ایران و عراق میں صفوی سلطنت کے مظالم کی مختصر داستان

 

             ایران و عراق میں صفوی سلطنت کے مظالم  کی مختصر داستان


       اس شمارہ میں اس  مضمون کی اشاعت کا اہم مقصد قارئین مجلہ کو ماضی کے  شیعی جرائم و مظالم سے آگاہ کرنا ہے ۔ اداریہ کے لیے مزید دلائل فراہم کرناہے اور شام  میں مظالم و قتل عام کے  روزآنہ ظاہر ہونے والے خوفناک و خطرناک  واقعات و حقائق کی روشنی میں یہ  بتانا ہے کہ یہ کوئی قابل تعجب و   نئی چیز نہیں ہے بلکہ  شیعہ قوم کی جو حالت آج ہے وہی  کل تھی ۔ ما اشبہ اللیۃ بالبارحۃ ,  ان میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ وہ اسلام و  سنی مسلمانوں کے کٹر و جانی دشمن جیسے کل تھے آج بھی  ہیں ۔ ان سے ہم سب کو ہوشیار رہنا ہے اور کسی قسم کا دھوکا نہیں کھانا ہے اور نہ ہی ان کی باتوں میں آنا ہے ۔( چ.ا.)

ہم میں سے بہت سارے لوگ اس اہم  حقیقت سے ناواقف ہیں کہ تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان بن عفان کے دور خلافت میں ایران کی مکمل فتح سے لے کر 1510ع تک یعنی تقریبا 850/سال تک ایران ایک سنی اکثریتی ملک تھا اور سنی کردار وہاں کے تمام گوشوں پر واضح تھا  ۔کئی بڑے سنی علماء  وہاں پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام و مسلمانوں کی زبردست خدمت کی اور جن سے ایران ابھی تک جانا جاتا ہے, مثلا  امام مسلم , امام ترمذی,  امام نسائی , امام ابن خزیمہ, سیبویہ, خوارزمی وغیرہ   ۔ شیعہ موجود تھےمگر  ان کی تعداد بہت کم تھی ۔لیکن 1500ع میں  ایران میں  صفوی سلطنت کا قیام خود ایران اور پوری اسلامی دنیا کے لیے کسی المیہ و حادثہ سے کم نہیں تھا  کیونکہ اسی نے  ایران کو شیعہ اکثریتی ملک میں تبدیل کردیا (موقع البیان: الرئییسیۃ, الدولۃالصفویۃ في إيران.. التاريخ والمنهاج https://www.albayan.co.uk/article2.aspx?id=2983) جہاں اب  آبادی کا  تقریبا 88% شیعہ ہیں ۔یہ تبدیلی کس طرح واقع ہوئی اسی کو اس مضمون میں بیان کیا جا رہا ہے ۔  

ایران میں سنیت سے شیعیت کی تبدیلی کا عمل  صفوی سلطنت کے دور حکومت میں تقریبا 16ویں صدی سے 18 ویں صدی میں وقوع پزیر ہوا اور ایران جو پہلے سنی اکثریت والا ملک تھا ، شیعہ اکثریت اور اس کے روحانی گڑھ میں بدل دیا گیا۔ شیعیت کے اندر بھی زیدیہ اور اسماعیلی فرقوں پر غلبے کو یقینی بنایا گیا جن کا  قبل ازیں اپنے اپنے ادوار میں شیعیت پر غلبہ تھا۔ صفویوں نے اپنے طرز عمل سے، 1501ء میں ایران کو ایک آزاد ریاست کے طور پر متحد کیا اور اثناعشری شیعیت کو اپنی سلطنت کے باضابطہ مذہب کے طور پر رائج کیا، جو اسلامی تاریخ کا ایک اہم ترین موڑ ثابت ہوا۔

صفوی دور سے قبل، ایرانیوں میں شیعہ ایک اقلیت تھی اور ایران میں شیعہ علماء کی تعداد نسبتاً کم تھی لیکن اس عمل کے براہ راست نتیجہ میں موجودہ ایران اور ہمسایہ ملک آذربائیجان کی آبادی کو تاریخ میں بیک وقت سنی سے شیعہ آبادی میں تبدیل کر دیا گیا۔ دونوں ممالک میں اب شیعہ کی بڑی تعداد موجود ہے اور آذربائیجان میں شیعہ آبادی ایران کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

ایرانی صفوی سلطنت کا بانی شاہ اسماعیل اول ڈینیل ڈی براؤن کے مطابق فاطمی سلطنت کے سقوط کے بعد کامیاب ترین اور سنگدل شیعہ حاکم  تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا مقصد سنیت کامکمل طور پر خاتمہ تھا اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں وہ اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اس کی سنیوں سے نفرت کی کوئی حد نہیں تھی اور ان پر ظلم و ستم میں انتہائی بے رحم تھا۔  وہ پہلے تین خلفاء پر باقاعدگی سے لعنت بھیجنے، سنی تصوف کی بیخ کنی کرنے ، ان کی املاک پر قبضہ کرنے کا حکم دیا کرتا تھا  اور سنی علما کو تبدیلی مذہب، موت یا جلاوطنی  میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا حکم دیتا  اور شیعہ علما کو ان کی جگہ لینے کے لیے دوسرے علاقوں سے لایا کرتا تھا۔ 

ایران و آذربائیجان  کو کس طرح شیعیت میں تبدیل کیا گیا  

سب سے پہلے شاہ اسماعیل اول  نے ملک پر اپنی حکمرانی کو مستحکم کیا,اپنی  حکومت و اقتدار کو مضبوط کیا   اور پھر اکثریتی سنی آبادی کو اثناعشری شیعہ میں بدلنے اور اس طرح ایران کے مذہبی منظر نامے کو تبدیل کرنے کے لیے ایک بھرپور اور بعض اوقات سفاکانہ مہم چلائی اور زبردستی لوگوں کو شیعی مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا ۔ اس نے ایران میں شیعیت کو فروغ دینے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کیے :---

·    پوری ایرانی قوم پر شیعیت کو بطور ریاستی لازمی مذہب مسلط کرنا اور ایرانی سنیوں سے زبردستی مذہب تبدیل کروانا۔ 

·    اس نے مذہبی اداروں اور اوقاف کی مالیاتی نگرانی کا ذمہ دار ایک دفتر قائم کیا جسے ایران کو اثناعشری شیعہ ریاست میں بدلنے اور اثناعشری نظریے کو پھیلانے کا کام سونپا گیا تھا۔ 

·    اس نے سنی مساجد کو تباہ کیا۔ حتی کہ چین میں پرتگالی سفیر ، ٹومے پیرس نے 11-1512ع  میں ایران کے  اپنے  دورے کے سرگزشتوں میں اسماعیل کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے : "وہ (یعنی اسماعیل) ہمارے گرجوں میں بہتری کی کوشش کرتا ہے اور محمد (کی سنت ) پر عمل کرنے والے تمام مسلمانان اندلس کے مکانات کو تباہ کرتا ہے۔ " 

·    اس نے پہلے تین سنی خلفاء (ابو بکر، عمر اور عثمان) پر بطور غاصبین لعنت بھیجنے کی رسم (تبرا) کو تمام مساجد میں نافذ کیا، سنی طریقت کو تحلیل کیا اور ریاستی سرپرستی میں شیعہ مزارات، اداروں اور مذہبی آرٹ کی ترقی کے لیے اورشیعہ علما کو سنی علما کی جگہ لانے کے لیے سنیوں کے اثاثے کو استعمال کیا ۔ 

·    اس نے سنیوں کا خون بہایا اور سنیوں کی قبروں اور مساجد کی بے حرمتی کی۔ اس کی وجہ سے عثمانی سلطان بایزید دوم (جس نے ابتدا میں اسماعیل کو اس کی فتوحات پر مبارکباد دی تھی) اس نوجوان بادشاہ کو ("پدرانہ" انداز میں) سنی مخالف اقدامات روکنے کا مشورہ دیا۔ تاہم، سخت سنی مخالف اسماعیل نے سلطان کی تنبیہ کو نظر انداز کیا اور تلوار سے شیعہ عقیدے کو پھیلاتا رہا۔

·    اس نے راسخ العقیدہ کٹر مزاحمتی سنیوں کو ستایا ، قید کیا ، جلاوطن کیا اور انھیں پھانسی دی۔ 

·    صفوی حکمرانی کے قیام کے ساتھ ہی، 26 ذو الحجہ کو خلیفہ عمر کے قتل کا جشن منانے کے لیے  تعطیل کا اعلان کیا گیا۔ اس دن کی خاص بات  حضرت عمر کے پتلے پر لعنت کرنا، توہین کرنا اور بالآخر جلا دینا تھا۔ تاہم ، جیسے جیسے ایران اور سنی ممالک کے مابین تعلقات میں بہتری آتی گئی، تعطیل ختم ہوتی گئی (کم از کم سرکاری طور پر)۔ 

·    1501ء میں ، اسماعیل نے ایران سے باہر بسنے والے تمام شیعوں کو ایران آنے کی دعوت دی اور انھیں سنی اکثریت سے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ۔ 

اس کے علاوہ ابتدائی صفوی حکمرانوں نے ایران کے سنی علمائے کرام  کو خصوصی طور پر اپنا  نشانہ بنایا اور ان کے خلاف متعدد سخت و پرتشدد اقدامات کیے ۔ ان اقدامات میں علمائے دین کو مذہب کی تبدیلی ، موت یا جلاوطنی کا انتخاب دینا اوران  سنی علما کا قتل عام شامل تھا جو ایران کی  شیعہ تبدیلی کے خلاف مزاحمت کرتے تھے ، جیسا کہ ہرات میں مشاہدہ کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں ، بہت سے سنی علما جنھوں نے شیعی مذہب  اختیار کرنے سے انکار کر دیا وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے یا ہمسایہ سنی ریاستوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ 

یہی نہیں بلکہ صفوی حکومت نے جن علاقوں پر بھی  قبضہ کیا  وہاں زبردستی عوام پر شیعیت کو تھوپنے کی کوشش کی۔ آذربائیجان کا ذکر اوپر ہوچکا ہے ۔اسی طرح جب اسماعیل اول  نے 1508ع میں  بغداد پر قبضہ کیا تو  اس کی فوجوں نے جوش و خروش کے ساتھ سنیوں کو قتل کیا اور شاہ کے قبائلی اتحادیوں کے ذریعہ ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ۔ اس کی فوجوں نے کئی اہم سنی مقامات کو بھی ختم کر دیا ، جن میں ابو حنیفہ اور عبد القادر جیلانی کے مقبرے بھی شامل تھے۔ یہاں تک کہ صفویوں نے جیلانی کے اہل خانہ کو بین النہرین سے بے دخل کر دیا۔ عراق میں شیعیت کو سرکاری شکل قرار دینے کے بعد ، اسماعیل نے اپنے نئے عراقی عوام کو شیعہ مذہب قبول کرنے پر مجبور کیا اور سنی طریقوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے بعد وہ فارس لوٹ آیا۔ فاتح صفویوں کے ان گھناؤنے اقدامات کی وجہ سے بین النہرین کے سنیوں نے ناراضگی کا مظاہرہ کیا۔ 

اسی طرح ، طہماسپ اول کے تحت ، وسطی اور جنوبی عراق ، بشمول بغداد اور بصرہ صفوی ہاتھوں میں رہا اور ان سرزمینوں میں سنیت کی جگہ شیعیت کے قیام کی کوشش کی جارہی تھی۔ شیعہ عقائد کو قبول کرنے سے انکار کرنے والے سنی علما کو پھانسی دی گئی اور سنی مقبرے اور مزارات ایک بار پھر تباہ کر دیے گئے، جبکہ مرکزی مساجد کو تبدیل کرکے  صرف شیعہ  کے استعمال کے لیے مخصوص کردیا گیا ۔  سنیوں پر ظلم و ستم کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ عثمانی حکمران سلیمان اول نے صفویوں کو عراق کے بیشتر علاقوں سے بے دخل کر دیا۔ 

جب صفوی دوبارہ سنہ 1624ء میں فارس کے عباس اول کے اقتدار میں واپس آئے اور بغداد پر قبضہ کیا تو انھوں نے ایک بار پھر سنی باشندوں کا قتل عام کیا۔

یہی وجہ ہے کہ آج عراق  میں شیعہ  کی تعداد آدھی اور  سنیوں کے برابر ہے بلکہ بعض کا کہنا ہے کہ شیعہ کی تعداد 60% اور سنیوں کی تعداد 40% ہے ۔(ویکیبیڈیا :آزاد دائرۃ المعارف : ایران میں سنیت سے شیعت کی صفوی تبدیلی https://ur.wikipedia.org/wiki/) 

اسی طرح  1500- 1502 عیسوی کے درمیان تبریز، آذربائیجان اور آرمینیا پر قبضے کے بعد، مقبوضہ علاقوں کا سرکاری مذہب شیعیت قرار دیا گیا، حالانکہ ان علاقوں کی آبادی کی اکثریت سنی تھی۔ اس اعلان کے بعد قفقاز میں سنی مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی شیعہ مہم چلائی گئی۔ شیروان میں شیعہ مذہب کا نفاذ خاص طور پر سخت تھا، جہاں بہت سے سنیوں کا قتل عام کیا گیا اور اس کے نتیجے میں سولہویں صدی کے آغاز میں آذربائیجان کی آبادی کو زبردستی شیعہ مذہب میں تبدیل کر دیا گیا۔( ویکیبیڈیا:الموسوعۃ الحرۃ:تحويل الصفويين لإيران من المذهب السني إلى الشيعي)

 خاکسار راقم سطور کا ایک طویل عرصہ سے  ماننا ہے کہ مذکورہ بالا  واقعات و حقائق سے بنا کسی ادنی شک کے  واضح ہوجاتا ہے  کہ شیعہ صحیح اسلام  کے شدید  مخالف ہیں, سنی مسلمانوں کے کٹر و جانی  دشمن ہیں , ان کے خلاف ان کے سینوں میں  بغض و حسد, نفرت و کراہیت کی آگ بھری ہوئی ہے ,وہ اسلامی دنیا کے لیے ناسور ہیں , ان کاوجود خطرہ ہے , یہ انسان و انسانیت کے دشمن ہیں , وہ دشمنوں کے دوست و حلیف ہیں , ان کا پہلا و آخری مقصد اسلام کا خاتمہ اور مسلمانوں کو مٹانا ہے , شیعیت کو زبردستی طاقت کے زور پر  فروغ دینا اور تلوار کے زور سے                                        اس کو غلبہ دینا ہے , وہ سنیوں پر اپنے  غلبہ کی صورت میں ہرگز  ان کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ ان کو جب بھی اور جہاں کہیں بھی اقتدار حاصل ہوتا ہے تو ان کا یہی طرز عمل ہوتا ہے اور آئندہ بھی  ہوگا  ۔  ان کی جو حالت پہلے تھی وہی اب بھی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ بشار الاسد کے سقوط کے بعد  شام کے حالیہ  خوفناک  واقعات  و وخطرناک  حوادث نے مزید دلائل فراہم کردئیے ہیں اور اس امر کو مزید پختہ کردیا ہے ۔ افسوس تو خوابیدہ  سنیوں اور خصوصا ان کی  کمزور و عاجز حکومتوں  پر  ہے جو شیعہ سے تعداد, ثروات و خیرات,  مادی و معنوی وسائل, اقتصاد و سرمایہ, رقبہ و ممالک  وغیرہ میں   میں کئی گنا ہونے کے باوجودان  کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں  اور ان کو لگام نہیں  لگا سکتے ہیں ۔                   و ما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد لللہ رب العالمین

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: