پڑوسی کا ایک اہم حق

 

                                   پڑوسی کا  ایک اہم حق


حدیث: عن عبد اللہ بن عباس قال: قال رسول اللہ : لیس المؤمن الذی یشبع و جارہ جائع إلى جنبہ .

تخریج: السلسلۃ الصحیحۃ/ 149, علامہ البانی نے شواہد کی بنیاد پر صحیح قرار دیا ہے, ابو یعلی/2699, تمام فی الفوائد/1262, البیہقی /20160۔

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا : مؤمن وہ نہیں ہے جو خود آسودہ ہو اور اس کا پڑوسی اس کے بغل میں بھوکا ہو۔

تشریح: اسلام دین رحمت و دین عدل ہے , اس کی رحمت و عدالت سے کائنات کی کوئی بھی چیز محروم نہیں ہے ۔ تو بھلا انسانی معاشرہ کا ایک اہم عنصر و حصہ پڑوسی اس سے کیسے  محروم رہ سکتا تھا ۔ اسی وجہ سے دین اسلام نے پڑوسی کا بہت زیادہ  خیال رکھا ہے,اس پر  خصوصی توجہ دی ہے اور اسے  وہ حقوق عطاکیے ہیں جو کسی اور کے پاس  نہیں ہیں ۔ ایک پڑوسی کا حق، مسلمان بھائی کے حق سے زیادہ ہے۔ پڑوسی مسلمان کا وہ حق ہے جو ہر مسلمان کا ہے اور اس کے علاوہ پڑوسی کا بھی حق ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہے، دوسرے وہ جس  کا دو حق اور تیسرے وہ جس  کا تین حق ہے ۔ جس پڑوسی کا تین حق ہے وہ مسلمان پڑوسی ہے جو رشتہ دار بھی ہو، اس پر پڑوسی ہونے کا حق، مسلمان ہونے کا حق اور رشتہ داری کا حق ہے۔ جس کا دو حق ہے وہ مسلمان پڑوسی ہے، اس پر پڑوسی ہونے کا حق اور مسلمان ہونے کا حق ہے۔ جس کا ایک حق ہے وہ مشرک پڑوسی ہے۔(یہ حدیث  ضعیف ہے)

پڑوسی کی حد کے بارے میں مختلف اقوال ہیں ۔ ایک قول کے مطابق : "جس نے صبح کی نماز تمہارے ساتھ مسجد میں پڑھی، وہ تمہارا پڑوسی ہے۔" اور الحافظ رحمہ اللہ نے "الفتح" (10/447) میں نقل کیا ہے: علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو پکار کو سنتا ہے وہ پڑوسی ہے۔" جب کہ امام اوزاعی کا کہنا ہے : پڑوسی کی حد ہر طرف چالیس گھر ہے، اور انہوں نے یہ قول عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، اور حسن رضی اللہ عنہ سے بھی۔یہ قول اکثر علماء کا ہے ۔

بعض نے ہمسائیگی کی تعریف کو وسعت دیتے ہوئے ہر وہ شخص جو کسی محلے یا شہر میں رہتا ہے تو اس کو  پڑوسی قرار دیا ہے۔

 پڑوسی کے بہت زیادہ حقوق ہیں , اس  کا  ایک حق یہ ہے  جو اس حدیث میں بیان ہوا  ہے کہ اس کی خبرگیری کی جائے , اس کا خیال رکھا جائے اور اگر وہ محتاج و ضرورت مند ہے تو اس کی مدد کی جائے  ۔اسی لیے  آپ نے فرمایا کہ وہ مؤمن  نہیں ہے یعنی کامل مؤمن نہیں ہے جو خود انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتا ہے , پیٹ بھر کے کھانا کھاتا ہے لیکن اس کا پڑوسی جو اس کے بغل میں رہتا ہے اس کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ۔ حیرت و تعجب کی بات تو  یہ ہے کہ  وہ اس کی حالت اضطراری و مجبوری سے واقف ہے اور اس کی مدد پر قادر ہے لیکن پھر بھی وہ اس کی خبر گیری کرکے اس کی مدد نہیں کرتا ہے  ۔لہذا ایسا شخص کسی بھی صورت میں کامل مؤمن نہیں ہوسکتا ہے بلکہ اس کے ایمان میں خلل اور کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے پڑوسی  کی مدد نہیں کر رہا ہے کیونکہ ایمان نام ہی ہے دوسروں کی مدد کرنے کا, رحمت و محبت کا, الفت و ہمدردی  کا ۔ لہذا جس کے دل میں الفت و محبت نہیں, ہمدردی و غم خواری نہیں وہ  کامل مؤمن نہیں ہے ۔ اسے اپنے ایمان کا جائزہ لینا چائیے اور اس کی اصلاح کرنی چائیے ۔کیونکہ اس کا جاننے کے باوجود  اپنے پڑوسی کی مدد نہ کرنا  اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نہایت سنگدل, بے رحم, انتہائی بخیل اور ضمیر کا مردہ شخص ہے, اس کی  مروءت ختم ہوچکی ہے اور اس کی طبیعت میں دناءت ہے ۔

اور آپ نے بغل کا ذکر کرکے یہ بتایا  ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کا خیال رکھنے سے مکمل طور سے غافل ہے  اور شریعت میں پڑوسی کا جو حق ہے اس پر توجہ دینے میں وہ ناکام ہے اور اس کی خلاف ورزی کی ہے ۔

فوائد:

یہ حدیث دلیل ہے کہ پڑوسی کا اپنے پڑوسی پر بڑا حق ہے۔

اس میں مسلمانوں کو باہمی تعاون پر ابھارا گیا ہے ۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: