علانیہ و خفیہ صدقہ کرنے کا حکم

 

                   علانیہ  و خفیہ صدقہ کرنے کا حکم


آیت: إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۚ وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (بقرہ/271)

ترجمہ:  اگر تم اپنے صدقات ظاہر کرتے ہو تو یہ بھی اچھا ہے  اور اگر تم اسے خفیہ طور پر فقراء کو دیتے ہو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ۔ اور وہ تمہارے برائیوں کو مٹا دے گا  اور اللہ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے ۔

معانی کلمات:

 صدقات: یہ صدقہ(د پر فتحہ)    کی جمع ہے اور اس کا اصل صدق ہے  اوریہ مختلف معانی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اس کا ایک  عام معنى ہے سچ بولنا, کہا جاتا ہے : صدق فلان فی الحدیث یعنی فلاں بات میں  سچ بولا ,اس کا دوسرا معنی ہے  خالص نصیحت یا محبت کرنا جو  صدقہ النصیحۃ  او المحبۃ میں ہے , تیسرا معنی ہے  پورا کرنا  یا ہونا مثلا: صدق فلان الوعد یعنی فلاں نے وعدہ کو پورا کیا, صدقت نبوءتہ یعنی اس کی پیشینگوئی پوری ہوئی ,ایک اور معنی سخت جنگ کرنا ہے  , بولا جاتا ہے صدق فی القتال یعنی سخت جنگ  کی ۔ وغیرہ  (موقع المعانی و مصباح اللغات)

فنعما: ف یہ جواب شرط ہے ۔ نعما یہ دراصل نعم ما ہے دونوں میم کو آپس میں مدغم کردیا گیا نو نعم ہوگیا۔نعم فعل ماضی ہے اور ما نکرہ تامہ ہے اور شئ کے معنی میں ہے ۔ مطلب ہے :نعم شیئا ابداؤھا و اعلانہا  یعنی اس کا اعلان کرنا بہترین و اچھی چیز ہے ۔ (الوسیط للطنطاوی)

تفسیر:

  اس آیت میں اللہ تعالى نے بتایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسلامی طریقہ کے مطابق اپنا صدقہ کرتا ہے تو اللہ کے نزدیک اس کے قبول ہونے کی امید ہے خواہ وہ اپنا صدقہ علانیہ طور پر کرتا ہے یا خفیہ طریقہ سے ۔مطلب ہے کہ دونوں طریقہ سے صدقہ کرنا جائز ہے ۔اور اس کے بدلے میں اللہ تعالى اس کے تمام یا بعض گناہوں کو مٹادے گا  اور یہ صدقہ کرنے کا فائدہ ہے ۔

  صدقہ وہ عطیہ ہے جو فقراء و مساکین کو اللہ کی قربت حاصل کرنے  اور اس کے ثواب کی امید میں دیا جاتا ہے ۔ اس کی جمع صدقات ہے ۔

صدقہ کو صدقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صدقہ کرنے والے کے ایمان کی صداقت  اور سچائی کی واضح ترین دلالتوں وصادق ترین  نشانیوں  میں سے ایک  ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص فطری طور پر مال سے محبت کرتا ہے اور اس کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پس جو شخص اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اپنی فطرت کی مخالفت کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان و اس کے یقین کے صحیح ہونے کی  دلیل ہے۔اور یہی آپ کے قول  : "الصدقۃ برھان(  صدقہ دلیل ہے) "  کا معنى ہے  کہ وہ انسان کے ایمان کے صحیح ہونے کی دلیل ہے بشرطیکہ اس کی نیت اللہ کی رضامندی کا حصول ہو اور اس کا مقصد ریا و نمود اور شہرت طلبی نہ ہو ۔ (اسلام ویب: المقالات, فضائل الصدقۃ) 

علانیہ  و خفیہ صدقہ کرنے کا حکم:

اس بارے میں علماء و فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علانیہ و خفیہ دونوں طریقہ سے صدقہ کرنا جائز ہے ۔ شرعا دونوں درست ہے بس انسان کے نیت کا خالص  ہونا ضروری ہے جیسا کہ تمام عبادات میں ہے ۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ کون سا طریقہ کس صدقہ کے لیے افضل و بہتر ہے ۔ اس بارے میں علماء کے دوگروپ ہیں :---

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ نفلی صدقہ کے لیے خفیہ طریقہ افضل و بہتر ہے کیونکہ یہ ریا و نمود سے دور ہوتا ہے اور فقیر کی پردہ پوشی ہوتی  ہے  اور فرض صدقہ کے لیے علانیہ طریقہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا ء کا خطرہ نہیں ہوتا ہے ,  یہ تہمت کو دور کرتا ہے, برے گمان سے بچاتا ہے  اور اہل خیر کو اتباع و اقتدا کی ترغیب دیتا ہے  ۔جمہور علماء کا یہی قول ہے ۔ تفصیل آگے آرہی ہے ۔

اس کے برخلاف کچھ علماء کا کہنا ہے کہ فرض و نفل دونوں صدقہ کے لیے خفیہ طریقہ ہی بہتر ہے ۔ان کی دلیل قرآنی آیات کا عموم ہے ۔ علامہ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ یہ آیت عام ہے جو فرض و نفل سب کو شامل ہے ۔

احادیث کے عموم سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔مثلا ایک حدیث میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: سات اشخاص کو قیامت کے دن اللہ کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک وہ شخص بھی  ہوگاجس نے اس قدر خفیہ طریقہ سے صدقہ کیا کہ اس کے بایاں ہاتھ کو بھی یہ نہیں پتہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔(راوی : ابو ہریرہ, بخاری /1423 , مسلم / 1031و صحیح ابن حبان/7338) 

 ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: صنائع المعروف تقی مصارع السوء , وصدقۃ السر تظفئ غضب الرب , وصلۃ الرحم تزید فی العمر ( صحیح الترغیب و الترہیب , البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)  اچھے کام بری موت سے بچاتے ہیں اور خفیہ صدقہ اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتا ہے ۔وغیرہ

یہ احادیث عام ہیں ان میں فرض یا نفل کی کوئی قید نہیں ہے ۔ لہذا خفیہ صدقہ کرنا ہی افضل و بہتر ہے خواہ نفلی ہو یا فرض ۔

علامہ سعدی  نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر صدقہ فقیر کو دینا ہے  تو خفیہ صدقہ علانیہ صدقہ سے بہتر و افضل ہے ۔لیکن اگر صدقہ فقراء کو نہیں دینا ہے تو آیت کا مفہوم ہے کہ خفیہ صدقہ علانیہ سے بہتر و افضل نہیں ہے۔ایسی صورت میں مصلحت کو دیکھا جائے گا اب اگر صدقہ کے ظاہر کرنے میں کوئی مصلحت ہے مثلا: دین کے شعائر کو ظاہر کرنا , دوسروں کو صدقہ پر ابھارنا اور اس کی ترغیب دلانا , دوسروں کا اس کی اتباع کرنا وغیرہ تو علانیہ صدقہ خفیہ سے بہتر و افضل ہے ۔ (تفسیر سعدی)

  امام قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے کیونکہ اس کو مخفی رکھنا ظاہر کرنے سے افضل ہے ۔ اسی طرح  بقیہ تمام  نفلی عبادات  کو مخفی رکھنا افضل ہے کیونکہ اس سے ریا ء کی نفی ہوتی ہے, لیکن واجب اعمال کے لیے ایسا نہیں ہے ۔حسن کا قول ہے کہ زکاۃ کا اظہار کرنا بہتر ہے اور نفل کو مخفی رکھنا افضل ہے کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا  ارادہ تنہا صرف اللہ کا ہے ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے  کہ اللہ نے نفلی صدقہ کے مخفی رکھنے کو علانیہ صدقہ پرجیسا کہ کہا جاتا ہے  ستر گنا  فضیلت دی ہے ۔اور  فرض صدقہ کے اعلان و ظاہر کرنے کو اس کے مخفی رکھنے پر جیسا کہ بتایا جاتا ہے 25/گنا فضیلت دی ہے ۔اسی طرح ہر چیز کے فرض و نفل کا معاملہ ہے ۔

امام قرطبی مزید فرماتے ہیں کہ یہ رائے پر مبنی بات  نہیں ہے بلکہ یہ توقیفی ہے  کیونکہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: افضل صلاۃ المرء فی بیتہ الا المکتوبہ یعنی  فرض کو چھوڑ کر آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ادا کی جائے ۔(راوی: زید بن ثابت, بخاری/7290و مسلم/781)  کیونکہ فرائض میں ریاء کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور نوافل میں  اس کا خطرہ ہوتا ہے ۔وغیرہ (تفسیر قرطبی)

امام بغوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ بعض کے قول کے مطابق یہ آیت فرض زکاۃ کے بارے میں ہے جس کو  نبی کریم کے زمانہ میں خفیہ رکھنا بہتر و افضل تھا  لیکن دور حاضر میں اس کا ظاہر کرنا افضل ہے تاکہ اس کے بارے میں برا گمان نہ کیا جائے ۔ (تفسیر بغوی)

تفسیر احسن البیان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے , سوائے کسی ایسی صورت کے کہ علانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لیے ترغیب کا پہلو ہو ۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضیلت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے ۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا بہتر ہے ۔

صدقہ میں اخفاء کی فضیلت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکوۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے  لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ و واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے ۔ (تفسیر احسن البیان)

معلوم ہوا کہ افضلیت کا تعلق حالات و مصلحت سے ہے ۔اگر مصلحت ظاہر کرنے میں ہے, حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں  تو علانیہ صدقہ بہتر و افضل ہے اور اگر مصلحت پوشیدہ رکھنے میں ہے تو خفیہ صدقہ افضل و بہتر ہے ۔ اس کا تعلق فرض و نفل سے نہیں ہے ۔ راقم  کی یہی رائے ہے اور یہی راجح و درست ہے کیونکہ  اس کا معاملہ دیگر عبادات سے مختلف ہے اور یہ خالص مالی عبادت ہے  ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ حاجتمند کو دینا چائیے جس کو ضرورت نہ ہو اس کو نہیں دینا چائیے ۔ اس میں الاحوج فالاحوج کا اصول پیش نظر رکھنا چائیے ۔ضرورت و حاجت کو معیار بنایا جائے اور اسی کو  مقدم کیا جائے ۔ایسا نہ ہو کہ کسی ضرورتمند کو دیدیا اور اس سے زیادہ و بڑا ضرورتمند باقی رہ گیا ۔

آخر آیت  میں وضاحت کی گئی کہ صدقہ سے ثواب ملتا ہے اور اس سے بعض  گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں  کیونکہ صدقہ ہر قسم کے گناہ کو نہیں مٹاتا ہے ۔من یہاں تبعیض کے لیے ہے ۔

اس آیت میں خفیہ و علانیہ دونوں اقسام کے صدقہ کی تعریف کی گئی ہے بشرطیکہ صدقہ کرنے والا اسلامی آداب و توجیہات کو نافذ کرنے والا ہو اور ہر اس چیز سے دور رہنے والا ہو جو صدقات کو باطل کردیتی ہیں اور اعمال کو ضائع کردیتی ہیں ۔ (الوسیط للطنطاوی)  پہلے علانیہ صدقہ کی تعریف کی گئی ہے پھر بتایاگیا ہے کہ خفیہ صدقہ  اس سے بہتر ہے ۔ اسی لیے کسی حکیم کا کہنا ہے : اذا اصطنعت المعروف فاسترہ , واذا اصطنع الیک فانشرہ  یعنی اگر تم کوئی بھلائی و اچھائی کرتے ہو تو اس کو چھپاؤ اور اگر تمہارے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس کو پھیلاؤ۔ (تفسیر قرطبی)  

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق خالص نیت کے ساتھ ادائیگی زکوۃ و صدقات کی توفیق عطا فرمائے اور اس کا بہتر بدلہ دے ۔ آمین  و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: