اور چہرہ بے نقاب ہوگیا

 

                                                  تاریخ میں ایک بار پھر                                              

                   اور چہرہ بے نقاب ہوگیا

                                                    لایالونکم خبالا                                                 


سیریا (شام ) میں تاریخ نے اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرایا ہے, چہرہ سے نقاب پلٹ گیا ہے,مکھوٹا  ہٹ گیا ہے,8/دسمبر 2024 ع کو ملعون و خبیث, سفاک و ظالم , آمر اور ڈکٹیٹر درزی نصیری باطنی  شیعی  حاکم بشار الاسد  حکومت کا تختہ پلٹ گیا ۔ ترکی کی مدد سے کئی مسلح تنظیموں و جماعتوں کے اتحاد و انضمام پر مشتمل  ہیئۃ تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) یا تنظیم تحریر الشام (تنظیم آزادی شام ) کے شیروں نے ابو محمد  احمد حسین  الشرع الجولانی کی جراتمندانہ و مدبرانہ  قیادت میں  دمشق کو فتح کرلیا اور حکومتی سرکاری افواج نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دئیے۔ مجاہدین آزادی  کی نئی حکومت قائم  ہوئی جس کے نتیجے میں سابقہ شیعی حکومت کے  انسانیت کو شرمسار کرنے والے  خوفناک مظالم و جرائم ,دنیا کو لرزہ براندام کر دینے والے کربناک حقائق و  دل دہلانے والے وحشتناک واقعات  کھل کر لوگوں  و میڈیا کے سامنے آگئے جن سے پوری دنیا حیران و ششدر ہے اورانسانیت  سکتے میں ہے۔

یاد کیجیے کہ جب 2011ع میں تونس سے  ربیع عربی (عرب بہاریہ) کی شروعات ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ عوامی تحریک کئی ملکوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ,  تو سیریا بھی اس کی لپیٹ میں آگیا اور وہاں پر بھی تاناشاہی ,استبدادی , جابرو ظالم , سفاک و خونریزحکومت کے خلاف زبردست تحریک  شروع ہوئی جس کو بشار الاسد نے کسی حد تک  روس و ایران کی مدد سے کچلنے میں کامیابی حاصل کی  اور آنے والے کئی سالوں تک  ملک کے ایک بڑے حصہ پر اپنے  قبضہ کوبرقرار رکھا لیکن یہ  عوامی تحریک کسی نہ کسی شکل میں ملک  کے کئی حصوں میں باقی رہی بلکہ منظم و مسلح انقلاب  کی شکل اختیار کرلی اور ملک کے مختلف علاقوں پر کئی تنظیموں نے قبضہ کرلیا ۔ حکومت دن بدن کمزور ہوتی رہی اور جب اس کے حلیفوں نے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا  توبالآخر  یہ حکومت عوامی مزاحمت کا سامنا نہ کرسکی اور 8/دسمبر کو سیریا میں عوام کی آزادی کا نیا سورج طلوع ہوا ۔بشار کی کرسی چلی گئی , اس کا غرور خاک میں مل گیا  , اس نے دم دبا کر بھاگنے ہی میں عافیت سمجھی اور فرار ہوکر  روس میں پناہ لی ۔

بلا شبہ ظلم کا انجام بہت ہی بھیانک و خطرناک  ہوتا ہے۔ اس کی سزا عموما دنیا ہی میں ہر ایک کو مل جاتی ہے خواہ ہو حاکم  ہو یا  کوئی معمولی فرد, مالدار ہو یا غریب, جاہل ہو یا عالم , کوئی بھی ہو اللہ کے یہاں دیر ہے لیکن اندھیر بالکل نہیں ہے ۔ جب وہ ظالموں کی گرفت کرتا ہے تو اس کی پکڑ بہت سخت ہوتی ہے ۔ حدیث میں آیا ہے : ان اللہ یملی للظالم فاذا اخذہ لم یفلتہ (مسلم/2583) یعنی بلا شبہ اللہ تعالى ظالم کو مہلت دیتا ہے لیکن جب اس کی گرفت کرتا ہے تو وہ اس کی پکڑ سے بچ نہیں سکتا  ہے  ۔ یقینا آخرت میں اس کی پکڑ اور سخت ہوگی۔ راقم نے خود ہی اپنی زندگی میں فلیپین کے سابق صدر فرڈیننڈ مارکوس سے لے کر بنگلہ دیش کے وزیراعظم شیخ حسینہ واجد تک  کتنے ظالم حکمرانوں و جابر آمروں  کاخوفناک و خطرناک انجام دیکھا ہے جو اسی دنیا میں اپنے تخت و تاج سے محروم ہوئے اور اپنے عوام و  ملک سے باہر پناہ لینی پڑی ۔انہیں میں سے ایک   لیبیا کا ڈکٹیٹر معمر  قذافی  بھی تھا جس کا انتہائی برا انجام ہوا ۔ جو اپنے آخری وقت میں چوہے کی طرح  ایک پائپ میں گھسنے پر مجبور ہوا  پھر اس کو انقلابیوں نے وہاں سےکھینچ  کر نکالا اور اس کا خاتمہ کردیا ۔

ظالم حکمرانوں کی  کبھی اس دنیا میں کمی نہیں رہی ہے اور ان کے ظلم  و بربریت کے خطرناک واقعات کی  بھی بھر مار ہے  جن میں  ہم سب کے لیے بہت زیادہ عبرتیں و نصیحتیں ہیں لیکن ہائے افسوس یہ ظالم حکمراں  آنکھوں کے نہیں دل کے اندھے ہوتے ہیں جو کسی بھی قسم کی نصحیت نہیں حاصل کرتے ہیں ۔اللہ تعالى کا فرمان برحق ہے: فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ(حج/46) بلا شبہ وہ نگاہوں کے اندھے نہیں ہوتے ہیں لیکن سینوں میں موجود ان کے دل اندھے ہوتے ہیں ۔

بشار الاسد بھی بصیرت سے محروم  دل کا اندھا تھا, اس  نے بھی ظالم حکمرانوں کے واقعات سے نصیحت نہ لے کر  ظلم و جور کا راستہ اپنایا,اپنی کرسی کی  ہر قیمت پر حفاظت کے لیے جبرو ستم, تعذیب و قتل  کی ایک نئی تاریخ رقم   کرنی شروع کی جس کے نتیجہ میں  ایک اندازہ کے مطابق عوامی تحریک کی آغاز سے لے کر حکومت کے بدلنے تک  چار لاکھ سے زائد لوگ قتل کیے گئے ۔نظام کے رونگٹے کھڑےکردینے والے مظالم کی داستانیں ہر روز منظر عام پر آرہی ہیں ,  دمشق کے قریب صیدیانا جیل  کے انکشاف کی خبر ٹھنڈی نہیں ہوئی تھی کہ قطیف شہر میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف ہوا  جس میں ایک تخمینہ کے مطابق ایک لاکھ قیدیوں  کی لاشیں دفن ہیں  ۔ اس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سوریا کی تاریخ کی سب سے بڑی اجتماعی قبر ہے ۔ اس سے پہلے گذشتہ سالوں میں اور بھی اجتماعی قبروں کی نشاندہی کی جا چکی ہے اور ابھی کتنی پردہ خفا میں  ہیں اس کا علم صرف اللہ کو ہے   ۔حد تو اس وقت ہوگئی جب اس  کی فوج نے  اپنے ہی شہریوں کو  کیمیائی ہتھیاروں سے بڑی تعداد میں  قتل کیا , شہری علاقوں میں ہسپتالوں , اسکولوں اور رہائشی عمارتوں پر بمباری کی , جیلوں میں قیدیوں پر ناقابل برداشت و وحشیانہ تشدد  کیا گیا ۔خبر تو یہ بھی ہے باقاعدہ قیدیوں کے  اعضاء کا کاروبار ہوتا تھا ۔ منشیات  بنانے کا ایک بڑا کارخانہ بھی سامنے آیا ہے جو مشرق وسطی کا سب سے بڑا کارخانہ ہے ۔ اس میں حکومت و فوج  ڈارکٹ طور پر شامل تھی اور بشار الاسد کا خاندان بھی  اس میں ملوث ہے,اس کی زیادہ تر سپلائی خلیجی ممالک میں ہوتا تھا اور حکومت  کو اس سے سرمایہ  بھی فراہم ہوتا تھا  ۔غرضیکہ وحشیت و بربریت , سفاکیت و تشدد کا ننگا ناچ کیا گیا  اورکامل طور سے  انسانیت کا جنازہ نکال دیا گیا اور سنی مسلمانوں کو ہر طریقے سے تباہ و برباد  کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 

سچ تو یہ ہے کہ سیریائی عوام بلکہ پوری دنیا کے لوگوں کو بشار الاسدسے اس ظالمانہ و جابرانہ رویہ کی توقع نہیں تھی  کیونکہ  دراصل وہ  تخت و تاج کا وارث ہونے سے پہلے بریطانیہ میں طب کی تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن اس کے بھائی  باسل کی ایک روڈ حادثہ میں اچانک موت  کی وجہ سے وہ اپنے باپ کا جانشین ہوا اور پھر  اس کو  جولائی  2000ع میں  سیریا کا تاج و تخت ملا ۔ عوام کو امید تھی کہ بریطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور جمہوری فضا و  ماحول میں رہنے  کی وجہ سے وہ اپنے باپ سے قدرے مختلف  ہوگا۔ ظلم و جبر کے بجائے عدل و انصاف کے ذریعہ اپنی حکومت کو مستحکم کرے گا , پیار و محبت سے  عوام کی دلوں کو جیتنے کی کوشش کرے گا۔  لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔یہ اپنے باپ سے بھی چار قدم آگے نکلا اور اس کی وحشیت و درندگی اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب اس کی حکومت کے خلاف عوامی  تحریک کا آغاز ہوا ۔یقینا  اس کا باپ سنیوں کے خلاف نفرت سے لبریز  ظالم, جابر, آمر, جلاد ڈکٹیٹر تھا جس  نے اپنے دور حکومت میں اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز و تحریک کو تلوار و طاقت کے زور سے کچل دیا تھا  اور عوام کا  بے رحمانہ و وحشیانہ قتل عام کیا تھا ۔سو  یہ کیسے اپنے باپ کی روش سے الگ رہ سکتا تھا ۔ اس نے بھی لوگوں کے جائز مطالبات کو منظور کرنے و   اس سنی  تحریک کو گفت و شنید و  پرامن طریقوں  سے حل کرنے کے بجائے اس کو طاقت کے زور پر کچلنا بہتر سمجھا اور اسے پریشانی کا  واحد حل جانا  جس کے نتیجہ میں چار لاکھ سے زائد لوگ قتل کیے گئے , لاکھوں افراد بےخانماں ہوئے, ہزاروں عورتیں  بیوہ ہوئیں اور ہزارہا ہزار  بچے یتیم ہوئے ۔ کئی شہر مکمل طور سے تباہ و برباد ہوئے, اس نے خود اپنے ہاتھوں اپنے ملک کو تاخت و  تاراج کیا , عوام کو ہلاک کیا  لیکن 14/سال کے بعد آخر کار اس کو شکست ہوئی جس سے اس  کا  خوفناک ظالمانہ چہرہ  پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا اور اللہ نے اس کو تاج و تخت سے بے دخل کرکے ذلیل و رسوا کیا ۔

          بلا شبہ 50/سال سے زائد  شیعی  دور حکومت کے ظلم و ستم, نسل کشی اورجینو سائڈ ,  سفاکی اور خونریزی, قتل  عام و غارتگری, اجتماعی مقبروں کے انکشاف  اور  صیدیانا جیسے قید خانوں  و عقوبت خانوں کے  واقعات و حقائق نے  یہ ثابت کردیا ہے کہ شیعہ خصوصا غالی و  باطنی اسلام وسنی  مسلمانوں کے ازلی و ابدی دشمن ہیں , انہوں نے اپنی پوری تاریخ میں  ہمیشہ اسلام و مسلمان دشمنوں کا ساتھ دیا ہے, وہ  خفیہ دشمن اور آستین کے سانپ ہیں ,ان کی بنیاد ہی اسی لیے ڈالی گئی تھی تاکہ اسلام و مسلمانوں کو اندر ہی اندر سے تباہ و برباد کیا جائے, اس لیے   ان سے کبھی بھی  کسی معمولی خیر کی بھی امید نہیں رکھنی چاہیے ,  اور اسی لیے وہ ظاہری و خارجی دشمنوں  یہود و نصاری سے بھی  زیادہ بڑے و خطرناک  دشمن ہیں۔

           جولوگ اسلامی تاریخ سے اچھی طرح  واقف ہیں اور انہوں نے اس کا صحیح طریقے سے مطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت سے بخوبی باخبر ہیں کہ شیعہ  نے جتنا نقصان اسلام و مسلمانوں کو پہنچایا ہے اتنا کسی دوسرے نے نہیں پہنچایا ہے,ان کے سینے بغض و حسد و نفرت و کراہیت سے بھرے ہوئے ہیں  ۔ان کی وہی حالت ہے جو ان آیات میں اللہ تعالى نے منافقین کی بیان کی ہے: {يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ بِطَانَةٗ مِّن دُونِكُمۡ لَا يَأۡلُونَكُمۡ خَبَالٗا وَدُّواْ مَا عَنِتُّمۡ قَدۡ بَدَتِ ٱلۡبَغۡضَآءُ مِنۡ أَفۡوَٰهِهِمۡ وَمَا تُخۡفِي صُدُورُهُمۡ أَكۡبَرُۚ قَدۡ بَيَّنَّا لَكُمُ ٱلۡأٓيَٰتِۖ إِن كُنتُمۡ تَعۡقِلُونَ ١١٨}(آل عمران/118) اے ایمان والو تم اپنے علاوہ دوسروں کو اپنا رازدار مت بناؤ ,  وہ تمہاری تباہی و بربادی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے, تمہیں جس چیز سے نقصان  پہنچے وہی ان کو محبوب ہے, ان کا بغض ان کی زیان سے ظاہر ہوچکا ہے, اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے بڑھ کر ہے, ہم نے تمہارے لیے  علامتوں کو واضح کردیا ہے اگر تم صاحب عقل ہو ۔ایک دوسری آیت میں ہے:{لَوۡ خَرَجُواْ فِيكُم مَّا زَادُوكُمۡ إِلَّا خَبَالٗا وَلَأَوۡضَعُواْ خِلَٰلَكُمۡ يَبۡغُونَكُمُ ٱلۡفِتۡنَةَ وَفِيكُمۡ سَمَّٰعُونَ لَهُمۡۗ وَٱللَّهُ عَلِيمُۢ بِٱلظَّٰلِمِينَ ٤٧}(توبہ/47)اگر وہ تمہارے ساتھ نکلتے  تو صرف تم میں فساد کا اضافہ کرتے  اور تمہارے درمیان فتنہ پردازی کے لیے بہت زیادہ دھوڑ دھوپ کرتے  اور تم میں ان کی باتوں کو سننے والے ہیں  اور اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے ۔

             یہ اتنے گئے گذرے ہیں کہ منافقین کی طرح غلبہ کی صورت میں نہ تو قرابت و رشتہ داری  کا خیال رکھتے ہیں اور نہ  انہیں عہد و پیمان کی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے ۔وہ سنی مسلمانوں سے دوستی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن دل سے نہیں صرف ظاہری طور پر۔سچ فرمایا اللہ تعالی نے :{كَيۡفَ وَإِن يَظۡهَرُواْ عَلَيۡكُمۡ لَا يَرۡقُبُواْ فِيكُمۡ إِلّٗا وَلَا ذِمَّةٗۚ يُرۡضُونَكُم بِأَفۡوَٰهِهِمۡ وَتَأۡبَىٰ قُلُوبُهُمۡ وَأَكۡثَرُهُمۡ فَٰسِقُونَ ٨}(توبہ/8) ان کے عہد و پیمان کا کیا اعتبار جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر ان کا تم پر غلبہ ہوجائے تو نہ یہ قرابتداری کا خیال کریں اور نہ کسی عہد و پیمان کا, وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں ۔ ایک دوسری آیت میں ہے: لَا يَرۡقُبُونَ فِي مُؤۡمِنٍ إِلّٗا وَلَا ذِمَّةٗۚ وَأُوْلَٰٓئِكَ هُمُ ٱلۡمُعۡتَدُونَ ١٠} (توبہ/10) یہ کسی مؤمن کے حق میں قرابت کا لحاظ کرتے ہیں نہ عہد و پیمان کا۔ اور یہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں ۔

          ان کو اسلام و مسلمانوں کی شکست و نقصان سے از حد  خوشی ہوتی ہے , ان کی مصیبت و تکلیف پر انتہائی  شادمانی  ہوتی ہے, ان کے چہرے خوشی و مسرت سے کھل اٹھتے  ہیں اور ان کے آنگنوں و  گھروں میں خوشی  کے شادیانے بجنے لگتے ہیں  جب کہ  ان کی فتح و نصرت  پر تکلیف ہوتی ہے , کامیابی و کامرانی , جیت و غلبہ  پر جل بھن جاتے ہیں , ان کی حالت ہو بہو منافقین جیسی ہے۔ اللہ تعالى کا فرمان ہے: {إِن تَمۡسَسۡكُمۡ حَسَنَةٞ تَسُؤۡهُمۡ وَإِن تُصِبۡكُمۡ سَيِّئَةٞ يَفۡرَحُواْ بِهَاۖ ١٢٠}(آل عمران/120)اگر تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا  لگتا ہے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں ۔ بلا شبہ و ہ اس آیت کا مکمل طور سے مصداق ہیں ۔ ان کےکھانے و دکھانے کے دانت الگ الگ  ہیں, وہ لوگوں کی آنکھوں میں ہمیشہ دھول جھونکتے  ہیں , ان کا ظاہر و باطن کبھی بھی یکساں نہیں رہا ہے ۔  یقولون بافواہہم مالیس فی قلوبہم(وہ اپنی زبانوں سے وہ بولتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتا ہے) (آل عمران/167)  کی طرح وہ کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ ان کی تمام پالیسیاں و سیاست شروع سے اہل سنت و اسلام کے خلاف رہی ہیں ۔  ان کو جب بھی موقع ملا ہے اسلام و مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے ۔ روئے زمین  پر ان سے بڑا و خطرناک دشمن سنی  مسلمانوں کا کوئی اور نہیں ہے ۔شام کے حالیہ واقعات نے اس پر مہر ثبت کردی ہے جس کا انکار وہی کرسکتا ہے جو بصیرت و بصارت دونوں سے محروم ہے ۔

ان کے کالے کارناموں کی  پوری  تاریخ گواہ ہے کہ وہ   ان آیتوں کا  وہ مکمل طور سے مصداق ہیں ۔ان میں بیان کردہ صفات ان پر مکمل طور سے فٹ بیٹھتی ہیں , ان کے کرتوتوں کی روشنی میں  ان آیتوں کو  پڑھنے سے ایسا لگتا ہے کہ گویا  یہ آیتیں ان کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔ان کی تاریخ کا جائزہ لیجیے  تو یہ حقیقت واشگاف ہوتی ہے کہ  خلیفہ راشد ذو النورین  حضرت عثمان بن عفان کے خلاف عبد اللہ بن سبا یہودی  شیعی کی سازش ,  مکر و فریب, غداری و دغابازی سے لے کر  مختلف زمانوں و عصور سے گذرتے ہوئے  دور حاضر تک انہوں نے  سنی مسلم حکومتوں, سلطنتوں , حکمرانوں, وزیروں, امراء, عوام  و علماء کے خلاف  جو غداریاں و دغابازیاں, سازشیں  و خیانتیں کی ہیں اور جن جرائم  و قتل عام  کا ارتکاب کیا ہے  وہ شیعی  تاریخ کی سیاہ صفحات کا بد نما حصہ ہیں ,  ان کے چہرہ کا بد نما داغ ہیں جو ہمیشہ ان کا پیچھا کرتی رہیں گی اور ان کی حقیقت کو اجاگر کرتی رہیں گی ۔ان کی  خبیث طبیعت و فطرت کی حقیقت کو مثل آئینہ دنیا کے سامنے لاتی رہیں گی ۔ 

اس مختصر اداریہ میں ان کے تمام کالے کارناموں کو اجاگر کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی یہ اس اداریہ کا مقصد ہے  پھر بھی اپنی ہی تاریخ سے ناواقف مسلمان عقول کو مطمئن  و راضی کرنے کے لیے  ان کی چند  انتہائی اہم خیانتوں و سازشوں کی طرف  بطور دلیل و ثبوت اشارہ کیا جا رہا  ہے جو ان کی حقیقت پر سے پردہ اٹھانے اور اس  کو  جاننے و سمجھنے کے لیے کافی ہے نیز مسلمانوں کو ان کے شر و فساد اور ان کی بد نیتی سے آگاہ کرنے کے لیےایک زبردست  الارم ہے ۔

اس میں کیا شک ہے کہ مذکورہ بالا آیتوں کا نزول منافقین کے بارے میں ہوا ہے لیکن شیعہ ان سے بھی بڑے منافق ہیں  اور ان کے کفر میں ذرہ برابر کوئی شبہ نہیں ہے ۔اس کی سب سے بڑی و واضح دلیل ان کے  غلط و باطل عقائد  ہیں جیسے : وہ  قرآن کریم میں تحریف کے قائل ہیں , حضرت جبرئیل پر خیانت کا الزام لگاتے ہیں , صاحبین حضرت  ابو بکر و عمر کو طاغوت کہتےہیں   اور ان سے براءت ظاہر کرتے ہیں, ام المؤمنین حضرت عائشہ پر اللہ کی طرف سے برءات کے باوجود تہمت لگانے سے باز نہیں  رہتے ہیں , چند صحابہ کرام کو چھوڑ کر  بقیہ سب کو مرتد مانتے ہیں وغیرہ ۔جن کی شریعت ہی مکمل طور سے سنی شریعت سے  الگ و جدا  ہے  وہ آخر مسلمان کیسے ہوسکتا ہے یا وہ مسلمانوں کا ہمدرد کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اہل سنت و جماعت نے شیعہ کے بارے میں قادیانیوں کی طرح سے کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا اور نہ ان کو کافر قرار دیا جس کا فائدہ  مسلمانوں کی صفوں میں شامل ہو کر وہ آج تک اٹھارہے ہیں اور قیامت تک اٹھاتے رہیں گے خصوصا جب تک سنی  مسلمان عددی و اقتصادی  برتری کے باوجود  دینی, سیاسی و فوجی طاقت و قوت سے عاری  ہیں اور  کمزور و بے بس ہیں  ۔مجھے یاد آتا ہے کہ جامعہ سلفیہ میں طالب علمی کے دوران  لکھنؤ سے مولانا  محمد منظور نعمانی   کی ادارت میں شائع ہونے والا مجلہ الفرقان  نے  شیعہ سے متعلق ایک شمارہ شائع کیا تھا جس میں ملک کے بہت سارے علماء سے ان کے  کفر کی بابت فتوى طلب کیا گیا تھا۔ اپنے فتاوى میں تمام علماء نے  ان کے کفر پر اتفاق کیا  تھا ۔

اے کاش کہ پوری دنیا کے مسلمان  عوام و حکمراں  قادیانیوں کی طرح شیعہ کی بابت کوئی واضح موقف اختیار کرتے تاکہ ان کی شبانہ روز کی سازشوں و خباثتوں سے مسلم امہ کو نجات مل جاتی اور یہ قوم ان سے دھوکا میں نہ رہتی   ۔ یہ بات یہاں پر ضمنی طور پر آگئی اب  شیعی جرائم و کالے کرتوتوں کی ایک مختصر فہرست پیش کی جا رہی ہے : ۔۔۔

     ·ذو الحجہ 35 ھ / جون 656ع میں تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان  ذو النورین کو شہید کرنے والے لوگ عبد اللہ بن سبا کے پیروکار تھے جس نے  شیعہ کی داغ بیل ڈالی ۔

·       297 ھ / 909ع  میں جب تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے خلافت عباسیہ کو ماننے سے انکار کیا اور خود  خلافت کے قیام کا اعلان کیا وہ مغرب کی پہلی شیعی عبیدی حکومت تھی  اور اس کا پہلا حاکم عبید اللہ بن حسین المہدی تھا جس نے  اپنے کو مسلمانوں کا خلیفہ اعلان کیا ۔ اس طرح سے تاریخ میں پہلی بار اسلام کا اتحاد پارہ پارہ ہوا۔

·     -  ابو طاہر سلیمان بن حسن جنابی  قرمطی جس نے 317 ھ /930 ع  میں مکہ مکرمہ پر حملہ کیا اور اہل مکہ سمیت تیس ہزار حاجیوں کو خانہ کعبہ  کے اردگرد قتل کیا۔ مسلمان عورتوں اور بچوں کو قید کیا۔خانہ کعبہ کے دروازہ کو اکھاڑ لیا اور حجر اسود کو نکال کے اپنے ساتھ لے گیا وہ بھی شیعہ تھا۔

·    -   چوتھی صدی ہجری/ دسویں صدی  عیسوی  میں بغداد پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرنے والے,خلافت بنو عباسیہ کو کمزور کرنے والے اور خلیفہ و خلافت سے کھلواڑ کرنے والے بنو بویہ بھی شیعہ تھے۔

·       10 رمضان 485ھ / 14 اکتوبر 1092ع میں مشہور سلجوقی وزیر نظام الملک کو قتل کرنے والا شخص باطنی شیعہ تھا۔

·     -  17 ذو القعدۃ 529 ھ / 29 اگست 1135 ع  میں عباسی خلیفہ المسترشد باللہ کو قتل کرنے والے اور پھر اس کا مثلہ کرنے والے شیعہ تھے۔

·       - 570ھ  و 571 ھ /1174-1175 ع میں شیعہ نے دوبار سلطان صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کی کوشس کی۔

·      -  656 ھ/1258ع  میں بنوعباسی خلافت کو ختم کرانے والے دو شیعہ مؤید الدین بن علقمی اور نصیر الدین طوسی تھے۔

 · صفوی سلطنت نے اپنے دور حکومت میں سنی مسلمانوں پر بے انتہاء مظالم ڈھائے اور ان کو زبردستی شیعی مذہب کے قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ اسی وجہ سے سنی اکثریت والا ایران  شیعی اکثریت والے ملک میں بدل گیا اور عراق میں بھی شیعہ کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ۔صفوی سلطنت کی مختصر داستان ظلم و ستم اسی شمارہ میں پڑھیے۔

·     - صفوی شیعی حکومت نے  یورپ میں عثمانی خلافت کے فتوحات پر  بریک لگایا  اور اس کی ناکامی کا ایک اہم سبب بنی ۔938ھ/1532ع میں جب  سلطان سلیمان قانونی  نے دور حاضر کے آسٹریا کے دار السلطنت " ویانا" کا محاصرہ کیا ۔تو اس کی ناکامی کا ایک اہم سبب صفوی سلطنت کا عراق پر حملہ تھا جس کی وجہ سے مجبورا بادشاہ کو محاصرہ ختم کرکے واپس لوٹنا پڑا تاکہ فوج کو صفوی سلطنت کی جانب سے کسی بھی ممکنہ  حملہ کے مقابلہ کے لیے تیار کرسکے ۔

·       رجب 1218 ھ / اکتوبر 1803 ع میں درعیہ کی مسجد طریف میں پہلی سعودی سلطنت کے دوسرے  سربراہ  امام عبد العزیز بن محمد بن سعود کو عصر کی نماز میں بحالت سجدہ قتل کرنے والا شخص عثمان  عراق کے شہر نجف کا رہنے والا شیعی تھا۔

·      - 6 شوال 1170ھ/23 جون 1757 ع  میں سراج الدولہ کے ساتھ اور28 ذو القعدۃ 1213 ھ/ 4 مئی  1799 ع میں  ٹیپو سلطان کے ساتھ غداری کرنے والے  میر قاسم و میر صادق  شیعہ ہی تھے۔

·     -  ایران جو ایک شیعی ملک ہے وہاں پر سنی مسجد بنانے پر پابندی ہے جبکہ دیگر ادیان والوں کی عبادت گاہوں پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اور ایران کے دار السلطنت طہران میں موجود تنہا سنی مسجد کو شوال 1436ھ / جولائی 2015 ع میں ڈھا دیا گیا  ۔

·     -   میں یمن میں آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے حوثی شیعہ ہیں جن کی وجہ سے آج یمن آگ کی جنگ میں جل رہا ہے۔ شیعوں نے یمن پر قبضہ کر لیا تھا لیکن سعودیہ کی بروقت مداخلت نے شیعی سازشوں کو ناکام بنادیا۔

      شیعی جرائم و مظالم  کی  یہ چند جھلکیاں و  نمونے ہیں جو آپ کی خدمت میں پیش کیے گئے  ہیں ورنہ ان کے ظلم وستم,  جور و جبر  کی  خوفناک داستان بہت طویل ہےجو کتابوں کے علاوہ آج کل انٹرنٹ پر بھی فراہم و دستیاب ہے۔جو حضرات   مزیدتفصیل سے جاننا چاہتے ہیں ان کے لیے درج ذیل کتابوں کا مطالعہ بہت مفید ہوگا:----

·    -   صفحات مشرقۃ من التاریخ الاسلامی  ڈاکٹر علی محمد الصلابی  , دوسری جلد , ص 71 سے ۷۷ دیکھیے جس کا عنوان ہے جرائم العبیدیین فی الشمال الافریقی۔

·    -   دولۃ السلاجقۃ و بروز مشروع اسلامی لمقاومۃ التغلغل الباطنی و الغزو الصلیبی  ڈاکٹر علی محمد الصلابی  اس کتاب کے آخر میں ص ۶۰۱ سے 604 تک ان حکمرانوں , علماء اور قاضیوں کی فہرست ہے جن کو شیعہ نے  صرف چھٹی صدی ہجری میں قتل کیا یا ان پر جان لیوا حملہ کیا۔

            شیعی قوم کی مذکورہ بالا  اہم و عظیم  تاریخی خیانتوں , سازشوں , مکاریوں و جرائم کو جان لینے کے بعد   بھی خاکسار راقم کو  ان سے کوئی گلہ و شکوہ نہیں ہے اور نہ کسی کو ہونا چاہئیے  کیونکہ ہم ایک دوسرے کو  اپنا دشمن مانتے ہیں اور  ہر دشمن  اپنے دشمن کے ساتھ وہی معاملہ  کرتا ہے جس کو وہ بزعم خویش صحیح و درست سمجھتا ہے خصوصا اس صورت میں جب وہ اپنے دشمن کے خلاف نفرت سے بھرا ہوا ہو  اور اس کا مذہب و عقیدہ بھی اس کے ظلم و جارحیت  میں رکاوٹ نہ ہو۔ایک دشمن ہمیشہ اپنے کو مضبوط و طاقتور  بناتا ہے ,  خود کو متحد و متفق  کرتا ہے , ہر اعتبار سے   مقابلہ کی بھر پور  تیاری کرتا ہے پھر مناسب وقت کی  تاک میں رہتا ہے اور  أپنے دشمن کو ہر قیمت پر چاروں خانے چت کرنا اور اسے زبردست  نقصان پہنچانا چاہتا  ہے ۔کچھ قومیں بین الاقوامی اصول و ضوابط,  قوانین و قواعد,  معاہدوں اور سجھوتوں کو بھی بالائے طاق رکھ دیتی ہیں جن میں سے یہود کے علاوہ  ایک شیعہ قوم بھی ہے ۔یہ قوم ہمیشہ سے یہی کرتی آئی ہے اور اب بھی یہی کر رہی ہے ۔

          ان سب کے باوجود مسلمانوں میں کچھ ایسے اندھے  افراد ,  بے بصیرت جماعتیں , تنظیمیں  اور گروپس  ہیں  جو شیعہ سے قربت و محبت  کی باتیں کرتی ہیں , شیعہ و سنی اتحاد و اتفاق  کا بلند بانگ دعوے کرتی ہیں  اور ان کے ساتھ  اتحاد و اتفاق کو امت مسلمہ کی طاقت و  قوت  کا اہم سبب بتاتے ہوئے تھکتی نہیں ہیں  اور عملا اس کے لیے دن و رات کوشاں رہتی  ہیں  ۔ ان کے بارے میں یہ کہنا بالکل صحیح ہے کہ ان کے آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں , یہ حقائق سے یا تو  یکسر  غافل ہیں یا دانستہ طور پر اس سے غفلت برتتے ہیں , شیعہ کبھی بھی ماضی میں مسلمانوں کے نہیں ہوئے اور نہ آئندہ کبھی ہوں گے ۔پائبدار شیعہ سنی اتفاق و اتحاد نہ تاریخ میں کبھی ہوا ہے اور نہ آئندہ کبھی ہوگا۔  یہ ایک سراب ہے , وہم و خیال ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے  لہذا   یہ افراد اور جماعتیں جتنی جلدی اس خواب و خیال سے باہر آجائیں ان کے لیے اتنا ہی بہتر و اچھا ہوگا۔  

          ہاں ہمیں اگر  گلہ و شکوہ  ہے تو سنی مسلمانوں, اپنی جماعت,  ان کے علماء و رہبروں , قائدین  و حکمرانوں سے ہے ۔ ہمیں اپنے حکمرانوں سے گلہ و شکوہ ہے  جو اپنی سلطنت میں شریعت کو نافذ کرنا پسند  نہیں کرتے ہیں , جو اپنی حکومت انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چلاتے  ہیں ,جو اقوام متحدہ اور مغربی طاقتوں کے غلام ہیں, جو دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کےپرانے و نئے  بڑے مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور سے ناکام ہیں, جو مسلمانوں پر ہورہے ظلم و ستم کے خلاف بولنے  اور آواز اٹھانے سے عاجز و قاصر ہیں, جومظلوم مسلمانوں  کی فوجی و عسکری مدد کرنے سے لاچار و بے بس ہیں, جو  پے درپے شکستیں  کھانے, ذلیل و رسوا ہونے کے باوجود بکھرے ہوئے ہیں , جو اندھے , بہرے اور گونگے بن کر  آپس میں متحد نہیں ہورہے ہیں ,  ہاتھ پر ہاتھ دھرے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں اور فوجی و علمی  طاقت و قوت کے وسائل  فراہم نہیں کر رہے ہیں جن سے وہ دنیا کا مقابلہ کرسکیں اور دشمن ان سے خوفزدہ ہو ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دشمن کو صرف طاقت کے زور سے روکا جا سکتا ہے اور وہ اپنی شرارت سے باز رہ سکتا ہے, چیخنے, چلانے, شور مچانے سے کچھ نہیں ہوتا ہے ۔ بقول شاعر

                                                                            تو اِدھر اُ دھر کی نہ بات کر یہ بتا قافلہ کیوں لٹا

                      مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے

         ہمیں اپنے مسلمان  عوام سے  بھی شکایت ہے جو دین و شریعت پر عمل پیرا نہیں ہے اور دن بدن اس سے دور ہوتی جا رہی ہے , جو خود نفاذ شریعت کی خواہش مند نہیں ہے بلکہ اس کی مخالف ہے , ہم نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا کہ کسی ملک کے عوام نے شریعت کی تنفیذ کا مطالبہ کیا ہو ۔ جو احکام کو چھوڑ کر  ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے ۔جیسا راجا ویسی پرجا ۔

          اور آخر میں ہمیں اپنے دینی قائدین وارثان انبیاء  علماء   کرام سے سب سے زیادہ شکایت ہے جو اپنی امت کی دنیاوی  قیادت سے ایک طویل عرصہ سے  دستبردار ہو چکے ہیں, جو سیاستدانوں کے پیچھے چلنا اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں  اور اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی نہیں ادا کر رہے ہیں اور اپنی سرگرمیوں کو صرف ظاہری عبادات میں محدود کردیا ہے ۔زمینی سطح پر جو دعوت و تبلیغ سے غافل ہیں ۔ وغیرہ

             اداریہ بہت طویل ہوگیا ۔ بس یہ پیغام دینا مقصد  ہے کہ ایک بار پھر چہرہ سے پردہ ہٹ گیا ہے ۔آخر ہم کب تک دھوکا میں رہیں گے۔ اب تو ہم چوکنا اور ہوشیار ہوجائیں اور ان آستین کے سانپوں سے ہمہ وقت مقابلہ کے لیے اپنے کو تیار رکھیں ورنہ یہ ایسے ہی سنی مسلمانوں کو تہ تیغ کرتے رہیں گے اور اپنی بھڑاس نکالتے رہیں گے ۔

             اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ شام کے مسلمانوں سمیت پوری دنیا کے مسلمانوں کو امن و سکون, اطمینان  و چین عطا فرمائے ۔ ان کے حالات کو مستحکم کردے اور ان کو دارین میں کامیابی سے ہمکنار کرے ۔ آمین

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: