جنت کی نعمتوں کا بیان ( 4)
آيات: {وَمِن دُونِهِمَا جَنَّتَانِ}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ }{ مُدۡهَآمَّتَانِ }{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦} { فِيهِمَا عَيۡنَانِ نَضَّاخَتَانِ ٦٦} {فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦}{فِيهِمَا فَٰكِهَةٞ وَنَخۡلٞ وَرُمَّانٞ ٦٨}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦}{ فِيهِنَّ خَيۡرَٰتٌ حِسَانٞ ٧٠} {فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦} {حُورٞ مَّقۡصُورَٰتٞ فِي ٱلۡخِيَامِ ٧٢}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦}
{ لَمۡ يَطۡمِثۡهُنَّ إِنسٞ قَبۡلَهُمۡ وَلَا جَآنّٞ ٧٤}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦} { مُتَّكِِٔينَ عَلَىٰ رَفۡرَفٍ خُضۡرٖ وَعَبۡقَرِيٍّ حِسَانٖ ٧٦}{فَبِأَيِّ ءَالَآءِ رَبِّكُمَا
تُكَذِّبَانِ ١٦}{تَبَٰرَكَ ٱسۡمُ رَبِّكَ ذِي ٱلۡجَلَٰلِ وَٱلۡإِكۡرَامِ
٧٨} (رحمان 62-78)
معانی کلمات:
دون: یہ ظرف مکان منصوب ہے اور اس کا معنى مضاف الیہ کے اعتبار
سے ہوتا ہے ۔یہ تحت یعنی نیچے کے معنى میں آتا ہے مثلا : دون قدمک بساط یعنی
تمہارے پاؤں کے نیچے بچھونا ہے , اوپر مثلا: السماء دونک یعنی آسمان تمہارے اوپر
ہے, پیچھے جیسے: جلس الوزیر دون الامیر یعنی وزیر امیر کے پیچھے بیٹھا , آگے جیسے:
سار الرائد دون الجماعۃ یعنی قائد جماعت کے آگے چلا, غیر, ما سوا, علاوہ جیسے :
یغفر ما دون ذلک اس کے علاوہ کو بخش دے گا ۔ کم تر, نیچا کہا جاتا ہے ہو دونہ یعنی وہ اس سے مرتبہ
میں کم تر و نیچا ہے, اس کا ایک معنى حقیر, کم مرتبہ و گھٹیا ہے مثلا شئی دون یعنی گھٹیا چیز۔
مدہامتان: یہ دہم سے ماخوذ
ہے , اس کا ایک معنى کالا ہونا ہے, دہم
الشئی یعنی چیز کالی ہوگئی , ایک دوسرا معنی ہے کسی چیز کا اچانک پیش آنا مثلا
دہمہ المصاب یعنی اس پر اچانک مصیبت آگئی ۔دھمت الشرطۃ بیتہ یعنی پولس نے اس کے
گھر پر دھاوا بول دیا۔وغیرہ , یہاں کالا ہونے کے معنی میں ہے ۔
نضاختان:یہ نضخ سے مشتق
ہے, اس کا معنى ہے ابلنا, چھڑکنا اور تر کردینا ۔ بولا جاتا ہے : نضخ الماء یعنی
پانی چشمہ سے ابلنا, نضخ الشئی نضخا یعنی کسی پر پانی یا خوشبو چھڑکنا ۔
خیرات:یہ صفت ہے اس کا موصوف نساء محذوف ہے ۔
نیک سیرت, اچھے اخلاق والیاں
حسان:یہ حسن سے بنا
ہے اور حسناء کی جمع ہے اس کا معنى
انتہائی خوبصورت, خوبصورتی میں یکتا و ممتاز
حور: حوراء کی جمع ہے, کہا
جاتا ہے کہ وہ حور والی عورت ہے یعنی ایسی
خوبصورت آنکھ والی عورت جس کی سفیدی و
سیاہی بہت زیادہ سفید و سیاہ ہو ۔
مقصورات:یہ مقصورہ کی جمع
ہے , یہ کئی معانی کے لیے مستعمل ہے مثلا
مقصورۃ الدار گھر کا چھوٹا مخصوص کمرہ جو دوسرے کمروں سے الگ بنا ہو, مقصورۃ
المسجد یعنی امام کا مصلى, امراۃ مقصورۃ
یعنی گھر میں محفوظ عورت جو اس سے باہر نہ نکلتی ہوجو صرف اپنے شوہروں پر اپنی
نگاہ مرکوز رکھتی ہو ۔
خیام:یہ خیمہ کی جمع ہے
, ڈیرہ , ہر وہ مکان جو اینٹ , پتھر مٹی
وغیرہ سے نہ بنا ہو ۔عارضی گھر
رفرف: یہ رف سے بنا ہے
بمعنی بلندی و ارتفاع , اسم جمع ہے واحد رفرفہ ہے۔بلند تکیے
خضر:یہ رفرف کی صفت ہے اور
خضراء کی جمع ہے بمعنى سبز, ہرا بھرا, ترو تازہ
عبقری:
ہر وہ چیز جو اپنی نوعیت میں انتہائی
ممتاز ہو اور اپنی خوبیوں و صفات میں نایاب ہو , یہ عبقر کی طرف
منسوب ہے جو یمن کا ایک گاؤں ہے جہاں خوبصورت منقش فرش بنائے جاتے ہیں , ابن
الانباری کا کہنا ہے کہ عبقر ایک گاؤں ہے جہاں جن رہتے ہیں جس کی طرف ہر فائق بہتر
چیز کی نسبت کی جاتی ہے۔قرطبی کا قول ہے کہ عبقری بچھائے جانے والے منقش کپڑوں کو
کہتے ہیں , ابو عبید کا کہنا ہے کہ وہ ایسی جگہ کی طرف نسبت ہے جہاں کڑھائی و نقش
نگاری ہوتی ہے ۔یہاں مراد سونے سے کڑھائی کیا ہوا انتہائی معیاری اور خوبصورت کپڑا
۔
تبارک: ارتفع یعنی بلند
ہوا, تبارک اللہ ای تقدس و تنزہ یعنی اللہ مقدس و منزہ ہے ۔ اسی سے برکت ہے جس
کا معنى زیادتی, بہتات, نیک بختی ,
نمو ہے ۔
جلال: یہ جل کا مصدر ہے, عظمت,
بلندی , رتبہ (موقع المعانی, الوسیط
للطنطاوی و مصباح اللغات)
ترجمہ:
اور ان دونوں کے علاوہ دو باغ اور ہیں , پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟
گھنے سر سبز و شاداب سیاہی مائل,پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات
کو جھٹلاؤ گے؟ ان دونوں میں دو فواروں کی
طرح ابلتے ہوئے دو چشمے ہیں , پس تم اپنے
رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟
ان دونوں میں میوے, کجھور اور انار ہیں, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ ان میں نیک سیرت خوبصورت عورتیں ہیں, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ خیموں میں قیام پذیر حوریں ہیں, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟ جن کو ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہیں چھوا, پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟
وه سبز قالينوں اور عمدہ فرشوں پر تکیہ لگا کے بیٹھیں گے پس تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے؟
تیرے
رب کا نام بابرکت ہے جو عزت و جلال والا ہے ۔
تفسیر:
اس سے پہلے 48سے 60 تک کی آیتوں میں اللہ تعالى نے جنت میں پائی جانے والی متعدد
نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ اس کے بعد بھی یہ سورت اپنی انتہا تک اس میں موجود مختلف قسم کی نعمتوں کا لگاتار تذکرہ جاری رکھتی ہے جو اللہ سے خوف کھانے والوں کو عطا کی
جائیں گی۔
ومن
دونہما جنتان یہ اس سے پہلے اللہ
تعالى کے قول و لمن خاف مقام ربہ .. پر
معطوف ہے ۔ اور یہاں پر دون کا دو معنى
ہونے کا امکان ہے ۔ پہلا امکان یہ ہے کہ یہ غیر کے معنى میں ہے یعنی جو
اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے کا خوف رکھتا ہے
اس کے لیے ان دونوں کے علاوہ دو
باغ اور ہیں ۔ایسی صورت میں یہ اللہ تعالى
کے قول : للذین أحسنوا الحسنى و زیادۃ کے قبیل سے ہے ۔ اس امکان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالى
نے ان دونوں باغات کا تقریبا وہی
وصف بیان کیا ہے جو سابقہ دو جنتوں کا بیان کیا ہے , اور ان صفات کی تکرار کا مقصد
نیک اعمال کی ترغیب دینا ہے جو ان باغات اور ان میں موجودنعمتوں اور اچھی چیزوں تک پہنچانے والی ہیں اور ان کے حصول
کا سبب ہیں ۔ (الوسیط
للطنطاوی)
دوسرا
امکان ہے کہ یہاں پر دون اقل کے معنى میں ہو یعنی ان دونوں باغات سے شان و
فضیلت , مقام و مرتبہ میں یہ دو باغ فروتر و کم تر ہوں گے۔ جمہور مفسرین نے یہی
معنى مراد لیا ہے, یہی رائے امام ابن کثیر کی بھی
ہے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دونوں باغ سابقہ دونوں باغ سے مقام و مرتبہ ,
شان و فضیلت میں کم تر ہوں گے ۔ اور اس کی دلیل یہی آیت ہے ۔ لہذا سابقہ دو باغات مقربین کے لیے ہیں اور دوسرے دو باغ اصحاب الیمین کے لیے ہیں ۔(
تفسیر ابن کثیر و الوسیط للطنطاوی)
اور پہلی دو جنتوں کے دوسری دو جنتوں پر شرف
و فضیلت اور فرق کی کئی دلیلیں ہیں ۔ امام
قرطبی نے اپنی تفسیر میں دونوں کے درمیان فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:---
پہلا فرق یہ ہے کہ پہلی دونوں جنتوں میں دو جاری چشمے ہیں جب کہ
دوسری دو جنتوں میں دو ابلنے والے چشمے ہیں
اور ظاہر ہے کہ ابلنے والے چشمے بہتے
ہوئے چشموں کی طرح نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ ابلنا بہنے سے کم تر ہوتا ہے ۔
دوسرا فرق
یہ ہے کہ پہلی دو جنتوں میں ہر پھل دو قسم کا ہوگا ۔ اس میں عمومیت ہے
مخصوص نہیں ہے ۔ جب کہ دوسری دو جنتوں میں پھل, کچھور اور انار ہوگا ۔ اس میں ہر
پھل و میوہ نہیں کہا گیا ہے ۔
تیسرا فرق یہ ہے کہ پہلے میں دیباج کا لفظ
آیا ہے جو موٹا ریشمی کپڑا ہے جب کہ دوسرے میں عبقری یعنی منقش کڑھائی والا
کپڑا کا بیان ہے ۔ اور بلا شبہ دیباج منقش
سے بہتر و عمدہ ہوتا ہے ۔
چوتھا فرق یہ ہے کہ پہلے میں حور کو یاقوت و
مرجان سے تشبیہ دی گئی ہے اور دوسرے میں
صرف خیرات حسان کہا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ ہر حسن یاقوت و مرجان کے حسن کی طرح
نہیں ہوتا ہے ۔
پانچواں فرق یہ ہے کہ وہاں پر ذواتا افنان
فرمایا ہے جو کہ ڈالیاں اور شاخیں ہیں یا
پناہ گاہ میں فن و تفریح ہے اور یہاں صرف
مد ھامتان کہا ہے جس کا مطلب ہے کہ زیادہ سیرابی کی وجہ سے سیاہی مائل ہوں گی۔(تفسیر
قرطبی)
مذکورہ بالا فروق سے اچھی طرح سابقہ و لاحقہ
جنتوں میں شرف و فضیلت , مقام و مرتبہ کا
تفاوت واضح ہے ۔
ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ تعالى نے پہلی دو جنتوں کا ذکر و وصف دوسری دو جنتوں سے پہلے کیا ہے
اور کسی چیز کا ذکر کسی پر مقدم کرنا
اہتمام اور توجہ دینے پر دلالت کرتا ہے ۔
اس سے متقدم کے شرف و بلندی مرتبہ کا علم ہوتا ہے ۔ (تفسیر
ابن کثیر و الوسیط للطنطاوی)
امام قرطبی فرماتے ہیں کہ اگر یہ اعتراض کیا
جائے کہ ان دو نوں جنتوں میں رہنے والوں کا ذکر کیوں نہیں کیا گیاہے
جیسا کہ اس سے پہلی والی دونوں جنتوں کے باشندوں کا ذکر ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے
کہ چاروں باغات ان کے لیے ہیں جو اپنے رب کے
حضور میں قیام سے خوف کھاتے
ہیں لیکن
خائفین کے بھی درجات ہوتے ہیں ۔ لہذا پہلی والی دو جنتیں ان بندوں کے لیے خاص ہیں جو اللہ تعالى سے بہت زیادہ خوف کھاتے
ہیں اور وہ خوف کے بلند مرتبہ پر فائز ہیں
اور دوسرے دو باغات ان کے لیے ہیں جن کا اللہ سے خوف کم درجہ کا
ہے ۔اکثر کا یہی ماننا ہے کہ پہلی والی دو جنتیں سابقین مقربین کے لیے ہیں اور یہ دونوں اصحاب یمین کے
لیے ہیں ۔( تفسیر قرطبی و التفسیرالوسیط للطنطاوی)
مدھامتان یہ
جنتین کی صفت ہے یعنی وہ دونوں
انتہائی ہرے بھرے و سرسبزو شاداب ہوں گے
اور کثرت سیرابی و سبزے کی فراوانی کی وجہ سے وہ مائل بہ سیاہی ہوں گے ۔پھر
فرمایا کہ ان میں دو چشمے ہیں جن سے فوارے
کی طرح پانی نکل رہا ہے جو کبھی ختم نہیں
ہوگا ۔
نخل و رمان کا عطف فاکہۃ پر ہے حالانکہ جمہور
کے نزدیک یہ دونوں بھی فاکہۃ میں داخل
ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فضیلت و
خوبی کی وجہ سے ان کو الگ ذکر کیا ہے تو
گویا کہ وہ اپنی خصوصیات کی وجہ سے دو الگ جنس ہیں یا جیسا کہ صاحب کشاف کا کہنا
ہے کہ کجھور کا پھل میوہ اور خوراک بھی ہے
اور انار میوہ اور دواء ہے تو یہ دونوں خالص میوے نہیں ہیں ۔ اسی بنا پر امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ اگر
کوئی میوہ نہ کھانے کی قسم کھاتا ہے اور وہ انار یا کجھور کھالیتا ہے تو وہ قسم کا
توڑنے والا نہیں ہوگا۔ (تفسیر قرطبی و الوسیط)
فیہن
کی ضمیر یہ چاروں باغوں کی طرف لوٹ رہی ہے
دو وہ باغ جن کا ذکر آیت نمبر46 /میں
ہے اور دو وہ باغ جن کا ذکر اس آیت 62/ میں ہے ۔
خیرات سے مراد اخلاق و کردار کی خوبیاں ہیں اور
یہ صفت ہے اس کا موصوف "نساء "محذوف ہے یعنی نساء خیرات حسان ۔ حسان کا مطلب ہے حسن و جمال میں یکتا یعنی ان باغوں میں انتہائی خوب سیرت و خوبصورت , فاضلہ ,نیک , اچھے اخلاق والی , خیموں میں قیام
پذیر , اپنے گھروں میں باقی رہنے والی عورتیں ہیں جو اپنے گھروں سے نکل کر سڑک پر
نہیں دوڑتی ہیں بلکہ اپنے گھروں کو لازم پکڑتی ہیں ۔ ا یہ بہترین و خوب سیرت
عورتوں کی صفت ہوتی ہے ۔ ان عورتوںکو اس سے پہلے کسی نے چھوا تک نہیں ہے اور نہ ان سے کسی نے ہم بستری کی ہے ۔
حدیث میں آیا ہے کہ جنت میں موتیوں کے خیمے
ہوں گے , ان کا عرض 60/میل ہوگا اس کے ہر کونے میں جنتی کے اہل ہوں گے جس کو دوسرے
کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے ۔مومن اس میں گھومے گا (بخاری و مسلم)
رفرف مسند, غالیچہ یا اس قسم کا عمدہ
فرش,عبقری ہر نفیس اور اعلى چیز کو کہا جاتا ہے ۔نبی کریم نے حضرت عمر کے لیے یہ
لفظ استعمال فرمایا : فلم ار عبقریا یفری فریہ (بخاری) میں نے کوئی عبقری ایسا
نہیں دیکھا جو عمر کی طرح کام کرتا ہو ۔ مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر فروکش
ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں , غالیچے اور اعلى قسم کے خوبصورت منقش فرش بچھے
ہوں گے ۔اور ان قالینوں پر ہوں گے جو اپنی خوبصورتی , عمدگی اور کڑھائی کی باریکی میں
اعلى پیمانہ کے ہوں گے اور اس کی
انتہاء کو پہنچے ہوئے ہوں گے ۔
پھر اللہ تعالى نے اس سورت کو تبارک اسم ربک
ذی الجلال و الاکرام پر ختم کیا ہے یعنی
اللہ کی شان بہت عظیم , بزرگ و برتر ہے , اور اس کا اسم گرامی ہر اس چیز سے بلند
ہے جو اس کے عظیم مرتبے کے لائق نہیں ہے ۔وہ عزوجل جلال والا ہے یعنی صاحب عظمت
مطلق, بے نیاز ہے ۔ صاحب اکرام ہے یعنی مکمل فضل و احسان والا ہے جس کے احسان کا
کوئی موازنہ نہیں ہے ۔ (التفسیر الوسیط للطنطاوی)
قارئین کرام :قرآن کی تلاوت کرنے والا ہر
کوئی جانتا ہے کہ اس سورت میں ایک آیت "فبای آلاء ربکماتکذبان"31/مرتبہ
آئی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالى نے اس
آیت کو بار بار کیوں دہرایا
ہے ؟ اس میں کیا حکمت و فلسفہ ہے
؟ اور اس سے ہمیں کیا معلوم ہوتا ہے؟ تو
اس کے کئی جواب مندرجہ ذیل ہیں :---
پہلا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالى نے اس سورت
میں اپنی انواع و اقسام کی نعمتوں کا ذکر
فرمایا ہے اور ہر نعمت یا چند نعمتوں کے ذکر کے بعد یہ سوال کیا ہے حتى کہ میدان محشر کی ہولناکیوں اور جہنم کے
عذاب کے بیان کے بعد بھی یہ سوال پوچھا ہے
جس کا مطلب ہے کہ امور آخرت کی یاددہانی بھی نعمت عظیمہ ہے تاکہ بچنے والے اس سے
بچنے کی کوشش کر لیں ۔ (احسن البیان)
یہاں پر اپنے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ
ذکر کیا جاتا ہے۔بلاشبہ اللہ تعالى نے جہنم و اس کے عذاب کو بھی نعمت قرار دیا
ہے جیسا کہ آیت نمبر 43 و 44 میں ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ مجھ سے یہی سوال
31/اکتوبر2019ع کو مالیگاؤں کے ایک وکیل
نیاز احمد لودھی نے پوچھا تھا
لیکن اس وقت میں کوئی جواب نہیں دے سکا تھالیکن جب بعینہ یہی سوال مجھ سے ام سلیم نظام آباد کی
ایک طالبہ نےجولائی 2024 ع میں بھی پوچھاتو میرے ذہن میں اللہ کے فضل و کرم
سے فورا
یہ بات آئی کہ اللہ تعالى اپنے رسولوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ رسلا
مبشرین و منذرین (نساء/165) یعنی رسولوں کو خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا
کر بھیجا ہے تاکہ لوگ ایمان لائیں ۔ تو خوشخبری کے لیے جنت اور اس کی نعمتوں کا
استعمال ہوتا ہے اور ڈرانے کے لیے جہنم اور اس کے عذاب کا استعمال ہوتا ہے ۔ اب
اگر کوئی شخص جہنم و اس کے عذاب سے ڈر کر ایمان لے آتا ہے تو یہ اس کے حق میں نعمت
ہے کیونکہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ گیا ۔ اسی لیے اللہ تعالى نے اس کو نعمت قرار دیا
ہے اور اگر جہنم و اس کا عذاب نہ ہوتا تو پھر رسول کس چیز سے ڈراتے ۔ تو یہ اس کا
ایک معقول جواب ہے ۔ طالبہ یہ جواب سن کر مطمئن ہوگئی فالحمد للہ على ذلک ۔
دوسرا
:نعمتوں کے بیان سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اللہ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانا
جائز و مستحب , حلال و مشروع ہے ۔ یہ نہ
زہد و تقوى کے خلاف ہے اور نہ اللہ
کے ساتھ تعلق میں رکاوٹ ہے , جیسا کہ بعض اہل تصوف یقین دلاتے ہیں ۔
تیسرا : بار بار یہ سوال کہ تم اللہ کی کون
کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ یہ ڈانٹ پھٹکار اور دھمکی کے طور پر ہے جس کا مقصد اللہ کی نافرمانی سے
روکنا ہے, جس نے یہ ساری نعمتیں پیدا کی ہیں اور ان کو برابر مہیا کرتا ہے , اسی لیے نبی کریم نے اس کے جواب
میں یہ پڑھنا پسند فرمایا ہے : لا بشئی من نعمک ربنا نکذب و فلک الحمد یعنی اے
ہمارے رب ہم تیرے کسی بھی نعمت کی تکذیب نہیں کرتے ہیں , پس تمام تعریفیں تیرے ہی
لیے ہیں (ترمذی و سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی
) لیکن نماز میں اس جواب کا پڑھنا صحیح نہیں ہے ۔(احسن
التفاسیر)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جنت میں صرف ایک قسم کا
باغ نہیں ہے بلکہ اس میں انواع و اقسام کے باغات ہیں جن میں مختلف و متعدد
نعمتیں فراوانی کے ساتھ موجود ہیں لیکن یہ
تمام باغات ایک طرح کے نہیں ہیں بلکہ
ان میں مقام و مرتبہ , درجہ و فضیلت کے
اعتبار سے فرق ہے اور کم از کم ان کی دوقسم ہے
۔ کچھ اصحاب الیمین کے لیے مخصوص ہیں تو کچھ مقربین کے لیے ہیں یا دو اعلى جنتیں اللہ تعالى سے زیادہ خوف کھانے
والوں کے لیے اور دو اس سے کم تر جنتیں اللہ تعالى سے کم خوف کھانے والوں کے لیے ہیں جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا۔
اب آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کو
پڑھنے, اس کو سمجھنےاور اس کے مطابق عمل
کرکے جنت کے حصول کا مستحق بنائے ۔ آمین و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان
الحمد للہ رب العالمین ۔
0 التعليقات: