جنت کی نعمتوں کا بیان (5)

 

                      جنت کی نعمتوں کا بیان (5)

                                                                                  ابو میمونہ

آیات:

{وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلسَّٰبِقُونَ ١٠} {أُوْلَٰٓئِكَ ٱلۡمُقَرَّبُونَ ١١}{فِي جَنَّٰتِ ٱلنَّعِيمِ ١٢}  {ثُلَّةٞ مِّنَ ٱلۡأَوَّلِينَ ١٣} {وَقَلِيلٞ مِّنَ ٱلۡأٓخِرِينَ ١٤} {عَلَىٰ سُرُرٖ مَّوۡضُونَةٖ ١٥}{مُّتَّكِ‍ِٔينَ عَلَيۡهَا مُتَقَٰبِلِينَ ١٦}{يَطُوفُ عَلَيۡهِمۡ وِلۡدَٰنٞ مُّخَلَّدُونَ ١٧}{ بِأَكۡوَابٖ وَأَبَارِيقَ وَكَأۡسٖ مِّن مَّعِينٖ ١٨} {لَّا يُصَدَّعُونَ عَنۡهَا وَلَا يُنزِفُونَ ١٩}{وَفَٰكِهَةٖ مِّمَّا يَتَخَيَّرُونَ ٢٠} {وَلَحۡمِ طَيۡرٖ مِّمَّا يَشۡتَهُونَ ٢١}  {وَحُورٌ عِينٞ ٢٢} {كَأَمۡثَٰلِ ٱللُّؤۡلُوِٕ ٱلۡمَكۡنُونِ ٢٣}{ جَزَآءَۢ بِمَا كَانُواْ يَعۡمَلُونَ ٢٤} {لَا يَسۡمَعُونَ فِيهَا لَغۡوٗا وَلَا تَأۡثِيمًا ٢٥}{ إِلَّا قِيلٗا سَلَٰمٗا سَلَٰمٗا ٢٦}  

معانی کلمات:

  ثلۃ: ( ث پر ضمہ)اس کی جمع ثلل ہے , معنى  انسانوں کی بڑی جماعت , گروہ  اور طائفہ ہے ۔

سرر:سریر کی جمع ہے , معنى تخت, عموما تخت شاہی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ خواب گاہ,  فرش,  بستر, بچھونا,  مسند,گردن اور سر کے ملنے کی جگہ,  نعمت, خوشحالی وغیرہ

موضونۃ: اس کا اصل وضن ہے , وضن الشئی یعنی کسی چیز کو تہ بتہ رکھنا, ایک کو دوسرے پر موڑنا , وضن النسج او النسع یعنی کسی چیز کو بننا, کسی چیز کو پرونا, ترتیب دینا وغیرہ 

متقابلین:آمنے سامنے

ولدان: بچے , مفرد ولد و ولید, مذکر و مونث  دونوں کے لیے ہے ۔

مخلدون: خلد سے مشتق ہے اسی سے مخلد صفت ہے اس کی جمع مخلدون ہے ۔کسی چیز کا ہمیشہ  رہنا, لایخلد الا اللہ یعنی صرف اللہ باقی رہے گا, خلد الاسیر فی السجن : بقی فیہ ابدا یعنی اس میں ہمیشہ باقی رہا, خلد الاثر: دام و بقی و مایزال یعنی ہمیشگی , دوام , خلد بالمکان: کسی جگہ طویل قیام کرنا,  خلد الى الارض : لصق بہا زمین سے چمٹ جانا وغیرہ

اکواب: پیالہ, ایسا برتن جس میں دستہ نہ ہو۔ مفرد کوب

اباریق: جگ, کیتلی, لوٹا  , ایسا برتن جس میں دستہ اور ٹونٹی  ہو ۔مفرد  ابریق

معین: زمین پر جاری چشمہ

لا یصدعون عنہا :  ان کو اس شراب کے پینے سے  سردرد و پریشانی  نہیں ہوگی۔ عن باء کے معنى میں ہے ۔

ینزفون:اس کا اصل نزف سے ہے, مدہوش ہوجانا, عقل کا زائل ہوجانا , بے عقل ہونا, کہا جاتا ہے : نزف الشارب و انزف اذا ذھب عقلہ بالسکر جب نشہ سے کسی کی  عقل  زائل ہوجائے ۔

یتخیرون: یختارون بمعنی اختیار کرنا, پسند کرنا۔

حور: حوراء کی جمع ہے, کہا جاتا ہے کہ وہ حور والی عورت ہے یعنی  ایسی خوبصورت آنکھ  والی عورت جس کی سفیدی و سیاہی بہت زیادہ سفید و سیاہ ہو ۔ 

عین: (ع پر کسرہ) یہ عیناء کی جمع ہے , خوبصورت بڑی  آنکھ والی  عورت, آہو چشم 

مکنون:پوشیدہ, مخفی , یہ کن(ن پر تشدید)  سے مفعول ہے ۔

 لغو: یہ لغا سے مصدر ہے,   بیکار اور بیہودہ بات جس کا کوئی فائدہ نہ ہو , فضول گفتگو جو بیکار ہو اور جس کا کوئی وزن نہ ہو۔کہا جاتا ہے: لغا فلان یلغو  اذا قال کلاما یلام علیہ جب کوئی قابل ملامت بات کہے ۔

تاثیم: مصدر , گناہ کرنا , ایسا کلام جس کا کہنے والا اور سننے والا دونوں گناہ گار ہوں۔ (موقع المعانی, التفسیر الوسیط للطنطاوی,  ایسر التفاسیر للجزائری ومصباح اللغات)

ترجمہ:  اور آگے والے تو آگے والے ہی ہیں, وہی لوگ بہت زیادہ قریبی  ہیں,  نعمتوں  والی جنتوں میں  ہوں گے , اگلوں میں سے بہت بڑی تعداد  ہوگی اور پچھلوں میں سے کم ہوں گے,سونے کے تاروں  سے جڑے ہوئے تختوں پر تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھیں گے ۔ دائمی و ابدی بچے  یعنی  ایسے بچے جو ہمیشہ بچے ہی رہیں گے ان کے  چکر لگائیں گے  شراب چشمہ جاری سے لبریز جام , پیالے اور جگ لے کر, جسے پی کر نہ ان کا سر درد کرے گا اور نہ ان کی عقل میں فتور آئے گا , اور کئی قسم کے پھل لیے ہوئے کہ جس کو چاہیں چن لیں اور پرندوںکا  گوشت   لے کر کہ جس کا چاہیں استعمال کریں ۔ اور ان کے لیے خوبصورت آنکھوں والی  عورتیں   ہوں  گی  جو چھپا کر رکھے ہوئے موتیوں کے مثل ہیں , یہ سب کچھ ان کے عمل کا بدلہ ہے, وہاں وہ کوئی بے ہودہ کلام یا گناہ کی بات نہ سنیں گے  صرف سلامتی اور سلامتی کی بات ہوگی۔

تفسیر:

اس سے پہلے کی آیتوں میں اللہ عز وجل نے بتایا ہے کہ روز قیامت لوگوں  کی تین  قسمیں ہوں گی ۔ پہلی قسم : دائیں بازو والے, دوسری قسم : بائیں بازو والے , تیسری قسم : سابقون کی ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر سبقت لے جاتے ہیں ہر قول و فعل میں جس میں اللہ کی اطاعت اور اس کی قربت ہے ۔ اور اس قسم کی ترکیب میں واضح ہے کہ پہلا سابقون مبتدا ہے جب کہ دوسرا اس کی خبر ہے ۔ جیسا کہ عربوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ لفظ کو دہراتے ہیں  اور دوسرے کو پہلے کی خبر بناتے ہیں اور اس سے ان کی مراد ہوتی ہے کہ مخبر عنہ مشہور و معروف ہے, اس کی تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ شاعر کا قول ہے: ---

                       انا ابو النجم                                      و شعری شعری

یعنی میرے ہی اشعار کی خبر تم کو پہنچی ہے اور اسی  کے اوصاف تم کو معلوم  ہیں ۔

مطلب ہے کہ سابقون وہ ہیں  جن کے حالات مشہور ہیں , ان کا مقام و مرتبہ معروف ہے , اور وہ بلندی کے اس درجے پر پہنچ گئے ہیں  جس کو اسی وقت بیان کرنا  ممکن ہے جب ان کا  ذکر اسی صفت و خوبی  کے ساتھ ہو ۔ یا دوسرے الفاظ میں صرف یہی وصف ہی ان کے درجہ کی بلندی کے معنى کو ادا  کرسکتا ہے ( التفسیر الوسیط للطنطاوی)۔ یا یہ ترکیب ایسے ہی ہے، جیسے کہتے ہیں، تو تو ہے اور زید زید اس میں گویا زید کی اہمیت اور فضیلت کا بیان ہے۔(احسن البیان)

علامہ  ابن کثیر نے اس کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کیے ہیں جیسے انبیا, اہل علیین, دونوں قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والے  وغیرہ  اور پھر لکھا کہ یہ تمام اقوال ہی صحیح ہیں کیونکہ سابقین وہ ہیں جو اچھائی و بھلائی کے کاموں میں حکم کے مطابق سبقت کرتے ہیں ۔(تفسیر ابن کثیر)

اور اللہ نے ان کا ذکر دائیں و بائیں بازو والوں کے بعد کیا ہے  تاکہ سننے والوں کو ان کے حالات کو جاننے  کا شوق دلایا جائے اور ان کے لیے تیار کردہ عظیم اجر و ثواب کو بیان کیا جائے جس کی تفصیل "اولئک المقربون" سے شروع ہوتی ہے ۔ یعنی یہ وہ لوگ ہیں  جو  اللہ کے نہایت قریب ہوں گے اور جن کا ٹھکانہ نعمتوں کے باغوں میں ہے ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

اور لفظ مقربون قربت سے ماخوذ ہے جس کا معنى  حظوہ یعنی تقرب ,مرتبہ, مقام و پوزیشن ہے اور یہ قریب سے زیادہ بلیغ ہے  کیونکہ اس کا صیغہ اصطفا ء و اجتباء یعنی اختیار  کرنا اور چن لینا پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ اپنے رب سے اتنے قریب ہوں گے  جس کی مقدار سے کوئی واقف نہیں ہے ۔

فی جنات النعیم یہ اللہ کے قول المقربون سے متعلق ہے  یا لفظ مقدر سے جو کائنین ہے ای کائنین فی جنات النعیم ۔ اور دونوں صورتوں میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کی قربت خالص لذت اور راحت ہے , بادشاہ کے مخصوص درباریوں کی طرح ان کی قربت نہیں ہے جو اس کا کام کرتے ہیں بلکہ اس کے ہم نشینوں  و مصاحبوں کے قربت کی طرح ہے جن کا کوئی کام نہیں ہوتا ہے اور جن کو کوئی حکم  نہیں دیا جاتا ہے اور نہ کسی چیز سے روکا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جنات الخلود کے بجائے جنات النعیم کہا گیا ہے ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

ثلۃ، اس بڑے گروہ کو کہا جاتا ہے جس کا گننا نا ممکن ہو (احسن البیان)۔ یہ خبر ہے اس کا مبتدا "ھم" محذوف ہے ۔اولین و آخرین  کے بارے میں مفسرین کے دو اقوال ہیں :---

پہلا قول یہ ہے کہ اولین سے مراد حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر  امت محمدیہ سے پہلے کی تمام  امتیں ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی تصدیق کی , ان کی تائیید و حمایت کی   اور آخرین سے امت محمدیہ کے افراد ہیں ۔ صاحب کشاف کا یہی قول ہے ۔ (التفسیر الوسیط للطنطاوی)

مطلب یہ ہے کہ  پچھلی امتوں میں سے سابقین کا ایک بڑا گروہ ہے کیونکہ ان کا زمانہ بہت لمبا ہے جس میں ہزاروں انبیا کے سابقین شامل ہیں,  ان کے مقابلے میں امت محمدیہ کا زمانہ (قیامت تک ) تھوڑا ہے، اس لیے ان میں سابقین بھی گذشتہ امتوں کے مقابلے میں  تھوڑے ہوں گے۔ اور ایک حدیث میں آتا ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کا نصف ہو گے"۔ (صحیح مسلم /200) تو یہ آیت کے مذکورہ مفہوم کے مخالف نہیں۔ کیونکہ امت محمدیہ کے سابقین اور عام مومنین ملا کر باقی تمام امتوں سے جنت میں جانے والوں کا نصف ہو جائیں گے، اس لیے محض سابقین کی کثرت (سابقہ امتوں میں) سے حدیث میں بیان کردہ تعداد کی نفی نہیں ہو گی۔ مگر یہ قول محل نظر ہے۔(احسن البیان)۔  

دوسرا قول یہ ہے کہ  اللہ تعالى کے فرمان " و کنتم ازواجا ثلاثہ "کے مخاطب  امت اسلامیہ ہے اور اولین سے مراد اس امت کے ابتدائی زمانہ کے افراد ہیں  اور آخرین سے تا قیامت  ابتدائی زمانہ کے بعد والے افراد مراد ہیں۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی) صاحب احسن البیان نے بھی  لکھا ہے کہ بعض نے اولین  و آخرین سے اسی امت محمدیہ کے افراد مراد لیے ہیں۔ یعنی اس کے پہلے لوگوں میں سابقین کی تعداد زیادہ اور پچھلے لوگوں میں تھوڑی ہو گی۔ امام ابن کثیر نے اسی دوسرے قول کو ترجیح دی ہے ۔ اور یہی زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ثلۃ ..... الاخرین  یہ جملہ معترضہ ہے، فِي جَنَّتِ النَّعِيمِ اور عَلَى سُرُرٍ موضونۃ کے درمیان۔(احسن البیان)۔

پھر اللہ تعالى نے نیک و اچھے کاموں میں سبقت کرنے والوں  کے لیے  اپنے  بہترین و شاندار انعامات و اکرامات کا بیان کیا ہے  اور بتایا ہے کہ وہ ایسے تختوں پر ٹیک لگا کے بیٹھے ہوں گے جو سونے و جواہر سے جڑے ہوئے  ہوں گے اور بہت ہی  مضبوطی  سے بنائے گئے ہوں گے جس سے انسان خوش ہوگا  اور اہل جنت آمنے سامنے ہوں گے , ان میں سے ایک کا چہرہ دوسرے کے سامنے ہوگا  تاکہ ان کی خوشی اور نعمت مکمل ہوجائے  کیونکہ  احباب اور پیاروں کے چہروں کا آمنا سامنا خوشی اور انسیت کو بڑھاتا ہے ,  اور ان کا تختوں پر لیٹنا اس طرح ہوگا جیسے اس کا دل راحت سے بھرا ہوا ہے  اور اس کا دماغ ہر اس چیز سے خالی ہے جو اسے مشغول رکھتی ہے  اور اس کو کوئی غم و فکر نہیں ہے ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

اور ان کی خدمت  اور ان کی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے کے لیے لافانی و دائمی لڑکے ان کا چکر لگاتے رہیں گے جن کا شباب دائمی ہوگا  اور ان کی خوبصورت حالت اسی طرح باقی رہے گی  تبدیل نہیں ہوگی  ۔یعنی وہ بڑے نہیں ہوں گے کہ بوڑھے ہو جائیں نہ ان کے خدوخال اور قد و قامت میں کوئی تغیر واقع ہو گا بلکہ ایک ہی عمر اور ایک ہی حالت پر رہیں گے، جیسے نو عمر لڑکے ہوتے ہیں۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی و احسن البیان)وہ ان کا چکر لگائیں گے پیالوں کے ساتھ جن میں دستہ نہیں ہوگا اور دستہ والے  جگوں  و کیتلیوں  کے ساتھ  اور شراب سے لبریز جام کے ساتھ جس سے ان کو سر درد نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کی عقل زائل ہوگی جیسا کہ دنیا کی شراب پینے سے ہوتا ہے ۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

    در اصل صداع ، ایسے سردرد کو کہتے ہیں جو شراب کے نشے اور خمار کی وجہ سے ہو اور انزاف کے معنی وہ فتور عقل جو مدہوشی کی بنیاد پر ہو۔ دنیا کی شراب کے نتیجے میں یہ دونوں چیزیں ہوتی ہیں ، آخرت کی شراب میں سرور اور لذت تو یقیناً ہو گی لیکن یہ خرابیاں نہیں ہوں گی۔ معین ، چشمہ جاری جو خشک نہ ہو ۔(احسن التفاسیر)خلاصہ کلام یہ ہے کہ جنت میں پائی جانے والی ہر قسم کی نعمت جس کا جنس اس دنیا میں موجود ہے وہ دنیا کی ہر بلا و خرابی سے پاک ہوگی۔(تفسیر سعدی)

 وہ بچے مختلف پھلوں و میووں کے ساتھ ان کا چکر لگائیں گے جو بہت لذیذ ہوں گے اور وہ اپنے حسب خواہش ان میں سے اختیار کرلیں گے ۔اور انواع و اقسام کے پرندوں کے محبوب اور پسندیدہ گوشت کے ساتھ چکر لگائیں گے جن میں سے وہ سے اپنی پسند کے مطابق چن لیں گے۔

و حور عین  ایک قول کے مطابق اس کا عطف ولدان مخلدون پر ہے یعنی" و یطوف علیہم ایضا "ان کا چکرلگائیں گی  ایسی عورتیں  جن کی آنکھیں انتہائی خوبصورت و کشادہ  ہیں, اور یہ  خوبصورت آنکھ والی عورتیں  اپنی  خالص سفیدی  اور انتہائی خوبصورتی میں  مخفی موتیوں کی مانند ہیں(التفسیر الوسیط للطنطاوی) ۔لیکن  عورتوں کا یہ چکر لگانا  عام لوگوں کے سامنے نہیں ہوگا بلکہ صرف خیموں میں ہوگایا اس کادوسرا  معنى"لھم فیھا حور عین"  ہے کہ ان کے لیے جنت میں حور عین  ہوں گی (تفسیر ابن کثیر) ۔در حقیقت مَكْنُون وہ ہے  جسے چھپا کر رکھا گیا ہو , اس کو کسی کے ہاتھ لگے ہوں نہ گردو غبار اسے پہنچا ہو ۔ ایسی چیز بالکل صاف ستھری اور اصلی حالت میں رہتی ہے۔(احسن البیان)

اور اللہ تعالى کا قول "جزاء بما کانوا یعملون "ان اسباب کا بیان ہے جن کی وجہ سے ان کو یہ عظیم و بڑی  نعمتیں  حاصل ہوئی ہیں ۔ لفظ جزاء  فعل محذوف کے  "مفعول لاجلہ " ہونے کی وجہ سے منصوب ہے  "ای اعطیناھم ھذا العطاء الجزیل جزاء مناسبا بسبب ما کانوا یعملونہ فی الدنیا من اعمال صالحۃ  "یعنی ہم نے ان کو بہت زیادہ بکثرت انعام دیا ہے جو ان کے دنیا میں کیے گئے نیک اعمال کا مناسب بدلہ ہے ۔

 اور اللہ کا قول : لا یسمعون .... سلاما   ان نعمتوں کی تکمیل ہے  جو اللہ نے ان کو جنت میں عطا کی ہیں۔ یعنی یہ مقرب لوگ جنت میں ایسی بات نہیں سنیں گے جس کا وزن اور کوئی قدر و قیمت نہ ہو اور نہ ہی کوئی قبیح یا بری بات سنیں گے کہ وہ ایک دوسرے کی طرف کوئی گناہ  و  غیر مناسب چیز منسوب کریں  بلکہ وہ صرف اچھی باتیں سماعت کریں گے جو مکرر امان اور دائمی سلام پر مشتمل  ہوگا۔(التفسیر الوسیط للطنطاوی)

 یعنی دنیا میں تو باہم ا لڑائی جھگڑے ہی ہوتے ہیں، حتی کہ بہن بھائی بھی اس سے محفوظ نہیں، اس اختلاف و نزاع سے دلوں میں کدورتیں اور بغض و عناد پیدا ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے خلاف بد زبانی, سب و شتم، غیبت اور چغل خوری وغیرہ پر انسان کو آمادہ کرتا ہے۔ جنت ان تمام اخلاقی گندگیوں اور بے ہودگیوں سے نہ صرف پاک ہوگی، بلکہ وہاں سلام ہی سلام کی آوازیں سننے میں آئیں گی، فرشتوں کی طرف سے بھی اور آپس میں اہل جنت کی طرف سے بھی۔ جس کا مطلب ہے کہ وہاں سلام و تحیہ تو ہو گا لیکن دل اور زبان کی وہ خرابیاں نہیں ہوں گی جو دنیا میں عام ہیں حتی کہ بڑے بڑے دین دار بھی ان سے محفوظ نہیں۔(احسن البیان)

پہلا لفظ سلام اللہ کے قول قیلا سے بدل یا اس کی صفت ہے یعنی عیوب سےصحیح و سالم  ہوں گے, ان سے پاک ہوں گے ۔ اور اس لفظ کے دہرانے کا مقصد تاکید کرنا ہے، اور یہ خبر دینا ہے کہ وہ اس لفظ سے بہت زیادہ تحیہ و  سلام کریں گے  جو محبت اور میل جول و ہم آہنگی پر دلالت کرتا ہے ۔یعنی وہ جنت میں یکے بعد دیگرے سلام سنیں گے , تحیہ کے بعد صرف تحیہ سماعت کریں گے  اور محبت در محبت سنیں گے ۔

اور استثناء یہاں پر منقطع ہے کیونکہ سلام بیہودہ باتوں میں نہیں آتا ہے, اور یہ  تاکید مدح بما یشبہ الذم کے قبیل سے ہے, اور قیل قول کے معنى میں ہے جو استثناء کی وجہ سے منصوب ہے ۔

یہاں تک  کہ آیتوں میں روز قیامت لوگوں کے اقسام کو واضح کر دیا گیا اور اللہ تعالى نے سابقین کے لیے جو زیادہ  عطایا, تحائف اور انعامات تیار کیے ہیں ان کو تفصیل سے بیان کردیا ۔  (التفسیر الوسیط للطنطاوی)

آخرمیں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو اعمال صالحہ کی توفیق دے کر جنت کا حقدار بنائے ۔ آمین

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: