صدقہ: تعریف, اقسام, فوائد و احکام

 

صدقہ: تعریف, اقسام, فوائد و احکام

                                       

بلا شبہ صدقہ کا کسی بھی  انسانی معاشرہ میں  مختلف ناحیوں سے بہت زبردست کردار ہوتا ہے, یہ سماج کی اصلاح و ترقی ,  فلاح  اور بہبود  نیز  اس کے امن و امان کا ضامن  ہوتا ہے , فرد و سماج دونوں کے لیے یہ بہت زیادہ مفید و نفع بخش ہوتا ہے اور دونوں پر اس کے زبردست اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔اس کی اہمیت و افادیت ہرجگہ و علاقہ نیز ہر معاشرہ اور سماج کے لیے مسلم ہے ۔ یہ ہر زمانہ کی شدید حاجت و ضرورت  رہی ہے اور اب بھی ہے  ۔ یہ ایسے حقائق ہیں جن  کا کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے ۔ اسی وجہ سے دین اسلام میں  صدقہ  کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے  اور اللہ کی راہ میں صدقہ کرنے پر ابھارا گیا ہے اور مختلف طریقوں سے اس کی ترغیب دلائی گئی ہے ۔ لہذا اس مضمون میں صدقہ کے مختلف پہلؤوں پر روشنی ڈالی جا رہی ہے تاکہ صدقہ کے بارے میں ایک مکمل اسلامی تصور سامنے آجائے اور اس کی  دینی اہمیت و فضیلت  اور سماجی اثرات, ضرورت و افادیت   کا بخوبی اندازہ ہو سکے  ۔  

صدقہ کی تعریف :

لفظی تعریف: صدقات: یہ صدقہ(د پر فتحہ)    کی جمع ہے اور اس کا اصل صدق ہے  اوریہ مختلف معانی کے ےلیے بولا جاتا ہے ۔ اس کا ایک  عام معنى ہے سچ بولنا, کہا جاتا ہے : صدق فلان فی الحدیث یعنی فلاں بات میں  سچ بولا ,اس کا دوسرا معنی ہے  خالص نصیحت یا محبت کرنا جو  صدقہ النصیحۃ  او المحبۃ میں ہے , تیسرا معنی ہے  پورا کرنا  یا ہونا مثلا: صدق فلان الوعد یعنی فلاں نے وعدہ کو پورا کیا, صدقت نبوءتہ یعنی اس کی پیشینگوئی پوری ہوئی ,ایک اور معنی سخت جنگ کرنا ہے  , بولا جاتا ہے صدق فی القتال یعنی سخت جنگ  کی ۔ وغیرہ  (موقع المعانی و مصباح اللغات)

اصطلاحی تعریف: یہ وہ عطیہ ہے جو فقراء و مساکین کو اللہ کی قربت حاصل کرنے  اور اس کے ثواب کی امید میں دیا جاتا ہے ۔ اس کی جمع صدقات ہے ۔

وجہ تسمیہ: صدقہ کو صدقہ اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ صدقہ کرنے والے کے ایمان کی صداقت  اور سچائی کی واضح ترین دلالتوں وصادق ترین  نشانیوں  میں سے ایک  ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص فطری طور پر مال سے محبت کرتا ہے اور اس کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ پس جو شخص اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اپنی فطرت کی مخالفت کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان و اس کے یقین کے صحیح ہونے کی  دلیل ہے۔اور یہی آپ کے قول  : "الصدقۃ برھان(  صدقہ دلیل ہے) "  کا معنى ہے  کہ وہ انسان کے ایمان کے صحیح ہونے کی دلیل ہے بشرطیکہ اس کی نیت اللہ کی رضامندی کا حصول ہو اور اس کا مقصد ریا و نمود اور شہرت طلبی نہ ہو ۔ (اسلام ویب: المقالات, فضائل الصدقۃ) 

صدقہ کے انواع و اقسام : صدقہ کئی قسم کا ہوتا ہے اور اس کو کئی اعتبار سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ مختلف اعتبارات سے اس کی تقسیم مندرجہ ذیل ہے:---

صدقہ باعتبار فرض و نفل:

 1- فرض صدقہ:یہ  زکاۃ ہےجو اسلام کا تیسرا رکن ہے  اور اس کا نصاب و طریقہ متعین ہے اور  ہر صاحب نصاب پر ہر سال  اس کا نکالنا فرض ہے, اس کی ایک  قسم زکاۃ  یا صدقۃ الفطر بھی ہے   ۔

 2- نفل صدقہ: یہ فرض  زکاۃ کے علاوہ ہوتا ہے  اور یہ   واجب نہیں ہوتا  ہے بلکہ انسان اللہ کی قربت اور رضامندی کے لیے اس کی راہ میں اپنی مرضی و خوشی سے رضاکارانہ طور پر  خرچ کرتا ہے۔

صدقہ باعتبار مقدار:--

کم صدقہ: اس کی کوئی مقدار متعین نہیں ہے , ہر کوئی اپنی طاقت  کے  مطابق معمولی سے معمولی   صدقہ بھی کرسکتا ہے مثلا ایک دو روپیہ  ۔ اس میں شرعا کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی شرمانے کی ضرورت ہے ۔ معمولی صدقہ بھی صدقہ ہوتا ہے اس کو کوئی حقیر نہ جانے بلکہ وقتا فوقتا اس کی حیثیت و قیمت اللہ کے نزدیک لاکھوں و کروڑوں پر بھاری ہوتی ہے  ۔

زیادہ صدقہ: اس کی بھی کوئی مقدار متعین نہیں ہے ۔ ہر آدمی اپنی طاقت کے اعتبار سے بہت زیادہ صدقہ کر سکتا ہے لیکن یہ کوئی فخر و مباہات کی بات نہیں ہے ۔

صدقہ باعتبار وقت :---

صدقہ جاریہ : یہ وہ صدقہ  ہے جو انسان اپنی زندگی میں کرتا ہے لیکن اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی جاری رہتا ہے اور  اس کو برابر  ملتا رہتا ہے ۔ مثلا کسی مسجدو مدرسہ کے لیے زمین خرید دینا یا مسجد و مدرسہ کی تعمیر کرادینا , پیڑ پودا لگا دینا, کتابوں کی نشرو اشاعت کرنا, طلبا کو تعلیم دلانا وغیرہ ۔ یہ سب کام اگر چہ ایک انسان اپنی زندگی میں انجام دیتا ہےلیکن  جب تک یہ چیزیں  اس کے مرنے کے بعد باقی رہتی ہیں تو  اس کا ثواب اس کو برابر ملتا رہتا ہے  ۔ اس قسم کا صدقہ  "صدقہ جاریہ" یعنی جاری رہنے والا صدقہ   کہلاتا ہے ۔

صدقہ غیر جاریہ ( مؤقتہ یا عارضی صدقہ): یہ وہ صدقہ ہے جو لمبی مدت یا دائمی طور پر نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ وقتی ہوتا ہے مثلا: کسی بھوکے کو کھانا کھلانا , کسی پیاسے کو پانی پلانا, کسی غریب کی شادی کرانا, کسی مسکین کو کپڑا دینا, کسی کا علاج کرانا وغیرہ ۔ یہ تمام جیزیں دیرپا نہیں ہوتی ہیں بلکہ وقتی ہوتی ہیں لہذا یہ صدقہ جاریہ میں شامل نہیں ہیں اور ان کا اجر بھی وقتی طور پر محدود ہوتا ہے ۔

صدقہ باعتبار مال و اجناس:---

مالی صدقہ : جو نقود اور پراپڑتی  میں سے دیا جائے ۔

 غیر مالی صدقہ: جو نقود کے علاوہ  خورد و نوش , ملبوسات, ادویہ, ساز و سامان  وغیرہ اجناس میں  سے دیا جائے۔ راستہ سے کسی  تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا یا کسی کو اچھی بات بتانا  یا کسی مسلمان کی کسی بھی قسم کی مدد کرنا مثلا راستہ بتانا, بھٹکے ہوئے کو اس کے گھر پہنچانا یا کسی کام میں اس کا تعاون کرنا  وغیرہ بھی غیر مالی صدقہ ہے   ۔

صدقہ باعتبار طریقہ :---

علانیہ صدقہ:وہ ہے جولوگوں کے سامنے علانیہ طور پر   ظاہر کرکے دیا جائے ۔ مثلا بارہا ایسا ہوتا ہے کہ کسی مسجد میں نمازیوں سے صدقہ کرنے کے لیے کہا جاتا ہے یا کسی اجلاس میں لوگوں سے صدقہ و خیرات کی اپیل کی جاتی ہے تو لوگ اپنا صدقہ لے کر مسجد یا اجلاس میں حاضر ہوتے ہیں اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ فلاں نے اتنا صدقہ دیا  ۔ تو یہ ظاہری و علانیہ طور پر صدقہ کرنا ہوا ۔

خفیہ صدقہ: وہ صدقہ ہے جو صاحب صدقہ کسی تنظیم , گروپ , جماعت,  غریب و نادار کو پوشیدہ طور پر کسی کو بتائے ہوئے بغیر دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے گھر کے افراد کو بھی اس کے بارے میں نہیں بتاتا ہے ۔

صدقہ کے مختلف اعتبارسے اس کے مختلف اقسام و انواع کو جان لینے کے بعد اب اس کے فوائد و فضائل کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔      

 صدقہ کے فضائل و فوائد:

 قرآن و حدیث کےبہت سارے  نصوص  میں صدقہ کے بہت زیادہ دنیوی و اخروی  فضائل بیان کیے گئے ہیں  اور ان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا رہا ہے:---

صدقہ کرنا احسان کی خاص  علامت ہے: اللہ  تعالى نے اپنے محسن بندوں کی ایک   نہایت خاص صفت یہ بیان کی ہے کہ وہ سائل اور محروم پر خرچ کرتے ہیں ۔ فرمان الہی ہے:{إنهم كانوا قبل ذلك محسنين * كانوا قليلاً من الليل ما يهجعون * وبالأسحار هم يستغفرون * وفي أموالهم حق للسائل والمحروم} (ذاريات:16-19) یقینا وہ لوگ اس دن کے پہلے ہی احسان کرنے والے تھے ,  وہ راتوں کو کم ہی سوتے تھے,  اور وہی سحر کے وقت استغفار کیا کرتے تھے , اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے اور محروم یعنی نہ سوال کرنے والے کا حق(واجب اور مستحب دونوں )  تھا۔

اس آیت میں حق سے مراد وہ مال ہے جو وہ نفلی طور پر پر خرچ کرتے ہیں , فرض زکاۃ نہیں ہے کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور زکاۃ مدینہ میں سن 2/ھ میں فرض کی گئی ۔آلوسی کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ حق زکاۃ کے علاوہ ہے ۔ یہی قول ابن عباس و مجاہد وغیرہ کا بھی ہے ۔ (الوسیط للطنطاوی)

محمد بن سیرین اور قتادہ کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حق سے مراد فرض زکاۃ ہے ۔ ابن العربی کا کہنا ہے کہ زیادہ قوی بات  یہ ہے کہ یہ زکاۃ ہے کیونکہ سورہ معارج میں آیا ہے : والذین فی اموالہم حق معلوم للسائل و المحروم(معارج/24-25) ۔ اور ظاہر ہے کہ حق معلوم زکاۃ ہے کیونکہ اس کی مقدار , جنس اور وقت سب متعین ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ  کا کچھ بھی متعین و معلوم نہیں ہے  کیونکہ نہ اس کی مقدار متعین ہے نہ جنس و وقت ۔(تفسیر قرطبی)

بالفاظ دیگر , ایک طرف وہ اپنے رب کا حق پہچانتے تھے اور ادا کرتے تھے , دوسری طرف بندوں کے ساتھ ان کا معاملہ یہ تھا کہ جو کچھ بھی اللہ نے ان کو دیا تھا  خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت, اس میں صرف وہ اپنا اور اپنے بال بچوں ہی کا حق نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کو یہ احساس تھا کہ ہمارے اس مال میں ہر اس  اللہ کے بندہ کا حق ہے جو مدد کا محتاج ہو۔ (ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی : ابو الاعلى مودودی)

صدقہ کا بدلہ ملتا ہے: صدقہ ایک ایسی نیکی ہے جس کا دونوں جہا ں میں  عوض اور بدلہ دینے کا اللہ سبحانہ و تعالی نے ازخود وعدہ کیا ہے اور وہ سخی کریم ہے جو کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ہے ۔ ارشاد باری تعالى ہے: {وما أنفقتم من شيء فهو يخلفه وهو خير الرازقين} (سبأ:39) اور جو کچھ بھی تم (اللہ کی راہ) میں خرچ کرو گے تو وہ اس کا پورا پورا بدلہ دے گا ۔ اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے ۔

یہ بدلہ تو دنیا میں بھی ممکن ہے اور آخرت میں یقینی ہے ۔ حدیث قدسی میں ہے : اللہ تعالى فرماتا ہے: انفق انفق علیک (راوی : ابو ہریرہ , بخاری /4684 و  7411 و مسلم/993) تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا  یعنی بدلہ دوں گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ دو فرشتے روزآنہ اعلان کرتے ہیں , ایک کہتا ہے : اللہم اعط منفقا خلفا اے اللہ خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما دوسرا کہتا ہے : اللہم اعط ممسکا تلفا یعنی اے اللہ  نہ خرچ کرنے والے  کے  مال کو ضائع کردے ۔ ( راوی: ابو ہریرہ , بخاری/1442 و مسلم/1010 )

صدقہ کا بدلہ کئی گنا ملتا ہے: اللہ تعالى  نے صدقہ کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو  اپنی  راہ میں خرچ کردہ  مال کے  کئی گنا بدلہ دے گا۔ ارشاد الہی ہے: {من ذا الذي يقرض الله قرضاً حسناً فيضاعفه له أضعافاً كثيرة} (بقرة:245) کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض دے تو وہ اس  کو  اس کے لیے  بڑھا چڑھا کر کئی گنا کردے ۔

قرض حسن سے مراد خالص نیکی کے جذبے سے بے غرضانہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ہے ۔ اسے اللہ تعالى اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ کرتا ہے کہ وہ نہ صرف اصل واپس کردے گا بلکہ اس کے کئی گنا زیادہ دے گا(ترجمہ قرآن مجید مع مختصر حواشی : ابو الاعلى مودودی) ۔ اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کبھی  کمی نہیں ہوتی ہے  بلکہ اللہ اس میں کئی گنا اضافہ فرماتا ہے , کبھی ظاہری طور پر اور کبھی معنوی و روحانی طور پر اس میں برکت ڈال کر۔ اور آخرت میں تو یقینا اس میں اضافہ حیران کن ہوگا۔

صدقہ کرنا جہاد ہے: مال کا صدقہ کرنا جہاد کی ایک قسم ہے  بلکہ ان تمام آیات میں جن میں  جہاد کا ذکر آیا ہے صرف ایک جگہ کو چھوڑ کر ہر جگہ مالی جہاد کا جانی جہاد سے پہلے ذکر کیا گیا ہے ۔ اور نبی کریم کا فرمان ہے :جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم (راوی : انس بن مالک ,صحیح ابو داؤد/2504, احمد /12268, نسائی /3096 معمولی اختلاف کے ساتھ ) مشرکوں سے اپنے اموال , جانوں اور زبانوں سے جہاد کرو ۔

     صدقہ مال میں اضافہ و برکت کا سبب ہے : حدیث میں وارد ہوا ہے : ما نقصت صدقۃ  من مال یعنی صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا ہے ۔ (راوی: ابو ہریرہ , مسلم/2588) مطلب ہے کہ صدقہ مال کم ہونے کا سبب نہیں ہے بلکہ اس سے مال پاک ہوتا ہے اور اس میں برکت و زیادتی ہوتی ہے اور کئی گنا اجر و ثواب ملتا ہے ۔یہ صدقہ کا ایک بہت بڑا دنیاوی فائدہ ہے ۔

صدقہ سے اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہوتا ہے:حضرت ابو امامہ کی روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: صنائع المعروف تقی مصارع السوء , وصدقۃ السر تظفئ غضب الرب , وصلۃ الرحم تزید فی العمر ( صحیح الترغیب و الترہیب , البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے)  اچھے کام بری موت سے بچاتے ہیں اور خفیہ صدقہ اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتا ہے اور صلہ رحمی عمر میں اضافہ کرتا ہے ۔

بری موت سے مراد وہ موت ہے جس سے اللہ کے نبی نے پناہ مانگی ہے ۔ مثلا: دب کر یا گر کر ہلاک ہونا, ڈوب جانا, آگ میں جل جانا , جہاد  میں پیٹھ پھیر کر بھاگتے ہوئے مارا جانا, اچانک مرجانا یا کسی حادثہ میں ہلاک ہوجانا وغیرہ ۔

نیک اعمال جو اس سے بچاتے ہیں ان میں صدقہ کرنا , والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ,  مصیبت زدہ کی مدد کرنا , لوگوں کے ساتھ احسان کرنا اور عمومی طور سے ہر نیک کام کرنا  شامل ہے ۔(اسلام ویب: الفتوى, صنائع المعروف تقی مصارع السوء,  فتوى نمبر 131976, بدھ , 10-2-2010ع )

    صدقہ جہنم سے حفاظت کا ذریعہ ہے : حدیث میں آیا ہے: اتقوا النار و لو بشق تمرۃ یعنی جہنم سے بچو خواہ  کجھور کا ایک ٹکڑا ہی  کیوں نہ ہو ۔( راوی: عدی بن حاتم طائی , بخاری / 7512,6023,6563, مسلم /2350 و 2347) اس حدیث میں معمولی سے معمولی  صدقہ کرکے بھی جہنم سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے  اور اسے جہنم سے نجات کا ذریعہ بتایا گیا ہے  ۔ کیونکہ آدمی اپنی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں ہے ۔ اب اگر کسی کے بس میں صرف ایک دو روپیہ یا ایک دو کھجور ہی صدقہ کرنا ہے تو وہ بلا جھجک بنا کسی ندامت و ملامت کے صدقہ کرے اسے حقیر نہ جانے  ۔ بلا شبہ اس کی اللہ کے نزدیک بہت بڑی قیمت ہے اور ممکن ہے کہ وہ مالدار کے لاکھوں روپیہ کے صدقہ سے افضل و بہتر ہو ۔

بیماری سے شفا کا سبب: صدقہ سے بہت ساری جسمانی بیاریوں سے شفا ملتا ہے ۔ حدیث میں مذکور ہے : داؤوا مرضاکم بالصدقۃ یعنی اپنے بیماروں کا علاج صدقہ سے کرو ۔ (البانی: صحیح الجامع/3358, حسن) یہ ایک حقیقت ہے اور اس طرح کے سیکڑوں واقعات کتابوں میں مذکور ہیں جن میں صدقہ سے مکمل صحتیابی کا ذکر ہے ۔ بلاشبہ یہ ایک انمول دنیاوی فائدہ ہے ۔

جنت کے مخصوص دروازہ سے داخلہ: قیامت کے دن صدقہ والا ایک مخصوص دروازہ " صدقہ " سے جنت میں داخل ہوگا ۔ جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے : من کان من أہل الصدقۃ دعی من باب الصدقۃ یعنی اہل صدقہ کو باب صدقہ سے داخل ہونے کے لیے پکارا جائے گا ۔ (ابو ہریرہ, بخاری/1897)

الہی سایہ کا حصول: صدقہ کرنے والا قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سایہ میں ہوگا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ اور کوئی سایہ نہیں ہوگا۔حدیث میں آتا ہے آپ نے ارشاد فرمایا: سات اشخاص کو قیامت کے دن اللہ کا سایہ نصیب ہوگا ان میں ایک وہ شخص بھی  ہوگاجس نے اس قدر خفیہ طریقہ سے صدقہ کیا کہ اس کے بایاں ہاتھ کو بھی یہ نہیں پتہ چلا کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے ۔(راوی : ابو ہریرہ, بخاری /1423 , مسلم / 1031و صحیح ابن حبان/7338) 

صدقہ کے مزید  دنیاوی فوائد :

صدقہ کےمذکورہ بالا  دینی و دنیاوی  فوائد کے علاوہ اور بھی بے شمار  دنیاوی فوائد ہیں ۔

 اس سے سماج اور معاشرہ میں باہمی الفت و محبت,  آپسی ہمدردی و رحم دلی  کے احساسات پروان چڑھتے اور فروغ پاتے ہیں , باہمی غم خواری و غمگساری  کے جذبات پیدا و رونما ہوتے  ہیں ۔ اس سے جہاں ایک طرف غریبوں کو احساس ہوتا ہے کہ معاشرہ میں ایسے افراد موجود ہیں جو ان کا خیال رکھتے ہیں, ان کو نظر انداز نہیں کرتے ہیں بلکہ  دکھ درد میں ان کے کام آتے ہیں ۔ وہیں دوسری طرف اس سے  اہل صدقہ میں اپنے محتاج و غریب بھائیوں کے تئیں شعور, بیداری  و احساس ذمہ داری کا پتہ چلتا ہے جس سے معاشرہ کے افراد کے درمیان رابطہ قوی ہوتا ہے ,آپسی   تعلقات مضبوط ہوتے ہیں  اور  ایک دوسرے کے تئیں جذبات و احساسات بیدار ہوتے ہیں , پروان چڑھتے اور فروغ پاتے ہیں  ۔

اس سے غریبوں اور غربت کے مسائل  پر بہت حد تک قابو پایا جا سکتا ہے ۔ ان کے بے شمار مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے ۔ دوا علاج , شادی بیاہ, خورد و نوش , تعلیم و تعلم  وغیرہ کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔یتیموں کی زندگی میں تبدیلی آسکتی ہے ۔  اہل صدقہ کے بارے میں سماج کا نظریہ مثبت ہوتا ہے ۔ وہ ان کی طرف قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ان کا اکرام و احترام کرتے ہیں ۔ غریبوں و غربت کے مسائل کو ممکنہ حد تک حل کرکے صدقہ معاشرہ و شہر میں  امن و امان کے قائم کرنے کا بہت بڑا ذریعہ  بن سکتاہے ۔

صدقہ کرنے سے نفسیاتی سکون, خوشی و اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔معاشرہ کے باہمی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں ۔ صدقہ فقراء و مساکین کے دلوں کو کینہ و بغض سے پاک کرتا ہے اور اہل صدقہ کے دلوں کو بخل سے صاف کرتا ہے ۔ سماج کے افراد کے درمیان اعتماد و ثقہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔وغیرہ

غرضیکہ صدقہ کے فضائل و فوائد بہت زیادہ ہیں ان کو اس مختصر مضمون میں بیان کرنا مشکل ہے ۔ قرآن و احادیث میں ان کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہاں اس قدر ان شاء اللہ  کافی ہے ۔

علانیہ  و خفیہ صدقہ کرنے کا حکم:

اللہ تعالى قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ  وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ  وَيُكَفِّرُ عَنكُم مِّن سَيِّئَاتِكُمْ  وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ (بقرہ/271)

ترجمہ:  اگر تم اپنے صدقات ظاہر کرتے ہو تو یہ بھی اچھا ہے  اور اگر تم اسے خفیہ طور پر فقراء کو دیتے ہو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے ۔ اور وہ تمہارے برائیوں کو مٹا دے گا  اور اللہ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے ۔

اس آیت میں اللہ تعالى نے بتایا ہے کہ اگر کوئی مسلمان اسلامی طریقہ کے مطابق اپنا صدقہ کرتا ہے تو اللہ کے نزدیک اس کے قبول ہونے کی امید ہے خواہ وہ اپنا صدقہ علانیہ طور پر کرتا ہے یا خفیہ طریقہ سے ۔مطلب ہے کہ دونوں طریقہ سے صدقہ کرنا جائز ہے ۔اور اس کے بدلے میں اللہ تعالى اس کے تمام یا بعض گناہوں کو مٹادے گا  اور یہ صدقہ کرنے کا فائدہ ہے ۔

لہذا اس بارے میں علماء و فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ علانیہ و خفیہ دونوں طریقہ سے صدقہ کرنا جائز ہے ۔ شرعا دونوں درست ہے بس انسان کے نیت کاخالص  ہونا ضروری ہے جیسا کہ تمام عبادات میں ہے ۔ اختلاف صرف اس میں ہے کہ کون سا طریقہ کس صدقہ کے لیے افضل و بہتر ہے ۔ اس بارے میں علماء کے دوگروپ ہیں :---

کچھ علماء کا کہنا ہے کہ نفلی صدقہ کے لیے خفیہ طریقہ افضل و بہتر ہے کیونکہ یہ ریا و نمود سے دور ہوتا ہے اور فقیر کی پردہ پوشی ہوتی  ہے  اور فرض صدقہ کے لیے علانیہ طریقہ بہتر ہے کیونکہ اس میں ریا ء کا خطرہ نہیں ہوتا ہے ,  یہ تہمت کو دور کرتا ہے, برے گمان سے بچاتا ہے  اور اہل خیر کو اتباع و اقتدا کی ترغیب دیتا ہے  ۔جمہور علماء کا یہی قول ہے ۔ تفصیل آگے آرہی ہے ۔

اس کے برخلاف کچھ علماء کا کہنا ہے کہ فرض و نفل دونوں صدقہ کے لیے خفیہ طریقہ ہی بہتر ہے ۔ان کی دلیل قرآنی آیات کا عموم ہے ۔احادیث کے عموم سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے ۔ علامہ ابن کثیر کا یہی مسلک ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ آیت عام ہے جو فرض و نفل سب کو شامل ہے ۔ اسی طرح "سبعۃ یظلہم اللہ یوم لا ظل الا ظلہ و الصدقۃ تطفئ غضب الرب " وغیرہ احادیث بھی عام ہیں  جن کو اس سے پہلے ذکر کیا جا چکا ہے ۔

علامہ سعدی  نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر صدقہ فقیر کو دینا ہے  تو خفیہ صدقہ علانیہ صدقہ سے بہتر و افضل ہے ۔لیکن اگر صدقہ فقراء کو نہیں دینا ہے تو آیت کا مفہوم ہے کہ خفیہ صدقہ علانیہ سے بہتر و افضل نہیں ہے۔ایسی صورت میں مصلحت کو دیکھا جائے گا اب اگر صدقہ کے ظاہر کرنے میں کوئی مصلحت ہے مثلا: دین کے شعائر کو ظاہر کرنا , دوسروں کو صدقہ پر ابھارنا اور اس کی ترغیب دلانا , دوسروں کا اس کی اتباع کرنا وغیرہ تو علانیہ صدقہ خفیہ سے بہتر و افضل ہے ۔ (تفسیر سعدی)

  امام قرطبی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت نفلی صدقہ کے بارے میں ہے کیونکہ اس کو مخفی رکھنا ظاہر کرنے سے افضل ہے ۔ اسی طرح  بقیہ تمام  نفلی عبادات  کو مخفی رکھنا افضل ہے کیونکہ اس سے ریا ء کی نفی ہوتی ہے, لیکن واجب اعمال کے لیے ایسا نہیں ہے ۔حسن کا قول ہے کہ زکاۃ کا اظہار کرنا بہتر ہے اور نفل کو مخفی رکھنا افضل ہے کیونکہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا  ارادہ تنہا صرف اللہ کا ہے ۔ حضرت ابن عباس کا قول ہے  کہ اللہ نے نفلی صدقہ کے مخفی رکھنے کو علانیہ صدقہ پر جیسا کہ کہا جاتا ہے  ستر گنا  فضیلت دی ہے ۔اور  فرض صدقہ کے اعلان و ظاہر کرنے کو اس کے مخفی رکھنے پر جیسا کہ بتایا جاتا ہے 25/گنا فضیلت دی ہے ۔اسی طرح ہر چیز کے فرض و نفل کا معاملہ ہے ۔

امام قرطبی مزید فرماتے ہیں کہ یہ رائے پر مبنی بات  نہیں ہے بلکہ یہ توقیفی ہے  کیونکہ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا: افضل صلاۃ المرء فی بیتہ الا المکتوبہ یعنی  فرض کو چھوڑ کر آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ادا کی جائے ۔(راوی: زید بن ثابت, بخاری/7290و مسلم/781)  کیونکہ فرائض میں ریاء کا خطرہ نہیں ہوتا ہے اور نوافل میں  اس کا خطرہ ہوتا ہے ۔وغیرہ (تفسیر قرطبی)

امام بغوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ بعض کے قول کے مطابق یہ آیت فرض زکاۃ کے بارے میں ہے جس کو  نبی کریم کے زمانہ میں خفیہ رکھنا بہتر و افضل تھا  لیکن دور حاضر میں اس کا ظاہر کرنا افضل ہے تاکہ اس کے بارے میں برا گمان نہ کیا جائے ۔ (تفسیر بغوی)

تفسیر احسن البیان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں خفیہ طور پر صدقہ کرنا افضل ہے , سوائے کسی ایسی صورت کے کہ علانیہ صدقہ دینے میں لوگوں کے لیے ترغیب کا پہلو ہو ۔ اگر ریاکاری کا جذبہ شامل نہ ہو تو ایسے موقعوں پر پہل کرنے والے جو خاص فضیلت حاصل کرسکتے ہیں وہ احادیث سے واضح ہے ۔ تاہم اس قسم کی مخصوص صورتوں کے علاوہ دیگر مواقع پر خاموشی سے صدقہ و خیرات کرنا بہتر ہے ۔

صدقہ میں اخفاء کی فضیلت کو بعض علماء نے صرف نفلی صدقات تک محدود رکھا ہے اور زکوۃ کی ادائیگی میں اظہار کو بہتر سمجھا ہے  لیکن قرآن کا عموم صدقات نافلہ و واجبہ دونوں کو شامل ہے (ابن کثیر) اور حدیث کا عموم بھی اسی کی تائید کرتا ہے ۔ (تفسیر احسن البیان)

معلوم ہوا کہ افضلیت کا تعلق حالات و مصلحت سے ہے ۔اگر مصلحت ظاہر کرنے میں ہے, حالات اس کا تقاضا کرتے ہیں  تو علانیہ صدقہ بہتر و افضل ہے اور اگر مصلحت پوشیدہ رکھنے میں ہے تو خفیہ صدقہ افضل و بہتر ہے ۔ اس کا تعلق فرض و نفل سے نہیں ہے ۔ راقم  کی یہی رائے ہے اور یہی راجح و درست ہے کیونکہ  اس کا معاملہ دیگر عبادات سے مختلف ہے اور یہ خالص مالی عبادت ہے  ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔

آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ حاجتمند کو دینا چائیے جس کو ضرورت نہ ہو اس کو نہیں دینا چائیے ۔ اس میں الاحوج فالاحوج کا اصول پیش نظر رکھنا چائیے ۔ضرورت و حاجت کو معیار بنایا جائے اور اسی کو  مقدم کیا جائے ۔ایسا نہ ہو کہ کسی ضرورتمند کو دیدیا اور اس سے زیادہ و بڑا ضرورتمند باقی رہ گیا ۔

آخر آیت  میں وضاحت کی گئی کہ صدقہ سے ثواب ملتا ہے اور اس سے بعض  گناہ مٹا دئیے جاتے ہیں  کیونکہ صدقہ ہر قسم کے گناہ کو نہیں مٹاتا ہے ۔من یہاں تبعیض کے لیے ہے ۔

اس آیت میں خفیہ و علانیہ دونوں اقسام کے صدقہ کی تعریف کی گئی ہے بشرطیکہ صدقہ کرنے والا اسلامی آداب و توجیہات کو نافذ کرنے والا ہو اور ہر اس چیز سے دور رہنے والا ہو جو صدقات کو باطل کردیتی ہیں اور اعمال کو ضائع کردیتی ہیں ۔ (الوسیط للطنطاوی)  پہلے علانیہ صدقہ کی تعریف کی گئی ہے پھر بتایاگیا ہے کہ خفیہ صدقہ  اس سے بہتر ہے ۔ اسی لیے کسی حکیم کا کہنا ہے : اذا اصطنعت المعروف فاسترہ , واذا اصطنع الیک فانشرہ  یعنی اگر تم کوئی بھلائی و اچھائی کرتے ہو تو اس کو چھپاؤ اور اگر تمہارے ساتھ کیا جاتا ہے تو اس کو پھیلاؤ۔ (تفسیر قرطبی)  

صدقہ کی تعریف, اقسام, فضائل و احکام میں اب تک  جو کچھ ذکر کیا گیا ہے اس سے قطعی طور پر صدقہ کی دینی و دنیاوی اہمیت و فضیلت, حاجت و ضرورت کھل کر سامنے آجاتی ہےاور فرد و سماج دونوں پر  اس کے اثرات و افادیت کا بخوبی  اندازہ ہوجاتا ہے ۔

اب آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق خالص نیت کے ساتھ ادائیگی زکوۃ و صدقات کی توفیق عطا فرمائے اور اس کا بہتر بدلہ دے ۔ آمین  و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: