افضل و بہتر ین کون؟

 

افضل و بہتر ین کون؟


حدیث:  عن جابر بن عبد اللہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم :خيرُ الناسِ أنفعُهم للناسِ

ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: لوگوں میں افضل اور بہترین وہ ہے جو ان کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش و فائدہ دینے والا ہے ۔

تخریج: یہ حدیث حضرت جابر  بن عبد اللہ سے مروی ہے ۔ مشہور محدث علامہ ناصر الدین البانی نے اس  حدیث کو  سلسلۃ الاحادیث  الصحیحۃ میں( نمبر 426) حسن قرار دیا ہے, اور اس کا ذکر بدایۃ السول فی تفضیل الرسول کے ص44  حاشیہ نمبر 19 میں بھی کیا ہے ۔  اس کے علاوہ اس  حدیث کو   ابن حبان نے المجروحین میں(2/1)، القضاعی نے مسند الشہاب میں (1234), اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں( 5787 ) روایت کیا  ہے ۔

تشریح:بلا شبہ اسلام کائنات  کی ہر چیزکے لیے  دین رحمت ہے , اس کی رحمت بنا کسی تفریق کے  سب مخلوق  حتى کہ حیوانوں کے لیے بھی ہے جو اس کی تعلیمات سےمکمل طور سے واضح ہے ۔ اسلام  اسی جذبہ رحمت  کو اپنے پیروکاروں میں بھی  دیکھنا چاہتا ہے اسی لیے وہ ان کو بہت ساری آیات و احادیث میں  دوسروں کی خدمت اور نفع رسانی پر ابھارتا ہے اور اس پر بہت زیادہ اجر کا وعدہ کرتا ہے ۔ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے جس میں دوسروں کو کسی بھی قسم کا فائدہ پہنچانے والے کو افضل و بہترین قرار دیا گیاہے ۔ اور بلا شبہ آپ کے اصحاب کا   دیگر میدانوں کی طرح اس میدان میں بھی  کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا ہے ۔وہ دوسروں کو نفع پہنچانے کے انتہائی حریص تھے ۔ وہ غیروں کے لیے انتہائی سود مند تھے, ان کا مشن ہی خدمت خلق تھا  اس لیے وہ نبی کریم سے   اللہ تعالى سے قریب کرنے والے افضل و بہترین اعمال کے بارے میں گاہے بگاہے پوچھتے رہتے تھے۔ اور آپ کے جوابات بھی ہربار الگ و مختلف ہوتے تھے کیونکہ آپ  جواب دیتے وقت جہاں ایک طرف سائلین کے حالات و شخصیات  کو مد نظر رکھتے تھے وہیں دوسری طرف  یہ بھی دیکھتے تھے کہ کون سی چیز کس کے لیے زیادہ فائدہ مند و نفع بخش ہے ۔ تاکہ سائل ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے کیونکہ ہر انسان کی فطرت, مزاج,  ساخت و بناوٹ , طاقت و قوت ,قدرت و صلاحیت الگ الگ ہوتی ہے ۔(راقم)  

لہذا اس حدیث میں آپ نے بتایا ہے کہ لوگوں میں افضل و بہترین  وہ ہے جو لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے , ان کے لیے سود مند و  نفع بخش ہے اور جس سے دوسرے  لوگ خوب زیادہ فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔ اور حدیث میں نفع و فائدہ عام ہے ۔ اس کو آپ نے کسی چیز کے ساتھ خاص نہیں کیا ہے ۔ بنا بریں  ضروری نہیں ہے کہ یہ فائدہ صرف مادی اور مال و دولت کی ہو بلکہ یہ فائدہ ہر قسم کے فائدہ کو شامل ہے مثلا: علمی فائدہ دینا , نصیحت و مشورہ سے فائدہ پہنچانا,  کسی کی مدد کرنا,  دینی یا دنیاوی  تکلیف و پریشانی کو دور کرنا , منصب و سلطنت سے فائدہ پہنچانا وغیرہ ۔غرضیکہ ہر قسم  کے احسان و بھلائی , نفع و فائدہ کو یہ شامل ہےلیکن بلا شبہ دین میں مفید و نفع بخش چیزوں کا اثر دیرپا, نفع  دائمی اور اجر عظیم ہوتا ہے ۔ اور یہ مومن کی صفت ہوتی ہے کیونکہ ایک مومن ہمیشہ اپنے علاوہ کو یا غیر  کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔ (موقع : الدرر السنیۃ و  موضوع) اور اگر مقصود لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہی ہے  تو ایک عادل حاکم  لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے اور ان کے ساتھ خیر کرتا ہے کیونکہ اس کا خیر اس کی تمام رعایا کے لیے ہوتی ہے ۔

لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے طریقے اور ذرائع:

 لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ضروری نہیں کہ یہ صرف مادی و مالی  ہو، بلکہ اس میں معنوی فوائد بھی شامل ہیں ۔ جیسے علم کے ذریعہ فائدہ دینا, نصیحت کرنا, صحیح و درست مشورہ دینا وغیرہ ۔لہذا ہر قسم کا خیر جو ایک مسلمان دوسرے کو پیش کرسکتا ہے نفع و فائدہ میں شامل ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا  ۔ یہاں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے کچھ نمایاں اسباب و وسائل کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کا ہر مومن کو حریص ہونا چاہئیے اور اس کے ذریعہ اپنے علاوہ کو فائدہ پہنچانا چائیے  :--

     1- لوگوں کو ان کی ضروریات پوری کرکے فائدہ پہنچانا:

     مثال کے طور پر لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے طریقوں میں سے یہ ہیں:

      لوگوں  کے قرض ادا کرنا۔

      ضرورت مند لوگوں کو مال پیش کرکے  مال و دولت  کے ذریعے ان کے ساتھ بھلائی         کرنا۔

       بیماروں کی عیادت کرنا۔

        بھوکوں کو کھانا کھلانا۔

        فقراء و مساکین کے لیے صدقہ و خیرات کرنا ۔

        کپڑا, کمبل, لحاف , جیکٹ, کتاب , کاپی, بیگ  وغیرہ سے حسب حاجت مدد کرنا ۔

اس کے علاوہ دوسروں کے ساتھ احسان کرنے اور ان کی ضروریات کو پوری کرنے کے بہت سارے طریقے ہیں ۔ بیشک  وہ بندہ  اللہ تعالی کا محبوب ہوتا ہے جو دوسروں کی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے  دوڑ بھاگ کرتا ہے اور اللہ تعالى اس کو اپنی معیت میں داخل کر لیتا  ہے ۔ اسی طرح  لوگوں کی ضروریات کو پوری کرنے کی کوشش کرنا خیر پر تعاون کرنے, معاشرہ کے افراد کو متحد کرنے اور  لوگوں کے درمیان محبت پھیلانے کا ایک بڑا  دروازہ ہے۔اور یہ آخرت میں اس پر ملنے والے اجر عظیم کے علاوہ ہے ۔

2- لوگوں کو خیر و بھلائی کی تعلیم دے کر فائدہ پہنچانا: 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نیکی کی تعلیم دینے والے کے بارے میں فرمایا ہے : ان اللہ عز وجل و ملائکتہ , واہل السماوات و الارض حتى النملۃ فی جحرھا و حتى الحوت لیصلون على معلم الناس الخیر (راوی: ابو امامہ باہلی, صحیح الجامع/4213, صحیح  و ترمذی /2685) بے شک اللہ عز و جل, اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔

بلا شبہ  جو شخص  بھی لوگوں کو کوئی  نیکی سکھاتا ہےاور  ان کو کسی  خیر کی تعلیم دیتا ہے  جس  کا فائدہ اس کے علاوہ کسی غیر کو ہوتا  ہےتو  اس سے اس کو زیادہ اجر و ثواب  ملے گا، امام غزالی نے تو  معلم اور استاد کو لوگوں کے دلوں اور نفوس میں تصرف کرنے  والا قرار دیا ہے۔

 پھر لوگوں کو تعلیم دینا اور ان کو  سکھانا سب سے بڑا اور معزز کام ہے جو ایک  انسان کر سکتا ہے، اور ان علوم میں سب سے افضل دینی علوم ہیں، اور پھر دوسرے علوم ہیں   جن میں سے ہر ایک اپنی اہمیت اور لوگوں کی ضرورت کے مطابق افضلیت میں  آتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے بہترین استاد تھے۔جس نے بھی دعوت کا کام کیا  اور اس کو اپنایا  تو  اس نے آپ  کی پیروی کی، اور  لوگوں کو  خیر اور نیکی کی تعلیم دینے کا حریص رہا ، اور وہی کیا جوآپ  نے کیا۔ (موقع : موضوع, احادیث: خیر الناس انفعہم للناس)

صلاحیت و قدرت کے ہونے پر لوگوں کو نصیحت و مشورہ سے فائدہ پہنچانا :

جو بھی امت کا کوئی  ذمہ دار ہے  اور اس کے کسی منصب و عہدہ پر فائز ہے  تو اسے ان کو نصیحت کرنی چائیے کیونکہ نبی کریم کا فرمان ہے: ما من عبد استرعاہ اللہ رعیۃ  فلم یحطھا بنصیحۃ الا لم یجد رائحۃ الجنۃ (بخاری /7150)  یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم و ذمہ دار  بناتا ہے اور وہ  ان کے ساتھ خیر خواہی کا اہتمام  نہیں کرتا ہے  تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔

 اور کسی کو  خیر کے کرنے  اور کسی نقصان و برائی سے دور رہنے کا مشورہ دینا بھی نصیحت کرنا ہے ۔ یہی انبیاء و  رسولوں کی سنت رہی ہے ۔ فرمان الہی ہے : و ذکر فان الذکری تنفع المؤمنین (ذاریات/55)  یعنی نصیحت کیجیے کیونکہ نصیحت مومنوں کے لیے نفع بخش ہے ۔

 اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کو پورا دین قرار دیا ہے اور یہ صرف اس کی اہمیت, اس کی عظمت شان اور اس کی جامعیت اور عمومیت  کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ دین کا ستون اور بنیاد ہے۔

اور نصیحت میں سے وہ بھی  ہے جو جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام، ایمان اور احسان  کے بارے میں جو کچھ بتایا۔اس کے بعد  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حدیث کے آخر میں بتایا کہ دین نصیحت ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام دین کو نصیحت قرار دیا۔ کیونکہ یہ تمام دین کو عام اور  اس کا جامع ہے ، اس وجہ سے نصیحت  شرعی طور پر مطلوب ہے تاکہ لوگوں کو سیدھی راہ کی رہ نمائی کی جا سکے ۔ (موقع : موضوع, خیر الناس انفعہم للناس)

حدیث کے فوائد

اس حدیث سے یہ ظاہر ہے کہ جو لوگوں کے ساتھ بھلائی کرتا ہے  اور جو شخص اپنی ذات سے  غیر کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس کا نفع دوسرے کو متعدی ہے تو وہ بہترین و افضل لوگوں میں سے ہے اور بلا شبہ یہ ایک بہت بڑا مقام و مرتبہ ہے ۔اس کے برعکس وہ شخص ہے  جس کا خیر و نیکی خود اپنی ذات تک محدود ہوتی ہے ۔

اس لیے اس حدیث میں نیک کام میں سبقت کرنے , وقت کو غنیمت جان کر اس کو نیک کام میں استعمال کرنے کی  تلقین کی گئی ہے ۔ اور جو شخص کسی کو فائدہ پہنچانے سے عاجز و بے بس ہے تو اس کو نقصان پہنچانے سے بچنا ضروری ہے ۔

دور حاضر کے مسلمانوں کی حالت:  

معلوم ہوا کہ جہاں ایک طرف  دین اسلام میں خدمت خلق, سماج سیوا اور غیر کو کسی بھی قسم کا فائدہ پہنچانے کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت ہے ۔ اور اس کا ذکر قرآن و حدیث دونوں میں ہے ۔ شریعت نے اس کی تاکید کی ہے اور بہت زیادہ اس پر ابھارا ہےاور یہ عمل کرنے والوں کو بہترین و افضل لوگوں میں سے قرار دیا ہے  ۔ وہیں دوسری طرف یہ بھی  ایک کڑوی  حقیقت  ہے  کہ دور حاضر میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ان تعلیمات سے واقف نہیں ہے جس کے نتیجہ میں اس  نے اس طرح کے کاموں خصوصا مالی و مادی  خدمت کونظر انداز کردیا ہے  اور ان سے شدید غفلت میں ہیں اور ان کی زیادہ تر توجہ  صرف ظاہری عبادات پر ہے ۔ مثلا نوافل کی ادائیگی , تلاوت قرآن, تہجد کی نماز ادا کرنا , تسبیح و تحمید و تہلیل کرنا وغیرہ ۔ اور وہ اپنے علاوہ کی مدد کرنے اور دوسروں کے مفادات کے لیے کوشش کرنے میں سستی برتتے ہیں  اور کوتاہی کرتے ہیں ۔ ان کا خیال  ہوتا ہے  کہ دوسروں کو نفع پہنچانے ,  خدمت خلق اور سماج سیوا کرنے اور  ان جیسے   اعمال سے ان کو کوئی بہت زیادہ اجر و ثواب  نہیں ملتا  ہے اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہےبلکہ بعض حضرات  تو ان کاموں کو اور ان کے کرنے والوں کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور ان کو  ایک طرح سے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں   ۔ جب کہ رسول اللہ کا فرمان ہے: لا تحقرن من المعروف شیئا و لو ان تلقی اخاک بوجہ طلق (مسلم/2626)کہ کسی بھی معروف کو حقیر مت جانو  خواہ وہ اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملنا ہی کیوں نہ ہو ۔اسی طرح آپ نے فرمایا: الساعی على الارملۃ و المسکین کالمجاھد فی سبیل اللہ أو القائم اللیل الصائم النھار (بخاری/5353) یعنی بیواؤں اور مسکینوں کے کام آنے والا اللہ کی راہ  میں جہاد کرنے والے کی طرح  ہے، یا رات بھر عبادت اور دن کو روزے رکھنے والے کی طرح  ہے۔

علاوہ ازیں اس کا اثر فرد و معاشرہ پر بہت اچھا ہوتا ہے , اس کے نتائج بہت ہی دور رس و شاندار ہوتے ہیں ۔یہ ایک ایسی چیز سمجھی جاتی ہے جو لوگوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارگی کو پروان چڑھاتی ہے, ہمدردی و غم خواری  کو بڑھاتی ہے، ان کے درمیان الفت  و محبت  کے رشتوں کو مضبوط کرتی ہے، لوگوں کی پریشانیوں و تکلیفوں کو دور کرتی ہے,  ان کی زندگی کو آسان بناتی ہے,  اسلام میں سماجی یکجہتی کے اصول کو بھی تقویت دیتی ہے، اور ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل میں مدد کرتی ہے جو اچھے اخلاق سے متصف و  مزین ہوتا ہے اور بہت ہی مضبوط و پائیدار ہوتا ہے ۔

اور یہ ہمیشہ یاد رکھیے :اذا كان همك نفسك فانت صغير و اذا كان همك غيرك فانت اكبر من مجموع الناس یعنی اگر آپ کی سوچ و فکر  کا دائرہ صرف  اپنی ذات تک محدود  ہے تو آپ ایک  چھوٹے انسان  ہیں اور اگر آپ کی سوچ و فکر کا دائرہ  دوسروں تک  ہے تو آپ تمام لوگوں سے بڑے ہیں۔

آخر میں اللہ تعالى سے دعا ہے  کہ وہ ہم  مسلمانوں کو اس عمل کی اہمیت و فضیلت کو سمجھنے اور  ایک دوسرے کو زیادہ سے نفع و فائدہ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

 

 

 

السابق
السابق
أنقر لإضافة تعليق

0 التعليقات: