جنت کی نعمتوں کا بیان

 

                         جنت کی نعمتوں کا بیان

                                                              ابو میمونہ

آیت:وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طیبۃ فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ  وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ  ذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (توبہ/72)

ترجمہ: اللہ تعالى نے   مومن مردوں اور عورتوں سےان  باغات کا  جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں  جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے  اور اقامت  والی باغوں میں پاکیزہ محلات کا  وعدہ کیا ہے , اور اللہ کی رضامندی سب سے بڑی چیز ہے , یہی بڑی کامیابی ہے ۔

معانی کلمات:

جنات : یہ جنت کی جمع ہے اس کا لفظی معنى بڑا و گھنا  باغ ہے جو اپنے اندر کی ہر  چیز کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ اس کا اصل مادہ جنن ہے جس کا معنى ڈھانپنا و ڈھکنا ہے ۔ جن کو جن اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ اور مخفی ہیں ۔ اسی طرح جنین کو جنین اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں چھپا ہوتا ہے ۔ اسی سے جنون اللیل ہے یعنی اس کا بہت زیادہ سیاہ ہونا اور ہر چیز کا ڈھک لینا ۔اس کی جمع جنان بھی ہے ۔(اسلام ویب : الفتوی, معنى الجنۃ لغۃ و اصطلاحا) اس کا ایک معنى نعمت بھی ہے ۔ بولا جاتا ہے: ہو یعیش فی جنۃ ای نعیم ۔ وہ جنت میں زندگی بسر کر رہا ہے یعنی نعمت میں ۔(موقع المعانی)  

شریعت میں جنت:  آخرت  میں  ابدی و دائمی مسلمانوں کا عزت و احترام کا گھر ہے جس کو اللہ نے اپنے مؤمن بندوں کے لیے تیار کیا ہے ۔ (اسلام ویب : الفتوی, معنى الجنۃ لغۃ و اصطلاحا) 

مساکن : مسکن کی جمع ہے, اصل مادہ سکن ہے ,  اس کا معنى رہائش گاہ, گھر و منزل ہے ۔

عدن: یہ باب ضرب و نصر دونوں  سے آتا ہے اور یہ کئی معانی کےلیے  استعمال ہوتا ہے ۔ عدن بالمکان : اقامت کرنا,  قیام کرنا , اسی سے جنۃ عدن ہے یعنی اقامت کی جنت ,  عدن البلد : وطن بنا لینا , عدن الحجر : قلعھا پتھر کو اکھاڑ دیا ,  عدن الارض : سمدھا  زمین میں کھاد ڈالنا ۔(موقع المعانی و مصباح  اللغات ) بولا جاتا ہے : فلان عدن بمکان کذا : اذا استقر بہ و ثبت فیہ یعنی فلان اس جگہ پر مستقل طور سے ٹھہر گیا , ٹک گیا ۔اسی سے معدن کو معدن کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کے اندر باقی و ثابت رہتا ہے ۔ عدن کا معنى ہے ثابت و مستقر , ٹھہرا ہوا ۔ بعض کے نزدیک عدن جنت کی  ایک مخصوص جگہ کا نام ہے ۔(الوسیط للطنطاوی)

مقدمہ : اللہ تعالى نے  بذات خود اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں جنت اور اس کی نعمتوں نیز جہنم و اس کی سزاؤں کا بیان ایک دو بار نہیں بلکہ کثرت سے تفصیل کے ساتھ  کئی بار کیا ہے , اسی  طرح ان دونوں کا ذکر احادیث میں بھی بکثرت ہوا ہے اور حدیث کی ہر کتاب میں  جنت و جہنم کے ذکر کے لیے الگ و مستقل مخصوص ابواب ہی قائم  کیے گئے ہیں ۔ جس سے انسان کے لیے   اس دنیا میں ان دونوں کی اہمیت و کردار  کا پتہ چلتا ہے اور اللہ عز وجل کے ذریعہ  ان  دونوں کے اس قدر تفصیل سے ذکر کرنے کا مقصد یہی ہے کہ تمام انسانوں خصوصا مسلمانوں کو جنت کے حصول کی ترغیب دلائی جائے, اس کا شوق پیدا کیا جائے  اور جہنم سے بچنے کی سخت تاکید کی جائے اور اس کے ہولناک  مختلف سزاؤں سے متنبہ کیا جائے تاکہ کوئی مسلمان اعمال میں کوتاہی کا شکار نہ ہو ۔کیونکہ  اگر کوئی مسلمان ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ عمل صالح کرے کیونکہ اللہ نے متعدد آیتوں میں جنت کے داخلہ کو ایمان کے ساتھ عمل صالح سے جوڑا ہے ۔اورکافروں کو ایمان لانے پر ابھارا جائے کیونکہ  اگر کوئی کافر ہے تو اس کے لیے پہلے ایمان لانا پھر عمل صالح کی ادائیگی ضروری ہے ۔

بلا شبہ یہ ایک بدیہی چیز ہے کہ  جب کوئی انسان جنت یا جہنم کا مطالعہ بلا واسطہ  قرآن و حدیث میں کرتا ہے اور اس کی تفصیلات سے آگاہ  ہوتا ہے تو  اس کے اندر حصول جنت و جہنم سے بچنے کا جذبہ صادق پیدا ہوتا ہے ,زیادہ سے زیادہ نیک  اعمال کو انجام دینے کی خواہش بیدار ہوتی ہے کیونکہ دنیا کا کوئی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جوجنت کی تمنا نہ کرے یا جہنم سے نجات کا طالب نہ ہو  ۔

ہم خود سوچیں اور غور و فکر کریں کہ اس دنیا میں انسانوں کی کیا کیا خواہشات ہوتی ہیں ۔یقینا  اس فانی  دنیا کا  ہر  انسان ترقی و کامرانی چاہتا ہے اور اس کی  زیادہ سے زیادہ لذتوں سے اپنی وسعت وطاقت کے مطابق لطف اٹھانا چاہتا ہے, یہاں کی ہر چھوٹی بڑی  نعمت و راحت  کو حاصل کرنا چاہتا ہے , عیش و آرام میں زندگی بسر کرنا چاہتا ہے ۔لیکن یہ بھی ایک کڑوی حقیقت ہے کہ  اس دنیا میں انسانوں کی اکثریت بہت ساری  نعمتوں سے محروم رہتی ہے ۔ ان کے پاس اتنی دولت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اپنے حسب خواہش ہر نعمت سے فائدہ اٹھا سکے ۔اسی طرح دنیا کا ہر شخص اپنے لیے کسی بھی قسم کی  ادنی  آفت,مصیبت یا پریشانی یا عذاب  نہیں چاہتا ہے بلکہ وہ  ان سب سے ممکنہ حد تک دور رہتا ہے ۔ اور اپنے آپ کو کسی بھی آفت و پریشانی سےدور رکھنا چاہتا ہے ۔

یہ تو فانی  دنیا میں انسانوں  کی حالت ہےجو کسی بھی نقطہ نظر سے صحیح و درست ہے اور اس کو کسی بھی زاویہ سے غلط نہیں کہا جا سکتا ہے  ۔ تو ہم تمام  انسانوں  کا آخرت کی زندگی کے بارے میں بھی یہی نقطہ نظر ہونا چاہئیے ۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ کافروں کو تو چھوڑئیے خود مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد  آخرت کی زندگی سے بہت زیادہ غافل ہے ۔ان کے عقیدہ و عمل میں بہت زیادہ کمیاں و خرابیاں ہیں ۔ جن کے بہت سارے وجوہات و اسباب ہیں ۔جن میں سے ایک سبب یہ ہے کہ آخرت  انسانوں  کی نظروں سے اوجھل ہے,  وہ دنیا کی طرح اس کا مشاہدہ نہیں کر رہا ہے لہذا وہ اس سے تاریخ کے بہت سے ادوار میں بہت زیادہ غفلت برتتا رہا ہے اور آج تو اس کی حالت بہت زیادہ خراب ہے ۔

اس کے علاوہ دینی تعلیم سے عدم واقفیت  و بے رغبتی  اور اپنی زبان کی دینی کتابوں کا مطالعہ نہ کرنا اور اس سے بے اعتنائی بھی اس غفلت کی ایک خاص وجہ ہے ۔دنیا کا ازحد بگڑا ہوا ماحول خصوصا  غیر مسلم ملکوں میں  اس غفلت کو مزید بڑھاوا دیتا ہے ۔جنت و جہنم  اور اس کی تفصیلات سے عدم واقفیت  بھی اس کا ایک سبب ہے لہذا اسی کے  پیش نظر  اس شمارہ سے قرآن و حدیث کی روشنی میں  جنت, اس کی نعمتوں و صفات کا بیان کیا جا رہا ہے اور آئندہ جہنم کا بھی بیان ہوگا ۔یہ سلسلہ ان شاء اللہ کئی مہینوں تک جاری رہے گا  اللہ تعالى ہم کو توفیق دے ۔ آمین  اب مذکورہ بالا آیت کی تفسیر پیش خدمت ہے ۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ تعالی نے اپنی رحمت کے مظاہر کا ذکر کیا ہے جو اس کا مسلمان مردوں و عورتوں سے وعدہ ہے اور یہ وعدہ اس نے خود ہی اپنے فضل و کرم سے کیا ہے ۔اور یہ مظاہر  ہیں ۔1- باغات جن کے نیچے   نہریں بہہ رہی ہیں  2- اقامتی باغات کی  پاکیزہ رہائشیں  اور 3-اللہ کی رضامندی جو تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے  ۔

یہ نہریں باغات کے درختوں, کمروں و محلات کے نیچے بہتی ہیں ,  اور یہ بنا نالیوں کے قدرت کے نظم و ضبط سے  اوپر ہی اوپر بہتی ہیں, جنتی ان باغات میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے  اور پاکیزہ رہائشیں زمرد , موتی اور یاقوت کے محلات ہیں  جن کی خوشبو 500/سال کی مسافت سے آتی ہے ,جنات عدن کا معنی اقامتی گھر و رہاش ہے ۔ بقول عطا خراسانی یہ جنت کا ایک قصبہ ہے جس کا چھت رحمان کا عرش ہے ۔  عبد اللہ  بن مسعود کے نزدیک یہ جنت کا درمیانی حصہ ہے,  حسن کا کہنا ہے کہ یہ سونے کا محل ہے جس میں صرف انبیاء, صدیقین یا شہداء یا عادل حکمراں رہیں گے ۔ یہی ضحاک کا بھی قول ہے ۔ مقاتل اور کلبی کا کہنا ہے کہ عدن جنت کا سب سے اعلى درجہ ہے جس میں تسنیم نامی چشمہ ہے, اس کے ارد گرد کے باغات اس سے گھرے ہوئے ہیں , اور وہ اپنی  روز تخلیق ہی سے ڈھکی ہوئی ہے یہاں تک کہ اس میں  انبیاء, صدیقین, شہداء , صالحین اور جن کو اللہ چاہے گا وہ لوگ نازل ہوں گے ۔  (تفسیر قرطبی) 

اور اللہ کی رضامندی جنت کی ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے جن میں وہ ہیں   اور مسلمانوں سے اللہ کا کیا ہوا  یہ وعدہ  یا اس کی رضامندی بڑی کا میابی ہے کیونکہ ان کا ہر مقصد پورا ہوگیا اور ہر آفت و مصیبت دور ہوگئی اور ان کے  تمام معاملات اچھے و بہتر ہوگئے ۔( تفسیر ابن کثیر , تفسیر وسیط للطنطاوی , تفسیر سعدی  و تفسیر بغوی ) بلا شبہ اس آیت میں مسلمانوں کو بہت بڑی بشارت و خوشخبری دی گئی ہے اور ان سے بہترین و افضل بدلہ کا وعدہ کیا گیا ہے ۔  

 ظاہر ہے کہ ان  سب عظیم  نعمتوں کے اوصاف کا مفصل  تذکرہ کرنا اس مختصر مضمون میں ممکن نہیں ہے لہذا  یہاں پر صرف جنت کی ایک عظیم الشان  نعمت اور ایک لاجواب انعام " نہر"  کی صفات و خوبیوں کا  کچھ  تفصیل سے بیان کیا جا رہا ہے ۔

انہار جنت کی مختصر خصوصیات و اوصاف  :

اللہ تعالى نے جنت کی نہروں کا ذکر  قرآن کی مختلف سورتوں کی مختلف آیتوں میں کیا ہے اور ان کے اوصاف و خوبیوں پر روشنی ڈالی ہے ,  جن میں سب سے پہلی آیت سورہ  بقرہ کی آیت نمبر 25 ہے اور سب سے آخری آیت سورہ  بینہ کی آیت نمبر  8/ ہے ۔ احادیث میں بھی ان کی بابت کافی کچھ وارد ہوا ہے ۔ کچھ آیتوں میں ان نہروں کے نام ودیگر  تفاصیل کا ذکر کیا گیا ہے  جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہریں   دنیا کی نہروں سے مطلق طور پر الگ ہیں , ان کے اوصاف و خوبیاں جدا ہیں ۔ کچھ کا ذکر یہاں مختصرا کیا جا رہا ہے:--

     ان کی ایک خصوصیت  تو یہ ہے کہ یہ  دنیا کی نہروں کی طرح اندر نہیں بلکہ بنا نالیوں کے  اوپر ہی اوپر بہتی ہیں ۔فرمان باری تعالی ہے : و بشر الذین آمنوا و عملوا الصالحات أن لہم جنات تجری من تحتھا الانہار(بقرہ /25)  یعنی اہل ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو بشارت دیدیجیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں ۔ اس کی تفسیر میں  امام طبری نے تحریر کیا ہے کہ اللہ تعالی نے "جنات تجری من تحتہا الانھار "کہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ  جنات کی زمین کا ذکر نہیں مراد ہے بلکہ اس میں موجود  درختوں , پھلوں و پودوں کو مراد لیا ہے ۔ اور اس کی نہروں کے پانی کے بارے میں خبر دی ہے  کہ وہ اس کی درختوں و پودوں کے نیچے سے جاری ہیں نہ کہ وہ اس کی زمین کے اندر نیچے بہتی ہیں ۔یہی قول نسفی و سفارینی کا بھی ہے ۔(تفسیر طبری , تفسیر نسفی ,  البحور الزاخرۃ للسفارینی) اور سفارینی نے یہ اضافہ کیا ہے : اور بلا شبہ وہ باغ سیر و تفریح کے لیے سب سے اچھا مانا جاتا ہے جس کے درخت سایہ دار ہوں اور ان کے درمیان نہریں جاری  و ساری ہوں ۔

 علامہ ابن قیم نے   بھی یہی لکھا ہے فرماتے ہیں :

 أنہارہا  فی  غیر اخدود جرت .......                   سبحان ممسکہا عن الفیضان

من تحتہم تجری کما شاؤوا                    .........  مفجرۃ  و ما للنہر من نقصان

اس کی نہریں بنا نالیوں کے بہتی ہیں   .... پاک ہے وہ ذات جو اس کو سیلاب سے بچاتا ہے ۔

ان کے نیچے بہتی ہیں جیسا وہ  چاہیں ان کو موڑ  لیتے ہیں اورنہر میں کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔(الکافیۃ الشافیۃ /968 نقلا عن موقع الدرر السنیۃ, الموسوعۃ العقدیۃ, المطلب الخامس , انھار الجنۃ)

 علامہ محمد خلیل ہراس نے ان سابقہ اشعار کی شرح میں تحریر کیا ہے : ان کی مراد ہے کہ یہ نہریں  بنا نالیوں کے  اوپر ہی اوپر بہتی ہیں ... لیکن ان کا پانی دونوں کناروں پر  ادھر ادھر نہیں ہوتا ہے  , یہ دائمی  و ابدی  ہمیشہ جاری رہنے والی نہریں  ہیں جو کبھی رکتی ہیں نہ کم ہوتی ہیں اور وہ ان کے لیے جہاں چاہیں اور  جیسا چاہیں  پھٹ جاتی  ہیں۔فرمان الہی ہے: عینا یشرب بہا عباد اللہ یفجرونہا تفجیرا (انسان/6) جو ایک چشمہ ہے جس سے اللہ کے بندے پئیں گے اس کی نہریں نکال لیں گے یعنی اس کو جدھر چاہیں گے موڑ لیں گے ۔(موقع الدرر السنیۃ, انھار الجنۃ)

ان کی ایک  اور صفت و خوبی  یہ ہے کہ ان نہروں  کامنبع فردوس  ہے , یہ وہیں سے نکلتی ہیں ۔جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو کیونکہ وہ جنت کا سب سے افضل و بہتر اور اعلى حصہ ہے, اس کے اوپر رحمن کا عرش ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔(بخاری/2790, ترمذی / 2531, احمد /22738 معمولی اختلاف کے ساتھ )۔ اس معنی کی اور بھی احادیث ہیں ۔

جنت کے نہروں کی تعداد  و ان کے نام

جنت کے نہروں کی تعداد متعین طور پر معلوم نہیں ہے ہاں کچھ نہروں کا ذکر قرآن و حدیث میں آیا ہے جن کو یہاں پیش کیا جا رہا ہے :-

نہر کوثر : جنت کی ایک نہر ہے جس کو اللہ نے اپنے رسول کو عطا کیا ہے, ارشاد الہی ہے: انا اعطیناک الکوثر(کوثر/1)  یعنی ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے ۔اس کی صفات کا ذکر  تفاصیل کے ساتھ کئی  احادیث میں ملتا ہے ۔

نہر سیحان, جیحان,فرات , نیل  یہ چاروں جنت کی نہریں ہیں, ان کا ذکر مسلم کی روایت میں ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے ان کا کہنا ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: سیحان, جیحان, فرات و نیل یہ سب جنت کی نہریں ہیں ۔ (مسلم/2839) (یہاں یہ دھیان رہے کہ سیحان و جیحان سیحون و جیحون کے علاوہ ہیں , دونوں ایک نہیں ہیں بلکہ  الگ الگ ہیں  جیسا کہ امام نووی نے صراحت کی ہے , سیحون و جیحون خراسان میں ہیں جب کہ سیحان و جیحان شام کے قریب بلاد ارمن میں ہیں ) ۔( شرح مسلم نقلا عن موقع الدرر السنیۃ, الموسوعۃ العقدیۃ, المطلب الخامس , انھار الجنۃ)

جنت میں صرف پانی کی نہریں نہیں ہیں بلکہ وہاں پر پانی کے علاوہ تین  اور اقسام : دودھ, شہد اور شراب کی نہریں بھی ہیں ۔ارشاد ربانی ہے: مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ فِيهَا أَنْهَارٌ مِّن مَّاءٍ غَيْرِ آسِنٍ وَأَنْهَارٌ مِّن لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهُ وَأَنْهَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشَّارِبِينَ وَأَنْهَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ۖ وَلَهُمْ فِيهَا مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَمَغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ ۖ كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ ( محمد /15) اس جنت کی صفت جس کا اہل تقوى سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ اس میں پانی کی نہریں ہیں جو  بدلنے والا نہیں ہے, اور دودھ کی نہریں ہیں جن کا مزہ نہیں بدلا , اور شراب کی نہریں ہیں جن میں پینے والوں کے لیے لذت ہے , اور خالص شہد کی نہریں ہیں , اور ان کے لیے اس میں ہرقسم کے پھل ہیں  اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ۔کیا یہ  ان لوگوں کے مثل ہیں جو ہمیشہ جہنم میں رہنے والے ہیں اور جن کو گرم کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا  جو ان کی آنتوں کو  ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا ۔ 

علامہ ابن قیم نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے : اللہ تعالى نے ان چار اصناف و اقسام کا یہاں ذکر کیا ہے اور ان سے  دنیا میں پیش آنے والی  ہر خرابی و کمی کی نفی کردی ہے۔ پانی  کی کمی یہ ہے کہ وہ  کسی جگہ زیادہ دیر باقی رہنے کی وجہ سے سڑ جاتا ہے , بد بو دار ہوجاتا ہے , اس کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس کا مزہ خراب ہوجاتا ہے۔ دودھ کی خرابی یہ ہے کہ وہ پھٹ جاتا ہے اور کھٹا ہوجاتا ہے , شراب کی خرابی یہ ہے کہ اس کا مذاق ناپسندیدہ ہوتا ہے اور  بد بو دار ہوتا ہے جس سے اس کو پینا مشکل ہوتا ہے اور لذت نہیں ملتی ہے  اور شہد کی خرابی اس کا خالص نہ ہونا ہے ۔ لیکن جنت کی یہ تمام نہریں دنیا کی ساری خرابیوں سے پاک صاف ہوں گی ۔

اور یہ اللہ تعالى کی نشانیوں میں سے ہے کہ جنت میں ایس نہریں بہتی ہیں  جن کا دنیا میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ بنا نالیوں کے بہتی ہیں  اور ان کے اندر دنیاوی خرابیوں کا کوئی  وجود نہیں ہے جو کامل  لذت  کے حصول میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔( حادی الارواح/179, نقلا عن موقع الدرر السنیۃ, انھار الجنۃ)

اور یہ مشروبات دنیا کی  مشروبات سے بالکل الگ ہیں  اور ان کے مزہ و شکل میں اس قدر تفاوت ہے جس کو صرف اللہ تعالى جانتا ہے ۔ یہ تو محض دونوں کے درمیان ناموں کے الفاظ کا اشتراک ہے ۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کا کہنا ہے کہ دنیا کی چیزوں میں سے اسماء کو چھوڑ کر جنت میں دنیا کی کوئی بھی چیز  نہیں ہے , اسی طرح ان کے درمیان بہت معمولی مشابہت ہے , اور وہ  ذہنوں میں موجود عمومی معنى کا مشترک ہونا ہے ۔۔( شرح القصیدۃ النونیۃ , 2/374179, نقلا عن موقع الدرر السنیۃ,  انھار الجنۃ)

یہ ہیں جنت کی نہروں کی  کچھ مختصر  خصوصیات و خوبیاں ۔زیادہ طوالت سے بچتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے ۔آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو جنت میں داخل کرے اور اس کی تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین ۔

 

 

 

 

 

التالي
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: