جنت کی نعمتوں کا بیان (3)

 

                            جنت کی نعمتوں کا بیان  (3)


آیات: {وَلِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِۦ جَنَّتَانِ ٤٦} {فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {ذَوَاتَآ أَفۡنَانٖ ٤٨}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧}  {فِيهِمَا عَيۡنَانِ تَجۡرِيَانِ ٥٠} {فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {فِيهِمَا مِن كُلِّ فَٰكِهَةٖ زَوۡجَانِ ٥٢}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {مُتَّكِ‍ِٔينَ عَلَىٰ فُرُشِۢ بَطَآئِنُهَا مِنۡ إِسۡتَبۡرَقٖۚ وَجَنَى ٱلۡجَنَّتَيۡنِ دَانٖ ٥٤} {فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {فِيهِنَّ قَٰصِرَٰتُ ٱلطَّرۡفِ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ إِنسٞ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنّٞ ٥٦}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {كَأَنَّهُنَّ ٱلۡيَاقُوتُ وَٱلۡمَرۡجَانُ ٥٨}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ ٤٧} {هَلۡ جَزَآءُ ٱلۡإِحۡسَٰنِ إِلَّا ٱلۡإِحۡسَٰنُ ٦٠} (رحمان/46-60)

معانی کلمات:

آلاء: یہ الى(ہمزہ و لام مفتوح)  و الى(ہمزہ مکسور و لام ساکن)   کی جمع ہے,  اس کا معنى نعمت, عطیہ  و انعام وغیرہ ہے ۔

أفنان: فنن (ف و ن پر فتحہ) کی جمع عے بمعنى ڈالی و شاخ ۔

فرش: یہ فراش کی جمع ہے جیسے کتاب کی جمع کتب ہے, زمین پر سونے یا لیٹنے کے لیے  بچھائی جانے والی چیز

بطائن:  یہ بطانۃ کی جمع ہے بمعنى  استر , (لباس کا باہری کپڑا کے بالمقابل اندرونی کپڑا) یہ بطن(پیٹ) سے مشتق ہے جو ظہر یعنی پشت کے مقابل ہوتا ہے ۔ بولا جاتا ہے : افرشنی فلان ظھرہ و بطنہ  ای اطلعنی على سرہ و علانیتہ یعنی اس نے مجھ سے اپنا خفیہ و علانیہ سب کچھ بیان کردیا ۔

جنى: یہ جنی سے ماخوذ ہے , جنى الثمر درخت سے پھل توڑنا,  جنی الذہب کان سے سونا نکالنا, جنی جنایۃ یعنی گناہ کرنا , جنی کا معنى ہے چنا ہوا یا توڑا ہوا تازہ پھل , ج اجناء و اجن ہے ۔

دان: قریب , یہ دنو سے ہے قرب کے معنى میں  ۔

قاصرات:یہ قاصرۃ کی جمع ہے , اس کا اصل مادہ قصر ہے , اور یہ کئی معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے  مثلا: ناقص ہونا, ارزاں ہونا, قصر عن الشئی: رکنا اور عاجزی کی وجہ سے چھوڑ دینا ۔قاصر فقہاء کی اصطلاح میں اس کو کہتے ہیں جو قانونی تصرفات سے عاجز ہو , جو رشد کی عمر کو نہ پہنچا ہو ۔ 

الطرف: نگاہ , آنکھ, کسی چیز کا کنارا, ہر چیز کا منتہی جمع اطراف , امراۃ  قاصرۃ الطرف کا  مطلب ہے انتہائی باحیا  عورت جو اپنی نگاہ کوصرف اپنے شوہر ہی پر مرکوز رکھے ۔

 یطمث: یہ طمث  سے فعل مضارع ہے , اس کا ایک معنی حیض آنا ہے , بولا جاتا ہے: طمث المراۃ ای حاضت  یعنی  عورت کو حیض آیا , اس کا دوسرا معنى ہے جماع کرنا  اور ایک تیسرا معنى چھونا ہے ۔ کہا جاتا ہے: ما طمث ہذا البعیر حبل ای ما مسہ عقال یعنی اس  اونٹ کو رسی نے نہیں چھوا ہے ۔

جان: جن , جمع جنان (ج پر کسرہ و ن پر تشدید) , اس کا مادہ جن ہے جس کا ایک معنى چھپنا ہے , اس کو جن اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں سے چھپا ہوتا ہے اور دکھائی نہیں دیتا ہے ۔

الیاقوت:  سخت شفاف  قیمتی پتھرجو مختلف رنگوں کا ہوتا ہے ۔جمع یواقیت ہے ۔

المرجان: مونگا, سرخ یا گلابی رنگ کا قیمتی پتھر (موقع المعانی, الوسیط للطنطاوی و مصباح اللغات)

    ترجمہ:  اور ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو  دو باغ ہیں,  پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟  کئی شاخوں اور ٹہنیوں والی, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   ان دونوں میں دو جاری چشمے ہیں, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   ان دونوں میں ہر پھل کی دو قسمیں ہیں, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   جنتی لوگ ایسے فرشوں پر تکیے لگا کے بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے  اور ان دونوں باغوں کے پھل بہت قریب ہوں گے ۔ پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   ان (نعمتوں ) میں نیچی نگاہ والیاں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی انسان و جن نے نہیں چھوا ہے, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   گویا کہ وہ یاقوت اور مونگے ہیں ۔ پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟   احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہے؟

    تفسیر:  قرآن کا یہ دستور ہے کہ جب بھی وہ نیک لوگوں کے حالات کو بیان کرتا ہے تو ساتھ ہی برے لوگوں کے احوال کا بھی ذکر کرتا ہے ۔ یا  کبھی اس کے برعکس بھی ہوتا ہے ۔ تو اب اللہ تعالى مجرموں کو ملنے والی سزا کے بارے میں وضاحت کے بعد  ان آیتوں میں اہل تقوى کے لیے اپنی نعمتوں, عظیم اجر  اور بدلے  کا ذکر  کر رہا ہے۔چنانچہ فرمایا :و لمن خاف مقام ربہ جنتان اور جو شخص اپنے رب کے مقام سے ڈرتا ہے اس کے لیے دو باغ ہیں... یہاں سے ان نعمتوں کا شمار کرنا شروع کیا جو آخرت میں نیک لوگوں پر برسائی  جائیں گی۔(الوسیط للطنطاوی)

   مقام یہ مصدر میمی ہے اور قیام کے معنى میں ہے اور فاعل کی طرف مضاف ہے ۔معنى ہے : ولمن خاف قیام ربہ علیہ و کونہ مراقبا لہ و مہیمنا علیہ  یعنی جو شخص اپنے رب کی نگرانی سے ڈرتا ہے , اس بات سے خوف کھاتا ہے کہ وہ اس کے اوپر نظر رکھے ہوئے ہے اور اس کا مراقبہ کر رہا ہے ۔

    تو یہاں پر قیام کا وہی معنى ہے جو اس آیت میں ہے: أفمن ہو قائم على کل نفس بما کسبت (رعد/33) کیا وہ ذات جو ہر نفس کے عمل کی نگرانی و نگہبانی  کر رہا ہے  یعنی  نگرانی کرنا , مراقبہ کرنا اور حفاظت کرنا ۔یا  یہ اسم مکان ہے اور اس سے مراد وہ جگہ ہے جہاں  قیامت کے دن حساب کے لیے مخلوق  کھڑی ہوگی ۔کیونکہ تمام مخلوق  قیامت کے دن  اس کے سامنے کھڑی ہوگی جیسا کہ فرمان الہی ہے: یوم یقوم الناس لرب العالمین(مطففین/6) جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔

    اس آیت  کا معنى ہےکہ وہ ہر شخص  جو اس سے ڈرتا ہے اور اس دنیا میں آخرت کے لیے  نیک عمل کرتا ہے یا  اس کا معنى ہے کہ ہر وہ شخص جو یوم قیامت حساب کے لیے اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اور اس کے قبضہ و  غلبہ , سلطنت و حکومت  اور اس کے جزاسے خوف کھاتا ہے  تو اس کے لیے دو باغ ہیں جن کے درمیان وہ منتقل ہوتا رہتا ہے  تاکہ اس کی خوشی اور شادمانی میں اضافہ ہو ۔(الوسیط للطنطاوی)

    صاحب کشاف نے تحریر کیا ہے کہ اگر کوئی سوال کرتا ہے کہ یہاں پر دو باغ کیوں کہا گیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں پر خطاب انسان و جنات دونوں سے ہے ۔ تو گویا کہ فرمایا گیا کہ تم میں سے ہر ایک خوف کھانے والے کے لیے دو باغ ہیں ایک باغ خوف کھانے والے انسان کے لیے اور دوسرا خوف کھانے والے جن کے لیے ہے ۔اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ ایک باغ طاعتوں کے بدلے میں ہے جب کہ دوسرا باغ گناہوں کے چھوڑ نے پر ہے  کیونکہ انسان ان دونوں کا مکلف ہے ۔ اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایک جنت ثواب و بدلہ کے طور پر ہوگا جب کہ دوسرا جنت از راہ فضل و کرم ہوگا ۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے: للذین احسنوا الحسنى و زیادۃ(یونس /26) (الوسیط للطنطاوی)

     ان باغات کے  تعلق سے حدیث  میں آیا ہے کہ: جنتان من فضۃ آنیتھما و ما فیھما و جنتان من ذھب آنیتھما و ما فیھما یعنی  دو باغ چاندی کے ہیں جن میں برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب چاندی کے ہوں گے ۔ دو باغ سونے کے ہیں اور ان کے برتن اور جو کچھ ان میں ہے سب سونے ہی کے ہوں گے (بخاری) بعض آثار میں ہے کہ سونے کے باغ خواص مومنین مقربین اور چاندی کے باغ عام مومنین اصحاب الیمین کے لیے ہوں گے ۔ (ابن کثیر)

    اور اللہ کا قول : ذواتا أفنان جنتین کی صفت ہے  یعنی دونوں باغ بہت زیادہ ٹہنیاں اور شاخوں والے ہوں گے جو انتہائی خوبصورت, نرم و ملائم اور ترو تازہ ہوں گی ۔۔(الوسیط للطنطاوی) یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اس میں سایہ گنجان اور گہرا ہوگا نیز پھلوں کی کثرت ہوگی کیونکہ ہرشاخ اور ٹہنی پھلوں سے لدی ہوگی(تفسیر احسن البیان) ۔ پھر اللہ تعالى نے ان کی دوسری خوبیوں  کا ذکر کیا ہے اور فرمایا : ان میں سے ہر باغ میں شیریں پانی کا جاری چشمہ ہے جس سے درخت اور ٹہنیاں سیراب ہوتی ہیں اور ہر قسم کا پھل دیتی ہیں ۔ حضرت حسن بصری کا کہنا ہے کہ ان میں سے ایک کا نام تسنیم اور دوسرے کا سلسبیل ہے(ابن کثیر) اسی طرح ان دونوں میں ہر پھل دو قسم کا ہوگا  تاکہ اہل تقوى ان کو تناول کریں اور اس سے لطف اندوز ہوں و لذت حاصل کریں جو نہ ختم ہوگا اور نہ کسی کو اس سے روکا جائے گا ۔(الوسیط للطنطاوی) ہر پھل دو قسم کا ہونا  یہ مزید فضل خاص کی ایک صورت ہے , بعض کا کہنا ہے کہ ایک قسم خشک میوے کی اور دوسری تازہ میوے کی ہوگی ۔(تفسیر احسن البیان) اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ دونوں باغوں کے پھلوں کی شان نرالی ہوگی ۔ ایک باغ میں جائے گا تو ایک شان کے پھل اس کی ڈالیوں میں لدے ہوئے ہوں گے ۔ دوسرے باغ میں جائے گا تو اس کے پھلوں کی شان کچھ اور ہی ہوگی ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان میں سے ہر باغ میں ایک قسم کے پھل معروف ہوں گے جن سے وہ دنیا میں آشنا تھا خواہ مزے میں وہ دنیا کے پھلوں سے کتنے ہی فائق ہوں , اور دوسری قسم کے پھل نادر ہوں گے جو دنیا میں کبھی اس کے خواب و خیال میں بھی نہ آئے تھے ۔ ( ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی, ابو الاعلى مودودی)

     بعد ازاں اللہ تعالى نے ان کی مجلس کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جنتی لوگ ایسے فرشوں پرتکیوں پر  ٹیک  لگا کے جم کے  بیٹھیں گے جن کے استر دبیز ریشم کے ہوں گے  اور ان دونوں باغوں کے پھل بہت قریب ہوں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اوپر والا کپڑا ہمیشہ استر سے بہتر اور اچھا ہوتا ہے ۔ یہاں صرف استر کا بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اوپر والا کپڑا اس سے کہیں زیادہ عمدہ ہوگا ۔ اور پھل اتنے قریب ہوں گے کہ بیٹھے بیٹھے بلکہ لیٹے لیٹے بھی توڑ سکیں گے۔ یعنی وہ ان پھلوں کو حاصل کرنے کی زحمت نہیں کریں گے ، بلکہ اپنے آرام دہ بستر پر ٹیک لگا کر ان میں سے جتنے چاہیں چن لے   گیں۔ان کو توڑنے  میں کسی قسم کی کوئی مشقت نہیں ہوگی بلکہ وہ ان کو حسب خواہش توڑ سکیں گے اس حال میں کہ وہ اپنے بچھونوں پر ٹیک لگائے ہوں گے ۔ ((الوسیط للطنطاوی و تفسیر احسن البیان)

اور یہ جملہ" متکئین على فرش بطائنھا" , و لمن خاف مقام ربہ سے حال واقع ہے۔

اوریہاں  اللہ تعالى نے  ٹیک لگانے کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ خوشحال,  آسودہ حال , عیش و عشرت کی زندگی  گذارنے والوں کی علامت ہوتی ہے  جو بنا کسی فکر و غم کے ہنسی خوسی والی زندگی بسر کرتے ہیں ۔اور راحت و آرام کے ساتھ بیٹھتے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر بیٹھتا ہے ۔   

بعد ازاں اللہ تعالى نے اپنی دوسری نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا  کہ ان میں ایسی عورتیں ہوں گی  جن کی نگاہیں صرف اپنے شوہروں تک محدود ہوں گی  اور ان کے علاوہ وہ کسی کی طرف متوجہ نہیں ہوں گی ۔ ان کو اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہوں گے ۔(الوسیط للطنطاوی)

یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بیباک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو ۔اسی لیے اللہ تعالى نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے ( ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی, ابو الاعلى مودودی)

 اور یہ عورتیں سب کے سب کنواری اور  باکرہ ہوں گی ۔ ان سے کسی نے اس سے پہلے جماع نہیں کیا ہوگا اور ان کے کنوارہ پن  کو ان شوہروں سے پہلے کسی نے  زائل نہیں کیا ہوگا۔ گویا کہ یہ عورتیں اپنے نکھار, صاف پن , حسن و جمال اور اپنے رخساروں کی سرخی میں یاقوت و مرجان ہیں  ۔(الوسیط للطنطاوی) 

یہ آیت اور اس سے ما قبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مؤمن ہوں گے وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے ۔ اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دوسرے اہل ایمان کے لیے ہوگا۔

صحیح احادیث میں ان کے  حسن و جمال کو ان الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے: یری مخ سوقھن من وراء العظم و اللحم (بخاری و مسلم) ان کے حسن و جمال کی وجہ سے ان کی پنڈلی کا گودا , گوشت اور ہڈی کے باہر سے نظر آئے گا ۔ایک دوسری روایت میں ہے کہ جنتیوں کی بیویاں اتنی حسین و جمیل ہوں گی کہ اگر ان میں سے ایک عورت زمین والوں کی طرف جھانک لے تو آسمان و زمین کے درمیان کا سارا حصہ چمک اٹھے اور خوشبو سے بھر جائے اور اس کے سرکا دوپٹہ اتنا قیمتی ہوگا کہ وہ دنیا و ما فیہا سے بہتر ہے ۔(بخاری)

اور اللہ تعالى نے ان نعمتوں کا خاتمہ  اپنے اس قول سے کیا: ھل جزاء الاحسان الا الاحسان , اس میں استفہام نفی کے لیے ہے یعنی احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔  لہذا پہلے احسان سے مراد نیکی اور اطاعت الہی اور دوسرے احسان سے اس کا صلہ یعنی جنت اور اس کی نعمتیں ہیں ۔یعنی جو ایمان لایا اور عمل صالح کیا , اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہشات سے باز رکھا اس کا بدلہ یہی ہے کہ اسے اچھا اجر دیا جائے اور اسے ایسی نعمت دی جائے جس سے وہ خوش ہو اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔

اب آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو احسان کی توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ جنت کے مستحق ہوں ۔ آمین 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: