دینی فہم و سمجھ (فقہ
فی الدین) : اللہ کے خیر کی علامت
ابو
میمونہ
حدیث: عن ابن عباس أن رسول اللہ قال: " من یرد
اللہ بہ خیرا یفقھہ فی الدین "۔
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن
عباس کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ خیر اور بھلائی کا ہوتا ہے تو وہ اس کو دین کی سمجھ
عطا کرتا ہے ۔(بخاری/71, مسلم/1037, ترمذی/2645, احمد /2790)
معانی کلمات:
خیر: اس کا ایک معنى
نفع, فائدہ, اچھائی و بھلائی ہے ۔ بولا
جاتا ہے: لا خیر فیہ یعنی اس میں
کوئی فائدہ نہیں ہے , یسعى الى کل عمل فیہ خیر للناس یعنی وہ ہر اس عمل کے لیے
کوشش کرتا ہے جس میں لوگوں کے لیے نفع و بھلائی ہے ۔ اس کا ایک دوسرا معنی افضل و
بہتر کا ہے ۔ کہا جاتا ہے :الوقایۃ خیر من
العلاج یعنی پرہیز علاج سے بہتر و افضل ہے
یا خیر لک ان تسافر صباحا یعنی تمہارے لیے صبح سفر کرنا اچھا و بہتر ہے ۔
اس کا ایک اور معنی زیادہ مال و دولت ہے : ان الانسا ن لحب الخیر لشدید یعنی انسان
مال سے بہت زیادہ محبت کرتا ہے ۔یہ شر کا ضد ہے, بایں صورت اس کا معنى نیکی
ہے اور اسم تفضیل غیر قیاسی ہے ۔ اس کی جمع
خیار , اخیار و خیور ہے ۔
یفقہہ : یہ فقہ سے
ماخوذ ہے , اس کا لفظی معنی ہے سمجھنا ,
کسی چیز کا اچھی طرح جاننا , فقیہ ہونا
وغیرہ کہا جاتا ہے: فقہ عنہ الکلام یعنی اس نے اس کی گفتگو کو سمجھ لیا ۔ ق پر
تشدید کے ساتھ اس کا معنی ہے سکھانا و سمجھانا ۔ (موقع المعانی و مصباح
اللغات) بعد میں اس کو عام طور سے دین و شریعت کی سمجھ پر بولا
جانے لگا ۔
علامہ عینی کا قول ہے:
یفقہہ اى یفہمہ یعنی اس کو سمجھتا ہے , کیونکہ اس کا لفظی معنی فہم و سمجھ ہے ۔
فرمان باری تعالی ہے : یفقھوا قولی (طہ/28) یعنی میری بات کو سمجھیں ۔ پھر یہ علم
شریعت کے ساتھ خاص ہوگیا اور اس کا جاننے
والا فقیہ کہلانے لگا ۔(عمدۃ القاری ,2/42 و فتح الباری 1/161)
شرح: بلاشبہ اللہ تعالى اپنے بندوں پر بہت
زیادہ رحم کرنے والا اور مہربان ہے
جو ان کے لیے ہر قسم کے خیر و بھلائی, نفع
و اچھائی , نیکی و فائدہ کو پسند کرتا ہے,
اس حدیث میں آپ نے بتایا ہے کہ اللہ تعالى کا اپنے جس بندہ کے ساتھ عظیم خیر اورزیادہ
فائدہ اور نفع کا ہوتا ہے تو اس کو دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور اسے شرعی
علم سے نوازتا ہے ۔جس کی فضیلت و برتری کو اس دنیا کی کوئی چیز نہیں پا سکتی ہے اور جو بے مثال و بے نظیر ہے
کیونکہ یہ انبیاء کی وراثت ہے
جنہوں نے اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کا وارث نہیں بنایا۔
اس میں خیر کا لفظ نکرہ
ہے جو ہر قسم کی بھلائی کو شامل ہے خواہ وہ کم ہو یا زیادہ, اسی طرح وہ تعظیم یعنی عظمت بیان کرنے کے لیے بھی ہے کیونکہ مقام اس کا تقاضا کرتا ہے یعنی یہ ایک عظیم خیر ہے ۔(موقع الدرر
السنیۃ" الموسوعۃ الحدیثیۃ, شروح الاحادیث, شرح حدیث : من یرد اللہ بہ
خیرا...)
صنعانی نے سبل السلام
میں لکھا ہے کہ یہ حدیث فقہ فی الدین کی
شان کی عظمت پر دلیل ہے ۔ اور یہ اسی کو ملتا ہے جس کے ساتھ اللہ کا ارادہ عظیم خیر کا ہوتا ہے جیسا کہ خیر کے نکرہ ہونے سے معلوم ہوتا ہے اور
مقام اس پر دلالت کرتا ہے , اور فقہ فی الدین اسلام کے قواعد کو سیکھنا اور حلال و
حرام کو جاننا ہے ۔ اور شرط کا مفہوم یہی ہے کہ جس نے فقہ فی الدین نہیں حاصل کیا تو اللہ نے اس
کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کیا ۔
اور مناوی کا کہنا ہے
کہ" خیرا "سے مراد تمام اقسام کے خیرات ہیں کیونکہ نکرہ عموم کا فائدہ
دیتا ہے یا اس سے "خیرا کبیرا عظیما کثیرا " مراد ہے ایسی صورت میں
تنوین تعظیم کے لیے ہے ۔
اس بنیاد پر حدیث میں
خیر سے مراد تمام قسم کے فوائد و منافع اور بھلائیاں ہیں یا عظیم خیر ہے ۔ اس کی
دلیل حدیث میں خیر کا نکرہ ہونا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس نے دینی فقہ
حاصل نہیں کی اس سے کلی طور پر خیر کی نفی کر دی گئی ہے بلکہ اس سے مراد اس مخصوص
خیر کی نفی کرنا ہے یا یا کلام بطور
مبالغہ ہے تو گویا جس نے فقہ فی الدین حاصل نہیں کی تو اس کے ساتھ فقہ فی الدین حاصل کرنے والے
کے موازنہ میں خیر کا ارادہ نہیں ہوا ۔(اسلام ویب: الفتوی, مفھوم المخالفۃ لحدیث : من
یرد اللہ بہ خیرا....)
فقہ فی الدین یعنی دین
کی فہم و سمجھ سے کیا مراد ہے؟
یہ جان لینا ہم سب کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ
فقہ فی الدین سے کیا مراد ہے اور اس میں
کیا کیا چیزیں شامل ہیں ؟ کیا فقہ فی الدین کا مطلب صرف دین کا سمجھنا ہے اور اس
پر عمل کرنا نہیں ہے یا دونوں اس میں
داخل ہیں ؟ کیا فقہ فی الدین کے لیے کسی شرعی اسکول و کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل
کرنا ضروری ہے ؟ کیا اصطلاحی فقہ کی تعلیم حاصل کرنا اس سے مراد ہے یا اس سے مراد
دین کی بنیادی و ضروری باتوں کا جاننا اور ان پر عمل کرنا ہے ۔
اس بارے میں علماء کا
کہنا ہے کہ فقہ فی الدین یا دین میں سمجھ یہ ہے: احکام شریعت کو اس کے
دلائل کے ساتھ جاننا ,اسلام کے قواعد کو سیکھنا اور حلال و حرام کی معرفت , امر و
نہی کے معانی کو سمجھنا , اس کے مطابق عمل کرنا ہے جس کے نتیجہ میں فقیہ کے اندر اللہ تعالى کا
خوف پیدا ہو اور وہ اس سے علانیہ و خفیہ طور پر ڈرے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمہ اللہ فقہ فی الدین کا معنی بیان کرتے
ہوئے رقمطراز ہیں :---
"دین میں فقہ:
احکام و ممنوعات کے معانی کو سمجھنا ہے ، تاکہ انسان اپنے دین کے بارے میں بصیرت
حاصل کر سکے، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے: لیتفقھوا فی الدین و
لینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون (توبہ/122)
اس آیت میں اللہ نے
انذار یعنی ڈرانے کو فقہ سے جوڑا ہے ۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فقہ وہ چیز ہے جو
حرام سے روکے یا واجب کی طرف دعوت دے اور
نفوس کو ممنوع مقامات سے باز رکھے ۔" ("الفتاوی الکبری" (6/171) و دیکھیں:
"مجمع الفتاوی" (20/212)۔
امام نووی رحمہ اللہ کا
کہنا ہے : " اس میں علم اور
دینی تفقہ کی فضیلت کا بیان
ہے اور اس کی رغبت دلائی گئی ہے ۔" (شرح مسلم للنووی , 7/128) ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ
فقہ فی الدین یا دینی
فہم اور سمجھ نام ہے: یہ سمجھنے و جاننے
کا کہ اللہ اپنے بندوں سے کیا چاہتا ہے ۔ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے ہر
خبر کی تصدیق کی جائے یا اس کے ہر حکم کو
نافذ کیا جائے یا برائی سے باز رہا جائے ۔ اس سے صرف علم کا فہم نہیں مراد ہے بلکہ ایسا فہم جو سمجھنے والے کو اطاعت و فرماں
برداری پر ابھارے , پھر اس میں لوگ باعتبار علم, عمل و حالت مختلف و جدا ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ کم علم و عمل والے ہوتے ہیں اور بعض زیادہ
علم و عمل والے ہوتے ہیں ۔ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کردیا ہے اور اس کی مقدار متعین کردی ہے ۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا
کہنا ہے : ہر وہ شخص جس کے ساتھ اللہ نے خیر کا ارادہ کیا تو ضروری ہے کہ وہ اس کو دین کی سمجھ عطا
فرمائے , لہذا جس کو اس نے دین کی سمجھ نہیں عطا فرمائی تو اس کے ساتھ اس نے خیر
کا ارادہ نہیں کیا ۔ اور دین وہ ہے جس کے ساتھ اللہ نے اپنے رسول کو بھیجا ۔اور ہر
انسان پر واجب ہے کہ وہ اس کی تصدیق کرے اور اس کے مطابق عمل کرے ۔ اور ہر شخص پر
لازم ہے کہ آپ نے جس چیز کی بھی خبر دی ہے اس کی تصدیق کرے , اور جس چیز کا حکم
دیا ہے اس کی اطاعت کرے ۔ یہ تصدیق و اطاعت عام ہے ۔ (مجموع
الفتاوى:28/80)(موقع الاسلام سؤال و جواب, شرح حدیث: من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی
الدین, 24-5-2014)
علامہ ابن باز کا کہنا
ہے کہ یہ عظیم روایت فقہ فی الدین کی فضیلت کی واضح دلیل ہے ۔ اور دینی فقہ کتاب اللہ و سنت رسول کی سمجھ و فہم ہے۔اور اصل شریعت کے
اعتبار سے اسلام کی فقہ ہے , اور ایک
اعتبار سے اوامر و احکام اور ممنوعات کو
جاننا ہے , ایک اور اعتبار سے بندہ کا
اپنے اوپر خالق و مخلوق کے حقوق سے باخبر
ہونا ہے , اور ایک اعتبار سے جو کچھ بندہ کرتا ہے اور چھوڑ دیتا ہے اس میں اللہ کی خشیت , اس کی تعظیم اور مراقبت ہے ۔ لہذا جس کے اندر اللہ کا خوف و ڈر نہیں ہے تو اس کے دینی علم کی کوئی قیمت نہیں ہے , بلا
شبہ نفع بخش و مفید علم اور دینی فقہ جو سعادت و خوش نصیبی کی علامت ہے وہ ہے جو
صاحب علم میں اللہ کا ڈر و خوف کا باعث ہو , اللہ کے واجبی حقوق کی ادائیگی کی
تعظیم اور اس کی مراقبت کا سبب ہو , اللہ کے فرائض کی ادائیگی اور اس کی حرام کردہ چیزوں کے چھوڑ نے پر
ابھارنے والی ہو , انسانوں کے مابین
دعوت دین و اس کی تبلیغ کی طرف لے جانے والی ہو ۔
لہذا جس کو دینی فقہ
اس طریقہ پر عطا کیا گیاہے تو یہ اس بات کی دلیل و علامت ہے کہ اللہ کا ارادہ اس
کے ساتھ خیر کا ہے۔ لیکن جو اس سے محروم کر دیا گیا اوروہ ان گمراہوں و جاہلوں کے ساتھ رہتا ہے جو فقہ فی الدین, اللہ کی واجب کردہ چیز کو
سیکھنے اور حرام چیزوں کو جاننے سے منہ موڑتے
ہیں تو یہ سب اس بات کے واضح دلائل
ہیں کہ اللہ نے اس کے ساتھ خیر کا ارادہ نہیں کیا ہے ۔
اس لیے ایک مؤمن کی شان
یہ ہوتی ہے کہ وہ علم طلب کرتا ہے , دین کو سمجھتا ہے , اس میں بصیرت پیدا کرتا ہے
, اللہ کی کتاب پر توجہ دیتا ہے, اس کا اہتمام کرتا ہے اور اس میں غور و فکر کرتا
ہے اور اس سے فائدہ اٹھاتا ہے , اور رسول اللہ کی سنت کا اہتمام کرتا ہے , اس کی
سمجھ حاصل کرتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے
اور جو میسر ہو اس کو حفظ کرتا ہے ۔ پس جس نے ان دونوں اصل سے اعراض کیا
اور ان سے غفلت برتی تو یہ اس بات کی دلیل
اور علامت ہے کہ اللہ کا ارادہ اس کے ساتھ خیر کا نہیں ہے , اور یہ ہلاکت , تباہی
و بربادی کی علامت ہے , اور دل کے ہدایت سے
منحرف ہونے و بگڑنے کی علامت
ہے ۔(مجموع فتاوى ابن باز , 9/129-130)
علماء کے ان مذکورہ بالا
اقوال سے ظاہر ہے کہ فقہ فی الدین صرف حصول علم کا نام نہیں ہے بلکہ اس میں عمل
بھی داخل ہے , اسی طرح اوامر و احکام پر عمل کرنا, برائیوں سے دور رہنا , اسلامی
احکام کو زیادہ سے زیادہ جاننا , اللہ کا خشیت و خوف پیدا کرنا , قرآن و سنت کے
سیکھنے پر توجہ وغیرہ کرنا وغیرہ یہ تمام امور اس میں شامل و داخل ہیں ۔ لیکن اس
کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی اصطلاحی فقہ کی تعلیم حاصل کرے یا وہ شرعی فقیہ بنے , یا مدرسہ میں داخلہ لے
کر تعلیم حاصل کرے بلکہ وہ کسی مسجد یا گھر میں کسی کی رہنمائی میں بینادی ضروری
اسلامی تعلیم حاصل کر سکتا ہے ۔اس کے لیے فقیہ بننا ضروری نہیں ہے کیونکہ دنیا
کے مختلف امور و شعبوں کو دیکھتے ہوئے یہ
محال ہے کہ ہر مسلمان شخص فقیہ بن جائے اور شرعا یہ مطلوب بھی
نہیں ہے ۔
فوائد و مسائل :
اس حدیث سے علم و اس کو سیکھنے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے ۔
شرعی علم تمام علوم میں
مطلق طور پر افضل و اشرف ہے کیونکہ اس کا
تعلق اللہ تعالى سے ہے ۔
دین کی سمجھ مسلمان کی
بھلائی کی نشانیوں میں سے ہے ۔
جس کو دین کی سمجھ نہیں
ملی وہ ایک عظیم خیر سے محروم رہا ۔
دینی فقہ میں علم کے ساتھ عمل, خشیت, کتاب و سنت پر توجہ
, احکام اسلام کو سیکھنا وغیرہ بھی شامل ہے ۔
0 التعليقات: