جنت کی نعمتوں کا بیان (2)
آيات: فَوَقَىٰهُمُ ٱللَّهُ شَرَّ ذَٰلِكَ ٱليَومِ وَلَقَّىٰهُم نَضرَةٗ وَسُرُورٗا (11) وَجَزَىٰهُم بِمَا صَبَرُواْ جَنَّةٗ
وَحَرِيرٗا (12) مُّتَّكِـِٔينَ فِيهَا عَلَى ٱلأَرَآئِكِ لَا يَرَونَ
فِيهَا شَمسٗا وَلَا زَمهَرِيرٗا (13) وَدَانِيَةً عَلَيهِم ظِلَٰلُهَا وَذُلِّلَت قُطُوفُهَا
تَذلِيلٗا (14) وَيُطَافُ عَلَيهِم بِـَٔانِيَةٖ مِّن فِضَّةٖ وَأَكوَابٖ
كَانَت قَوَارِيرَا (15) قَوَارِيرَاْ مِن فِضَّةٖ قَدَّرُوهَا تَقدِيرٗا (16) وَيُسقَونَ فِيهَا كَأسٗا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِيلًا (17) عَينٗا فِيهَا تُسَمَّىٰ سَلسَبِيلٗا (18) وَيَطُوفُ عَلَيهِم وِلدَٰنٞ مُّخَلَّدُونَ إِذَا
رَأَيتَهُم حَسِبتَهُم لُؤلُؤٗا مَّنثُورٗا (19) وَإِذَا رَأَيتَ ثَمَّ رَأَيتَ نَعِيمٗا وَمُلكٗا
كَبِيرًا (20) عَٰلِيَهُم ثِيَابُ سُندُسٍ خُضرٞ وَإِستَبرَقٞ
وَحُلُّوٓاْ أَسَاوِرَ مِن فِضَّةٖ وَسَقَىٰهُم رَبُّهُم شَرَابٗا طَهُورًا (21) إِنَّ هَٰذَا كَانَ لَكُم جَزَآءٗ وَكَانَ سَعيُكُم
مَّشكُورًا (22)(دهريا إنسان)
معانی کلمات:
لقاہم: اعطاہم
یعنی ان کو دیا , عطا کیا ۔
نضرۃ:یہ نضر سے مشتق ہے اور مصدر ہے , اس کا معنى ہے
ترو تازگی, رونق, چمک دمک, شگفتگی ,
خوشحالی , ناز و نعمت وغیرہ
حریر: ریشمی کپڑا
متکئین : یہ اتکاء سے بنا ہے اس کا معنى ہے راحت و
خوشحالی کی حالت میں ٹیک لگا کے جم کے بیٹھنا ۔اچھی طرح بیٹھنا ۔
أرائک:یہ اریکہ کی جمع ہے بمعنی خوبصورت و آرام دہ مسند, صوفہ , تخت ۔
زمھریر: سخت سردی, یہ زمہر سے بنا ہے بولا جاتا ہے زمھر
یا ازمھر الیوم اذا اشتد بردہ جب بہت زیادہ سردی ہو ۔
دانیۃ: یہ دنا سے اسم فاعل مؤنث ہے بمعنی قریب ۔
ذللت: یہ تذلیل سے ہے , اس کا معنى مسخر کرنا, اطاعت و
فرماں برداری ہے , کہا جاتا ہے : ذلل الرم جب انگور کے گچھے لٹکے ہوں اور ہاتھ
وہاں تک ہاتھ پہنچ رہے ہوں ۔
قطوف:یہ قطف (ق پر کسرہ) کی جمع ہے ۔ اس کا معنى ہے
توڑتے وقت پھلوں کاخوشہ یا توڑے ہوئے پھل
۔
آنیۃ: کھانے و پینے کا برتن, یہاں وہ برتن مراد ہیں جو
مشروبات کے لیے استعمل ہوتے ہیں ۔ مفرد
إناء ہے ۔
أکواب : یہ کوب کی جمع ہے ۔ بغیر دستہ والا پیالہ
قواریر: یہ قارورۃ کی جمع ہے , یہ در اصل صاف شفاف شیشہ
کا بنا ہوا نازک و لطیف برتن ہوتا ہے جس میں مشروبات اور اس کے مشابہ چیزیں رکھی
جاتی ہیں ۔
مزاج: یہ مزج سے مصدر ہے , معنى ہے ملانے کی چیز جیسے
پانی شراب میں , جمع امزجۃ ہے , اس کا ایک معنى طبیعت, ٹون و موڈ بھی ہے۔
زنجبیل:خشک ادرک, سونٹھ
سلسبیل:بعض کے نزدیک یہ صفت ہے اور سلاسۃ سے ماخوذ ہے جس
کا معنى آسانی اور نرمی ہے ۔ بولا جاتا ہے ماء سلسل یعنی پینے والوں کے شیریں و
مزیدار پانی ۔ بعض کے نزدیک یہ چشمہ کا نام ہے کیونکہ اللہ نے "تسمى " لفظ استعمال
کیا ہے ۔ اور اس کا نام سلسبیل اس لیے رکھا گیا ہے کیونکہ اس کا پانی نہایت شیریں
, لذت دار اور آسانی سے حلق میں اترنے والا ہے ۔
منثور: یہ نثر سے اسم مفعول ہے ۔اس کا ایک معنی بکھیرنا
ہے اور دوسرا نثر میں گفتگو کرنا ہے ۔
نعیم: اس کا اصل نعم ہے ۔ اس کا معنى آسودہ حالی, آرام,
مال, فضل , نعمت, عطیہ و رحمت وغیرہ ہے
۔بولا جاتا ہے رجل نعیم البال یعنی سکون قلب والا مرد, نعیم اللہ یعنی اللہ کی
رحمت, عطیہ و فضل ۔
ملک: باد شاہت و سلطنت
عالیہم :فوقہم یعنی
ان کے اوپر, یہ خبر مقدم ہے اور ثیاب مبتدا مؤخر محذوف ہے ۔
سندس:باریک ریشمی کپڑا , استبرق: موٹی ریشمی کپڑا
اساور: یہ سوار کی جمع ہے بمعنى کنگن
طھورا :یہ اسم مبالغہ ہے طھر سے مشتق ہے بمعنى انتہائی پاکیزہ ۔(الوسیط للطنطاوی , موقع المعانی و مصباح اللغات )
ترجمہ:
لہذا اللہ نے ان کو اس دن کی برائی سے محفوظ رکھا اور ان کو تازگی و خوشی عطا
کی, اور ان کے صبر کی وجہ سے ان کو جنت
اور ریشمی لباس بدلے میں دیا, جس میں وہ تختوں پر تکیے لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے
جہاں وہ نہ سخت دھوپ کا سامنا کریں گے اور نہ سخت سردی کا , اس کے سائے ان کے اوپر
جھکے ہوں گے اور اس کے پھل ان کے قریب ہوں
گے ۔اور ان پر چاندی کے برتن اور شیشے کے جاموں کا دور کرایا جائے گا , شیشے بھی
وہ جو چاندی سے بنے ہوں گے جن کو (خادموں ) نے ٹھیک اندازے سے بھرا ہوگا ,
اور انہیں وہاں وہ جام پلائے جائیں گے جن کی آمیزش سونٹھ کی ہوگی ۔یہ جنت کا ایک
چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔اور ان کے چکر لگا رہے ہوں گے ایسے بچے جو ہمیشہ بچے
ہی رہیں گے , جب تمہاری نظر ان پر پڑے گی تو
تمھارا گمان ہوگا کہ یہ موتی ہیں جو بکھیر دئیے گئے ہیں ۔ اور وہاں تم جہاں
بھی نگاہ ڈالو گے سراسر نعمتیں اور عظیم الشان سلطنت ہی دیکھے گا , ان کے اوپر ہرے
باریک اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے , اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا
۔بلا شبہ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے اور تمہاری کوشش قابل قدر ہے ۔
تفسیر:
یہ سورہ دھر یا انسان کی 11/سے لے کر
22/تک کی کل 12 /آیتیں ہیں جن میں اللہ تعالى نے جنت میں پائی جانے والی مختلف بے
مثال و شاندار نعمتوں و عطایا کا ذکر
کیا ہے ۔ بلا شبہ جنت ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر قسم کے نعمتوں کی کثرت و بہتات ہے۔اس میں تا حد نگاہ ہر طرف نعمت ہی نعمت ہے جیسا کہ آیت نمبر
20/میں ہے ۔ بلا شبہ دنیا میں پائی جانے والی ہر نعمت وہاں پر اہل
جنت کے لیے موجود ہوگی جس میں کبھی بھی کوئی کمی نہیں ہوگی بلکہ جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی جن کے بارے میں
انسان نے نہ کبھی سنا ہے اور نہ کبھی دیکھا ہے اور نہ اس کے دل کے اندر اس کا
احساس ہوا ہے ۔
مذکورہ بالا
آیتوں سے پہلے از 6 تا 10/کی آیتوں میں اللہ تعالى نے واضح کیا ہے کہ اہل ایمان کو
ان کے ایمان و صالح اعمال مثلا اخلاص, اللہ کا خوف, سخاوت , نذروں کو پورا کرنے اور کھانا کھلانے وغیرہ کے
نتیجے میں قیامت کے دن کامیابی حاصل ہوگی,جہنم سے چھٹکارا ملے گا اور جنت میں
داخلہ ملے گا ۔ اور ایک اہم عمل جس کا ذکر
آیت نمبر 12 / میں ہے وہ صبر ہے ۔جس کا لفظی معنى رک جانا, روک دینا, قوت برداشت,
جفا کشی , ہمت و دلیری, قید رکھنا
وغیرہ ہے ۔اور اس کی اصطلاحی تعریف
ہے کہ نفس کو اللہ کی اطاعت پر لگادینا
اور اس کی لذات و خواہشات کو قربان کردینا اور گناہوں سے دور رہنا , تکلیفوں
کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا ۔مطلب ہے
کہ ایمان لانے کے بعد وہ اپنی پوری
زندگی اللہ کے احکام کی پابندی کرتے رہے
اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہے ۔تو ان سب نیک اعمال کے بدلے میں ان کو جنت ملے گی
جس میں مندرجہ ذیل نعمتیں ہوں گی :---
تازگی و مسرت: اہل جنت کے چہرے تروتازہ ہوں گے اور دل ان کے مسرور ہوں گے ۔ بلفظ دیگر
تازگی چہروں پر ہوگی اور خوشی دلوں میں کیونکہ جب انسان کا دل مسرت سے لبریز ہوتا
ہے تو اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہوجاتا ہے ۔اس طرح یہ ظاہری و باطنی دونوں نعمتوں
کو جامع ہے ۔
صوفہ و تخت:
اہل جنت کے لیے جنت میں خوبصورت, مزین اونچے تخت و صوفے ہوں گے جس پر وہ سکون قلب
اور کھلے دل کے ساتھ جلوہ افروز ہوں گے ۔
معتدل آب و ہوا : جنت میں نہ سخت تکلیف دہ اور نقصان پہچانے والی گرمی
ہوگی اور نہ کڑاکے کی سردی ہوگی بلکہ موسم ہمیشہ معتدل ایک جیسا رہے گا جو ہر لحاظ سے خوشگوار اور بہترین ہوگا۔
درختوں کا سایہ : جنت میں اگر چہ حرارت نہیں ہوگی پھر بھی درختوں کے
سائے اہل جنت کے قریب ہوں گے اور ان کی مزید تعظیم و تکریم کے لیے ان کو گھیرے ہوں
گے ۔
درختوں کے پھل: اللہ تعالى اہل جنت کے لیے درختوں کے پھلوں کو ان کے
تابع و قریب کردے گا جس سے ان کا حاصل
کرنا اور توڑنا اتنا آسان ہوجائے گا کہ
آدمی لیٹے بیٹھے اور کھڑے ہوکر ان کو آسانی سے توڑ سکتا ہے اور بنا کسی ادنی
پریشانی و مشقت کے ان مزیدار پھلوں کو کھا سکتا ہے ۔
برتن:
برتن چاندی اور شیشے کے ہوں گے , نہایت نفیس اور نازک ہوں گے اور دنیا کے برتنوں سے کلی طور پر مختلف ہوں گے
۔ چاندی کا بنا ہوا برتن شیشہ کی طرح شفاف
ہوگا اور یہ ایک نہایت تعجب خیز چیز ہے کیونکہ چاندی گاڑھا, سخت و موٹا مادہ ہوتا ہے ۔اس میں گلاس اور پیالے بھی ہوں
گے جو شیشہ کی طرح اتنا صاف و شفاف اور
چاندی کی طرح خوبصورت ہوگا کہ اس کے باہر
سے اندر کی چیز نظر آئے گی ۔ سونے کے بھی پلیٹ ہوں گے جیسا کہ سورہ زخرف کی آیت نمبر 71/ میں ہے:
یطاف علیہم بصحاف من ذھب یعنی ان کے سامنے سونے کے تھال گردش کرائے جائیں گے ۔
خدمت گار: اہل جنت کے لیے اللہ تعالی خدمت گار متعین کرے گا جو جنتیوں کے درمیان
چکر لگاتے رہیں گے ۔ ان میں سے ایک پانی پلانے والے ہوں گے اور دوسرے خدمتگار بچے ہوں گے ۔یہ خدمت گار
ہمیشہ رہیں گے ان کو جنتیوں کی طرح موت نہیں آئے گی ۔ ان کا بچپن اور ان کی رعنائی
ہمیشہ برقرار رہے گی ۔ وہ نہ بوڑھے ہوں گے نہ ان کا حسن و جمال تبدیل ہوگا۔ حسن و
صفائی اور تازگی و شادابی میں بکھرے ہوئے موتیوں کی طرح ہوں گے ۔یعنی خدمت کے لیے
ہر طرف پھیلے ہوئے اور نہایت تیزی سے مصروف خدمت ہوں گے ۔ اور ان کو بکھرے ہوئے
موتی سے تشبیہ دی گئی ہے کیونکہ فرش پر بکھرا ہوا موتی لڑی میں پروئے ہوئے موتی سے
زیادہ خوبصورت و خوشنما ہوتا ہے ۔
مشروبات
: اللہ تعالى نے جنتیوں کے لیے مختلف اقسام کے مشروبات کا انتظام کیا ہے جن میں
کئی خوبیاں پائی جاتی ہیں , ان میں سے ایک
مشروب سونٹھ ملا ہوا ہوگا جس سے ایک خوشگوار دوگنا لذت پیدا ہوجاتی ہے , یہ عربوں کی پسندیدہ لذت دار مشروب
ہے ۔ جنت میں ایک وہ مشروب ہوگی جو ٹھنڈی ہوگی جس میں کافور کی آمیزش ہوگی
اور دوسری مشروب گرم ہوگی جس میں سونٹھ کی ملاوٹ ہوگی ۔ جنت کا ایک مشروب شراب بھی
ہوگا جو انتہائی پاکیزہ ہوگا اور دنیا کی شراب کی طرح بالکل نہیں ہوگا جس میں بہت
ساری خرابیاں ہوتی ہیں اور جس سے انسانی عقل وقتی طور پر چلی جاتی ہے بلکہ آخرت کا شراب لذیذ اور ہر قسم کی خباثت
و گندگی سے پاک ہوگا۔
انتہائی موزوں مقدار: گلاسوں اور پیالوں میں شراب اتنے مناسب مقدار میں ڈالی گئی ہوگی کہ جس سے وہ سیراب و آسودہ
ہوجائیں , تشنگی محسوس نہ کریں اور ساتھ ہی برتنوں اور جاموں میں بھی زائد نہ بچی
رہے ۔ مہمان نوازی کے اس طریقے میں بھی مہمانوں کی عزت افزائی کا پورا اہتمام ہے ۔یہ مناسب مقدار متعین کرنے والے کون
ہوں گے ۔ بعض کے ندیک یہ خدمت گار ہوں گے
۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ فرشتے ہوں گے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس کے پینے والے خود ہی اپنی ضرورت کے بقدر مقدار کا تعین کریں گے
۔
لباس:
جنتیوں کے لباس نہایت فاخرانہ و شاندار
ہوں گے کیونکہ وہ دو قسم کے ہوں گے ۔ باریک و موٹے ریشم کے بنے
ہوں گے, اور دو لباسوں کو ایک ساتھ زیب تن
کرنا نازو نعمت کی علامت ہے اور شاندار کپڑوں کو جمع کرنا ہے ۔ان کا رنگ ہرا ہوگا
کیونکہ یہ رنگ نفس کو زیادہ اچھا و بھلا لگتا ہے , خوشگوار, روح پرور اور مسرت آگیں ہوتا ہے ۔شاہانہ لباس کی نشانی ہوتی ہے ۔ اور یہ اللہ
کی بڑی نعمت کا ایک مظہر ہے ۔ اور ریشم کا ذکر خاص طور سے کیا گیا ہے جیسا کہ ایک دوسری آیت میں ہے : ولباسہم فیہا
حریر(فاطر/33) یعنی اس میں ان کا لباس
ریشم کا ہوگاکیونکہ وہی ان کا ظاہری لباس ہوگا جو ان کی حالت کو بتائے گا ۔
نعمت و بادشاہت : ہر جنتی کے پاس اتنے مزین محلات, بالاخانے اور کمرے
ہوں گے جن کے اوصاف کو ادا کرنے سے الفاظ عاجز ہیں ۔ ان کے پاس باغات , نزدیک پھل
, لذیذ میوےاور بہتی نہریں ہوں گی ۔ ان سب کے علاوہ بیویاں, حور عین , بچے اور حشم
و خدم ہوں گے ۔ گویا کہ ایک جنتی ہر قسم کی نعمت میں ہوگا اور بڑی سلطنت کا مالک ہوگا۔
کنگن :
اہل جنت زیب و زینت کے لیے اپنی مرضی و خواہش سے کبھی سونے کے کنگن(حج/23و
فاطر/33) اور کبھی چاندی کے کنگن اپنے
ہاتھوں میں پہنیں گے اور جب چاہیں گے
دونوں کو استعمال کریں گے جیسا کہ ایک زمانے میں بادشاہ, سردار اور ممتاز قسم کے
لوگ پہنا کرتے تھے ۔ جنت میں سونا و چاندی
کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہوگا۔
چشمہ : جنت کا ایک چشمہ سلسبیل ہے جس کے پانی سے جنتی
لوگ سیراب ہوں گے ۔ صاحب کشاف نے لکھا ہے کہ اس کا نام سلسبیل اس لیے رکھاگیا ہے
کیونکہ اس کا حلق میں اترنا بہت آسان ہوتا ہے اور اس کو نگلنا بہت سہل ہوتا
ہے اور اس کا مزہ سونٹھ کی طرح ہوگا اور
انتہائی سلیس ہوگا ۔
ان تمام عظیم الشان عطیوں و بے مثال نعمتوں کا خاتمہ
اللہ تعالى نے اس بیان پر کیا ہے کہ اہل جنت سے کیا کہا جائے گا ۔ اور یہ کہنے
والا خود اللہ تعالی ہوگا یا اس کے حکم سے اس کے فرشتے یہ بات کہیں گے کہ وہ تمام
نعمتیں جن میں تم زندگی گذار رہے ہو اور جن سے تم لظف اندوز ہو رہے ہو یہ تمہارے
دنیا میں ایمان اور صالح عمل کا بدلہ ہے ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی, تفسیر احسن البیان و تفسیر
السعدی )
یہ ہے ان عظیم نعمتوں کی ایک جھلک جو جنت میں جنتیوں کو
حاصل ہوگی۔ورنہ جنت میں ایسی نعمتیں ہوں گی
جن کا کسی انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے ۔ اور جنت کا داخلہ ایمان و عمل
صالح سے مربوط ہے جیسا کہ اس کا ذکر دو بار آیت نمبر 12 و 22 میں ہوا ہے ۔ بلا شبہ ہمارے اسلاف باعمل مؤمن تھے
لیکن افسوس دور حاضر کے مسلمانوں پر ہے جن
کی سب سے بڑی خرابی بے عملی و بد عملی ہے
اور جو ایمان کے باوجود عمل سے کورے ہیں ۔
آخر میں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام
مسلمانوں کو باعمل بنائے اور آخرت میں کامیاب بنائے جو حقیقی بڑی کامیابی ہے ۔ آمین, وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان
الحمد للہ رب العالمین۔
0 التعليقات: