آئین کے قاتل
و نفرت کے سوداگر
مخصوص
نظریات و افکار کی حامل, ہیڈ گوار, ساورکر و مونجے کی وارث بھاجپا کی موجودہ مرکزی حکومت اور اور اس کی ہم نوا و ہم
جماعت بہت ساری صوبائی حکومتیں جہاں ایک
طرف آئین ہند کی قاتل ہیں , دستور ہند کی
دشمن اور اس کو تباہ و برباد کرنے والی
ہیں , ملکی قوانین کو اپنے پیروں تلے روندنے والی ہیں۔ وہیں دوسری
طرف وطن عزیز میں نہ صرف نفرت
و کراہیت کے بیج بونے والی اور اس
کی کھیتی کرنے والی ہیں بلکہ اس کو فروغ
دینے والی,اس میں آگ لگانے والی , اور اس کی سوداگر بھی ہیں ۔ بلا شبہ
یہ سارا کھیل صرف اور صرف حصول
حکومت اور اقتدار پر قبضہ جمانے اور ایک
مخصوص گروپ "اونچی ذات کے ہندؤوں اور کارپوریٹ "کے مفادات کی حفاظت کے
لیے ہے ۔ ورنہ در حقیقت ان کے دلوں میں
مسلمانوں کو تو چھوڑ ئیے نیچی ذات کے ہندؤوں کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہے
۔وہ ان کو صرف اپنا مہرہ اور جنگ کی
ایندھن بنائے ہوئے ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ
جتنا ظلم ان کےگذشتہ دس سالہ
دور حکومت میں دلت اور مسلمانوں پر
ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا ہے ۔
آئین
کے قاتل:
بلا
شبہ یہ طاقتیں آئین و دستور کی دشمن ہیں
اور اس کی زبردست مخالف ہیں ۔یہ ان پر کوئی الزام تراشی نہیں کی جارہی ہے یا بنا ثبوت و دلیل کے کوئی بات نہیں کہی
جار ہی ہے بلکہ اس کے بے شمار دلائل ہیں اور ان کے اقوا ل و افعال اس پر شاہد
ہیں ۔ یہاں پر ان میں سے صرف چند کا بیان کیا جا رہا ہے : ---
یہ متعددبار علانیہ طور پر ہندو راشٹر بنانے کے
اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہیں , اس کو بار بار دہراتے ہیں , سماج کو اس کے بارے
میں گمراہ کرتے ہیں ۔ کھلے عام اس کا پرچار کرتے ہیں جیسا کہ ان کے کئی نیتاؤں نے
2024ع کے لوک سبھا جنرل الیکشن میں یہ باتیں برسر عام کہی ہیں ۔ یقینا
یہ دستور کی کھلی مخالفت ہے اور اس
کا قتل ہے ۔ ان کے ایک بریلی ایم پی چھتر
پال سنگھ گینگوار نے جون 2024 ع میں پارلیمنٹ میں حلف لینے کے بعد
جے ہندو راشٹر کا نعرہ لگایا تھا جس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی گئی ۔
ان کے کئی نمائندوں نے 2024 ع کے لوک سبھا جنرل الیکشن میں عوام سے
چار سو سیٹیں دینے کی اپیل کی تھی تاکہ آئین کو بدل سکیں جیسا کہ ان کے کئی نیتاؤں
نے اپنی تقریروں میں کہا تھا۔ مثلا: ایودھیا سے سابق ایم پی للو سنگھ, جیوتی
مردھا, ارون گوول میرٹھ کے بی جی پی کنڈیڈیٹ وغیرہ
دلی
میں9/اگست 2018 ع کو جنتر منتر پر احتجاج
کے دوران ایک شخص کے ذریعہ آئین کو جلایا گیا لیکن اس کے خلاف کوئی سخت کاروائی نہیں ہوئی ۔
انہوں
نے کبھی بھی سچے دل سے آئین کو قبول نہیں
کیا اور ہمیشہ اس کی مخالفت کرتے رہے ۔ یہ
بات خود مشہور صحافی آسوتوش نےنیوز 24 کے ایک
ٹی وی شو
میں بتائی کہ کرن تھاپر نے سر سنگھ چالک سدرشن سے اگست 2000 ع کے ایک انٹرویو میں پوچھا کہ کیا آپ دستور کو جیسا
وہ ہے اسی طرح تسلیم کرتے ہیں ۔ تو ان کا جواب تھا: نہیں, 11/مارچ 2000ع کو سدرشن
نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آر آر ایس
مکمل طور پر ایک نیا آئین چاہتی ہے, پھر 12/مارچ کو کہتے ہیں کہ آئین سے
نجات لے لینی چائیے ۔(دیکھیے: ویڈیو جس تنظیم
کو بھاجپا اپنی مدر تنظیم مانتی ہے وہ آر ایس ایس بھارت کے دستور کو نہیں مانتی ہے
, نیوز 24 لائیو)
ان
کے اکثر فیصلے مذہب اور ذات کی بنیاد پر ہوتے ہیں جس کا شکار اکثر مسلمان ہوتے ہیں
۔یہ مسلمانوں کو سزادینے میں قانونی کاروائیوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں اور چند ہی
گھنٹوں میں سزا کا فیصلہ سنادیتے ہیں اور
خود ہی جج بن جاتے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے چھتر پور میں کیا اور 21/اگست 2024ع کے
احتجاج کے دوسرے ہی دن حاجی شہزاد علی اور ان کے بھائیوں کا 20000/ مربع فٹ پر پھیلا ہوا دس کروڑ کا
محل نما گھر غیر قانونی قرار دے کے گرا دیا اسی طرح اجودھیا میں سماج وادی پارٹی کے لیڈر معید خاں کو
زنا کے ایک جھوٹے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد ان کو بنا تحقیق سزا دینے میں جلدی کی گئی اور ان کی کئی منزلہ شاپنگ کمپلکس و بیکری کو22/اگست
کو بلڈوز کر دیا گیا جو 4000/ مربع فٹ میں پھیلی ہوئی تھی اور جس کی
قیمت تین کروڑ روپیہ تھی ۔جب کہ فارنسنک
رپورٹ سے ان کی بے گناہی ثابت ہوچکی ہے ۔ وغیرہ
ان
چند واقعات سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ مذکورہ بالا طاقتیں بنا کسی ادنى شک
کے آئین کی مخالف, دشمن اور اس کی قاتل ہیں ۔یہ اس کو ماننے کا صرف ڈھونگ کررہی
ہیں کیونکہ اس کو ماننے کے ےلیے مجبور ہیں ۔ اور جس دن ان کی مجبوری ختم ہوگی وہ اسی دن اس کو ختم کردیں گی ۔ ان
طاقتوں کے آئین مخالفت و دشمنی کی ہزاروں
مثالیں ہیں ۔ یہاں پر چند کو بطور نمونہ پیش کر دیا گیا ہے جو ان کی حقیقت کو بیان
کرنے کے لیے کافی ہے کیونکہ جو دل میں ہوتا ہے وہ کبھی نہ کبھی باہر آجاتا ہے ۔
نفرت
و تشدد کے سودا گر :
بالکل
اسی طرح یہ طاقتیں و جماعتیں نہ صرف
نفرت و کراہیت, تشدد و انتہا پسندی
کا بیج بونے والی , اس کی کھیتی کرنے والی , اس کو فروغ دینے والی ہیں
بلکہ اس کا تجارت کرنے والی مشہور
برانڈ سودا گر بھی ہیں کیونکہ انہوں نے آرایس ایس کی پاٹھ شالا میں دوسروں خصوصا
مسلمانوں کے خلاف صرف نفرت و تعصب ہی
سیکھا ہے ۔ ان کی مذہبی کتابوں میں انسانوں کو چار طبقات میں تقسیم کرکے اور شودر
کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کے انسانیت کے
خلاف نفرت و تعصب کی تعلیم دی گئی ہے ۔
نفرت
و بغض ان کی تجارت ہے اور یہ اس کے پجاری ہیں کیونکہ ان کی دکان اسی سے چلتی
ہے , ان کا کاروبار اسی سے بڑھتا اور پھلتا پھولتا ہے , اس میں خوب تیزی آتی ہے اور اسی سے سیاسی مقصد کو جلد از جلد حاصل کیا جا سکتا ہے
۔
نفرت پھیلانا
و تشدد کرنا ان کا شب و روز کا بزنس اور
دن رات کا پیشہ ہے کیونکہ کچھ کیے ہوئے بغیر کرسی و اقتدار حاصل کرنے کا
یہ ایک آسان طریقہ ہے ۔اور لوگوں کو
بیوقوف بنانے کا ایک کارگر آلہ ہے ۔
نفرت
و کراہیت پیدا کرنا ان کا بارہ مہینوں و سال بھرکا بہترین
مشغلہ ہے کیونکہ اس سے ووٹ بنا کچھ ترقی کا کام کیے ہوئے بآسانی مل جاتا ہے
اور یہ اس کا بہت ہی کارگر ذریعہ ہے ۔
یہ
نفرت و تشدد کو بڑھانے والے ہیں کیونکہ ان کے یہاں نفرتیوں کے خلاف کوئی مضبوط و
ٹھوس کاروائی نہیں ہوتی ہے بلکہ ان کا
احترام و تکریم ہوتی ہے خصوصا جب ان کا شکار کوئی مسلمان ہوا ہو ۔ مثلا بلقیس بانو
کے مجرموں کو برہمن ہونے کی بنیاد پر چھوڑ دینا اور پھر ان کا پھول مالا و مٹھائی
کے ساتھ استقبال کرنا ۔یا اسی طرح8/
جولائی 2018 ع کو بھاجپا کے ایک مرکزی وزیر جینت سنہا نے ماب لنچنگ کے 8/ضمانت پر
رہا مجروں کا اپنے گھر پر استقبال کیا اور ان کو پھولوں کا ہار پہنایا ۔ وغیرہ
یہ
ایک واضح مسلمہ حقیقت ہے کہ آج کل انڈیا
میں جس قدر چاروں طرف نفرت و کراہیت کا ماحول گرم ہے اس قدر اس سے پہلے کبھی نہیں
تھا اور اس نفرت کی بازار کو گرم کرنے میں حکومت کے ساتھ میڈیا کا بھی پورا ہاتھ ہے بلکہ میڈیا حکومت سے زیادہ ذمہ
دار ہے اور اس سے دو قدم زیادہ آگے
ہے ۔ میڈیا بکی ہوئی ہے اور اس کا تعصب کا
رویہ جگ ظاہر ہے , یہ غیر جانبدار بالکل
نہیں ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کو ملک مخالف و غدار
قرار دینے کا انہوں نے ٹھیکہ لے رکھا ہے ,
ان کے خلاف نفرت پھیلائے بغیر ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا ہے نہ ہی رات کو
نیند آتی ہے ۔ اگر کوئی مسلمان کسی طرح کا جرم کرتا ہے تو اس کی آڑ میں تمام مسلم
قوم کو بد نام کیا جاتا ہے , بلکہ طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ ان کے خلاف جھوٹی خبریں
چلائی جاتی ہیں اور بنا تحقیق کے ان کو مجرم قرار دیا جاتا ہے جب کہ کچھ دنوں کے
بعد جب حقیقت آشکارا ہوتی ہے تو اس کو چھپا لیا جاتا ہے اور اس گھناؤنے فعل پر نہ
افسوس کیا جاتا ہے اور نہ معافی مانگی جاتی ہے ۔
اس کی سب سے واضح و بڑی مثال قتل کا وہ خوفناک واقعہ ہے جو بنگلورو شہر میں 2-3 ستمبر
2024ع کے درمیان پیش آیا ۔جس میں اڑیسہ
کے مکتی رنجن رائے نےمہا لکشمی کو بری طرح
سے قتل کردیا اور اس کے لاش کے 59/ ٹکڑے کرکے اس کو فریز میں رکھ دیا اور پھر غائب
ہوگیا ۔ بنا کسی تحقیق کے میڈیا نے اس کا الزام اشرف یعنی ایک مسلمان پر رکھ دیا
اورمسلم قوم کو بدنام کرنے کے لیے اس خبر
کو خوب نشر کیالیکن جب حقیقت پر سے پردہ اٹھا تو ان کو سانپ سونگھ گیا اور یہ خبر
متعصب میڈیا سے گدھےکے سر کے سینگ کی
طرح غائب ہوگیا۔
یہ
اپنی نوعیت کا کوئی منفرد واقعہ یا عمل نہیں ہے ۔ میڈیا اس کام میں پوری طرح ماہر
ہے اور وہ ہر موقع کو غنیمت جانتا ہے اور موقع ملنے پر اس کا غلط استعمال کرنے سے کبھی بھی نہیں چوکتا ہے ۔ اس قسم کی سیکڑوں مثالیں ہیں ۔
اور
اس نفرت کی ذمہ داری کانگریس پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ اس نے ان نفرتیوں کے خلاف
موقع ہوتے ہوئے کبھی بھی سخت کاروائی نہیں کی خصوصا آر ایس ایس کے خلاف ۔ جس کا
خمیازہ وہ خود بھگت رہی ہے اور دس سال سے
اقتدار سے محروم ہے ۔ اقتدار سے محرومی کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن اس سے بڑی بات
یہ ہے کہ سنگھیوں نے کانگریس اور اس کے لیڈران کو بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی ہے کیونکہ ان کی بنیاد ہی گاندھی و نہرو کی مخالفت پر پڑی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے ذہن میں یہ بٹھا
دیا ہے کہ کانگریس نے ستر سالوں میں ملک کو لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ۔ اب
موجودہ کانگریس پارٹی اگر ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے نفرتیوں کے خلاف شدید
کاروائی کرتی ہے تو اسی میں ملک و سماج کے لیے بھلا ہے ۔
پورا
ملک نفرت و تشدد کے زہر سے پر ہے ۔چاروں
طرف کراہیت و انتہاپسندی کا ماحول ہے, ہر
طرف بغض و کینہ , برسہا برس سے سینوں میں
دفن عداوت و دشمنی باہر آرہی ہے ۔اگر صرف ان کے گذشتہ دس سالوں میں نفرت و
کراہیت پر مبنی جرائم کی فہرست تیار کی جائے تو اس پر ایک ضخیم کتاب تیار
ہوجائےگی۔ ان تمام جرائم کو یہاں بیان کرنا مقصد بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس مختصر
اداریہ میں یہ ممکن ہے پھر بھی بطور ثبوت و دلیل
چند مثالیں تاریخی ترتیب سے درج
ذیل ہیں :---
دسمبر
2023ع میں راجیہ سبھا میں جمعہ کے دن ہونے والے آدھے گھنٹے کے مزید
وقفہ کو ختم کر دیا گیا۔ واضح رہے
کہ راجیہ سبھا میں ہر روز لنچ بریک ایک بجے سے دو بجے تک ہوتا
ہے اور جمعہ کے دن ڈھائی بجے تک ہوتا تھا
۔لیکن سنگھی چیرمین سے یہ بھی نہیں برداشت ہوا ۔
27/
جولائی 2024 ع : بنارس کے سٹی گرین بیلٹ میں
غیر قانونی تعمیر کے نام پر ایک مسلمان محمد جعفر علی کے دو ہوٹلوں : ہوٹل
بنارس کوٹھی اور ریور پیلیس کو زمین دوز کردیا گیا ۔ جب کہ اس علاقے میں دوسرے
ہوٹلوں کو چھوا تک نہیں گیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیااس بیلٹ کے اور ہوٹلوں کو گرایا
جائے گا ۔
31/جولائی
:ایک ریلوے پولس کے ذریعہ جے پور سے ممبئی جانے والی ٹرین میں
چن چن کر تین مسلمانوں کو قتل کیا
گیا ۔ملزم سپاہی کا نام چیتن سنہ چودھری
ہے ۔ اس نے قتل کرنے کے بعد جے مودی و یوگی کے نعرے لگائے ۔
8/اگست:اس
دن پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں وقف ترمیمی بل
پیش کیا گیا جس کا مقصد مسلمانوں کے اوقاف پر قبضہ کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے اور ان کو ان کے بہت سارے اوقاف سے محروم کرنا ہے ۔یہ مسلمانوں
کے خلاف مودی حکومت کی ایک بڑی سازش ہے
۔اپوزیشن پارٹیوں کی زبردست مخالفت کی وجہ سے یہ بل پاس نہ ہوسکا اور فی الحال جے
پی سی میں ہے ۔ اب دیکھیے آئندہ کیا ہوتا ہے ۔
23/اگست:
ہریانہ کے فرید آباد کے ایک ہندو لڑکے 12/ویں کلاس کے19/ سالہ طالب علم
آریان مشرا کو نام نہاد گائے کے
محافظوں نے مسلمان سمجھ کر قتل کر دیا ۔یہ واقعہ
مذکورہ تاریخ کی رات کو پیش آیا ۔
25/اگست:اس
دن اترا کھنڈ, روڑکی کے ایک 22/سالہ مسلم نوجوان وسیم قریشی کو قصدا ندی میں ڈبو دیا گیا اور لوگوں کو
پولس نے مدد کرنے سے روک دیا ۔ جیسا کہ وسیم کے اہل خانہ اور عینی شاہدین کا کہنا
ہے ۔ جب کہ پولس کا دعوى اس کے برعکس ہے کہ اس نے خود ہی ندی میں چھلانگ لگائی اور
ڈوب گیا ۔
25/اگست
:غازی آباد کی کراسنگ ریپبلک کی
چتراون سوسائٹی کے ایک فلیٹ میں دینی مدرسہ چلانے کے شک میں صرف قرآن مجید
کی تلاوت پر ہنگامہ کیا گیا اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس پر ایف آئی آر
بھی درج ہوا ۔تلاوت کا یہ واقعہ اتوار کی رات کو پیش آیا ۔
27/
اگست :ہریانہ کے چرخی دادری میں مغربی بنگال کے ایک مسلم
مزدو رصابر ملک کو محض گائے کا
گوشت کھانے کی شک کی بنیاد پر قتل کر دیا گیا ۔ ماب لنچنگ کا
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس قسم کے
سیکڑوں واقعات اس سے پہلے پیش آچکے ہیں ۔
27/اگست:
اس دن کانگریس کے دو بڑے لیڈروں جیتو پٹواری اوردگوجے سنگھ نے مدھیہ پردیش کے بھنڈ میں احتجاج کیا اس
وائرل آڈیو کے بارے میں جس میں کلکٹر کہہ
رہا ہے کہ ہم صرف مسلمانوں کے گھر کو گرائیں گے ۔
28/اگست
: مہاراشٹرا کے چالیس گاؤں کے رہنے والے72 / سال کے ایک مسلم بزرگ اشرف علی سید
حسین شخص کو ٹرین میں صرف گائے کا گوشت لے جانے کی شک کی بنیاد پر مارا پیٹا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ ٹرین سے أپنی بہن سے
ملاقات کرنے کے لیے کلیان جا رہے تھے ۔
30/
اگست:اس دن کی خبر کے مطابق آسام اسمبلی
میں آزادی کے پہلے سے انگریزوں کے زمانہ سے موجود قانون جمعہ کے دن ہونے والے دو گھنٹے کے وقفہ کو ختم
کر دیاگیا جس کا مقصد مسلمان ممبروں کو
جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے وقت فراہم کرنا تھا ۔دوسرے دنوں میں بنا کسی وقفہ
کے اسمبلی کی کاروائیاں جاری رہتی تھی۔ یہ قانون پہلی بار 1937 ع میں نافذ کیا گیا تھا لیکن سنگھیوں کو اسلام و مسلمانوں سے ازحد چڑھ
و جلن ہے اور اللہ واسطے بیر ہے ۔
2/ستمبر
:بی جی پی ایم ایل اے نتیش رانے کے ذریعہ
مہاراشٹرا کے احمد نگر کے علاقہ میں مسلمانوں کو مسجد میں گھس کر چن چن کر
قتل کرنے کی دھمکی دی گئی ۔
5/ستمبر
: امروہہ کے ہلٹن اسکول کے پرنسپل نے سات سال کے معصوم بچہ کو صرف بریانی لانے کی
وجہ سے دہشت گرد کہا اور اس کو اسٹور روم میں بند کرکے سزادی اور مسلمانوں پر
بیہودہ الزامات لگائے ۔
شروع ستمبر سے ہی شملہ
میں متشدد ہندو تنظیموں کی طرف سے
سنجولی مسجد کو غیر قانونی اور امن کے لیے خطرہ بتا کر گرانے
کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جب کہ یہ مسجد
1947 ع میں تعمیر کی گئی ہے اور اس کی تجدید تعمیر 2010 میں شروع ہوئی ہے ۔مزید
تفصیل کے لیے اشوک کمار پانڈے کا ویڈیو دیکھیے ۔ हिमाचल में संजौली मस्जिद विवाद ने बढ़ाई खलबली! Ashok
Kumar Pandey | #tchshort
مسلمانوں
کو بدنام کرنے کے لیے کئی ہندو اپنا نام بدل کے کبھی مکیش امبانی سے پھروتی مانگتے
ہیں تو کبھی رام مندر کو گرانے کی دھمکی دیتے ہیں تو کبھی اجودھیا میں ٹوپی لگا کر مندر میں گوشت پھینکتے ہیں ۔ وغیرہ
۔مزید تفصیل کے لیے اشوک کمار پانڈے کا یہ
ویڈیو دیکھیے:
۔https://www.youtube.com/watch?v=IBBv5EIP39o&t=302s
नाम मुस्लिम का,
काम हिन्दू का;
यह नया खेल क्या है? #ashokkumarpandey
ملک میں نفرت و
تشدد کا ذمہ دار کون؟
بلا
شبہ نفرت و تشدد, کراہیت و انتہاپسندی کا ماسٹر مائنڈ اور اس کا پہلا و سب سے بڑا ذمہ دار آر ایس ایس ہے , اس کے بعد
میڈیا ہے جس نے اس کے ایجنڈا کو پورا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ کانگریس
بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے ۔ اسی طرح سوسائٹی بھی ایک حد تک ذمہ دار ہے کہ وہ خاموش
بیٹھی رہی اور ان کے خلاف ٹھوس عملی اقدام
سے گریز کرتی رہی ۔ مسلمانوں کی غفلت و لاپرواہی بھی ایک سبب ہے جس نے ان کو بے
نقاب نہیں کیا ۔ غرضیکہ مختلف اسباب و وجوہات ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ خود کتنے
غیر مسلم ہیں جو اس نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں
اور جو اس نفرتی ماحول کے سخت خلاف ہیں اور ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے اور ان کے لیے چیلنج بن کے
ابھرے ہیں ۔
بلا شبہ آر ایس ایس نے گذشتہ سوسالوں میں
انتہائی خاموشی کے ساتھ بہت ہی منظم و منصوبہ
بند طریقے سے مرحلہ در مرحلہ اپنے ایجنڈوں
کو نافذ کیا ہے ,اپنے منصوبوں کو عملی
جامہ پہنانے کے لیے بہت ہی ٹھوس کام کیا ہے , سنگھی ذہنیت کے افراد کو سرکاری و
غیر سرکاری ہر شعبہ میں بھر دیا ہے اور
سنگھیوں کی ایک بہت بڑی جماعت تیار کردی ہے ۔ بقول اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی انہوں
نے ملک کے اداروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔سنگھ کے
اپنے مقاصد کے حصول و کامیابی پر
اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہےلیکن
مخصوص ذہنیت کے حامل یہ سنگھی بہت ہی
ہوشیار ی و عیاری کے ساتھ اس کے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے ہیں , مسلمانوں کو ہر
ممکن نقصان پہنچانے کی کوشش کر تے ہیں, ان کے خلاف سخت ایکشن لیتے ہیں اور ان کی
تباہی و بربادی پر خوشیاں مناتے ہوئے بھی نہیں شرماتے ہیں ۔
اس
کی وجہ یہ ہے کہ سنگھ کےٹریننگ کیمپوں میں سنگھیوں کی برین واشنگ کی جاتی ہے اور
مسلمانوں کو ہندؤوں کے دشمن کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے , مختلف طریقوں سے ان کے ذہن کو زہر آلود کیا جاتا ہے۔ ان کو روز یہ جھوٹ پروسا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے ہم کو 800/سال اپنا غلام بنا کے
رکھا ۔مسلمان حکمرانوں کے جھوٹی مظالم کی
داستانیں بیان کی جاتی ہیں۔ ان کو یہ تعلیم نہیں دی جاتی ہے کہ تم اپنے مذہب پر
عمل کرو بلکہ ان کا ذہن بنایا جاتا
ہے اور ان کو اکسایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تم یہ کرو ,
تم ان کو چڑھاؤ ۔ مثلا :اگر کوئی مسلمان کہیں عبادت کر رہا ہے تو تم ہنگامہ کرو,
ان کی مساجد پر حملہ کرو , ان کی ماب لنچنگ کرو, ان کی مساجد کے سامنے ناچ گانا
کرو وغیرہ کیونکہ اس کے بغیر ان کا مقصد پورا نہیں ہوگا ۔
یہ مسلم دشمنی و نفرت میں اس قدر بڑھے ہوئے ہیں کہ انسانیت تک کو بھول چکے ہیں , صرف انڈیا میں
نہیں بلکہ پوری دنیا میں جائز و ناجائز کی تفریق کے بغیر مسلمانوں کے خلاف ہر اقدام
کو سپورٹ کرنا ان کا کام ہے, یہ مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور ان کے قتل پر خوش
ہوتے ہیں۔یہ مظلوموں کو چھوڑ کر ہمیشہ ظالموں کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں ۔ اسی لیے
یہ مظلوم فلسطینیوں کے بجائے ظالم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں اور معصوموں کے مارے
جانے پر خوشی مناتے ہیں ۔ثبوت کے بطور یہ دونوں ویڈیو دیکھیے : https://www.youtube.com/watch?v=sSg9XvgRFHQ
अंधभक्त लोटा लेकर खड़े है इजराइल के साथ ||rajeev nigam
https://www.youtube.com/watch?v=15H-t-1g-p0
Modi Bhakt Iran-Israel पर पगलाए Neha
Singh Rathore ने Modi को गजब धो डाला! Praveen
Gautam Analysis
یقینا ایسے لوگ انسانیت پر
کلنک ہیں ۔ البتہ جب ان کے ہم مذہب بھائیوں پر دنیا میں کہیں تھوڑا بھی ظلم و ستم
ہوتا ہے تو آسمان سر پر اٹھالیتے ہیں اور اتنا شور و ہنگامہ و چیخ و پکار مچاتے
ہیں کہ جیسے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی ہو ۔
معمولی واقعات کو بڑا بنا کے پیش کرتے ہیں اور جھوفی خبریں پھیلاتے ہیں ۔ وغیرہ
آر
ایس ایس پر لکھنے کو تو بہت کچھ ہے لیکن اداریہ کی طوالت اس میں مانع ہے ۔لیکن اگر
آپ اس کی حقیقت کو جاننا چاہتے ہیں
تو شیام میرا سنگھ کی یوٹیوب پر
قسط وار ویڈیوز دیکھیے ۔ جو حقیقت پر مبنی
ہیں اور دلائل و وثائق کے ساتھ ان کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ان میں سے ایک ویڈیو کا
لنک یہ ہے:
RSS और Hedgewar का असली सच| EP-01 | Rashtriya
Swayamsevak Sangh | @ShyamMeeraSingh1
https://www.youtube.com/watch?v=yQp-Xd8hOww&t=23s
اس
میں کوئی شک نہیں ہے کہ جب ایک گروہ یہ
سمجھتا ہے کہ ملک پر صرف اسی کا حق ہے اور اس کے تمام وسائل
کا صرف تنہا مالک وہی ہے تب یہ نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں اور اس کی کاشت
کی جاتی ہے ۔
دلالات و نتائج
مذکورہ بالا نفرت
کے واقعات صرف ایک کو چھوڑ کر گذشتہ تین
مہینوں کی ہیں اور تمام واقعات کو یہاں بیان بھی نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ
کل14/واقعات ہیں جو انٹرنٹ پر دستیاب ہیں ۔ یہ خبریں اسی ملک عزیز کی ہیں اور
زیادہ پرانی بھی نہیں ہیں بلکہ حال فی الحال کی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ یہ واقعات کس
طرف اشارہ کر رہے ہیں ؟ یہ کن سنگین حالات کا پتہ دے رہے ہیں ؟ مستقبل کے کس خطرناک رخ پر دلالت کر رہے ہیں ؟
بلا
شبہ ان سے ایک تجزیہ نگار و مبصر ایک
بھیانک و تاریک مستقبل کا ہی نتیجہ نکال
سکتا ہے ۔یہ واقعات پختہ دلائل و ثبوت ہیں کہ نفرت کا زہر ہمارے سماج کو اپنی گرفت
میں لے چکا ہے ۔ ہر طرف نفرت کی کھیتی ہی کھیتی ہے ۔ اس کی فصل چاروں طرف لہلہارہی
ہے ۔ ایک مخصوص گروہ اپنے سیاسی و معاشی
مفادات کی خاطر قومی یکجہتی , امن و شانتی اور انسانیت و اخوت کی بلی
چڑھانے کے لیے تیار ہے ۔اس کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور کسی دوسری چیز سے اس
کو ذرہ برابر سروکار نہیں ہے ۔
لہذا
ضرورت ہے کہ ہر محب وطن انسان حسب سابق وطن کی اصلاح کی فکر کرے اور اس کے لیے
اپنے وقت کی قربانی دے اور نفرت کے ماحول کو بدلنے کی کوشش کرے ۔اور خوشی کی بات
یہ ہے کہ باشندگان ملک کی اکثریت اس سیاست کو ناپسند کرتی ہے ۔ہم سب کو ایک ساتھ
مل کر اس خطرہ کا مقابلہ کرنا ہے اورہمارا عزم ہے
جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ہے :
اس
زمیں پر کبھی نفرت کو نہ پلنے دیں گے
ایکتا
کے کبھی سورج کو نہ ڈھلنے دیں گے
پیار
کے دیش کو برباد نہ ہونے دیں گے
حسن
کو مائل فریاد نہ ہونے
دیں گے
ظلمت
شب کو اجالوں سے بدل ڈالیں گے
پھوٹ
کے دیو کی ہستی کو مسل ڈالیں گے
ایک
ہوکر ابھی حالات بدلنا
ہے ہمیں
اسی
پر اکتفا کیا جاتا ہے , آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز کو امن و
امان کا گہوارہ بنائے , نفرت و کراہیت , تشدد و انتہاپسندی سے اس کی حفاظت فرمائے
۔ اور ملک کے تمام امن پسند شہریوں خصوصا مسلمانوں کو اس کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق دے ۔ یہ
ہمارا عزم و وعدہ ہے کہ نفرت و کراہیت کو مٹا کر رہیں گے اور ہم ان
شاء اللہ اس کو پورا کریں گے ۔وما علینا الا البلاغ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب
العالمین۔
0 التعليقات: