دعوت و تبلیغ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ اور تجاویز

 

دعوت و تبلیغ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ اور تجاویز


دین اسلام میں دعوت و تبلیغ کی اہمیت و فضیلت, افادیت و ضرورت مسلم ہے اور اس کے   بلند مقام و مرتبہ سے دینی و شرعی علوم سے وابستہ ہر شخص واقف ہے ۔ قرآن و سنت میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اور یہ ہر شخص پر اس کی اہلیت و صلاحیت , طاقت و قوت کے بقدر فرض  ہے  ۔ ہمارے اسلاف نے اس کا بے حد اہتمام کیا ہے اور اس کے لیے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔

بلا شبہ اس  کی  ہر زمانہ , ہر علاقہ و ہر قوم میں بہت زیادہ   حاجت و ضرورت رہی ہے اور آج کے دور میں اس کی اشد حاجت و ضرورت ہے کیونکہ ایک طرف مسلمانوں میں انواع و اقسام کی بہت زیادہ گمراہیاں, کوتاہیاں اور خرابیاں  ہیں  , بے عملی و بد عملی ہے , دین بیزاری و دنیاداری  ہے ۔ تو وہیں دوسری طرف آج کی دنیا میں  غیر مسلموں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے جو تقریباچھ ارب سے زائد  ہے , اور ہم مسلمانوں پر ان کو دین کی دعوت دینا فرض ہے ۔  اس لیے دور حاضر میں کئی اہم اسباب و عوامل کی بنا پر مسلمانوں و غیر مسلموں کے درمیان دعوت و تبلیغ کے تمام جدید وسائل و ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے منظم و مرتب طور پر   اس کی  پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے اور اس پر مزید توجہ دینے  اور فوکس کرنے کی شدید حاجت ہے  ۔

دعوت و تبلیغ کی موجودہ صورت حال کا جائزہ

عصر حاضر میں اگر دعوت و تبلیغ کی صورت حال کا  جائزہ لیا جائے  اور اس کی زمینی حقیقت کا بغائر مطالعہ کیا جائے تو ایک طرف جہاں   یہ  حقیقت  کھل کر سامنے آتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام  اللہ کے فضل و کرم سے  بند نہیں ہے بلکہ بنا کسی توقف کےچودہ سو برس سے   یہ مسلسل جاری ہے, مسلمانوں و غیر مسلموں دونوں  کے درمیان دعوت و تبلیغ کا اہم کام  ہو رہا ہے اور یہ کام سیکڑوں و ہزارہا   افراد, تنظیمیں, جمعتیں , گروپس اور جماعتیں انجام دے رہی ہیں ۔ان سب کی کوششیں بلا شبہ قابل قدر ہیں ۔ وہیں دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں دعوت و تبلیغ کے میدان میں بہت ساری کمیاں ہیں, کئی خرابیاں اور نقائص  ہیں جن کا مطالعہ کرنے , ان کا حل تلاش کرنے اور ان  کو دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ یہاں  بعض اہم خرابیوں و کمیوں کی  نشاندہی کی جا رہی ہے :---

اکثر مسلمان ممالک کی مجرمانہ  لاپرواہی اور غفلت : دعوت و تبلیغ کا جائزہ لینے سے یہ کڑوی حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان ممالک کی اکثریت  اس اہم فریضہ میں بہت زیادہ غفلت و کوتاہی برتتی ہے  اور سرکاری سرپرستی میں یہ کام بالکل نہیں ہوتا ہے ۔ جب کہ یہ ہر مسلمان ملک و حاکم  کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ چند گنے چنے ہی ممالک ہیں جہاں یہ  اہم کام سرکاری سرپرستی میں انجام دیا جاتا ہے اور باقاعدہ اس کا شعبہ مستقل طور پر قائم ہے۔ مثلا سعودی عرب, کویت, قطر وغیرہ  ۔ لیکن اکثر ممالک میں یہ  کام نجی و ذاتی طور پر ہوتا ہے ۔بلا شبہ یہ ایک دینی و قومی  المیہ ہے کہ اکثر مسلمان ممالک اس اہم دینی فریضہ میں کلی یا جزئی طور پر   مجرمانہ کوتاہی برتتے ہیں  جس پر فوری توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

مخصوص بجٹ کی عدم فراہمی: کئی مسلمان ممالک میں اس کے لیے کوئی مخصوص بجٹ نہیں فراہم کیا جاتا ہے  جس سے دعوت و تبلیغ کے میدان میں  سرمایہ کی بے حد کمی ہوتی ہے۔ غیر مسلم ممالک میں یہ مسئلہ بہت ہی سنگین ہے۔ لہذا  یہ مسلمان اصحاب ثروت افراد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے لیے مخصوص بجٹ مہیا کریں تاکہ یہ کام صحیح و درست طریقہ پر ہوسکے ۔

باصلاحیت متفرغ داعیوں کی تعداد میں کمی: یہ ایک بہت ہی المناک و افسوسناک حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں کئی ممالک خصوصا غیر اسلامی ممالک میں زمینی سطح پر کام کرنے والے  باصلاحیت , متفرغ اور ٹریننگ شدہ داعیوں کی تعداد عوام کی تعداد کی نسبت میں بے حد کم ہے ۔ یہ ایک بہت ہی تشوشناک حالت ہے جو بلا شبہ مسلمان ممالک و مسلمانوں کی عدم دلچسپی اور اس کے لیے الگ سے بجٹ نہ فراہم کرنے کا  نتیجہ ہے ۔ ان  میں سے بعض   کے اندر جذبہ , لگن , تگ و دو کی بھی  کمی ہے۔

داعیوں کی تعداد میں افسوسناک حد تک کمی کا اندازہ سعودی عرب کے اسلامی امور وزارت کے اس خبر سے ہوتا ہے  جس میں واضح کیا گیا ہے کہ وزارہ کے غیر ملکی داعیوں کی تعداد 453 ہے جو 457 دعوتی جمعیتوں میں کام کر رہے ہیں۔(اس مکمل خبر کو آپ اس رابط پر پڑھ سکتے ہیں https://www.moia.gov.sa/MediaCenter/News/Pages/07071445_1.aspx)  جب کہ صرف انڈین کی تعداد سعودی عرب میں 26/لاکھ سے زائد ہے ۔ اتنی ہی تعداد پاکستانیوں کی ہے ۔بنگلہ دیشی بھی 20/لاکھ سے زائد ہیں ۔ اور غیر ملکیوں کی کل تعداد تقریبا ایک کروڑ 34/ لاکھ ہے جن میں سے تقریبا نصف کا تعلق برصغیر سے ہے اور ان کی تعداد نصف کروڑ سے زائد ہے اور کل داعیوں کی تعداد 453/ ہے جو بہت ہی کم ہے ۔یہ ان داعیوں کی تعداد ہے  جو وزارت کے تحت شعبہ جالیات میں کام کرتے ہیں ۔صرف برصغیر کے باشندوں اور داعیوں کی تعداد میں کوئی نسبت نہیں ہے ۔اسی سے بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دوسرے ملکوں میں داعیوں کی کتنی تعداد ہے اور ضرورت سے کس قدر کم ہے  ۔ 

  وسائل و ذرائع کی قلت: یقینا یہ سائنس و ٹکنالوجی کا زمانہ ہے اور جس قدر آج کے ور میں دعوت و تبلیغ  کے جدید و قدیم  وسائل و ذرائع مہیا ہیں اس قدر اس سے پہلے کبھی نہیں تھے ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بہت سارے خصوصا جدید وسائل بہت سارے   غیر اسلامی ممالک و فقیر مسلمان ممالک  کے داعیوں کی پہنچ سے باہر ہیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ نہیں ہے کہ وہ اس کا استعمال کرسکیں اور اس کے ذریعہ لوگوں تک پہنچ کر ان کو دعوت دے سکیں ۔ اس لیے ہرداعی کے لیے ان وسائل کو مہیا کرنا اور اس کی ٹریننگ دینا بھی ضروری ہے ۔  

 بقدر  حاجت دعوت و تبلیغ  کا نہ ہونا: جس قدر بڑے و  اعلى پیمانہ پر دنیا کے مختلف علاقوں میں  یہ کام ہونا چائیے  وہ نہیں ہو رہا ہے ۔بہت سارے علاقے ایسے ہیں جہاں کا رخ بہت سارے داعی لوگ  مختلف اسباب کی بنا پر نہیں کرتے ہیں  جس سے وہاں کے اکثر لوگ دعوت و تبلیغ سے محروم  رہتے ہیں خصوصا جو لوگ  کچی آبادیوں , دور دراز کے علاقوں اور جھگی و جھونپڑیوں میں رہتے ہیں اس لیے ان میں فساد اور بگاڑ بھی  بہت زیادہ ہے ۔یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے اپنے وطن میں کر رہے ہیں ۔

یہ ایک  تلخ حقیقت ہے کہ   زمینی سطح پر کام بہت کم ہو رہا ہے , اگر کوئی جماعت زمینی سطح پر سب سے زیادہ سرگرم ہے تو وہ تبلیغی جماعت ہے جن کا  زمینی سطح پر لوگوں سے ملاقات کرنے اور پیغام رسانی کا ایک بہت ہی مضبوط نیٹ ورک ہے اور جو محنت بھی خوب کرتے ہیں , اپنا پیسہ اور وقت بھی لگاتے ہیں دوسری جماعتوں میں یہ جذبہ بہت حد تک مفقود ہے ۔

ستم تو یہ ہے  کہ بہت سارے متعین  دعاۃ  حضرات اپنے کاموں میں غفلت برتتے ہیں اور بہت سارے علماء و فقہاء کرپشن میں ملوث ہیں , فساد و اور بگاڑ میں ڈوبے ہوئے ہیں جس سے عوام پر منفی اثر پڑتا ہے اور لوگ  ان سے متنفر ہوتے ہیں ۔ وغیرہ

تنظیم و ترتیب کی کمی: مختلف جماعتوں کو تو چھوڑئیے ایک ہی جماعت کی مختلف تنظیموں اور جمعیتوں کے مابین  باہمی مشورہ , تعاون,  تنظیم و ترتیب, تنسیق و ہم آہنگی  برائے نام ہے اور ان سب کی  ازحد کمی ہے   ۔ ہر کوئی آزاد ہے اور اپنی سمجھ کے مطابق دعوت کا کام انجام دے رہا ہے ۔اور جب مسلمانوں کی زندگی کے کسی بھی شعبہ میں تنظیم و ترتیب نہیں ہے تو پھر دعوت و تبلیغ میں کہاں سے ہو سکتا ہے ۔

اس کی سب بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ جب میں نے پوری دنیا میں اور خصوصا مسلمان ممالک میں  داعیوں کی تعداد کے بارے میں تلاش کیا تو بسیار تلاش و جستجو کے بعد ناکامی ہی ہاتھ آئی ۔ عدد الدعاۃ المسلمین فی العالم (دنیا میں مسلمان داعیوں کی تعداد)تحریر کرکے عام بحث کی تو کوئی اعداد و شمار نہیں ملا۔  رابطہ عالم اسلامی کے ویب سائٹ پر کچھ نظر نہیں آیا ۔ اسلامی تعاون تنظیم سے کچھ ہاتھ نہیں آیا ۔ پھر میں نے بہت ہی امیدوں کے ساتھ اسلامی امور وزارت کے ویب سائٹ کو کھنگالا تو صرف وہی خبر ملی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ۔  اس کے برخلاف جب  میں نے صرف عدد المنصرین فی العالم (دنیا میں منصرین کی تعداد) لکھ کر جنرل سرچ کیا تو فورا  تمام معلومات ہماری آنکھوں کے سامنے امڈ پڑی  اور معلومات کا ایک انبار لگ گیا ۔تعجب کی بات تو یہ ہے کہ  یہ تمام معلومات خود عربی زبان میں موجود ہیں ۔

مثلا : دنیا میں تنصیری اداروں و مراکز کی تعداد تقریبا ڈھائی لاکھ ہے جن کے پاس دس کروڑ کمپیوٹر ہیں , 500/جدید زمینی و سٹیلائٹ چینلز ہیں ۔ صرف مسلمان ممالک میں تقریبا ایک لاکھ  تنصیری مراکز , معاہد اور کالجز ہیں جن کا کام منصرین کو ٹریننگ دینا  اور ان کو تیار کرنا ہے ۔ تنصیر کا سالانہ بجٹ 1991ع میں 181/ارب ڈالر تھا ۔( موقع طریق الاسلام :إحصائيات خطيرة حول التنصير,5-4-2007ع)

بعض اعداد و شمار کے مطابق صرف براعظم افریقہ میں ایک لاکھ 19/ ہزار منصرین سرگرم عمل  ہیں جو سال بھر میں دو ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں ۔دنیا میں باقاعدہ تنصیر کے میدان میں کام کرنے والوں کی تعداد تقریبا  دو لاکھ بیس ہزار ہے , جب کہ تنصیری تنظیموں و اداروں کے ساتھ بطور متعاون کام کرنے والوں کی تعداد  ایک کروڑ ستر لاکھ سے زائد ہے ۔(شبکۃ الالوکہ: الأهداف الأخرى للتنصير, الشيخ د. راشد بن عثمان الزهراني, تاریخ نشر:27-4-2014ع)

 یہ تمام معلومات انٹرنٹ پر دستیاب ہیں  ۔ ان کو آپ بآسانی سرچ کرکے دیکھ سکتے ہیں یا مزید معلومات کے لیے  مذکورہ بالا حوالوں کے عناوین کو سرچ کرکےپڑھ سکتے ہیں ۔ 

بلا شبہ یہ قدیم و پرانے اعداد و شمار ہیں لیکن جہاں ایک طرف  ان سے  ان کی سنگینی و خطرناکی کا علم ہوتا   ہے وہیں دوسری طرف ان کی شبانہ روز  لا متناہی سرگرمیوں و مسلسل   اورلگاتار کوششوں کا بھی پتہ چلتا ہے  ۔ یقینا تمام نصرانی حکومتیں تنصیری اعمال و تحریکوں کو ہمیشہ سپورٹ کرتی ہیں اور ان کو بہت زیادہ مالی تعاون دیتی ہیں ۔

اسی سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ دوسرے مذاہب والے اپنا کام کس قدر منظم و مرتب انداز میں  مکمل ہم آہنگی اور تنسیق کے ساتھ کررہے ہیں ۔ ان کے پاس تمام اعداد و شمار اور باریک سے باریک تر معلومات موجود ہیں اور کس قدر افسوس و تکلیف کی بات ہے کہ  ہمارے پاس معلومات کاخزانہ  بہت حد تک مفقود ہے بلکہ فراہم ہی نہیں ہے ۔اور جب صحیح اعداد و شمار ہی ہمارے پاس فراہم نہیں ہیں تو ہم کیسے کوئی مضبوط اور کارآمد منصوبہ سازی کرسکتے ہیں یا کوئی لائحہ عمل تیار کرسکتے ہیں  اور کس طرح ہم کو کامیابی مل سکتی ہے ۔ اگر ہمارے درمیان تنظیم و تنسیق ہوتی تو کم ازکم مسلمان ممالک کا اعداد و شمار فراہم ہوتا  اور غیر اسلامی ممالک کے بارے میں معلومات مل جاتیں ۔ لیکن  اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے اور اس سے مسلمان حکومتوں کی لاپرواہی کا بھی پتہ چلتا ہے ۔     

انہیں سب وجوہات کی  بنیاد پر  موجودہ دور میں  یہ کام جس قدر تنظیم و ترتیب, تعاون  کے ساتھ منظم و مرتب طور پر  ہونا چائیے وہ نہیں ہوپا رہا ہےلہذا  اس کمی  پر قابو پانے کی شدید ضرورت ہے  ۔

دعوت و تبلیغ کا مساجد ومدارس , جلسوں  تک محدود ہونا: یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ  آج کل  دعوت و تبلیغ  عام طور سے صرف مساجد, مدارس, مکاتب اور جلسوں تک محدود ہوکے رہ گئی ہے , جن  میں صرف  عموما وہی مسلمان حاضر ہوتے ہیں  جو دیندار ہوتے ہیں اور جن کو دین سے تھوڑا بہت  لگاؤ ہوتا ہے , جمعہ کے خطبوں میں  عموما لوگ بہت دیر سے پہنچتے  ہیں ,   مکاتب و مدارس کا رخ انڈیا میں صرف چار فیصد بچے کرتے ہیں ۔ اصلاحی جلسوں میں بھی دیندار حضرات ہی حاضر ہوتے ہیں اور وہی اس کی رونق بڑھاتے ہیں ۔ اور ویسے بھی اس کا سماج کی اصلاح میں کردار بہت کم ہوتا ہے ۔

حکومتوں کی طرف سے رکاوٹ ڈالنا: ہم سب جانتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمان سائنس و ٹیکنالوجی, بحث و تعلیم , صنعت و حرفت ,  اسلحہ سازی کے میدان میں دنیا کی ترقی یافتہ اقوام سے بہت زیادہ  پیچھے ہیں اور وہ ان پر مکمل طور سے منحصر ہیں ۔ اس لیے وہ ان کے غلام ہیں خصوصا  انٹرنٹ , سٹیلائٹ وغیرہ میں۔ اس لیے مسلمانوں کا اس دور میں کوئی سیاسی وقار و عزت , رعب و ہیبت نہیں ہے بلکہ وہ دنیا کی ذلیل ترین اقوام میں سے ایک ہے ۔

اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی غیر اسلامی ممالک نے دعوت و تبلیغ پر شکنجہ کس دیا ہے , اور اس میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور داعیوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے ۔ جن میں ہمارا وطن عزیز بھی شامل ہے ۔ اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مذہب کی تبدیلی کو قانونا جرم قرار دیا گیا ہے اور   ان کی نظر میں کسی کو مذہب اسلام کے قبول کرنے پر ابھارنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی سزا قید و جرمانہ ہے ۔ حالانکہ  کسی کو مذہب اسلام کے قبول کرنے سے روکنا اس کی شخصی آزادی پر حملہ ہے ۔ اسی وجہ سے اسلام نے ماضی میں جہاد کیا ۔ در اصل اس کا جہاد اسی غرض سے تھا کہ  اسلام کی نشرو اشاعت میں جو قوتیں روڑے اٹکاتی ہیں اور افراد کو اس کے قبول کرنے پر پابندی لگاتی ہیں ان رکاوٹوں کو دور کیا جائے ۔ اسلام کا مقصد کبھی کسی کو زبردستی مسلمان بنانا نہیں تھا۔

بلا شبہ یہ  جہاں ایک طرف مسلمان و ان کے ممالک کی ذلت اور کمزوری کا پھل ہے وہیں دوسری طرف  متعصبین کے تعصب, عداوت  , نفرت و حقد کا نتیجہ ہے ۔ 

 دعوت کے لیے مخصوص معاہد و کلیات کی کمی:

     جس طرح پوری دنیا خصوصا غیر اسلامی ممالک میں باعتبار تعداد عوام و پبلک داعیوں کی تعداد میں افسوس ناک حد تک کمی ہے اسی طرح بلا شبہ دعوت کے لیے مخصوص معاہد و کلیات کی بھی خطرناک حد تک  بہت زیادہ کمی ہے ۔ خود  برصغیر کا جائزہ لے لیجیے یہاں تو صورت حال بے حد خراب ہے ۔ جو اسلامی مدارس , معاہد و جامعات دینی تعلیم سے وابستہ ہیں ان کی معاشی حالت ہمیشہ خراب رہتی ہے ۔ اور اگر ان کی باہر ممالک سے فنڈنگ بند ہوجائے تو کتنے ادارے مجبورا بند ہوجائیں گے ۔اسلامی تعلیم سے وابستہ یہی ادارے ہمارے لیے اساتذہ کے علاوہ خطباء و دعاۃ بھی فراہم کرتے ہیں ۔

اس مصیبت کی اصل وجہ در اصل ہمارے سماج و معاشرہ کا دینی تعلیم کے بارے میں غلط نظریہ و تصور ہے ۔ اس کی عظمت و حقیقت سے نا واقفیت ہے ۔ اس کے لیے علماء کو آگے آنا ہوگا ۔ سماج و معاشرہ کے نقطہ نظر کو بدلنا ہوگا , اس کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کرنا ہوگا اور عوام کو دینی تعلیم پر توجہ کے ساتھ اس پر خرچ کرنے کی رغبت دلانی ہوگی۔ آج کے  اکثر مسلمان غیر اسلامی تعلیم پر سخاوت کے ساتھ خرچ کرتے ہیں  اور اسی کے حصول میں دلچسپی لیتے ہیں لیکن جب باری دینی تعلیم کی ہوتی ہے  تو ان کی سخاوت مرجاتی ہے , ان کا دل و ضمیر مردہ ہوجاتا ہے , دینی تعلیم , مساجد و مدارس پر خرچ کرتے ہوئےان کا کلیجہ پھٹتا ہے  وغیرہ۔  سماج کے اس رخ کو بدلنا انتہائی ضروری ہےورنہ حالات مستقبل میں بد سے بد ترین ہو سکتے ہیں  ۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ موجودہ دور میں امور دعوت کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ  اس میں بہت ساری اہم  کمیاں و خرابیاں ہیں جن کو قطعا نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے  بلکہ ان  کی اصلاح  کرنے اور دور کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی خرابیاں و کمیاں ہیں  جن کو طوالت کی وجہ سے نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔علاوہ ازیں تجاویز و حلول کا دوسرا  حصہ ابھی باقی ہے ۔

لہذا اب سوال یہ ہے کہ ان نقائص و کمیوں پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے اور ان کے حلول کیا ہیں ؟  ان کا بھی ذکر یہاں  کیا جا رہا ہےتاکہ ان کی روشنی میں دعوت کے میدان میں  ہر کوئی اپنے مناسب کردار کو اختیار کرسکے  اور اس میں کم یا زیادہ حصہ لے سکے  ۔

حلول اور تجاویز

دینی دعوت و تبلیغ خصوصا غیر اسلامی ممالک میں تمام مسلمان ممالک اور ان کے حکمرانوں کا  دینی و شرعی, اخلاقی و معاشرتی  فریضہ ہے  ۔ اس لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ تمام مسلمان ممالک اور ان کے حکمراں اپنی  دعوتی فرائض اور  ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اس میں اپنا نمایاں کردار ادا کریں , مجرمانہ لاپرواہی و غفلت سے باہر نکلیں , علاقائی اور بین الاقوامی طور پر دعوت کو منظم کریں اور اس میں تیزی لائیں۔ داعیوں کی تعداد میں ہر جگہ وہاں کی  مقامی زبان میں  بقدر ضرورت  اضافہ کریں۔وغیرہ

  دعوت کے کام کو صحیح و منظم ڈھنگ سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ تمام مسلمان ممالک داعیوں اور امور دعوت سے متعلق معلومات کا آپس میں تبادلہ کریں ۔باہمی ترتیب و تنظیم قائم کریں اور مکمل ہم آہنگی و تنسیق کریں ,  تمام اہم اعداد و شمار کو شیئر کرکے جمع کریں  تاکہ دعوت کی مجموعی صورت حال اور اس کی ضرورتوں  کا صحیح ترین اندازہ ہوسکے  اور بین الاقوامی طور پر خصوصا ہر مسلمان ملک میں دعوت کا سروے ہو ۔اس کے مختلف پہلؤوں کا وسیع و عریض دراسہ و مطالعہ ہو ۔ان سب کے بغیر ہم کوئی کامیاب پلان نہیں بنا سکتے ہیں اور نہ مطلوبہ کامیابی کے ساتھ کام ہو سکتا ہے  ۔  

دعوت کا ایک بین الاقوامی مرکز مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں قائم کیا جائے, اس کو ہر قسم کے جدید وسائل سے لیس کیا جائے  جہاں دعوت و داعیوں سے متعلق ہر قسم کی معلومات فراہم ہوں۔ قرآن مجید کا  ہر زبان میں معتمد ترجمہ سافٹ و ہارڈ کاپی دونوں  میں موجود ہو ۔ احادیث کا بھی ترجمہ ہرزبان میں فراہم ہو ۔ اس کے علاوہ  دنیا کی ہر زبان میں اسلام کے متعلق بنیادی معلومات جمع کی جائیں ۔ ہر زبان کے کم ازکم ایک یا بقدر ضرورت کئی   ماہر  داعیوں  کو وہاں پر رکھا جائے۔یہ مرکز ایسا ہو جو تمام دنیا کے مسلمانوں کا مرجع ہو اور دنیا کا کوئی بھی شخص کسی بھی قسم کی معلومات وہاں سے لے سکتا ہو ۔ اس کے برانچز حسب ضرورت غیر اسلامی ممالک میں قائم کیے جائیں ۔

ماہر و تجربہ کار داعیوں کی بقدر ضرورت فراہمی  کے لیے پوری دنیا خصوصا مسلمان ممالک میں دعوت کے لیے کافی تعداد میں  مخصوص کالجز , معاہد و ادارے قائم کیے جائیں جہاں  پر دعوت کی تدریس و تعلیم کے علاوہ مکمل ٹریننگ ہوتی ہو اور جدید وسائل کا بھر پور استعمال ہوتا ہو  اور زمینی طور پر داعیوں کو تیار کیا جاتا ہو ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کئی مسلمان ممالک میں سرکاری طور پر  اس پر کوئی توجہ نہیں ہے ۔  

دعوت و تبلیغ کو صحیح ڈھنگ سے انجام دینے کے لیے ایک بہت بڑا سرکاری و غیر سرکاری مخصوص  بجٹ بھی ضروری ہے  تاکہ داعیوں کو مناسب تنخواہ دے کے معاش کی فکر سے آزاد کر دیا جائے  تاکہ وہ بنا کسی پریشانی و تنگی  کے بے فکر ہوکر دعوت کا کام کر سکیں ۔ مسلمان ممالک میں یہ کام وہاں کی حکومتیں انجام دیں اور غیر مسلم ممالک میں یہ کام مسلمان خود ہی کریں لیکن ایک مخصوص بجٹ کا پایا جانا ضروری ہے ۔

ضروری ہے کہ دعوت و تبلیغ کے کام میں تیزی لائی جائے , اس  کو بڑے پیمانہ پر انجام دیا جائے, جدید وسائل و ذرائع کا بھر پور استعمال کیا جائے اور مقامی طور پرآپسی تعاون و مشورہ کے ساتھ  منظم و مرتب دعوت و تبلیغ کی جائے  تاکہ مسلم و غیر مسلم ہر شخص  تک پہنچا جا سکے اور اس کو حکمت و دانائی کے ساتھ اسلام کا پیغام دیا جا سکے ۔اور آج کے اس  دور میں بہت سارے ایسے  جدیدوسائل و ذرائع فراہم ہیں جن کا زیادہ سے زیادہ  استعمال کرکے  ہم دعوت کو انسانوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں ۔

اس کے  ساتھ ہی زمینی سطح پر بھی زبردست محنت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت اب بھی ان جدید وسائل سے محروم ہے اور ان کا استعمال ان کی طاقت سے باہر کی چیز ہے ۔یہ ہمیشہ یاد رکھیے کہ  زمینی دعوت و تبلیغ کا کوئی بدل نہیں ہے بلکہ لوگوں سے ملنا اور ان کو سمجھانا یہ انبیاء کا طریقہ رہا ہے اور یہ سب سے کارگر اور مؤثر طریقہ ہے ۔ لہذا کوئی بھی طریقہ یا وسیلہ اس کا بدل نہیں ہو سکتا ہے ۔ 

اور بھر پور دعوت و تبلیغ  کے لیے متفرغ داعیوں کی ایک کثیر تعداد میں پایا جانا ضروری ہے جو صرف اسی کام کے لیے وقف ہوں, ان کا کسی دوسرے کام تقریر, تدریس, تحریر وغیرہ سے کوئی تعلق نہ ہو, اور ان کی تعداد ہر جگہ  آبادی کے لحاظ سے مناسب  ہو  تاکہ وہ سب کے لیے میسر ہوں ۔جزو وقتی داعیوں سے دعوت کاکام مکمل طور سے نہیں ہونے والا ہے اور اس میں کمیوں کا پایا جانا لازمی ہے ۔

زبانوں کا مسئلہ الگ ہے , خود انڈیا میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن کئی زبانوں میں داعیوں کی تعداد خال خال ہے اور مطلوبہ اسلامی لٹریچر فراہم نہیں ہے مثلا منی پور کی  متائی زبان یا جس کو منی پوری کہا جاتا ہے, میزورم کی میزو  زبان , مختلف قبائلیوں کی زبانیں وغیرہ  ۔اس پر توجہ دینے کی سخت حاجت ہے  ورنہ دعوت کام ناقص رہے گا۔بلا شبہ ادھر آخری سالوں میں مختلف زبانوں میں کام ہوا ہے لیکن وہ کافی نہیں ہے ۔ 

مسلمانوں کی مختلف مسالک کی  جماعتیں اگر دعوت کا کام مل جل کر باہمی مشورہ سے  مرتب و منظم طور پر کریں تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوگا ۔ اس میں تکرار سے بچا جا سکتا ہے ,  وقت, محنت اور سرمایہ کی بہت زیادہ  بچت ہو سکتی ہے, کم افراد سے زیادہ کام ہو سکتا ہے   لیکن آج کے دور میں تو یہ محال ہے ۔ جب ایک ہی جماعت کی  مختلف جمعیات و تنظیموں کے مابین کوئی تنظیم, تنسیق و ترتیب نہیں ہے اور وہ آپس میں تعاون کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں  تو مختلف جماعتوں کے درمیان آپسی تعاون و ترتیب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ 

علاوہ ازیں مسلمانوں کو اپنی زندگی میں اسلام کو ہر شعبہ میں حقیقی طور پر  نافذ کرنا ہوگا ۔ یقین جانئیے کہ آج ہم مسلمان خود ہی اسلامی دعوت کی راہ میں  سب سے بڑا روڑا ہیں , اس کی سب بڑی رکاوٹ ہیں کیونکہ اسی وجہ سے لوگ اسلام سے متنفر ہوجاتے ہیں اور ان کو اسلام کا صحیح پیغام نہیں پہنچتا ہے بلکہ اس کا بہت ہی غلط پیغام جاتا ہے ۔ اسلام کی شبیہ خراب ہوتی ہے ۔ اگر آج کے مسلمان با عمل حقیقی مسلمان بن جائیں اور اس کا صحیح نمونہ پیش کریں تو ایک بہت ہی مثبت پیغام لوگوں تک جائے گا ۔ اور ساتھ ہی مسلمانوں کے اندر موجود  اکثر  پریشانیاں ختم ہوجائیں گی اور   مسائل حل ہوجائیں گے ۔ 

یہ ہیں چند حلول و تجاویز جن سے دعوت  وتبلیغ کے میدان میں موجود مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے , خامیوں و کمیوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور ان میں مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہےبلکہ اس میں نقلاب پربا کیا جا سکتا ہے  ۔

موضوع کافی طویل ہوگیا لہذا اب بات یہیں پر ختم کی جاتی ہے ۔اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمان حکمرانوں  اور اہل اسلام کو دعوت و تبلیغ کی اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین وما علینا الا البلاغ و  آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: