یتیم کی پرورش کا ثواب

 

یتیم کی پرورش کا ثواب


حدیث:  عن سہل بن سعد الساعدی قال : قال رسول اللہ : انا و کافل الیتیم فی الجنۃ کہاتین , و اشار باصبعیہ یعنی السبابۃ و الوسطى (صحیح ترمذی/1918, علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے, اسے بخاری نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ ذکر کیا ہے,حدیث نمبر  6005)

ترجمہ: سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامیں اور یتیم کی پرورش  کرنے والا جنت میں ان دونوں انگلیوں  کی طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی  دونوں انگلیوں  یعنی شہادت کی  اور درمیانی انگلی سے  اشارہ کیا۔

شرح: اسلام اللہ کا آخری دین ہے اور یہ تا قیامت کے لیے ہے اور  اللہ ہی کائنات کا خالق ہے جس  کی نگاہ سے کوئی چیز اوجھل نہیں ہے اور  جو اپنی  ہر مخلوق کی  ہر حاجت و ضرورت سے بحسن و خوبی نہ صرف واقف ہے  بلکہ اس کا صحیح و درست بندوبست بھی کیا ہے تاکہ ہر کسی کی ضروریات زندگی پوری ہوسکے اور  ہر کوئی اس دنیا میں آسانی سے اپنی زندگی گذار سکے اور اسے مشقت و پریشانی کا سامنا نہ ہو ۔ اسی وجہ سے اسلام نے ہر انسانی  طبقہ: مرد و عورت, غریب و مالدار, عالم و جاہل, یتیم و بے سہارا, بیمار و نادار  کا خیال رکھا ہے, ان کے حقوق کی گارنٹی دی ہے   اور اس کو نافذ کرنے کی تاکید کی ہے ۔اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام دین رحمت بھی ہے ۔

یہ حدیث بھی اسی کا ایک نمونہ ہے کیونکہ  اس میں انسانی معاشرہ کے ایک اہم ضعیف و لاچار  عنصر و طبقہ  یتامی کا ذکر ہے ۔ انسانوں میں  یتیم وہ بچہ یا بچی ہے جس کے والد کا اس کی بلوغت سے پہلے انتقال ہوگیا ہو ۔اور یہ مدت بلوغت تک ہوتا ہے ,بالغ ہونے  کے بعد کوئی  بچہ یتیم نہیں رہتا ہے ۔ حیوان میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کی ماں فوت ہوگئی ہو  اور بعض کا کہنا ہے کہ پرندوں میں یتیم وہ ہوتا ہے جس کے ماں باپ میں سے کوئی ایک فوت ہوگیا ہو ۔بعض اہل علم کا ایسا کہنا ہے ۔ (موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب, شرح ریاض الصالحین, باب ملاطفۃ الیتیم...)

بلا شبہ یہاں مراد بنی آدم کا یتیم ہے۔ اور یتیم وہ  نہیں ہے جس کی ماں فوت ہوگئی ہو   بلکہ جس کا باپ انتقال کرگیا وہی یتیم ہے کیونکہ ظاہر ہے کہ باپ ہی اس دنیا میں اپنے بچوں کا سب سے مضبوط و قوی سہارا ہوتا ہے , وہی اس کی حفاظت کرتا ہے , وہی اس کی طاقت و قوت ہوتا ہے , اور اسی سے وہ  اپنی زندگی جینا سیکھتا ہے ,  وہی   لباس و رہائش  اور روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے اور وہی اس کی ہر ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ اب اگر کسی بچہ کے باپ کا سایہ اس کے سر سے اٹھ جائے تو ظاہر ہے کہ اس کی دنیا تاریک ہوجاتی ہے اور وہ  کمزور , بے سہارا , لاچار و مجبور ہوجاتا ہے ۔ کوئی  اس کا کوئی نگہداشت کرنے والا نہیں ہوتا ہے ۔ ایسی صورت میں خوف خدا سے عاری بہت سارے لوگوں کی غلط نگاہیں اس کی طرف اٹھتی ہیں جو اس کے  مال و دولت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اسی لیے خود اللہ تعالى نے یتامی کے بارے میں قرآن میں تاکید کی ہے اور ان کے اموال کو غلط طریقے سے استعمال کرنے سے منع کیا ہے اور اس پر جہنم کی دھمکی دی ہے ۔(دیکھیے:نساء/10)

اور  تقریبا ہر سماج و معاشرہ, علاقہ و ملک   میں یتامی کی ایک بڑی  تعداد ہوتی ہے جو در حقیقت اس کا ایک ضعیف  طبقہ ہوتا ہے  جس  کی دیکھ بھال,  نگہداشت اور رعایت کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور جس  کو یکسر نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ ان پر دھیان نہ دینا خسارہ و نقصان کا سبب بن سکتا ہے  اور اگر ان پر توجہ نہ دی جائے تو وہی سماج کے لیے بوجھ بن سکتے ہیں , بدامنی و قانون شکنی کا باعث ہو سکتے ہیں وغیرہ۔

 لہذا اسلام جو پوری کائنات کے لیے دین رحمت ہے, جو لوگوں کے حقوق اور ان کے اموال کی حفاظت کرتا ہے , اور کسی بھی اسلامی معاشرہ میں ضعیف و کمزور کا حق ضائع نہیں ہونے دیتا  ہے بلکہ اس کا حق   باقی و محفوظ رہتا ہے(موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب..) تو بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس کے سایہ عاطفت, شفقت و رحمت  سے انسانی سماج کا یہ اہم جزء محروم رہ جائے ۔اسی لیے اسلام نے یتامی پر انتہائی دھیان دیا ہے۔ ان کی پرورش و کفالت پر ابھارا ہے , اس کی تاکید کی ہے, ان کی کمزوری , ضعف اوربے بسی و عاجزی   کے حقوق کو نہ صرف بیان کیا ہے  بلکہ اس پر جنت کی بشارت دی ہے ۔ اور نبی کریم کی مصاحبت و افضل مقام و مرتبہ کی نوید سنائی ہے ۔

اسی لیے  آپ نے فرمایا : انا و کافل الیتیم کہ میں اور یتیم کی کفالت و پرورش کرنے والا شخص , اور کافل وہ شخص ہے جو اس کی نگرانی و نگہداشت کرتا ہے , اس کی کفالت و رعایت اور  دیکھ بھال کرتا ہے(موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب..) اس کے معاملات کو دیکھتا ہے  اور اگر اس کے پاس مال و دولت ہے تو وہ اس کی حفاظت کرتا ہے جس میں اس کے لیے بہتری و بھلائی ہے(الدرر السنیۃ : الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث: انا و کافل الیتیم...) خواہ یہ کفالت و رعایت   مال کے ذریعہ ہو یا اس کی تربیت اور اس کے معاملات کی دیکھ بھال کے ذریعہ ہوگرچہ  یتیم کے مال سے  ہو ۔اس معنى میں کہ اگر وہ اس یتیم کا سرپرست ہے یا اس کو اس کی قانونی سرپرستی حاصل ہے ۔ پس وہ اس کی اچھی  طرح دیکھ بھال کرتا ہے اور اس کی بہتر تربیت و پرورش  کرتا ہے اگر چہ وہ ایسا یتیم کے مال سے کرتا ہے تو وہ بھی اس کا پرورش کرنے والا ہے ۔   (موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب, ....)

پھرآپ نے اپنے سبابہ(شہادت)  اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا ۔ اس کو سبابہ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ شیطان کی برائی کی  جاتی ہے(موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب...), یا کسی کو گالی دیتے وقت انسان اس کے ذریعہ اشارہ کرتا ہے(موقع الوکہ: شرح حدیث سہل: انا و کافل الیتیم...) ۔اس کے علاوہ بھی قول ہے ۔ اس کا دوسرا نام مسبحہ بھی ہے ۔ کیونکہ تسبیح میں اس سے اشارہ کیا جاتا ہے , اور یہ بہتر قول ہے ۔ آپ نے اپنی سبابہ اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔ پھر آپ نے  جیسا کہ ایک دوسری روایت میں ہے و فرج بینہما ان دونوں کے درمیان فاصلہ کیا  ۔ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اس کا مقام و مرتبہ جنت میں نبی کا مقام و مرتبہ نہیں ہوگا لیکن وہ آپ سے  انتہائی قریب ہوگا جیساکہ دونوں انگلیوں میں قربت ہے ۔(موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب, ....)اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی امتی کو آپ کا مقام و مرتبہ حاصل ہو کیونکہ جنت میں آپ کا مقام و مرتبہ سب سے اعلى و افضل ہے, سب سے بلند ہے, وہاں کوئی   دیگر نبی و رسول بھی آپ کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا ہے تو ایک عادی شخص کے لیے یہ محال ہے ۔

معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا حدیث میں کھاتین  کا مفہوم ہرگز یہ نہیں ہے کہ نبی و امتی کا مقام و مرتبہ ایک جیسا ہوگا , ان دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں ہوگا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ یتیم کی پرورش کر نے والے کا مرتبہ بہت بلند و بالا ہوگا , آپ سے بہت قریب ہوگا , اور اس کا مقام و درجہ نبی کریم کے مقام سے بنا کسی فاصل و آڑ کے متصل ہوگا ۔اس کا مقصدہے کہ وہ آپ کے ساتھ جنت میں موجود ہوگا لیکن درجہ ایک جیسا نہیں ہوگا ۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: اسلام ویب: الفتوى, ھل درجۃ کافل الیتیم فی الجنۃ... ,نمبر 439555, 15/رمضان 1422ھ) اس کا ایک معنى یہ بھی ہے کہ وہ جلدی سے جنت میں داخل ہونے میں نبی کریم سے قریب ہوگا۔ (المکتبۃ الشاملۃ: کتاب شرح ریاض الصالحین, شرح حدیث: انا و کافل الیتیم...)

اور بلا شبہ کسی یتیم کی پرورش کرنا  یہ ایک بہت ہی آسان عمل ہے ۔ نبی کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ دار آخرت میں مجھ سے قریب وہ ہوگا جو رات بھر قیام کرتا ہے اور زندگی بھر روزہ رکھتا ہے یا اس کے مثل کوئی بات آپ نے نہیں کہی بلکہ آپ نے فرمایا کہ میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔ ممکن ہے کہ کوئی انسان کم نوافل ادا کرنے والا, کم روزہ رکھنے والا اور کم صدقہ کرنے والا ہے لیکن وہ یتیم کی پرورش کرکے اس بلند مرتبہ کو پالیتا ہے ۔ اور یہ ایک یتیم کی پرورش  پر بھی صادق آتا ہے ۔

لیکن افسو س کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں بہت سارے لوگ اس میں غفلت و سستی برتتے ہیں جب کہ  آج کے دور میں بہت سارے لوگ یہ آسان عمل انجام دینے کی قدرت رکھتے ہیں ۔ کیونکہ کسی یتیم کی پرورش کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ ان کے سایہ میں اور ان کے گھر میں ہو بلکہ اگر کوئی ادارہ یا اسکول یا دار یتیموں کی پرورش کرتا ہے , ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور ان کو وہ  بقدر ضرورت خرچ دے دیتا ہے تو یہ بھی یتیم کی کفالت و اس کی پرورش میں داخل ہے ۔ (موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب...)

اور یہ ثواب اس کے لیے بھی ہے جو اپنے کسی قریب یتیم کی کفالت کرتا ہے  مثلا کسی کے والد کا نتقال ہوگیا تو اس کی  خالہ ,پھوپھا , چچا , دادا, باپ, دادی, بہن , ماموں وغیرہ اس کی کفالت کرتا ہے  یا کسی غیر قریبی کی کفالت کرتا ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے : عن أبی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ : کافل الیتیم لہ او لغیرہ انا و ہو کھاتین فی الجنۃ یعنی حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :  اپنے یا غیر کے یتیم کی پرورش کرنے والا میں اور وہ جنت میں ان دو انگلیوں کی طرح ہوں گے ۔ (مسلم/2983) اور یہ حکم مرد و عورت دونوں کے لیے ہے ۔

لہذا  اگر کوئی مسلمان اس قسم کی کوئی بات سنتا ہے  تو اس  کو اس بات کا حریص ہونا چائیے  کہ اس سے اس قسم کے اعمال فوت نہ ہوں جن سے وہ بآسانی اللہ کے نزدیک بلند مرتبہ کو حاصل کرلیتا ہے ۔ یہ اللہ کا ہم پر بہت بڑا فضل و کرم ہے اور اس کی عنایت و لطف ہے کہ بنا کسی زیادہ مشقت و پریشانی کے  آسان اعمال  کے ذریعہ انسان بلند مراتب کو پہنچ جاتا ہے ۔ (موقع خالد بن عثمان السبت: شروح الکتب...)

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو خیر و بھلائی کی توفیق دے اور اپنی اطاعت پر ہم سب کی مدد کرے  اور یتیموں کے لیے ہم سب کے دل میں رحمت و شفقت, محبت و ملاطفت کا جذبہ پیدا کرے اور ان کی خدمت کی توفیق دے ۔ آمین   

     

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: