مشرقی اتر پردیش کا کامیاب دعوتی و تعارفی سفر

 مشرقی اتر پردیش کا کامیاب دعوتی و تعارفی سفر

                                                                             ڈاکٹر عبد المنان محمد شفیق مکی, سکریٹری سوسائٹی                                                                   

مشرقی اتر پردیش اسلامی درسگاہوں و بڑے دینی تعلیمی اداروں کے لیے جانا جاتا ہے , وہاں پر خصوصا بستی , سدھارتھ نگر و سنت کبیر نگر وغیرہ میں کئی ایک  مشہور وبڑے ادارے قائم ہیں جن میں جامعۃ الفاروق اٹوا بازار , جامعہ اسلامیہ دریاباد , جامعہ اسلامیہ خیرا لعلوم و کلیۃ الصفا  ڈومریا گنج کافی معروف و مشہور  ہیں ۔ اور اپنے اپنے علاقوں میں دینی و تعلیمی خدمات بہتر انداز میں  انجام دے رہے ہیں ۔ خاکسار بھی اسی علاقہ کا رہنے والا ہے لیکن  آخر الذکر کو چھوڑ کر کبھی بھی ان اداروں کی زیارت کی توفیق نہیں ہوئی  جب کہ ان کی مسافت اور دوری  ہمارے آبائی گاؤں تھرولی , بلرام پورسے بہت زیادہ نہیں ہے ۔

اس لیے اس سال  جب نومبر2024 ع  میں اپنے آبائی  گاؤں کا سفر کرنے کا ارادہ ہوا تو ساتھ ہی یہ خیال بھی ذہن میں آیا  کہ اس بار  اپنے علاقہ کی ان مشہور درسگاہوں کی زیارت اپنی زندگی میں ایک بار ضرور کرنی چائیے تاکہ ان کے  ذمہ داروں سے ملاقات ہو , وہاں زیر تعلیم طلباء سے گفتگو  ہو , رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک کے بارے میں ان کوآگاہ کیا  جائے اور اس دعوت  سے ان کو جوڑا جائے کیونکہ ان علاقوں میں اگر چہ اہل حدیثوں کی کافی بڑی تعداد آباد ہے لیکن اس کے باوجود  ان میں  رسوم و رواج کی کثرت ہے  اور وہ سب رسوم و رواج کی بندشوں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔ فرائض میں کوتاہی برتتے ہیں لیکن رسوم و رواج پر عمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ۔  علاوہ ازیں  خود بھی اداری و انتظامی استفادہ کیا جائے  اور ان دانش گاہوں کو قریب سے دیکھا جائے  ۔

  لہذا انہیں سب  اغراض و مقاصد کے  پیش نظر میں نے اپنا پروگرام اور پلان ترتیب دیا  اور18/نومبر 2024 ع کا   ریزرویشن على گڑھ سے ڈارکٹ بستی  اسٹیشن کا کروایا اور سب سے پہلے جامعہ اسلامیہ دریا باد, سنت کبیر نگر   اورپھر دیگر  درسگاہوں  کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کا پختہ عزم کیا   کیونکہ کیا پتہ آئندہ پھر کبھی موقع ملتا ہے یا نہیں ۔

 آخر وہ دن آگیا اور اس  بابرکت دعوتی و تعارفی سفر کا آغاز 18/نومبر کی شام کو  ہوا جب میں على گڑھ سے  امرپالی ٹرین کے ذریعہ شام 7:35 منٹ پر  بستی کے لیے روانہ ہوا ۔ الحمد للہ ٹرین بنا کسی تاخیر کے 19/نومبر کی صبح  اپنے وقت معین 6:42 منٹ  پر بستی اسٹیشن پر پہنچ گئی جہاں سے جامعہ اسلامیہ دریاباد جانا تھا ۔

  ناظم جامعہ مولانا عتیق اثر ندوی حفظہ اللہ  نومبر2024ع میں منعقد ہوئے  35/ویں آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس میں شرکت کے لیے دہلی تشریف لائے  تھے  اور آپ  کابھی قیام  اسی ہوٹل میں  تھا  جس میں میرا قیام  تھا۔میں نے  آپ کو اپنے پروگرام کی اطلاع دی توآپ نے اسی وقت وکیل الجامعہ مولانا عبد السمیع صاحب کو فون کیا لیکن  انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا تو آپ نے پھر مولانا خلیل  الرحمن صاحب کو فون کیا  اور ان کو میری آمد کے بارے میں بتایا  اور دونوں حضرات کا موبائل نمبر بھی دیا ۔لہذا  میں نے روانہ ہونے سے پہلے  مولانا خلیل الرحمن  صاحب کو اپنی آمد کی اطلاع دیدی تھی لہذا وہ نماز فجر کے بعد ہی  مجھ کو لینے کے لیے نکل چکے تھے  لیکن کہرا ہونے کی وجہ سے  راستہ صاف نظر نہیں آرہا تھا اور ڈرائیور کو گاڑی چلانے میں دقت ہورہی  تھی پھر بھی وہ ٹائم سے   پلیٹ ٹارم پر موجود تھے اور کچھ منٹوں میں آپ سے ملاقات ہوگئی  پھر میں ان کی معیت میں جامعہ اسلامیہ دریا بادکے لیے روانہ ہوا  جو میرے اس سفر کا پہلا پڑاؤ تھا ۔ 

جامعہ اسلامیہ دریاباد بستی اسٹیشن سے 22/کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے , واپسی میں بھی کچھ جگہوں  پر کہرا تھا  جس سے راستہ صاف نظر نہیں آرہا تھا ۔دریا باد جاتے ہوئے خیال آیا کہ آج اپنے  جامعہ سلفیہ کے ایک دیرینہ ساتھی ڈاکٹر محمود الحسن سے  ملاقات ہوگی  لہذا ان کی بابت  میں نے مولانا سے دریافت کیا تو انہوں نے مجھے ان کے انتقال کی  افسوسناک خبر سنائی ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

ڈاکٹر محمود الحسن رحمہ اللہ  جامعہ  سلفیہ میں ہم لوگوں کے زمانہ میں زیر تعلیم تھے اور ہم سے دوکلاس شاید پیچھے تھے ۔ ان سے آخری ملاقات على گڑھ میں ہوئی تھی جب وہ امتحان دینے کی غرض سے یہاں آئے تھے ۔وہ اسی وقت دل کی بیماری میں مبتلا تھے اور آپریشن وغیرہ کی بات کر رہے تھے ۔میرے مزید پوچھنے پر مولانا نے بتایا کہ ان کا انتقال کورونا کے زمانہ میں ہوا ہے لیکن کورونا کی وجہ سے نہیں ہوا ہے ۔

جامعہ اسلامیہ دریا باد میں

راستہ میں گفتگو کرتے ہوئے تھوڑی دیر میں ہم لوگ جامعہ اسلامیہ دریاباد  پہنچ گئے اور اس کی مبارک سرزمین پر قدم رکھا۔ جامعہ کو دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہوگیا اور مجھے بہت زیادہ مسرت و شادمانی ہوئی کیونکہ جامعہ  اور اس علاقہ کی  یہ میری پہلى زیارت تھی , اس سے پہلے کبھی اس طرف آنا نہیں ہوا تھا   ۔ یہ جامعہ  دریا باد گاؤں سے تھوڑا  ہٹ کر بالکل غیر آباد جگہ  میں واقع ہے لہذا  یہاں کا ماحول  بہت ہی پرسکون , فضا بہت ہی خوشگوار  اور  آب  و ہوا  بالکل صاف ستھری اور خالص ہے اور شہر کی آلودہ  آب و ہوا  وگندگی  سے بہت ہی بہتر و اچھا ہے ۔

اس کے بانی فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر عبد الباری فتح اللہ حفظہ اللہ ہیں اور اس کا قیام  پہلے مکتب کی شکل میں 1990ع میں عمل میں آیا, اس کے بعد دھیرے دھیرے یہ ترقی کرتے ہوئے جامعہ کے مرحلہ کو پہنچا ۔ اس  کا کل رقبہ17/بگہہ یعنی 231200/مربع فٹ  ہے ۔اس میں فی الحال 500/طلبا زیر تعلیم ہیں ۔ عصر کے بعد جامعہ کی زیارت کی گئی  اور  اس کے مختلف شعبوں کو دیکھا گیا ۔ لڑکیوں  کا بھی ایک اسکول ہے جو اس سے الگ تھوڑی دور پر  دوسری جگہ واقع ہے, اس کا اپنا  ایک اسپتال و گودام  بھی ہے جو جامعہ کیمپس سے باہر واقع ہے ۔

شام کو مغرب بعد دعوتی  پروگرام  جامعہ کی مسجد میں منعقد ہوا جس کی نظامت وکیل الجامعہ مولانا عبد السمیع صاحب حفظہ اللہ  نے فرمائی ۔ پروگرام کا آغاز  جامعہ کے ایک طالب علم کے تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ بعد ازاں جامعہ کا ترانہ پیش کیا گیا اور پھر اردو  و عربی  میں بطور نمونہ ایک ایک تقریر ہوئی۔ بلا شبہ طلبا کا پروگرام بہت اچھا و بہتر تھا ,  تلاوت کلام پاک مؤثر و مسحور کن تھا ,  انداز خطابت عمدہ و  شاندار تھا  ۔اس سے وہاں کی اساتذہ کی محنت و تربیت, صلاحیت و اہلیت  کا اندازہ  ہوتا ہے اور طلبا کی محنت و جد و جہد کا علم ہوتا ہے ۔

 اس کے بعد ناظم جلسہ کی دعوت پر  مجھ خاکسار کا خطاب ہوا جو میرے مشن یعنی رسوم و رواج مٹاؤ دعوت و تحریک سے متعلق تھا ۔میرا خطاب تقریبا ایک گھنٹہ ہوا جس میں پہلے" اسلام ایک کامل دین ہے" کی وضاحت کی گئی ۔ پھر یہ بیان کیا گیا  کہ اسلام ایک عملی دین ہے اور اسلام میں  عمل کرنا ضروری و فرض ہے ۔عمل ایمان کا ایک جزء ہے اور یہ ایمان کے صداقت کی سب سے بڑی دلیل ہے,  اس کے بغیر دینی و دنیاوی کامیابی کا تصور  خصوصا دنیا میں محال  ہے, آج کے دور میں مسلمانوں کی سب سے بڑی خرابی و کمی ان کی بے عملی و بد عملی ہے  اور یہی ان کی رسوائی و ذلت کی سب سے بڑی و نمایاں وجہ ہے ۔  اس کے بعد اس اہم  نقطہ کو واضح کیا گیا  کہ ہر مسلمان کے لیے انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر  مکمل اسلام کی تنفیذ ضروری ہے ورنہ ذلت و رسوائی مقدر ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں  دلائل  کے ساتھ ان تمام  نقاط کی وضاحت کی گئی ۔ بعد ازا ں  بتا یاگیا کہ مکمل اسلام میں یہ بھی  شامل ہے کہ ہر قسم کے غیر اسلامی و غیر شرعی  رسوم و رواج کو چھوڑ دیا جائے۔سماج و معاشرہ پر  رسوم و رواج   کے  زبردست مضر و نقصاندہ  اثرات کی وضاحت کرتے ہوئے علماء و فقہاء کے اقوال کی روشنی میں ان کی حرمت کو واضح کیا گیا اور طلبا سے اپیل کی گئی کہ ان سے دور رہیں ۔تمام طلبا نے اس پر عمل کا وعدہ کیا ۔ امید ہے کہ وہ اپنے وعدہ کو آئندہ پورا کریں گے ۔ پروگرام کے بعد  مختصر سوال و جواب کا وقفہ ہوا پھر ناظم جلسہ نے اس کے ختم ہونے کا اعلان کیا ۔ 

شام کا کھانا وکیل الجامعہ کی دعوت پر شیخ الجامعہ و دیگر  کئی اساتذہ کی موجودگی میں ان کے گھر پر تناول کیاگیا ۔ کھانے کے بعد دیر تک محفل جمی رہی اور مختلف مسائل پر گفتگو ہوتی رہی ۔ مولانا خلیل  الرحمن صاحب طلبا سے متعلق  دلچسپ وپر لطف  واقعات سناتے رہے ۔یہ سن کر تعجب ہوا کہ بعض  طلبا چھٹی  لینے کے لیے اپنے رشتہ داروں کو بھی مار دیتے ہیں ۔وکیل الجامعہ کی خواہش تھی کہ میں اسی موضوع پر بعد نماز ظہر سمریاواں کی مسجد میں خطاب کروں لیکن وقت کی تنگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں تھا لہذا میں نے معذرت کردی ۔

رات میں مولانا خلیل الرحمن  و شیخ الجامعہ کے کل کے پروگرام کی بابت   پوچھنے پر میں نے بتایا  کہ کل  صبح  مجھے اپنے سسر و ساس سے ملاقات کے لیے  ببھنان جانا ہے ۔اس لیے یا تو مجھے صبح انٹرسٹی اکسپرس پکڑنے کے لیے بستی اسٹیشن پر چھوڑ دیجیے  یا پھر ببھنان  تک جامعہ کی گاڑی سے پہنچا دیجیے ۔  چونکہ انٹرسٹی ٹرین کاوقت صبح 6:50 منٹ پر تھا اور سردی و کہرا کا زمانہ تھا  لہذا  ان حضرات  نے خاکسار کو جامعہ کی گاڑی سے منزل مقصود تک پہنچانے کا فیصلہ کیا  ۔ میں نے اپنے حق میں مناسب  اس درست  فیصلہ  پر ان حضرات  کا شکریہ ادا کیا ۔ناظم صاحب سمیت کئی  دیگر ذمہ داران ہمارے سسر صاحب سے اچھی طرح واقف ہیں ۔ناظم جامعہ نے دہلی میں ملاقات پر  خود ہی ان کی خیریت  دریافت کی تھی تب مجھے اس کا علم ہوا ۔

  بدھ20/نومبر کی صبح  ناشتہ کے بعد گاڑی ڈرائیور کے ساتھ  تیار کھڑی تھی۔ وہاں سے یہ سفر نائب ناظم محترم مولانا محمد نعیم حفظہ اللہ  کی معیت میں  شروع ہوا  اور ہمارا قافلہ سوئے ببھنان روانہ ہوا ۔

یہاں یہ ذکر کردینا برمحل و مناسب ہی نہیں بلکہ ضروری  ہے کہ بلا شبہ اہل دریاباد نے مجھ خاکسار کی ضیافت میں شروع سے آخر تک  دریا دلی کا مظاہرہ کیا  اورمہمان نوازی و خبر گیری   میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ میرے منع کرنے اور بیماری کا عذر کرنے کے باوجود محبت و خلوص کے ساتھ خوب زیادہ زبردستی کھلاتے رہتے  اور میرے پلیٹ میں کھانا پروستے رہتے ۔ میرے  استقبال سے لے کر رخصت ہونے تک جس اپنائیت, محبت , یگانگت  کا مظاہرہ ہوااس سے مجھے یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں یہاں پر مہمان ہوں  ۔ ہرقدم پرکوئی نہ کوئی استاد  میرے ساتھ رہا اور میری خبر گیری کرتا رہا  ۔میں اس حسن ضیافت پر ناظم جامعہ اور اس کے تمام ذمہ داران و اساتذہ کا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ درحقیقت یہاں پر کسی قسم کی  کمی کا کوئی  احساس نہیں ہوا  ,اگر کسی کی کمی تھی تو  وہ ناظم  جامعہ کی تھی کیونکہ آپ اس وقت انڈیا سے باہر  تھے ۔ بلا شبہ آپ جیسی شخصیت کی موجودگی سے کچھ الگ ہی حسین اور پر رونق  ماحول ہوتا, ضیافت و  مجلس خطابت کا حسن دوبالا ہوجاتا  , آپ کی مزید صحبت کا شرف حاصل ہوتا اور مجھے کچھ  مزید سیکھنے کا موقع ملتا  لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظو ر تھا ۔

 اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ اس جامعہ کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے , جامعہ کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور اسے قیامت کے دن نجات کا سبب بنائے ۔ آمین

ببھنان میں

دریاباد , سنت کبیر نگر آنے کے بعد یہ قطعا مناسب نہیں تھا کہ میں اپنے ساس و سسر سے ملاقات کے بغیر ڈارکٹ ڈومریا گنج روانہ ہوجاؤں کیونکہ یہاں سے ببھنان کی مسافت کل  55/کلومیٹر ہے ۔ آخری ملاقات کو بھی کئی سال بیت گئے تھے اور دونوں کی طبیعت برابر ناساز  رہتی ہے ۔اس لیے ان سے ملاقات کرنے  و خیریت دریافت کرنے کے لیے وہاں صرف  ایک دن کے لیے  جانے کا پروگرام بنایا , اور ذمہ داران جامعہ  کے درست فیصلہ اور نائب ناظم کی معیت نے نے اس سفر کو مزید  آسان بنا دیا  اور تقریبا 11/بجے ہم لوگ اپنی منزل پر پہنچ گئے   جو میرے سفر کا دوسرا پڑاؤ تھا ۔ نائب ناظم خاکسار کو رخصت کرکے تھوڑی دیر بعد دریاباد روانہ ہوگئے ۔ 

اسی دن مولانا محمد کلیم امام جامع مسجد پیکولیا  مسلم کی دعوت پر بعد نماز مغرب جامع مسجد میں ایک خطاب ہوا جس میں اسلام میں عورتوں کے مقام و مرتبہ کی  تفصیل سے وضاحت کی گئی ۔اس کے بعد واپس ببھنان آگیا اور رات میں وہیں پر قیام کیا ۔

جامعہ اسلامیہ خیر العلوم و خیر ٹیکنکل کالج ڈومریا گنج میں

ببھنان سے  جمعرات 21/11  کی صبح  ناشتہ کرنے کے بعد  اپنے سسر کی ذاتی گاڑی سے   صبح تقریبا 10/بجے  ڈومریا  گنج کے لیے روانہ ہوا  جو وہاں سے صرف  45/کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے اور تقریبا سوا  گیارہ بجے جامعہ اسلامیہ خیرا لعلوم پہنچ گیا ۔یہاں پر سب سے پہلے جامعہ سلفیہ کے اپنے پرانے ساتھی و کلاس فیلو مولانا عبد العلیم سلفی سے ملاقات ہوئی  جو مجھے مہمان خانہ لے گئے ۔بسکٹ پانی کے بعد میں نے وکیل الجامعہ  مولانا محمد ابراہیم مدنی کو فون کیا تو وہ  ناظم مالیات محترم محمدافضال صاحب کے پاس  ان کی آفس میں تھے , انہوں نے مجھے لینے کے لیے شیخ الجامعہ مولانا عبد الستار صاحب کو بھیجا۔ میں ان کے ساتھ آفس میں  گیا اور ان حضرات سے ملاقات ہوئی ۔وہاں  وکیل الجامعہ نے بتایا کہ آپ کا پروگرام عصر کے بجائے 12/بجے ہوگا , اور یہ تبدیلی جمعرات کی وجہ سے ہوئی ہے کیونکہ  قرب و جوار کے بہت سارے طلبا آج کے دن چھٹی لے کر اپنے گھر جاتے ہیں۔ سو  اب ٹائم بالکل نہیں تھا ,  تفصیلی ملاقات ممکن نہیں تھی لہذا وہاں تھوڑی دیر رک کے پھر ارشاد انجینیر سے ملاقات کے لیے گیا جو خیر ٹیکنکل کالج کے امور کو دیکھتے ہیں ,ان سے  بھی ملاقات بہت مختصر رہی کیونکہ 12/بج چکا تھا ۔اس لیے ان کا موبائل نمبر  لیا اور پھر    اجازت لے کر جامعہ کے لیکچر ہال کی طرف ہم لوگ نکل آئے ۔   

چنانچہ تبدیل شدہ  شیڈول کے مطابق  12 /بجے جامعہ کے وسیع  لیکچر ہال میں  دعوتی  پروگرام منعقد ہوا ۔پورا ہال طلبا سے بھرا ہوا تھا , وکیل الجامعہ و شیخ الجامعہ کے علاوہ  دیگر   اساتذہ کرام و بعض ملازمین  بھی موجود تھے ۔تلاوت کلام پاک سے بزم کا آغاز ہوا ۔ پھر مولانا عبد الرحمن لیثی حفظہ اللہ  نے تعارف پیش کیا ۔ اس کے بعد خاکسار نے خطاب کیا , موضوع  اور مواد تقریبا  وہی تھا جو اس سے پہلے اوپر  مذکور  ہوا ہے۔ طلباء سے ان رسوم و رواج سے دور رہنے کو کہا  گیا ۔ تمام طلبا نے اس پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ۔ اللہ تعالى ثابت قدمی عطا فرمائے ۔ آمین

استاذ الاساتذہ مولانا ابو العاص وحیدی سے ملاقات

اسی دن عصر کی نماز کے بعد میں مولانا معین الدین سلفی کے ہمراہ جامعہ کے دیگر شعبوں اور کچھ شخصیات سے ملاقات کے لیے  نکلا۔ پہلے مولانا کلیم اللہ امر اللہ مکی  سے ملاقات کے لیے ان کی آفس پر گیا لیکن بروقت وہ  وہاں  موجود نہیں تھے ۔ فون کرنے پر بتایا کہ بس چند منٹوں میں پہنچ رہا ہوںاور وہ تھوڑی دیر میں آگئے ۔ پھر میں ان کے ساتھ ان کے گھر گیا جہاں وہ اپنے والد مولانا امر اللہ صاحب کو چھوڑ کر فورا اپنی آفس چلے گئے ۔اس لیے میں استاذ الاساتذہ  مولاناابو العاص  وحیدی حفظہ اللہ  سے ملاقات کرنے کے لیے ان کے گھر گیا ۔آپ نے چائے بسکٹ سے خاطر تواضع کی ۔ میں نے اپنی آمد کے بارے میں کافی پہلے آپ کو اطلاع کردی تھی اور آپ سے ملاقات کا خصوصی مقصد اپنی آنے والی کتاب " حقوق رسول اعظم " کی  تقریظ کا حصول تھا  ۔در اصل میں نے مئی 2024 ع ہی میں  آپ سے اپنی آنے والی کتاب پر کچھ تبصرہ لکھنے کی گذارش کی تھی ۔ لیکن ناسازی طبع اور دیگرمشغولیات کی وجہ سے اس میں تاخیر در تاخیر  ہوتی رہی لیکن آپ نے الحمد للہ اس ملاقات میں وہ تحریر میرے  حوالہ کردی جو ان شاء اللہ کتاب کی طباعت کے ساتھ منظر عام پر آئے گی ۔

خاکسار تہ دل سے اس تعارف و تبصرہ کے لیے آپ کا ممنون و مشکور ہے اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ آپ  کو صحت و عافیت سے نوازے اور آپ کی تمام خدمات کو قبول فرمائے اور اس کتاب کو جلد از جلد منظر عام پر لانے کی توفیق بخشے ۔ آمین

جامعہ خیر العلوم کے دیگر شعبوں کی زیارت

وہاں سے نکل کر مغرب کی نماز مسجد میں ادا کی گئی ۔ پھر جامعہ کے دیگر شعبوں: کلیۃ الطیبات نسواں کالج, معہد دار الایتام  و مدرسہ ابی بن کعب لتحفیظ القرآن  کی زیارت کی گئی  ۔ لڑکیوں کی درسگاہ بھی کافی بڑی ہے اور اس میں فی الوقت ایک ہزارسے زائد لڑکیاں  زیر تعلیم ہیں جن میں پانچ سو سے زائد ہاسٹل میں قیام پذیر ہیں ۔باہر سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ نسواں کالج بہت چھوٹا ہے لیکن جب اندر جاکے دیکھا تو حقیقت آشکارا ہوئی ," ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ"  کا یہ پورا مصداق ہے, , ماشاء اللہ کافی بڑا ادارہ ہے , کئی بلڈنگیں ہیں اور رقبہ بھی کافی ہے ۔  یہ زیارت مولانا نذیر احمد سلفی کے ہمراہ ہوئی جو اس کے نگراں ہیں ۔ معہد دار الایتام میں مولانا فخر الدین  ندوی نائب ناظم  سے ملاقات ہوئی  ۔

اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ اس ادارہ کو سدا  شاد و آباد رکھے , اس کے ذمہ داروں کی خدمات کو قبول فرمائے اور مزید ان کو تعلیمی و علمی خدمات کو انجام دینے کی توفیق دے۔میں تمام ذمہ داروں خصوصا وکیل الجامعہ , شیخ الجامعہ , مولانا عبد العلیم سلفی و مولانا معین الدین سلفی , دیگر  اساتذہ  کرام و طلبا کا اپنے دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

اس ادارہ کے تمام شعبے ایک کیمپس  میں نہیں ہیں جیسے جیسے ضرورت محسوس ہوتی گئی اور وسائل فراہم ہوتے گئے ادارہ  وسیع ہوتا رہا اور اس میں اضافہ ہوتا رہا ۔اگر یہ تمام شعبے اور اس کی بلڈنگیں ایک کیمپس میں یکجا ہوتیں  تو اس کا کیمپس کافی وسیع و عریض, کشادہ اور بڑا ہوتا ,اس کا   منظر بہت شاندار و پرشکوہ ہوتا ,  ہر طرف رونق اور چہل پہل ہوتی اور ایک یونیورسٹی کا منظر ہوتا  ۔

اسی دوران مولانا کلیم اللہ امر اللہ نے فون کیا کہ میں گھر پر آگیاہوں اب تشریف لائیے۔ لہذا پھر ان کے گھر حاضری دینی پڑی ۔ وہاں  ایک بار پھر استاد محترم مولانا امر اللہ صاحب سے ملاقات ہوئی  جو کافی ضعیف ہوچکے ہیں ۔آپ جامعہ رحمانیہ و سلفیہ دونوں میں تدریسی فرائض انجام دے چکے ہیں اور آپ کے شاگردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے ۔ لیکن ضعیفی ایسی کہ  بمشکل آپ کسی کو پہچان پاتے ہیں ۔

جیت پور میں

  ببھنان سے روانہ ہونے کے بعد میں نے  جیتا پور کے بجاج آٹو ایجنسی کے مالک محترم مولانا رحم اللہ سلفی کو کال کیا  اور اپنے ڈومریا گنج  کی طرف نکلنے کے بارے میں بتایا ۔ اس پر جناب نے مجھ سے  جمعہ کے دن جیتا پور چوراہے کی مسجد میں خطبہ دینے کے لیے کہا ۔ میں نے  اس پر حامی بھر لی  حالانکہ میں وہاں پر ایک بار خطبہ دے چکا تھا اور میرا ارادہ کسی دوسری جگہ خطبہ دینے کا تھا ۔ اس لیے تھوڑی دیر بعد پھر ان کو کال کیا اور کہا کہ میں کسی دوسری جگہ خطبہ دینا چاہتا ہوں لیکن موصوف نے کہا کہ میں نے اعلان کرادیا ہے اور آپ کو خطبہ یہیں دینا ہے ۔ اور میں شام کو آپ کو لینے کے لیے آجاؤں گا ۔ اب ان کی بات ماننے کے علاوہ میرے سامنے کوئی چارہ نہیں تھا ۔    

لہذا حسب وعدہ  شام کو مولانا مجھ کو لینے کے لیے ڈومریا گنج تشریف لائے ۔ ان کے ساتھ مولانا ذکاء اللہ بسکوہری بھی تھے جن کے والد  مشہور شاعر مولانا ذاکر ندوی بسکوہری رحمہ اللہ  تھے ۔آپ علاقہ میں کافی مشہور و معروف تھے اور دور دور تک جلسوں میں بلائے جاتے تھے ۔تھوڑی دیر میں تین افراد کا یہ قافلہ جیت پور کی طرف روانہ ہوا جو وہاں سے تقریبا تیس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔جیت پور چوراہے سے پہلے بسکوہر میں جامعہ سلفیہ کے اپنے پرانے ساتھی و ہم سبق  ڈاکٹر خورشید احمد  سلفی  سے ان کی کلینک پر ملاقات  ہوئی ۔ جامعہ سلفیہ سے نکلنے کے تقریبا 35/برس بعد یہ ان سے پہلی ملاقات   تھی ۔ڈاکٹر صاحب بہت گرمجوشی سے ملے , چائے پانی سے خاطر تواضع کی ۔کھانے کی بھی دعوت دی لیکن کھانے کا بندوبست پہلے سے مولانا کے یہاں تھا  اس لیے معذرت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ مولانا ذکاء اللہ صاحب اپنے گاؤں  بسکوہر ہی میں رک گئے ۔ اس کے بعد خاکسار اپنے میزبان کے ساتھ   ان کے گھر آگیا ۔

22/نومبر جمعہ کا دن تھا ,  خطبہ کے لیے میں نے ظلم کے موضوع کا انتخاب کیا کیونکہ ظلم گناہ کبیرہ ہے اور اس کا تعلق عموما بندوں کے حقوق سے ہوتا ہے  جو صاحب حق کے معاف کیے ہوئے بغیر معاف نہیں ہوتا ہے ۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کے مسلم معاشرہ میں ظلم و ستم کی بہتات ہے , اور تقریبا ہر شخص کسی نہ کسی طرح سے ظلم میں مبتلا ہے ۔ اور یہ مسلم سماج میں فساد و لڑائی کی ایک بڑی وجہ ہے ۔اس لیے خطبہ میں پہلے  ظلم کا معنى و مفہوم بیان کیاگیا ۔  پھراس کے تینوں  اقسام: اللہ و اس کے رسول کے حق میں ظلم, اپنے آپ پر ظلم, غیروں پر ظلم کی وضاحت کی گئی۔اس کی اشکال و صورتوں کا ذکر کیا گیا  , اس کے انجام بد سے ڈرایا گیا اور ظلم کے بارے میں صحیح مسلم کی روایت کو ذکر کرکے خطبہ کو ختم کیا گیا ۔اللہ تعالى سے دعا ہے کہ ہر مسلمان کو ہر قسم کے ظلم سے محفوظ رکھے ۔ آمین      

 چونکہ میرا اگلا  دعوتی  پروگرام 23/نومبر بروز سنیچر جامعۃ الفاروق میں  بعد نماز ظہر ہونا  طے تھا اس لیے میں نے اپنے آبائی گاؤں جانے کے بجائے  جیت پور ہی میں رکنے کو ترجیح دی اور وہیں پر  قیام کیا کیونکہ وہاں سے اٹوا  بہت قریب ہے, صرف بیس کلومیٹر  کی مسافت پر واقع ہے اور سڑک بھی اچھی ہے ۔لہذا  وہاں سے اٹوا  پہنچنا بہت  آسان ہے جب کہ میرے گاؤں سے مسافت بھی زیادہ ہے اور  وہاں  سے پہنچنا تھوڑا مشکل ہے ۔

علم و عرفان کے مرکز :جامعۃ الفاروق میں

طے شدہ پروگرام کے مطابق راقم سطور  23/نومبر بروز سنیچر اپنے میزبان مولانا  رحم اللہ حفظہ اللہ کے ہمراہ صبح دس بجے کے بعد اٹوا کے لیے  روانہ ہوا  اور تقریبا  آدھے گھنٹہ میں جامعۃ الفاروق کی  مبارک سرزمین و چہار دیواری میں پہلی بار قدم رکھا ۔اس کی بلڈنگوں اور وسیع و عریض کیمپس کا پہلی بار مشاہدہ کیا ۔ سب سے پہلے ناظم و استاد محترم مولانا شبیر احمد مدنی حفظہ اللہ سے ان کی آفس میں ملاقات ہوئی ۔ اس کے بعد جناب ڈاکٹر لیث محمد حفظہ اللہ کے ہمراہ ڈاکٹر سید سعید عابدی ازہری  سے ملاقات کرنے کے لیے ان کی رہائش پر گیا ۔ ڈاکٹر موصوف سعودیہ سے واپسی کے بعد جامعۃ الفاروق ہی میں گوشہ نشین  ہیں ۔ اپنے بچوں و رشتہ داروں سے دور عزلت اور تنہائی  کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ دنیا سے کٹ کر  تصنیف و تالیف میں ہمہ تن مشغول ہیں ۔ کتابیں ہی ان کی بہترین ساتھی  اور ان کا اوڑھنا بچھونا ہیں ۔ بلا شبہ اس باب میں آپ سلف صالحین کے نمونہ اور ہم سب کے قدوہ ہیں ۔ آپ نے چالیس سال سے زائد ریڈیو جدہ کے شعبہ اردو میں ملازمت کی ہے ۔ اردو و عربی زبان کے ماہر ہیں ۔ آپ کی کئی بہترین و مقبول  تالیفات منظر عام پر پہنچی ہیں ۔ اللہ تعالى آپ کی حفاظت فرمائے اور لمبی زندگی عطا کرے ۔ آمین ۔

اس کے بعد ظہر سے پہلے  تھوڑی دیر کے لیے مولانا ضمیر احمد مکی حفظہ اللہ  سے ملاقات ہوئی جو نسواں کے پرنسپل ہیں اور  بہترین  علمی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ پھر وہاں سے نکل کر  ڈاکٹر لیث محمد کے ہمراہ لیکچر ہال کی طرف آگیا  جہاں بعد نماز ظہر  عربی طلبا کو خطاب کرنا تھا ۔

 بعد نماز ظہر تلاوت قرآن مجید سے  پروگرام کا آغاز ہوا  ۔ ڈاکٹر لیث محمد نے مختصر تعارف پیش کیا ۔ اس کے بعد راقم  نے خطاب کیا۔مضمون اور مواد وہی تھا جو اوپر ذکر کیا گیا ہے , خطاب کے دوران تمام اساتذہ موجود تھے ۔ استاد محترم نے بھی اس مجلس کو اپنی حاضری سے شرف بخشا ۔ ایک طالب علم کے لیے یہ بہت شرف و عزت کی بات ہے کہ کوئی استاد اس کی تقریر میں حاضر ہو اور اس کو بغور سماعت فرمائے ۔

خطاب کے بعد  ناظم و استاد محترم کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔ چونکہ ہمارے میزبان مجھ کو پہنچا کے واپس اپنے گاؤں آگئے تھے اس لیے استاد محترم نے اپنی گاڑی سے مجھ کو جیت پور روانہ کردیا ۔

یقینا جامعۃ الفاروق , اس کی کئی منزلہ کثیر عمارتوں  اور کیمپس کو دیکھ کر بہت زیادہ خوشی و مسرت ہوئی ۔ یہ جامعہ تقریبا چالیس سالوں سے بہترین علمی خدمات انجام دے رہا ہے ۔  فی الحال اس میں 2850/طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں اور تقریبا 160/اساتذہ تعلیمی و تربیتی  خدمات انجام دے رہے ہیں ۔اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ اس مرکز کو تا قیامت آباد رکھے , اس کو دن دونی و رات چوگنی ترقی عطا فرمائے ۔آمین

میں خاکسار جامعہ و اس کے تمام ذمہ داران خصوصا استاد محترم و ناظم صاحب کا اپنے دل کی گہرائیوں سے ان کے حسن ضیافت پر شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ اللہ تعالى آپ کو صحت و عافیت کے ساتھ لمبی زندگی عطا فرمائے ۔ آمین 

مولانا ارشد عمر کے انتقال کی افسوسناک خبر

اٹوا سے جیت پور واپسی کے بعد اسی دن شام کو ہمارے میزبان نے ہم کو بعد نماز مفرب  گینسڑی پہنچا دیا ۔ رات ہم نے اپنی بہن کے گھر گذاری اور یہیں پر  24/نومبر کی صبح  میری بہن نے ایک افسوسناک خبر سنائی کہ آج کی رات  لکھنؤ میں  مولانا ارشد عمر قاسمی رحمہ اللہ کا انتقال ہوگیا ہے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون  , مجھے معلوم تھا کہ ان کی طبیعت بہت خراب ہے اور وہ لکھنؤ میں زیر علاج ہیں  لیکن یہ قطعا امید نہیں تھی  کہ یہ بیماری ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوگی۔در اصل ہائی بلڈ پریشر کی وجہ سے  ان کے دونوں گردے فیل ہوگئے تھے  اور یہی ان کی موت کا اصل سبب بنا  جبکہ  ان کی عمر  ابھی صرف 34/سال کی تھی  لیکن اللہ کی مرضی کے آگے کسی کی نہیں چلتی ہے  اور سب اس کی قدرت کے سامنے مجبور و بے بس ہیں اور جب وقت موعود آجاتا ہے تو پھر ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہوتا ہے ۔

اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے , ان کی انسانی غلطیوں کو درگذر کرے اور ان کی تمام خدمات کو قبول فرما کر جنت الفردوس میں جگہ دے ۔ آمین

اپنے آبائی گاؤں  تھرولی میں

 اسی دن صبح تقریبا دس بجے  اپنے آبائی گاؤں تھرولی  پہنچ گیا ۔ والدین  و دیگر رشتہ داروں سے ملاقات ہوئی ۔ کوئی بھی انسان جب اپنے آبائی گاؤں جاتا ہے تو وہاں لوگوں سے مل کر بہت خوشی ہوتی ہے خصوصا جب والدین باحیات ہوں ۔ بلا شبہ والدین دنیا کی ایک عظیم نعمت ہیں ۔ماں باپ جیسی نعمت ملتی ہے کب جہاں میں, اللہ تعالى ان کا سایہ تا دیر ہم پر قائم رکھے ۔ آمین لیکن ظاہر ہے کہ جہاں  ایک طرف  والدین و اقرباء سے ملنے کی خوشی تھی  وہیں دوسری طرف   مولانا ارشد کے نا گہانی  انتقال پر دل رنجیدہ تھا  اور ان کی وفات  کا غم بھی تھا جس   کی وجہ سے یہ خوشی ادھوری تھی ۔ان کی تجہیز و تکفین کا انتظام کیا جا رہا تھا  اور قرب و جوار کے لوگوں کا جنازہ میں شرکت کے لیے گاؤں آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا ۔ 

 اس لیے نماز ظہر میں نمازیوں کی  کافی تعداد  تھی , موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے بعد نماز میں نے مختصر خطاب کیا  پھر نمازہ جنازہ میں شریک ہوا  ۔ایک اندازہ کے مطابق تقریبا 1500- 1700 افراد اس جنازہ میں شریک  ہوئے ۔ یہ مولانا کی عوام میں مقبولیت کی دلیل ہے ۔

در اصل مولانا شروع سے ہی آس پاس کے گاؤں میں درس و تدریس اور خطابت کا فریضہ انجام دیتے رہے تھے, ان کی خطابت بھی اچھی تھی   اس لیے لوگ ان سے اچھی طرح واقف تھے ۔ آپ نے گاؤں کے علاوہ  منکاپور , پچپڑوا وغیرہ میں درس و تدریس کا  کام کیا تھا ۔  

  بقیہ پانچ دن  ہمارے گاؤں میں ہی گذرے ۔ یہاں  ہمارا ہمیشہ سے معمول رہا ہے کہ وقتا فوقتا نماز فجر یا مغرب کے بعد درس دیتا رہا ہوں لہذا یہ سلسلہ اس بار بھی جاری رہا ۔

ڈاکٹر بہاء الدین ایوارڈ  تقریب میں مشارکت

 یہ اطلاع مجھ کو پہلے ہی  مل چکی تھی کہ محترم مولانا عبد الرؤف ندوی کو 2024ع کے ڈاکٹر بہاء الدین ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اور یہ ایوارڈ ان کو  سوموار 25/نومبر کو جامعۃ الفاروق کے ایک پروگرام میں  دیا جائے گا۔ مولانا نے خود مجھ کو فون کرکے پروگرام میں حاضر ہونے کو کہا تھا ۔ اس لیے میرا پختہ ارادہ اس اہم پروگرام میں حاضری کا تھا اور اللہ نے اپنے فضل و کرم سے  اس میں حاضری کو آسان بنا دیا ۔ چنانچہ 25/نومبر بروز سوموار ایک بار پھر مولانا ظفر محمدی بن مولانا عبد الرؤف ندوی  حفظہ اللہ کے ہمراہ  جامعۃ الفاروق اٹوا جانے کا اتفاق ہوا۔

پروگرام کا وقت 11/بجے سے تھا لیکن وہ تھوڑا تاخیر سے شروع ہوا ۔ اس کی صدارت مولانا صلاح الدین مقبول حفظہ اللہ  نے فرمائی جب کہ نظامت کے فرائض مولانا کاشف شکیل نے انجام دیا  ۔ پروگرام میں کئی بڑے بڑے علماء شریک ہوئے جن میں خصوصیت سے مولانا عبد الحفیظ ندوی, مولانا محمد ابراہیم مدنی, مولانا عبد الرحیم امینی, مولانا شمیم جھنڈا نگری  وغیرہم قابل ذکر ہیں ۔

 اس اہم پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ اس کے بعد ترانہ جامعہ  پیش کیا گیا ,پھر   استاد محترم  و ناظم جامعہ مولانا شبیر احمد مدنی نے خطاب کیا ۔آپ نے اپنے خطاب میں مختلف چیزوں کے علاوہ  جامعۃ الفاروق کے قیام کا پس منظر بتایا جس سے مجھ خاکسار کو بھی حوصلہ ملا ۔ آپ نے اپنے خطاب میں مجھ ناچیز کا بھی ذکر کیا  اور میری ہمت افزائی فرمائی ۔اس کے بعد دیگر  اہم مہمانوں نے  مختصرا خطاب کیا ۔

اس مناسبت سے مختلف علماء کرام نے اپنے تاثرات پیش کیے  ۔پروگرام میں مجھے بھی  اچانک تاثر پیش کرنے  کی دعوت دی گئی  جس کے لیے میں قطعا تیار نہیں تھا ۔  میں بالکل خالی ذہن تھا  اور مجھے یہ امید نہیں تھی کہ مجھ کو بھی کچھ کہنے کا  موقع  ملے گا لیکن جب نام پکارا گیا تو میں نے حکم کی تعمیل کی ۔ کتاب و صاحب کتاب کے بارے میں سب کچھ کہا جا چکا تھا  لہذا میں نے کسی چیز کا اعادہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور وقت بھی صرف دو منٹ کا تھا لہذا میں نے" حامدا و مصلیا اما بعد "کہہ کے اپنا تاثر پیش کرنا شروع کیا اور  مولانا عبد الرؤف صاحب کو اس ایوارڈ کے ملنے پر  مبارکباد  دی اور ڈبل مبارکباد دی ۔ یہ ہمارے لیے بھی بہت مسرت و خوشی کا موقع تھا کیونکہ مولانا ہمارے رشتہ میں بھی آتے ہیں ۔ اس مناسبت سے میں نے ایک تجویز پیش کی کہ چالیس ہزار کی رقم جو اس انعام کے ساتھ دی جاتی ہے یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے ۔ لہذا اس رقم کو بڑھا کے کم ازکم ایک لاکھ دو لاکھ کیا جائے ۔ اور اسی پر میں نے اپنی بات ختم کردی ۔ بلا شبہ کاروان سلف آپ کا ایک عظیم کارنامہ ہے اور آپ اس پر بجا طور پر پر اس ایوارڈ کے مستحق ہیں ۔بعد میں  اس کی تائید  مولانا عبد الحفیظ ندوی نے بھی   کی ۔

پروگرام کے اختتام کے  بعد نماز ظہر جامعہ کے وسیع و عریض مسجد میں ادا کی گئی,  اس کے بعد دوپہر کا کھانا تناول  کیا گیا اور پھر مولانا  عبد الرؤف کے ساتھ واپسی ہوئی ۔اللہ تعالى اس ایوارڈ کو مولانا کے لیے دنیا و آخرت دونوں میں خیر و برکت کا سبب بنائے ۔ آمین

معہد خدیجۃ الکبری للبنات گینسڑی کی طالبات سے خطاب

27/نومبر کو گاؤں سے 5/کلومیٹر کی مسافت پر  واقع گینسڑی بازار کے معہد خدیجۃ الکبرى للبنات میں میرا پہلا  پروگرام ہوا ۔ یقین مانیے کہ گینسڑی و تھرولی دونوں ایک دوسرے سے بہت زیادہ آپس میں مربوط ہیں  کیونکہ یہ  تھرولی کا بازار و بلاک بھی ہے ۔ گاؤں کی بہت ساری  ضروریات یہیں  سے پوری ہوتی ہیں ۔ یہاں  پر ریلولے اسٹیشن, بس اسٹیشن و اسکولس وغیرہ ہیں ۔طبی خدمات بھی میسر ہیں لہذا  ہمیشہ یہاں آنا جانا رہتا ہے اور اپنا  ذاتی گھر و  پراپڑتی بھی یہاں پر ہے ۔ اعزہ و اقرباء بھی ہیں  ۔کہنے کا مطلب ہے کہ یہ اپنا ہی گاؤں و قصبہ  ہے اور اسی میں لڑکیوں کا یہ ادارہ واقع ہے۔ مولانا عبد الحمید رحمانی  رحمہ اللہ کے زمانہ میں یہ مرکز ابوالکلام آزاد کے تابع تھا اور اس کی ایک شاخ تھا ۔ یہ ادارہ  کافی پرانا بھی ہے اور اس میں کئی بڑے علماء نے تدریسی خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں کی مسجد میں بارہا نماز ادا کرنے, درس دینے  اور جمعہ کا خطبہ دینے کابھی  اتفاق ہوا ہے لیکن کبھی  طالبات سے خطاب کرنے کا موقع نہیں ملا ۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ جب اس ادارہ پر باہر سے  میری نظر پڑتی تو میں یہی سوچتا تھا کہ یہ ایک چھوٹا سامکتب ہے, اس میں  صرف ابتدائی تعلیم ہوتی ہے  لیکن جب فروری 2024ع میں گھر جانا ہوا اور وہاں پر طالبات کا ایک سالانہ پروگرام منعقد ہوا  جس میں مولانا ابو العاص وحیدی سمیت  کئی دیگر علما بھی مدعو تھے ۔ مولانا محمد اعظم ندوی کی دعوت پر  مجھے بھی اس میں شرکت کا موقع ملا ۔ اور پھر  جب ظہرانہ کے بعد ادارہ کو ناظم مدرسہ محترم صلاح الدین صاحب کی معیت میں  گھوم کر دیکھا اور یہ معلوم ہوا کہ فراغت تک تعلیم ہوتی ہے تب مجھے احساس ہوا کہ یہ کوئی معمولی  ادارہ نہیں ہے اور نہ ہی اتنا چھوٹا ہے جتنا میرا تصور تھا بلکہ یہ تو ایک بڑا ادارہ ہے , رقبہ بھی کافی ہے اور طالبات کی تعداد بھی زیادہ ہے ۔

لہذا اس بار کے سفر  میں اس معہد کو دعوتی پروگرام میں شامل کیا  گیا اور اس کے ناظم جناب صلاح الدین صاحب سے گذارش کی کہ مجھے طالبات سے خطاب کرنے کا موقع  فراہم کریں جو انہوں نے بخوشی قبول فرمایا ۔ لہذا 27/نومبر کو 11/بجے  تلاوت کلام پاک سے پروگرام شروع ہوا  اس کے بعد میں نے طالبات سے ایک گھنٹہ سے زائد خطاب کیا جس میں ان کو زمانہ جاہلیت میں عورت کی برى حالت کے بارے میں آگاہ کیا اور پھر واضح کیا کہ دین اسلام نے عورت کی جو تکریم کی ہے وہ دنیا کے دیگر کسی بھی مذہب یا دین نے نہیں کی ہے, اور آپ کو اللہ نے دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا ہے , اور یہ ایک  بہت بڑی فضیلت ہے  لہذا ہرگز احساس کمتری کا شکار  نہ ہوں, اس کے بعد میں نے رسوم و رواج پر روشنی ڈالی , اس کے بد اثرات و نقصانات کی وضاحت کی اور اس سے بچنے کی تلقین کی ۔

پروگرام کے بعد تھوڑی دیر سوال و جواب کا وقفہ رہا جس میں ایک طالبہ نے خاص طور سے  دعوت و رسوم و رواج کی بابت  کئی سوالات کیے ۔ اللہ تعالى اس طالبہ کو استقامت عطا فرمائے ۔ آمین اس کے بعد پروگرام کے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا۔

 ناظم معہد محترم صلاح الدین صاحب اس مدرسہ کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت زیادہ کوشاں ہیں ۔ مسجد کی توسیع ہو رہی ہے , لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے , تعمیر بھی جاری ہے ۔ لہذا اصحاب خیر حضرات سے گذارش ہے کہ وہ اس ادارہ کا  زیادہ سے زیادہ  مالی تعاون فرمائیں  تاکہ یہ علاقہ کی زیادہ سے زیادہ دینی و تعلیمی خدمت انجام دے سکے ۔اللہ تعالى اس ادارہ کو ہمیشہ آباد رکھے اور اسے خوب ترقی دے ۔ آمین

تلسی پور میں اس سفر کا آخری خطاب

27/نومبر کو گینسڑی میں پروگرام ختم ہونے کے تھوڑی دیر بعد الفلاح ایجوکیشنل اینڈ ویلفیر سوسائٹی , تلسی پور  کے ناظم  محترم محمد شاہد خان کا فون آیا اور انہوں نے مجھ سے ایک خطاب تلسی پور میں کرنے کو کہا ۔ ان کا ارادہ 27/نومبر ہی کو پروگرام کرنے کاتھا لیکن میں نے کہا  کہ اچانک پروگرام کرنا مناسب  نہیں ہے , آپ کل یعنی بروز بدھ 28/نومبر کو  رکھ دیجیے ۔ مجھے وہیں سے على گڑھ کے لیے ٹرین بھی پکڑنی ہے ۔ لہذا پروگرام کے بعد وہیں سے روانہ ہوجاؤں گا ۔اس پر انہوں نے حامی بھر دی اورپروگرام کے لیے  بعد نماز مغرب کا وقت  طے ہواجو اس سفر کا الحمد للہ آٹھواں اور آخری پروگرام تھا ۔اور یہ میرے لیے انتہائی مناسب و موزوں تھا  کیونکہ اس  طرح  میں  دو بار سفر کرنے کی زحمت سے بچ گیا ۔

چنانچہ پروگرام کے مطابق میں نے عصر کی نماز کے بعد  والدین  کوبھاری  دل سے  الوداع کہا جنہوں نے مجھے نم آنکھوں سے رخصت کیا ۔ دیگر رشتہ  داروں سے بھی ملاقات کی اور تقریبا ساڑھےچا ربجے میں اپنے گھر سے روانہ ہوا اور مغرب کی نماز سے پہلے اپنے پروگرام والی جگہ تحصیل والی مسجد میں پہنچ گیا۔

 بعد نماز مغرب تلاوت کلام پاک سے  پروگرام شرع ہوا اور یہاں عظمت قرآن پر روشنی ڈالی گئی  اور  یہ بتایا گیا کہ آج کے دور کے ہم مسلمان قرآن کے حقوق کو ادا نہیں کررہے ہیں اور ہم اس کے اوپر سب سے زیادہ ظلم کرتے ہیں ۔ اور خود ہمارے پیارے نبی قیامت کے دن اللہ سے ہم مسلمانوں کے طرز عمل کی شکایت کریں گے ۔ فرمان الہی ہے: و قال الرسول یا رب ان قومی اتخذوا ہذا القرآن مھجورا(فرقان/30) یعنی رسول قیامت کے دن کہیں گے کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو ترک کردیا تھا ۔

اس امر کی بھی وضاحت کی گئی  کہ حافظ , قاری قرآان  و عالم کا مقام و مرتبہ اللہ کے نزدیک بہت بلند ہے اس مرتبہ کو کوئی دوسرا نہیں پہنچ سکتا ہے  اور دنیا کا سب سے بڑا جاہل شخص وہ ہے جو قرآن پڑھنا نہیں جانتا ہے اگر چہ وہ بڑا سے بڑا پروفیسر یا کوئی منصب والا کیوں نہ ہو ۔وغیرہ

پروگرام کے بعد تھوڑی دیر سوال و جواب کا وقفہ ہوا اور پھر اس  کے ختم ہونے کا اعلان کیا گیا ۔بعد نماز عشاء عشائیہ تناول کیا گیا اور پھر آرام کرکے 10:45بجے  شب میں اسٹیشن روانہ ہوگئے۔چمپارن ہم سفر ٹرین جس سے مجھے سفر کرنا تھا  11/بجے کے بجائے  38/منٹ  لیٹ  سے اسٹیشن پہنچی ۔ہمارے میزبانوں نے ہم کو  ٹرین میں سوار کیا  اورجمعہ 29/نومبر کی صبح  35/منٹ تاخیر سے 9:55 پر  ٹرین على گڑھ اسٹیشن پہنچ گئی  اور اللہ کے فضل و کرم سے   کچھ دیر بعد میں اپنے گھر پہنچ گیا ۔ فالحمد للہ على ذلک.  

اس طرح سے یہ دس روزہ سفر  اللہ کے فضل و کرم سےاپنے انجام کو پہنچا اور   نہایت کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا ۔ کل آٹھ پروگرام میں شرکت  ہوئی جن میں سے چار پروگرام طلبا و طالبات کے ساتھ مخصوص تھے۔ نوجوان طلبا و طالبات  کو خطاب کرنے اور ان میں بیداری و آگہی  پیدا کرنے  پر خصوصی  توجہ دی گئی کیونکہ وہی  امت کے مستقبل  ہیں اور مستقبل کے رہبر  ہیں ۔ تقریبا 1500/سے زائد افراد کو خطاب کرنے اور ان سے گفلتگو کرنے  کا  سنہرا موقع ملا اور مختلف موضوعات پر  ان کو دین کی دعوت دی گئی ,تین اسلامی جامعات کی  پہلی بار زیارت کی , کئی اہم شخصیتوں  سے پہلی مرتبہ   ملاقات ہوئی  اور ان سے  تعارف ہوا ,بہت ساری مفید معلومات حاصل ہوئیں   اورجدید تجربات سے رو برو ہوئے , کچھ اپنے دیرینہ سلفی و مکی ساتھیوں سے دہائیوں بعد ملاقات ہوئی ۔ اور بھی بہت کچھ ۔وذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء و اللہ ذو الفضل العظیم,و احمد اللہ و اشکرہ على ہذا الفضل ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ مجھ خاکسار کی تمام خدمات کو قبول فرمائے  اور اخلاص کے ساتھ مستقبل میں مزید خدمات انجام دینے کی توفیق دے اور ہر سفر کو بابرکت و کامیاب بنائے ۔ آمین 
التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: