 184 ).

بخاری (4505) نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: (یہ آیت  منسوخ نہیں ہے، وہ بہت ہی بوڑھا مرد  اور بوڑھی عورت ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں ، اس لیے انہیں چاہیے کہ ہر روز اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں) ۔

ابن قدامہ نے المغنی (4/396) میں لکھا ہے:"اگر روزہ رکھنا کسی بوڑھے مرد  اور بوڑھی عورت  کے لیے تکلیف دہ ہو اور ان کے لیے بہت مشکل ہو تو ان کے لیے یہ جائز  ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں اور ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلائیں... اب اگر وہ کھانا کھلانے سے بھی عاجز و مجبور ہیں تو  پھر ان  پر کوئی چیز نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ کسی نفس پر اس کی برداشت و طاقت  سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور وہ بیمار جس کے صحت یاب ہونے کی امید نہ ہو، وہ بھی روزہ نہیں رکھے گا  اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا ۔ کیونکہ اس کا حکم بھی شیخ کا ہے " ۔

فقہ کے انسائیکلو پیڈیا میں (5/117) میں مذکور ہے : " احناف، شوافع  اور حنابلہ اس پر متفق ہيں كہ بڑھاپے، يا دائمى بيمارى سے شفايابى كى اميد نہ ہونے كى بنا پر ترك كردہ روزوں كى قضاء كرنا ممكن نہ ہو تو يہ فديہ ميں بدل جائيگا، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:اور جو لوگ اس كى طاقت ركھتے ہيں ان پر ايك مسكين كا كھانا فديہ ہے , اس سے مراد وہ ہیں جن کے لیے روزہ رکھنے میں مشقت و پریشانی ہے ۔

 اور " فتاوى الصيام " ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمارے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ مريض دو قسم كے ہوتے ہيں:

پہلى قسم:ايسا مريض جس كى بيمارى سے شفايابى كى اميد ہو، مثلا وہ  عارضی بيمارياں جن سے شفايابى كى اميد ہے مثلا  تیز بخار, پیٹ میں درد،  دست, سر میں درد, ہڈی کا ٹوٹ جانا  وغیرہ اس كا حكم وہى ہے جيسا كہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:چنانچہ جو كوئى بيمارہو يا سفر پر تو وہ دوسرے ايام ميں اس كى گنتى پورى كرے۔ایسے شخص کو  بيمارى سے شفايابى كا انتظار كرنا ہوگا اور صحت ملنے كے بعد روزہ ركھنے كے علاوہ كوئى اور چارہ نہيں، اور فرض كريں كہ اگر بیماری اسی حالت میں جاری رہے  اور وہ صحت یاب ہونے سے پہلے مر جائے تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دوسرے دنوںمیں  قضاء واجب کی ہے اور وہ ان ایام کے آنے سے پہلے ہی فوت ہو گیا، لہٰذا وہ اس شخص کی طرح ہے جو شعبان میں رمضان شروع ہونے سے پہلے مر جائے اور اس کی قضا نہیں ہو گی۔

دوسرى قسم: ایسا بیمار شخص جس کی بیماری دائمی  ہے وہ اس سے الگ ہونے والی نہیں ہے ، مثلا سرطان ـ اللہ کی پناہ ـ اور گردے كى بيمارى ميں مبتلا شخص، يا شوگر وغيرہ كا مريض ,يہ ايسى بيمارياں ہيں جو مستقل اور دائمى ہيں ان  سے مريض كى شفايابى كى اميد كم ہى ہوتى ہے، ايسا شخص روزہ نہيں ركھےگا، بلكہ روزہ كى استطاعت نہ ركھنے والے بوڑھے مرد اور بوڑھى عورت كى طرح ہر دن كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائےگا.اس كى دليل قرآن مجيد ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى ہے:اور جو لوگ اس كى استطاعت ركھتے ہیں  ان پر ايك مسكين كا كھانا بطور فديہ ہے۔

روزہ کے فدیہ کی مقدار

جہاں تک کھانا کھلانے کے طریقہ کار کا تعلق ہے تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ ہر مسکین کو آدھا صاع کھانا جیسے چاول وغیرہ (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو) دے يا  پھر كھانا پكا كر مسكينوں كو كھلا ديا جائے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:اگر بوڑھا شخص روزہ ركھنے كى استطاعت نہ ركھے تو ہر روز كے بدلے ايك مسكين كو كھانا كھلائے، جب انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہما بوڑھے ہوگئے تو انہوں نے ایک یا دو برس تک ہر مسكين كو ہر روز روٹى اور گوشت کھلاتے  اور روزہ نہیں  ركھتے تھے.

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ایک بوڑھی عورت کے بارے میں پوچھا گیا جو روزہ نہیں رکھ سکتی تو وہ کیا کرے؟

تو ان کا جواب تھا : اس کے اوپر واجب ہے کہ وہ ہردن کے بدلے میں ایک مسکین کو علاقہ میں کھائی جانے والی غذا مثلا  کجھور یا چاول وغیرہ  کا آدھا صاع  کھلائے جس كا وزن تقريبا ڈيڑھ كلو بنتا ہے، جیسا کہ اصحاب نبی کی ایک جماعت کا فتوى ہے جن میں ابن عباس شامل ہیں ,  اور اگر وہ عورت فقير ہے كھانا نہيں کھلا  سكتى ہے  تو اس كے ذمہ كچھ نہيں ہے۔اور یہ کفارہ ايك يا كئى ايك مساكين كو مہينہ كے شروع يا درميان يا آخر ميں دينا جائز ہے.(مجموع فتاوى ابن باز, 15/203)

 

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے: مستقل و دائمی  بيمار اور روزہ رکھنے سے عاجز بوڑھا مرد یا عورت پر واجب ہے کہ وہ ہر دن كے بدلے ایک  مسكين كو كھانا كھلائے، چاہے يہ غلہ كى صورت ميں فقراء كو دے کر ان کو مالک بناکے کھلانا ہو  يا پھر كھانا پكا كر مساكين كو دعوت دے کر  كھلا ديا جائے چنانچہ دنوں كے مطابق مساكين كو رات يا صبح كا كھانا كھلا ديں، جس طرح بڑھاپے ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ كرتے وہ رمضان المبارك كے مكمل ماہ كا روزہ ركھنے كے بدلے تيس مسكينوں كو كھانا كھلا ديتے تھے" اھـ فتاوى الصيام صفحہ نمبر ( 111).

دائمی  فتوى كميٹى سے سوال كيا گيا:روزہ ركھنے سے عاجز شخص مثلا بوڑھا مرد يا عورت يا شفايابى سے نااميد دائمى بيمار شخص كھانا كس طرح كھلائے   تو كميٹى كا جواب تھا:

" بڑھاپے كى بنا پر اگر كوئى مرد يا عورت روزہ ركھنے سے عاجز ہو يا روزہ ركھنے ميں اسے شديد قسم كى مشقت ہوتى ہو تو اسے روزہ نہ ركھنے كى اجازت ہے، اور اس كے بدلے ہر روز نصف صاع گندم يا كھجور يا چاول وغيرہ جو اپنے گھر ميں استعمال كرتا ہے مساكين كو كھلائے.

اور اسى طرح وہ مريض جو روزہ ركھنے سے عاجز ہو يا اس كے ليے روزہ ركھنا مشقت كا باعث ہو اور اسے بيمارى سے شفايابى كى اميد نہ ہو تو وہ بھى مساكين كو كھانا كھلائے.کیونکہ اللہ تعالى كا فرمان ہے:اللہ تعالى كسى بھى جان كو اس كى استطاعت سے زيادہ مكلف نہيں كرتاالبقرۃ / 286 ).اور فرمان بارى تعالى ہے:اللہ تعالى نے تم پر دين ميں كوئى تنگى نہيں كىالحج / 78 ).ایک اور آیت میں ہے:اور جو لوگ اس كى استطاعت ركھتے ہيں ان كے ذمہ مسكين كو بطور فديہ كھانا دينا واجب ہے (بقرۃ / 184 ) اھـ.(فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء , 11 / 164).

(یہ موقع :اسلام سوال و جواب سے ماخوذ ہے اور اس کا ترجمہ ہے  , فتوى نمبر 49944 اور تاریخ 8/11/2005 ع )

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: